ایک مرد مومن کی فرعون کو نصیحت ۔ مشہور تو یہی ہے کہ یہ مومن قبطی تھے ( رحمہ اللہ تعالیٰ ) اور فرعون کے خاندان کے تھے ۔ بلکہ سدی فرماتے ہیں فرعون کے یہ چچا زاد بھائی تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھی حضرت موسیٰ کے ساتھ نجات پائی تھی ۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ بلکہ جن لوگوں کا قول ہے کہ یہ مومن بھی اسرائیلی تھے ۔ آپ نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ اسرائیلی ہوتے تو نہ فرعون اس طرح صبر سے ان کی نصیحت سنتا نہ حضرت موسیٰ کے قتل کے ارادے سے باز آتا ۔ بلکہ انہیں ایذاء پہنچاتا ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے آل فرعون میں سے ایک تو یہ مرد ایمان دار تھا اور دوسرے فرعون کی بیوی ایمان لائی تھیں ۔ تیسرا وہ شخص جس نے حضرت موسیٰ کو خبر دی تھی کہ سرداروں کا مشورہ تمہیں قتل کرنے کا ہو رہا ہے ۔ یہ اپنے ایمان کو چھپاتے رہتے تھے لیکن قتل موسیٰ کی سن کر ضبط نہ ہو سکی اور یہی درحقیقت سب سے بہتر اور افضل جہاد ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے انسان کلمہ حق کہہ دے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے ، اور فرعون کے سامنے اس سے زیادہ بڑا کلمہ کوئی نہ تھا ۔ پس یہ شخص بہت بلند مرتبے کے مجاہد تھے ۔ جن کے مقابلے کا کوئی نظر نہیں آتا ۔ البتہ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ایک واقعہ کئی روایتوں سے مروی ہے جس کا ماحاصل یہ ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک مرتبہ پوچھا کہ سب سے بڑی ایذاء مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پہنچائی ہے؟ آپ نے فرمایا سنو ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کو پکڑ لیا اور اپنی چادر میں بل دے کر آپ کی گردن میں ڈال کر گھسیٹنے لگا جس سے آپ کا گلا گھٹنے لگا ۔ اسی وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دوڑے دوڑے آئے اور اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ قریشیوں کامجمع جمع تھا جب آپ وہاں سے گذرے تو انہوں نے کہا کیا تو ہی ہے؟ جو ہمیں ہمارے باپ دادوں کے معبودوں کی عبادت سے منع کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں میں ہی ہوں ۔ اس پر وہ سب آپ کو چمٹ گئے اور کپڑے گھسیٹنے لگے ۔ حضرت ابو بکر نے آ کر آپ کو چھڑایا اور پوری آیت اتقتلون کی تلاوت کی ۔ پس اس مومن نے بھی یہی کہا کہ اس کا قصور تو صرف اتنا ہی ہے کہ یہ اپنا رب اللہ کو بتاتا ہے اور جو کہتا ہے اس پر سند اور دلیل پیش کرتا ہے ۔ اچھا مان لو بالفرض یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اللہ سبحان و تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سزا دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ستایا دکھ دیا تو یقینا تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا جیسے کہ وہ کہہ رہا ہے ۔ پس عقلاً لازم ہے کہ تم اسے چھوڑ دو جو اس کی مان رہے ہیں مانیں ۔ تم کیوں اس کے درپے آزار ہو رہے ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون اور قوم فرعون سے یہی چاہا تھا ۔ جیسے کہ آیت ( وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ كَرِيْمٌ 17ۙ ) 44- الدخان:17 ) تک ہے یعنی ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا ان کے پاس رسول کریم کو بھیجا ۔ اس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو مجھے سونپ دو ۔ میں تمہاری طرف رب کا رسول امین ہوں ۔ تم اللہ سے بغاوت نہ کرو ۔ دیکھو میں تمہارے پاس کھلی دلیلیں اور زبردست معجزے لایا ہوں ۔ تم مجھے سنگسار کر دو گے اس سے میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں ، اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھے چھوڑ دو ، یہی جناب رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف مجھے پکارنے دو تم میری ایذاء رسانی سے باز رہو ۔ اور میری قرابت داری کو خیال کرتے ہوئے مجھے دکھ نہ دو ۔ صلح حدیبیہ بھی دراصل یہی چیز تھی جو کھلی فتح کہلائی ۔ وہ مومن کہتا ہے کہ سنو مسرف اور جھوٹے آدمی راہ یافتہ نہیں ہوتے ۔ ان کے ساتھ اللہ کی نصرت نہیں ہوتی ۔ ان کے اقوال و افعال بہت جلد ان کی خباثت کو ظاہر کر دیتے ہیں ۔ برخلاف اس کے یہ نبی اللہ اختلاف و اضطراب سے پاک ہیں ۔ صحیح سچی اور اچھی راہ پر ہیں ۔ زبان کے سچے عمل کے پکے ہیں ۔ اگر یہ حد سے گذر جانے والے اور جھوٹے ہوتے تو یہ راستی اور عمدگی ان میں ہرگز نہ ہوتی ، پھر قوم کو نصیحت کرتے ہیں اور انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں بھائیو تمہیں اللہ نے اس ملک کی سلطنت عطا فرمائی ہے ۔ بڑی عزت دی ہے ۔ تمہارا حکم جاری کر رکھا ہے ۔ اللہ کی اس نعمت پر تمہیں اس کا شکر کرنا چائے اور اس کے رسولوں کو سچا ماننا چاہئے ۔ یاد رکھو اگر تم نے ناشکری کی اور رسول کی طرف بری نظریں ڈالیں ۔ تو یقیناً عذاب اللہ تم پر آ جائے گا ۔ بتاؤ اس وقت کسے لاؤ گے ۔ جو تمہاری مدد پر کھڑا ہو اور اللہ کے عذاب کو روکے یا ٹالے؟ یہ لاؤ لشکر یہ جان و مال کچھ کام نہ آئیں گے ۔ فرعون سے اور تو کوئی معقول جواب بن نہ پڑا کھسایانہ بن کر قوم میں اپنی خیر خواہی جتانے لگا کہ میں دھوکا نہیں دے رہا جو میر اخیال ہے اور میرے ذہن میں ہے وہی تم پر ظاہر کر رہا ہوں ۔ حالانکہ دراصل یہ بھی اس کی خیانت تھی ۔ وہ بھی جانتا تھا کہ حضرت موسیٰ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ جیسے فرمان باری ہے ( لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا ١٠٢ ) 17- الإسراء:102 ) یعنی حضرت موسیٰ نے فرمایا اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ عجائبات خاص آسمان و زمین کے پروردگار نے بھیجے ہیں ۔ جو کہ بصیرت کے ذرائع ہیں اور آیت میں ہے ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14ۧ ) 27- النمل:14 ) ، یعنی انہوں نے باوجود دلی یقین کے از راہ ظلم و زیادتی انکار کر دیا ۔ اسی طرح اس کا یہ کہنا بھی سراسر غلط تھا کہ میں تمہیں حق کی سچائی کی اور بھلائی کی راہ دکھاتا ہوں ۔ اس میں وہ لوگوں کو دھوکا دے رہا تھا اور رعیت کی خیانت کر رہا تھا ۔ لیکن اس کی قوم اس کے دھوے میں آ گئی اور فرعون کی بات مان لی ۔ فرعون نے انہیں کسی بھلائی کی راہ نہ ڈالا ۔ اس کا عمل ہی ٹھیک نہیں تھا اور جگہ اللہ عزوجل فرماتا ہے فرعون نے اپنی قوم کو بہا دیا اور انہیں صحیح راہ تک نہ پہنچنے دیا نہ پہنچایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو امام اپنی رعایا سے خیانت کر رہا ہو وہ مر کر جنت کی خوشبو بھی نہیں پاتا ۔ حالانکہ وہ خوشبو پانچ سو سال کی راہ پر آتی ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ الموفق للصواب
28۔ 1 یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔ 28۔ یہ اس نے بطور تنزل کے کہا کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اس سے تعرض نہ کیا جائے اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقینا وہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے تم پر ان میں سے کوئی عذاب آسکتا ہے۔ 28۔ 3 اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہوتا جیسا کہ تم باور کراتے ہو تو اللہ تعالیٰ اسے دلائل معجزات سے نہ نوازتا جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
[٣٨] اپنے ایمان کو چھپانے والا مرد مومن :۔ کہتے ہیں کہ یہ شخص فرعون کا چچا زاد بھائی تھا۔ یا کوئی اور بھی ہو تو کم از کم فرعون کے درباریوں اور قریبی لوگوں میں سے تھا۔ اور وہ سیدنا موسیٰ پر ایمان لاچکا تھا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ موسیٰ سے جب ایک قبطی مارا گیا تھا تو اسی شخص نے سیدنا موسیٰ کو اطلاع دی تھی کہ تمہارے قتل کے منصوبے ہو رہے ہیں لہذا جلد از جلد یہاں سے بھاگ جاؤ۔ اس وقت اگرچہ موسیٰ نبی نہیں تھے اور اس وقت آپ پر ایمان کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ تاہم وہ سیدنا موسیٰ کے اخلاق و عادات سے متاثر تھا اور اسی لئے آپ کا ہمدرد بھی تھا اس جملہ سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ فرعون کی سخیتوں کے باوجود سیدنا موسیٰ کی دعوت اندر ہی اندر پھیل گئی تھی۔ حتیٰ کہ فرعون کے ایوانوں تک پہنچ گئی تھی۔ اور دوسری یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی ایماندار شخص کافر معاشرہ کے دباؤ کی وجہ سے اپنے ایمان کو ظاہر نہ کرے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔- [٣٩] فرعون اور مرد مومن کا مکالمہ :۔ جب فرعون نے بھرے دربار میں یہ بات کہی تو اس مرد مومن سے ضبط نہ ہوسکا اور فوراً بول اٹھا کہ جس شخص کو تم قتل کرنے کے درپے ہو آخر اس کا جرم کیا ہے۔ جس کی بنا پر تم اسے قتل کرتے ہو ؟ کیا اس کا یہی جرم نہیں کہ وہ تمہیں پروردگار کی طرف بلاتا ہے۔ پھر اس کے پاس واضح دلائل موجود ہیں، جنہیں تم بھی جانتے ہو، کہ وہ اپنے قول میں سچا ہے۔ کیا یہ ایسا ہی جرم ہے کہ اسے مستوجب قتل قرار دیا جائے ؟- [٤٠] اس مرد مومن نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کی دعوت کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے قول میں جھوٹا ہو۔ اس صورت میں تم اتنی فکر کیوں کرتے ہو ؟ جھوٹ کے پاؤں کہاں ہوتے ہیں وہ جلد یا بدیر اپنی موت آپ ہی مرجائے گا۔ اور اگر وہ سچا ہوا اور تم نے اسے قتل کردیا تو پھر سمجھ لو کہ تمہاری خیر نہیں۔ پھر تو جس عذاب کی وہ تمہیں دھمکی دیتا ہے وہ لازماً تم پر نازل ہو کے رہے گا۔ لہذا میرا مشورہ یہ ہے کہ تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے۔- [٤١] یہ جملہ جو اس مرد مومن نے بولا یہ جیسے سیدنا موسیٰ پر فٹ آتا تھا ایسے ہی فرعون پر آتا تھا۔ یعنی اگر موسیٰ (علیہ السلام) نعوذ باللہ جھوٹ سے کام لے رہے ہیں کہ اس کام میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ تم سیدنا موسیٰ کو قتل کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہو تو یاد رکھو اللہ ایسے شخص کو کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا اور وہ سچا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جھوٹے تم ہو اور جھوٹا ہونے کے باوجود اس حد تک آگے بڑھے جارہے ہو کہ اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہارا بیڑا غرق ہو کے رہے گا۔ - عقبہ بن ابی معیط کا آپ کا گلا گھونٹنا :۔ بالکل ایسا ہی ایک واقعہ دور نبوی میں پیش آیا۔ ایک بدبخت مشرک عقبہ بن ابی معیط نے آپ کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ اتفاق سے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) موقعہ پر پہنچ گئے تو انہوں نے بھی اس موقعہ پر یہی آیت پڑھی تھی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ صبن عمرو بن عاص سے پوچھا : مجھے بتاؤ کہ مشرکین مکہ نے نبی اکرم کو سب سے زیادہ جو تکلیف دی وہ کیا تھی ؟ وہ کہنے لگے کہ : ایک دفعہ رسول اللہ کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آگے بڑھا، آپ کے مونڈھے کو پکڑا پھر آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر مروڑا دیا اور اتنی زور سے گلا گھونٹا (جیسے مار ہی ڈالے گا) اتنے میں ابوبکر صدیق (رض) آگئے، انہوں نے عقبہ کا مونڈھا تھاما اور آپ سے اس کو پرے دھکیل دیا اور فرمایا : کیا تم اس شخص کو صرف اس لئے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر)
(١) وقال رجل مومن من ال فرعون … موسیٰ (علیہ السلام) نے ہر متکبر سے اللہ کی پناہ مانگی جو یوم حساب پر ایمان نہ رکھتا ہو، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرماتے ہوئے ان کی حمایت میں ایکس ایسے آدمی کو کھڑا کردیا جو فرعون کی آل میں سے تھا، جو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا چکا تھا مگر اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا۔ اس نے بہت اچھے طریقے سے موسیٰ (علیہ السلام) کا دفاع کیا اور فرعون کو ان کے قتل سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ فرعون کے اپنے لوگوں میں سے ہونے کی وجہ سے اس نے بات کی جرأت کی اور اسی وجہ سے فرعون نے اس کی بات کے بعد اپنی قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، ورنہ اس کے دربار میں کسی اسرائیلی کی نہ یہ جرأت تھی اور نہ ہی اسکی برداشت تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عجیب تصرف ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا معاملہ اس کے سپرد کیا تو اس نے وہاں سے حمایت کروا دی جہاں سے وہم و گمان تک نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ” رجل مومن “ فرمایا ہے، یعنی وہ مرادنگی اور ایمان دونوں سے متصف تھا۔ اس کے مرد کامل اور مومن کامل ہونے کی دل یل یہ ہے کہ اس نے افضل جہاد کیا۔ ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(افضل الجھاد کلمۃ عدل عند سلطان، جائر اوامیر جائر) (ابو داؤد، الملاحم، باب الامر والنھی : ٣٣٣٣)” افضل جہاد ظالم بادشاہ یا ظالم امیر کے سامنے عدل کی بات کہتا ہے۔ “ بعض کہتے ہیں کہ یہ وہی شخص تھا جس نے اس سے پہلے فرعون کی مجلس میں موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے مشورہ کی خبر انہیں پہنچاتی تھی، جس پر وہ ہجرت کر کے مدین چلے گئے تھے، مگر اس بات کی تصدیق کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں، البتہ اس میں شک نہیں کہ وہ بھی مرد کامل تھا۔ دیکھیے سورة قصص (٢٠) ۔- مفسر رازی نے اپنا تجربہ لکھا ہے کہ میں نے اپنی ذات پر گزرنے والے حالات میں تجربہ کیا ہے کہ جب بھی کسی شیریر نے میرے متعلق شرکا ارادہ کیا اور میں نے اس سے تعرض نہیں کیا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے پر اکتفا کیا تو اللہ سبحانہ ایسے لوگوں کو م یرے دفاع کے لئے مقرر فرما دیاج نہیں میں بالکل نہیں جانتا تھا اور جنہوں نے حد سے بڑھ کر اس شر کو دور کرنے کی کوشش کی۔- (٢) یکتم ایمانہ : اس جملے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فرعون کی سختیوں کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت ہر جگہ پہنچ گئی تھی، حتیٰ کہ فرعون کے خاندان کے کچھ لوگ بھی اس سے متاثر ہوچکے تھے، اگرچہ اظہار نہیں کرسکتے تھے۔ چناچہ یہ مرد ممون بھی اس سے پہلے ایمان چھپاتا تھا، مگر جب بات موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل تک پہنچ گئی تو اس کے ایمان نے اسے خاموش نہیں رہنے دیا۔ اس نے بات کا آغاز تو ایک غیر جانبدار آدمی کی طرح کیا، مگر آخر میں اس نے اپنے ایمان کا صاف اظہار کردیا اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سرپد کردیا، جیسا کہ آگے آرہا ہے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اسے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھا ہے۔ اب تک ایمان چھپائے رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اسے مومن فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ مجبوری میں ایمان چھپانے کے باوجود آدمی مومن رہتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة نحل (١٠٦)- (٣) اتقتلون رجلاً ان یقول ربی اللہ …: اس جملے میں اس مرد مومن نے تین حقیقتیں بیانا کردیں، پہلی یہ کہ رب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ چناچہ اس نے ہا کہ کیا تم ایک آدمی کو اس بات پر قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب (میرا پالنے والا مالک) صرف وہ پاک ذات ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ ہے۔ یعنی وہ فرعون کو اپنا رب نہیں مانتا، بلکہ اس کو مانتا ہے جس نے فرعون اور اس کے باپ دادا کو اور زمین و آسمان سمیت ساری مخلوقات کو پیدا فرمایا ہے، تو اس پر اسے دادا دینی اور اس کی تعظیم و تکریم کرنی چاہیے یا اسے قتل کردینا چاہیے ؟ دوسری حقیقت صوقد جآء کم بالبینت) یہ بیان فرمائی کہ وہ تمہارے پاس اپنے اللہ کی طرف سے بھیجے جانے کی واضح دلیلیں لے کر آیا ہے، جنہیں جھٹلانے کا تمہارے پاس کوئی جواز ہی نہیں، پورے ملک کے جادوگر اس کے مقابلے میں ناکام ہو کر اس کے حق پر ہونے کا اعتراف کرچکے ہیں اور اس پر ایمان لا چکے ہیں۔ تیسری حقیقت (من ربکم) یہ کہ اسے جس مالک کی طرف سے پیغام پہنچانے کے لئے بھیجا گیا ہے وہ تمہارا بھی رب ہے، یہ تمہاری جہالت ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کو اپنا رب بنائے بیٹھے ہو۔- (٤) موسیٰ (علیہ السلام) کو جس قسم کی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا اور جو جو حالات پیش آئے ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اسی قسم کے ہے، یہ تمہاری جہالت ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کو اپنا رب بنائے بیٹھے ہو۔- (٤) موسیٰ (علیہ السلام) کو جس قسم کی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا اور جو جو حالات پیش آئے ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس قسم کے حالات پیش آئے۔ ان واقعات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی کا سامان ہے کہ آپ ہی کو نہیں، پہلے پیغمبروں کو بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔- (٥) مفسر ابن کثیر (رح) نے فرمایا :” فرعون کے سامنے یہ کہنا ” اتقتلون رجلاً ان یقول ربی اللہ “ (کیا تم ایک آدمی کو اس لئے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے) بہت بڑی بات ہے (اس سے بڑی دلیری ہو ہی نہیں سکتی) ۔ ہاں، بخاری رحمتہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ابوبکر کا جو واقعہ بیان کیا ہے وہ اس سے بھی بڑی بات ہے۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے کہا کہ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے زیادہ جو ایذا پہنچائی وہ مجھے بتائیں، تو انہوں نے فرمایا :(بینا رسول اللہ صلیا للہ لعیہ وسلم یصلی بفناء الکعبۃ اذ اقبل عقبۃ بن ابن معیط فاخذ بمنکب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولوی ثوبۃ فی عنقہ فخنقہ حنقاً شدیداً ماقبل ابوبکر فاخذ بمنکبہ و دفع عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و قال :(اتقتلون رجلاً ان یقول ربی اللہ وقد جآء کم بالبینت من ربکم) (بخاری، التفسیر، سورة المومن : ٣٨١٥)” ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہغے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا، اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کندھا پکڑ لیا اور اپنا کپڑا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گلے میں ڈال کر اسے بہت سختی کے ساتھ گھونٹ دیا، تو ابوبکر (رض) آئے اور اسے کندھے سے پکڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دھکا دے کر پیچھے ہٹایا اور کہا :(اتقتلون رجلاً ان یقول ربی اللہ وقد جآء کم بالبینت من ربکم)” کیا تم ایک آدمی کو اس لئے قتلک رتے ہو کہ وہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے، حالانکہ یقیناً وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے۔ “- اہل علم فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) اس مرد مومن سے بھی زیادہ شجاع تھے، کیونکہ وہ اپنا ایمان چھپاتا تھا، جبکہ ابوبکر (رض) کھلم کھلا مومن تھے، جو سب سے پہلے ایمان لائے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت اور دفاع میں ان کے لئے اس مرد مومن سے زیادہ خطرہ تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ بات صرف زبان سے نہیں کہی بلکہ عملاً عقبہ کو دھکا دے کر پیچھے بھی ہٹا دیا۔- (٦) وان یک کاذباً فعلیہ کذبہ : وہ مرد مومن موسیٰ (علیہ السلام) کو کاذب نہیں سمجھتا تھا، یہ بات اس نے ایک غیرجانبدار شخص کی حیثیت سے ایک مفروضہ کے طور پر کہی کہ اگر یہ جھوٹا ہے تب بھی اس کے جھوٹل کا وبال اسی پر ہے، تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی ان سے کہا تھا :(وان لم تومنوا لی فاعتزلون) (الدخان : ٢١)” اور اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ سے الگ رہو۔ “- (٧) وان یک صادقاً یصبکم …:” اور اگر یہ سچا ہے تو تمہیں ان میں سے کوئی نہ کوئی چیز پہنچ جائے گی جن کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے۔ “ اس مرد مومن نے یہاں ” یعدکم “ کا لفظ استعمال کیا جو وعدے کے لئے استعمال ہوتا ہے،” یوعدکم “ استعمال نہیں کیا جو وعید کے لئے ہے۔ کیونکہ وعدے میں دونوں چیزیں آجاتی ہیں، یعنی اگر وہ سچا ہوا اور تم نے اس کی اطاعت کی تو اس کا وعدہ ہے کہ تمہیں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائیاں حاصل ہوں گی، اس کے مطابق تمہیں ان میں سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوجائے گا، اگر وہ دنیا میں حاصل نہ ہوئیں تو آخرت میں یقینا حاصل ہوجائیں گی اور اگر تم سچا ہونے کے باوجود اس پر ایمان نہ لائے، یا تم نے اسے قتل کردیا تو اس نے تمہارے کفر کی صورت میں دنیا کے اندر جن جن عذابوں کا وعدہ کیا ہے ان میں سے کوئی نہ کوئی ضرور تم پر آجائے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلی امتوں کے مختلف قسم کے عذابوں سے ڈرایا، فرمایا : (فکلا اخذنا بذنبہ، فمنھم من ارسلنا علیہ حاصباً ومنھم من اخذتہ الضیحۃ ومنھم من خسفنا بہ الارض ، ومنھم من اغرقنا) (العنکبوت : ٣٠)” تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کردیا۔ “ اور اگر دنیا میں کوئی عذاب نہ آیا تو آخرت کے عذاب سے بچنے کی تو کوئی صورت ہی نہیں۔ - (٨) ان اللہ لایھدی من ھو مسرف کذاب : اس جملے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے اس عظیم شخص نے دونوں مراد لئے ہوں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو راہ راست کی ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا سخت جھوٹا ہو، جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) میں حد سے بڑھنے کی کوئی بات نہیں ہے، پھر کذاب تو بہت دور کی بات ہے اس پر جھوٹ کا الزام ایک بار بھی نہیں لگا۔ اس کی واضح دلیلوں اور معجزوں سے اس کا سچا ہونا ثابت ہو رہا ہے ، کسی مسرف و کذاب پر اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل و کرم کیسے ہوسکتا ہے اور ایسے شخص کو قتل کرنا کیسے روا ہوسکتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ یہ دونوں اوصاف بیان کرتے ہوئے درحقیقت وہ فرعون پر طعن کر رہا تھا ، جو رب ہونے کا دعویٰ کر کے اپنی حد سے بےحساب تجاوز بھی کر رہا تھا اور زبردست جھوٹ بھی بول رہا تھا، اس کی طرف سے قتل کا ارادہ بھی اس کے مسرف و کذاب ہونے کا نتیجہ تھا کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کی توفیق نہیں دیتا۔
(آیت) يَكْتُمُ اِيْمَانَهٗٓ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اگر لوگوں کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار نہ کرے دل سے اعتقاد پختہ رکھے تو وہ مومن ہے مگر نصوص صریحہ سے یہ ثابت ہے کہ ایمان کے مقبول ہونے کے لئے صرف دل کا یقین کافی نہیں بلکہ زبان سے اقرار کرنا شرط ہے، جب تک زبان سے اقرار نہ کرے گا مومن نہ ہوگا۔ البتہ زبان کا اقرار لوگوں کے سامنے اعلان کے ساتھ کرنا ضروری نہیں۔ اس کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ جب تک لوگوں کو اس کے ایمان کا علم نہیں ہوگا وہ اس کے ساتھ معاملہ مسلمانوں جیسا نہ کرسکیں گے۔ (قرطبی)- مومن من آل فرعون نے اس مکالمہ میں آل فرعون اور فرعون کو مختلف عنوانات سے حق اور ایمان کی طرف بلایا اور وہ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے درپے تھے ان کو اس سے باز رکھا۔
وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ٠ ۤۖ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ اِيْمَانَہٗٓ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللہُ وَقَدْ جَاۗءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ٠ ۭ وَاِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْہِ كَذِبُہٗ ٠ ۚ وَاِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَمُسْرِفٌ كَذَّابٌ ٢٨- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، وقال : وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة 146] ، وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة 283] ، وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ [ آل عمران 71] ، وقوله : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء 37] فَكِتْمَانُ الفضل : هو کفران النّعمة، ولذلک قال بعده : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء 37] ، وقوله : وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] قال ابن عباس : إنّ المشرکين إذا رأوا أهل القیامة لا يدخل الجنّة إلّا من لم يكن مشرکا قالوا : وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام 23] فتشهد عليهم جوارحهم، فحینئذ يودّون أن لم يکتموا اللہ حدیثا «2» . وقال الحسن : في الآخرة مواقف في بعضها يکتمون، وفي بعضها لا يکتمون، وعن بعضهم : لا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] هو أن تنطق جو ارحهم .- ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے ۔ وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة 146] مگر ایک فریق ان میں سچی بات جان بوجھ کر چھپا رہا ہے ۔ وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة 283] اور ( دیکھنا ) شہادت کو مت چھپانا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء 37] جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو ( مال ) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کے رکھیں ۔ میں کتمان فضل سے کفران نعمت مراد ہے اسی بنا پر اس کے بعد فرمایا : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء 37] اور ہم نے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے کی تفسیر میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے روز مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں وہی لوگ داخل ہو رہے ہیں جو مشرک نہیں تھے ۔ تو چھٹ سے پکارا اٹھیں گے وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام 23] خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے ۔ مگر اس کے بعد ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اس وقت وہ تمنا کریں گے کہ خدا تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپائے ہوتی حسن بصری فرماتے ہیں کہ آخرت میں متدد واقف ہوں گے بعض موقعوں پر وہ اپنی حالت کو چھپانے کی کوشش کریں گے ۔ اور بعض میں نہیں چھپائیں گے بعض نے کہا ہے کہ کوئی چھپا نہ سکنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دینگے ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم :- البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة .- فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ- [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44]- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - صوب - الصَّوَابُ يقال علی وجهين : أحدهما : باعتبار الشیء في نفسه، فيقال : هذا صَوَابٌ: إذا کان في نفسه محمودا ومرضيّا، بحسب مقتضی العقل والشّرع، نحو قولک : تَحَرِّي العدلِ صَوَابٌ ، والکَرَمُ صَوَابٌ. والثاني : يقال باعتبار القاصد إذا أدرک المقصود بحسب ما يقصده، فيقال : أَصَابَ كذا، أي : وجد ما طلب، کقولک : أَصَابَهُ السّهمُ ، - وذلک علی أضرب :- الأوّل :- أن يقصد ما يحسن قصده فيفعله، وذلک هو الصَّوَابُ التّامُّ المحمودُ به الإنسان .- والثاني :- أن يقصد ما يحسن فعله، فيتأتّى منه غيره لتقدیره بعد اجتهاده أنّه صَوَابٌ ، وذلک هو المراد بقوله عليه السلام : «كلّ مجتهد مُصِيبٌ» «4» ، وروي «المجتهد مُصِيبٌ وإن أخطأ - فهذا له أجر» «1» كما روي : «من اجتهد فَأَصَابَ فله أجران، ومن اجتهد فأخطأ فله أجر» «2» .- والثالث :- أن يقصد صَوَاباً ، فيتأتّى منه خطأ لعارض من خارج، نحو من يقصد رمي صيد، فَأَصَابَ إنسانا، فهذا معذور .- والرّابع :- أن يقصد ما يقبح فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يقصده، فيقال : أخطأ في قصده، وأَصَابَ الذي قصده، أي : وجده، والصَّوْبُ- ( ص و ب ) الصواب - ۔ ( صحیح بات ) کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے (1) کسی چیز کی ذات کے اعتبار سے یعنی خب کوئی چیز اپنی ذات کے اعتبار سے قابل تعریف ہو اور عقل و شریعت کی رو سے پسندیدہ ہو مثلا تحری العدل صواب ( انصان کو مدنظر رکھنا صواب ہے ) الکرم صواب ( کرم و بخشش صواب ہے ) (2) قصد کرنے والے کے لحاظ سے یعنی جب کوئی شخص اپنے حسب منشا کسی چیز کو حاصل کرلے تو اس کے متعلق اصاب کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے مثلا اصابہ بالسھم ( اس نے اسے تیر مارا ) پھر اس دوسرے معنی کے اعتبار سے اس کی چند قسمیں ہیں - (1) اچھی چیز کا قصد کرے اور اسے کر گزرے یہ صواب تام کہلاتا ہے اور قابل ستائش ۔ - (2) مستحسن چیز کا قصد کرے - لیکن اس سے غیر مستحسن فعل شرزہ اجتہاد کے بعد اسے صواب سمجھ کر کیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کل مجتھد مصیب ( کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے ) کا بھی یہی مطلعب ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ المجتھد مصیب وان اخطاء فھذا لہ اجر کہ مجتہد مصیب ہوتا ہے اگر خطا وار بھی ہو تو اسے ایک اجر حاصل ہوتا ہے جیسا کہ ا یک اور روایت میں ہے من اجتھد فاصاب فلہ اجران ومن اجتھد فاخطا فلہ اجر کہ جس نے اجتہاد کیا اور صحیح بات کو پالیا تو اس کے لئے دواجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ - (3) کوئی شخص صحیح بات یا کام کا قصد کرے مگر کسی سبب سے اس سے غلطی سرزد ہوجائے مثلا ایک شخص شکار پر تیز چلاتا ہے مگر اتفاق سے وہ کسی انسان کو الگ جاتا ہے اس صورت میں اسے معذور سمجھا جائے گا ۔ - ( 4 ) ایک شخص کوئی برا کام کرنے لگتا ہے مگر اس کے برعکس اس سے صحیح کام صحیح کام سرز د ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ گو اس کا ارادہ غلط تھا مگر اسنے جو کچھ کیا وہ درست ہے ۔ - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- سرف - السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً- [ النساء 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] ، أي :- المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة .- ( س ر ف ) السرف - کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔
اور حزقیل نامی ایک شخص نے کہا جو کہ فرعون کے چچازاد بھائی تھے اور تقریبا سو سال سے فرعون اور اس کی قوم اور فرعون کے خاندان سے اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے انہوں نے کہا کیا ایک شخص کو محض اتنی سی بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے حالانکہ وہ اوامرو نواہی اور علامات نبوت بھی لے کر آیا ہے۔ بالفرض اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہی ہو تو وہ خود اپنے جھوٹ کی سزا بھگت لے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم اس کی تکذیب کر رہے ہو تو تمہیں ضرور دنیا میں بھی عذاب بھگتنا پڑے گا اور اللہ تعالیٰ مشرک اور جھوٹے کو اپنے دین کی طرف رہنمائی نہیں کرتا۔
آیت ٢٨ وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌق مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗ ” اور آل فرعون میں سے ایک مومن مرد نے ‘ جو ابھی تک اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا ‘ کہا : “- اس مرحلے پر اس مرد مومن نے صورت حال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے کلمہ حق زبان پر لانے کا فیصلہ کرلیا۔ چناچہ اس نے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر بھرے دربار میں اس مطلق العنان فرعون کے سامنے کھڑے ہو کر ” حق گوئی و بےباکی “ کی ایسی مثال قائم کی کہ اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اور جملے گویا ع ” موتی سمجھ کے شان کریمی نے ُ چن لیے “ اور پھر ان موتیوں کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے جاں نثارانِ حق کی آنکھوں کی طراوت کے لیے صفحاتِ قرآن کی زینت بنا دیا۔ چناچہ فرعون نے جونہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی قرارداد پیش کی ‘ یہ مرد مومن فوراً بول اٹھا اور اس نے فرعون اور تمام اہل دربار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا :- اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ ” کیا تم قتل کرنا چاہتے ہو ایک شخص کو محض اس لیے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے “- کیا کسی شخص کا اللہ کو رب ماننا تمہارے نزدیک اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی پاداش میں تم اس کی جان کے درپے ہوگئے ہو ؟ - ایک مرتبہ جب مشرکین مکہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سر عام ہجو کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ہوئے تو اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) بیچ میں آگئے اور انہوں (رض) نے مشرکین مکہ کو مخاطب کر کے یہی الفاظ دہرائے تھے : اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ (١) ” کیا تم لوگ ایک شخص (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جان کے درپے صرف اس لیے ہو رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے “- وَقَدْ جَآئَ کُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّکُم ” حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آیا ہے۔ “- وَاِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ ” اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر آئے گا۔ “- وَاِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ ” اور اگر وہ سچا ہوا تو تمہیں وہ بعض باتیں پہنچ کر رہیں گی جن کے بارے میں وہ تمہیں وعید سنا رہا ہے۔ “- ایسی صورت میں تم پر عذاب الٰہی کی مار پڑے گی اور تم تباہ و برباد کردیے جائو گے۔- اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ ” یقینا اللہ تعالیٰ راہ یاب نہیں کرتا اس کو جو حد سے بڑھنے والا ‘ بہت جھوٹا ہو۔ “
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :45 یعنی اس نے ایسی کھلی کھلی نشانیاں تمہیں دکھا دی ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے کہ وہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا رسول ہے ۔ مومن آل فرعون کا اشارہ ان نشانیوں کی طرف تھا جن کی تفصیلات اس سے پہلے گزر چکی ہیں ( تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۸۷ ۔ ۸۹ ۔ ۹۰ ۔ ۹۱ ۔ ۹٤ تا۹٦ ، بنی اسرائیل ، حواشی ۱۱۳ تا ۱۱٦ ، جلد سوم ، طی ، حواشی ۲۹ تا ۵۰ ، الشعراء ، حواشی ۲٦ تا ۳۹ ، النمل ، حاشیہ ۱٦ ) ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :46 یعنی اگر ایسی صریح نشانیوں کے باوجود تم اسے جھوٹا سمجھتے ہو تب بھی تمہارے لیے مناسب یہی ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ، کیونکہ دوسرا احتمال ، اور نہایت قوی احتمال یہ بھی ہے کہ وہ سچا ہو اور اس پر ہاتھ ڈال کر تم خدا کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤ ۔ اس لیے اگر تم اسے جھوٹا بھی سمجھتے ہو تو اس سے تعرض نہ کرو ۔ وہ اللہ کا نام لے کر جھوٹ بول رہا ہو گا تو اللہ خود اس سے نمٹ لے گا ۔ قریب قریب اسی طرح کی بات اس سے پہلے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی فرعون سے کہہ چکے تھے ۔ وَاِنْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِیْ فَاعْتَزِلُوْنِ ( الدخان : 21 ) اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ۔ یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ مومن آل فرعون نے گفتگو کے آغاز میں کھل کر یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا ہے ، بلکہ ابتداءً وہ اسی طرح کلام کرتا رہا کہ وہ بھی فرعون ہی کے گروہ کا ایک آدمی ہے اور محض اپنی قوم کی بھلائی کے لیے بات کر رہا ہے ۔ مگر جب فرعون اور اس کے درباری کسی طرح راہ راست پر آتے نظر نہ آئے تو آخر میں اس نے اپنے ایمان کا راز فاش کر دیا ، جیسا کہ پانچویں رکوع میں اس کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :47 اس فقرے کے دو مطلب ممکن ہیں ، اور غالباً مومن آل فرعون نے قصداً یہ ذو معنی بات اسی لیے کہی تھی کہ ابھی وہ کھل کر اپنے خیالات ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایک ہی شخص کی ذات میں راست روی جیسی خوبی اور کذب و افترا جیسی بدی جمع نہیں ہو سکتیں ۔ تم علانیہ دیکھ رہے ہو کہ موسیٰ ایک نہایت پاکیزہ سیرت اور کمال درجہ کا بلند کردار انسان ہے ۔ اب آخر یہ بات تمہارے دماغ میں کیسے سماتی ہے کہ ایک طرف تو وہ اتنا بڑا جھوٹا ہو کہ اللہ کا نام لے کر نبوت کا بے بنیاد دعویٰ کر بیٹھے ، اور دوسری طرف اللہ اسے اتنے اعلیٰ درجے کے اخلاق عطا فرمائے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اگر حد سے تجاوز کر کے موسیٰ علیہ السلام کی جان لینے کے درپے ہو گے اور ان پر جھوٹے الزامات عائد کر کے اپنے ناپاک منصوبے عمل میں لاؤ گے تو یاد رکھو کہ اللہ تمہیں ہرگز کامیابی کا راستہ نہ دکھائے گا ۔
6: یہ صاحب کون تھے؟ ان کا نام قرآن کریم نے نہیں لیا، بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ فرعون کے چچا زاد بھائی تھے، اور ان کا نام شمعان تھا۔ واللہ اعلم 7: یعنی جو شخص نبوت کا جھوٹا دعوی کرے، اسے اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں رسوا کردیتا ہے، اس لیے اگر بالفرض یہ جھوٹے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں خود رسوا کردے گا، تمہیں ان کو قتل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔