Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں جب یہ بات آئی کہ فرعون مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو انہوں نے اللہ سے اس کے شر سے بچنے کیلیے دعا مانگی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب دشمن کا خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذ بک من شرور ھم مسند احمد اے اللہ ہم تجھ کو ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧] متکبر اور ظالم وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو آخرت کے منکر ہوں :۔ فرعون نے سیدنا موسیٰ کو قتل کرنے کی بات خواہ سیدنا موسیٰ کی موجودگی میں کی ہو یا انہیں کسی واسطہ سے فرعون کی اس دھمکی کا علم ہوا ہو۔ بہرحال جب انہوں نے یہ بات سنی تو اپنی قوم سے کہنے لگے : مجھے فرعون کی ایسی دھمکیوں کی کچھ بھی پروا نہیں۔ فرعون اکیلا تو کیا دنیا بھر کے متکبر اور جبار جمع ہوجائیں تب بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ میں اپنے آپ کو اپنے پروردگار کی پناہ میں دے چکا ہوں اور وہ مجھے ان کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ متکبر، جابر اور ظالم صرف وہ لوگ ہی ہوسکتے ہیں جو روز آخرت پر ایمان نہ رکھتے ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وقال موسیٰ انی عذت بربی …: موسیٰ (علیہ السلام) کو جب اس بات کا علم ہوا کہ فرعون مجھے قتل کرنا چاہتا ہے تو انہوں نے اس کے شر سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی۔ اللہ تعالیٰ کے خصا بندوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ وہ دشمنوں سے بچنے کے لئے اپنے رب کی پناہ طلب کرتے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کسی قوم (کے حملے) کا ڈر ہوتا تو (اللہ تعالیٰ سے) یہ دعا کرتے : (اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذ بک من شرورھم ) (ابو داؤد، الوتر، باب مایقول الرجل اذا خاف قوما :1938، وصحجہ الالبانی)” اے اللہ ہم تھے ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) کا آگ میں ڈالے جانے کے وقت ” خسنی اللہ و بغم الوکیل “ کہنا اور اصحاب الاخدود والے لڑکے کا ” اللھم اکفیھم بما شئت “ کہنا بھی وقت ” حسبی اللہ ویعم الوکیل “ کہنا اور اصحاب الاخدود والے لڑکے کا ” اللھم اکفینھم بما شئت “ کہنا بھی دشمنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی بہت عمدہ مثالیں ہیں۔ (دیکھیے بخاری :3063، مسلم : ٣٠٠٥)- (٢) عذت بربی : مطلب یہ ہے کہ میں اس ذات عالی کی پناہ لے رہا ہوں جس نے میری پرورش کی، مجھے نبوت کے مقام پر فائز کیا، تمام آفات و مصائب سے بچایا اور اتنی نعمتیں عطا کیں جن کا شمار نہیں۔ اس لئے فرعون اور ہر متکبر و جبار ظالم سے بھی مجھے وہی بچائے گا، سو میں اسی کی پناہ لیتا ہوں۔- (٣) وربکم : اس میں موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو سبق دے رہے ہیں کہ ان کی طرح وہ بھی اپنے رب ہی کی پناہ مانگیں۔- (٤) من کلم متکبر : صرف فرعون کے شر سے پناہ مانگنے کے بجائے ہر متکبر کے شر سے پناہ مانگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا میں وسعت اور جامعیت ہونی چاہیے، جیسا کہ اس دعا میں ہر دشمن سے پناہ کی درخواست آگئی ہے، خواہ اس کی عداوت ظاہر ہو یا مخفی اور وہ دشمن اکیلا ہو یا جماعت۔- (٥) لایومن بیوم الحساب : اس سے معلوم ہوا کہ ظلم اور قتل ناحق وہی کرتا ہے جو متکبر ہو (یعنی حق کا انکار کرتا ہو اور لوگوں کو حقیر جانتا ہو) اور حساب کے دن کا یقین نہ رکھتا ہو۔ ورنہ جو حق قبول کرنے والا ہو اور اسے باز پرس کا یقین ہو وہ کیسے ظلم کرسکتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ۝ ٢٧ۧ- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال :- عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- والتَّكَبُّرُ يقال علی وجهين :- أحدهما : أن تکون الأفعال الحسنة كثيرة في الحقیقة وزائدة علی محاسن غيره، وعلی هذا وصف اللہ تعالیٰ بالتّكبّر . قال : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر 23] .- والثاني : أن يكون متکلّفا لذلک متشبّعا، وذلک في وصف عامّة الناس نحو قوله : فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] ، وقوله : كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر 35] ومن وصف بالتّكبّر علی الوجه الأوّل فمحمود، ومن وصف به علی الوجه الثاني فمذموم، ويدلّ علی أنه قد يصحّ أن يوصف الإنسان بذلک ولا يكون مذموما، وقوله :- سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف 146] فجعل متکبّرين بغیر الحقّ ، وقال : عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر 35] بإضافة القلب إلى المتکبّر .- ومن قرأ : بالتّنوین جعل المتکبّر صفة للقلب،- التکبر ۔ اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ایک یہ فی الحقیقت کسی کے افعال حسنہ زیادہ ہوں اور وہ ان میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہو ۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ صفت تکبر کے ساتھ متصف ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر 23] غالب زبردست بڑائی ۔ دوم یہ کہ کوئی شخص صفات کمال کا اعاء کرے لیکن فی الواقع وہ صفات حسنہ عاری ہو اس معنی کے لحاظ سے یہ انسان کی صفت بن کر استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا ہے ؛فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] متکبروں کا کیا بڑا ٹھکانا ہے ۔ كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر 35] اسی طرح خدا ہر سرکش متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔ تو معنی اول کے لحاظ سے یہ صفات محمود میں داخل ہے اور معنی ثانی کے لحاظ سے صفت ذم ہے اور کبھی انسان کے لئے تکبر کرنا مذموم نہیں ہوتا جیسا کہ آیت ؛سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف 146] جو لوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیردوں گا ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر الحق نہ ہو تو مذموم نہیں ہے : اور آیت ؛ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر 35] ہر متکبر جابر کے دل پر ۔ اور بعض نے قلب کی طرف مضاف ہے ۔ اور بعض نے قلب تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں متکبر قلب کی صفت ہوگا ۔- حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، وقال عزّ وجل : وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف 40] ، قيل : معناه :- نارا، وعذابا وإنما هو في الحقیقة ما يحاسب عليه فيجازی بحسبه، وفي الحدیث أنه قال صلّى اللہ عليه وسلم في الریح : «اللهمّ لا تجعلها عذابا ولا حسبانا»، قال تعالی: فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق 8] ، إشارة إلى نحو ما روي : «من نوقش الحساب عذّب» وقال تعالی: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، نحو : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] ، وقوله عزّ وجلّ : وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة 26] ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة 20] ، فالهاء فيها للوقف، نحو : مالِيَهْ وسُلْطانِيَهْ وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران 199] ، وقوله عزّ وجلّ : جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم 36] ، فقد قيل : کافیا، وقیل : ذلك إشارة إلى ما قال : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] ،- ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ان کے حسبان ہونے کی حقیقت خدا ہی جانتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف 40] اور وہ تمہارے باغ ) پر آسمان سے آفت بھیج دے میں بعض نے کہا ہے کہ حسبا نا کے معنی آگ اور عذاب کے ہیں اور حقیقت میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس پر محاسبہ کای جائے اور پھر اس کے مطابق بدلہ دیا جائے ۔ حدیچ میں ہے آنحضرت نے آندھی کے متعلق فرمایا : ۔ کہ الہیٰ ؟ اسے عذاب یا حسبان نہ بنا اور آیت کریمہ : ۔ فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق 8] تو تم نے ان کو سخت حساب میں پکڑ لیا ۔ میں حدیث کہ جس سے حساب میں سختی کی گئی اسے ضرور عذاب ہوگا کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت ) نزدیک آپہنچا ) اپنے مضمون میں وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] کی طرح ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة 26] اور مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے ۔ اور آیت : ۔ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة 20] مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب ( وکتاب ) ضرور ملے گا ۔ میں ہ وقف کی ہے جیسا کہ میں ہے ۔إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران 199] بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم 36] یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہے انعام کثیر میں بعض نے کہا ہے کہ حسابا کے معنی کافیا کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

حضرت موسیٰ نے فرمایا میں اپنے پروردگار کی پناہ لیتا ہوں ہر اس شخص کے شر سے جو کہ ایمان لانے سے تکبر کرنے والا ہے اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ وَقَالَ مُوْسٰٓی اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ ” اور موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ نے کہا کہ میں پناہ پکڑتا ہوں اپنے اور تمہارے رب کی ہر اس متکبر شخص کے مقابلے میں ‘ جو یوم حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :44 یہاں دو برابر کے احتمال ہیں ، جن میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔ ایک احتمال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اس وقت دربار میں خود موجود ہوں ، اور فرعون نے ان کی موجودگی میں انہیں قتل کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہو ، اور حضرت نے اس کو اور اس کے درباریوں کو خطاب کر کے اسی وقت بر ملا یہ جواب دے دیا ہو ۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی میں فرعون نے اپنی حکومت کے ذمہ دار لوگوں کی کسی مجلس میں یہ خیال ظاہر کیا ہو ، اور اس گفتگو کی اطلاع آنجناب کو اہل ایمان میں سے کچھ لوگوں نے پہنچائی ہو ، اور اسے سن کر آپ نے اپنے پیروؤں کی مجلس میں یہ بات ارشاد فرمائی ہو ۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ، حضرت موسیٰ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون کی دھمکی ان کے دل میں ذرہ برابر بھی خوف کی کوئی کیفیت پیدا نہ کر سکی اور انہوں نے اللہ کے بھروسے پر اس کی دھمکی اسی کے منہ پر مار دی ۔ اس واقعہ کو جس موقع پر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ، اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی یہی جواب ان سب ظالموں کو ہے جو یوم الحساب سے بے خوف ہو کر آپ کو قتل کر دینے کی سازشیں کر رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani