29۔ 1 یعنی یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ تمہیں زمین پر غلبہ عطا فرمایا اس کا شکر ادا کرو اور اس کے رسول کی تکذیب کر کے اللہ کی ناراضی مول نہ لو۔ 29۔ 2 یہ فوجی لشکر تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ اللہ کے عذاب ہی کو ٹال سکیں گے اگر وہ آگیا۔ یہاں تک اس مومن کا کلام تھا جو ایمان چھپائے ہوئے تھا۔ 29۔ 3 فرعون نے اپنے دنیاوی جاہ جلال کی بنیاد پر جھوٹ بولا اور کہا کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہی تمہیں بتلا رہا ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ ہی صحیح ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا وما امر فرعون برشید (ھود)
[٤٢] کیا تم اس کے قتل کی بات محض اس لئے کرتے ہو کہ آج تمہارے ہاتھ میں حکومت ہے اور اگر تم ایساکر بھی لو گے تو تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ لیکن اگر وہ سچا ہوا اور تم پر اللہ کی طرف سے عذاب آگیا تو اس وقت تمہاری یہ حکومت کسی کام نہ آئے گی۔ اور سب تباہ ہوجائیں گے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک بھی اس نے اپنا ایمان ظاہر نہ کیا تھا۔ اور فرعون اور اس کے درباریوں سے غیر جانبدار رہ کر ناصحانہ قسم کی باتیں کر رہا تھا۔- [٤٣] فرعون کے اس جملہ سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ فرعون اسے تاحال اپنا مخالف یا مومن نہیں سمجھتا تھا بلکہ اسے اپنا ناصح ہی سمجھ رہا تھا۔ اسی لئے اس نے اس مرد مومن کو یہ جواب دیا کہ مجھے تو اسی بات میں بھلائی نظر آتی ہے کہ اس شخص کو قتل کردینا ہی بہتر ہے اور میں اپنی سمجھ اور بصیرت کے مطابق جو حالات سامنے دیکھ رہا ہوں وہی تمہیں بتارہا ہوں اور اسی میں تمہاری بھلائی سمجھتا ہوں۔
(١) یقوم لکم الملک الیوم …: اس مرد مومن نے ” اے میری قوم “ کہہ کر ان کے ساتھ اپنے اس تعلق کا اظہار کیا جو وہ فرعون کے خاندان کا ایک قبطی فرد ہونے کی بنا پر ان سے رکھتا تھا اور ” الیوم “ (آج) کہہ کر اس نے انہیں زمانے کے انقلابات کی طرف توجہ دلائی کہ یہ غلبہ و اقتدار دائمی چیز نہیں، اگر یہ کل یوسف (علیہ السلام) اور ان کے جانشین اسرائیلیوں کے پاس تھا اور آج اس سر زمین مصر میں تمہارے پاس ہے اور تم اسرائیلیوں پر غالب ہو تو اسرائیلیوں کی طرح تم سے بھی چھن سکتا ہے اور کفر و شرک اور ظلم وتعدی کی وجہ سے پہلی اقوام کی طرح تم بھی اللہ کے عذاب کا نشانہ بن سکتے ہو۔ تو اگر وہ آگیا تو ہمیں اس سے کون بچائے گا ؟” الارض “ میں ” الف لام “ عہد کا ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” اس سر زمین “ کیا گیا ہے، مراد مصر ہے۔- (٢) قال فرعون ما اریکم الا ما اری : بعض مفسرین کا خیال ہے کہ فرعون کو پتا نہیں چل سکا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے فیصلے کے خلاف رائے دینے والا شخص حقیقت میں ان پر ایمان لا چکا ہے، اس لئے فرعون کو پتا نہیں چل سکا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے فیصلے کے خلاف رائے دینے والا شخص حقیقت میں ان پر ایمان لا چکا ہے، اس لئے فرعون نے اس کی اس جرأت پر کوئی گرفت نہیں کی۔ مگر زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ وہ پہلے ہی موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ معجزوں اور ہیبت کی وجہ سے خوف زدہ تھا، جس کی دلیل اس کا یہ کہنا ہے :(ذرونی اقتل موسیٰ ) (المومن : ٢٦)” مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں “ اب اس نے دیکھا کہ اس کے خاص لوگوں میں بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی حمایت آگئی ہے تو اسے جرأت ہی نہیں ہوئی کہ اس مرد مومن کو کچھ کہے اور نہ ہی وہ اس کی کسی دلیل کا جواب دے سکا، بلکہ اس نے جواب سے گریز اختیار کیا اور اپنے سرداروں اور قوم کے لئے اپنے اخلاص کا اظہار کیا کہ میں تمہارے لئے وہی سوچتا ہوں جو اپنے لئے سوچتا ہوں اور تمہارے سامنے وہی رائے پیش کرتا ہوں جو میری بہترین سوچ کا نتیجہ ہے۔ مگر اس مسرف و کذاب کا یہ کہنا سراسر جھوٹ تھا کیوں کہ وہ دل سے موسیٰ (علیہ السلام) کو سچا جان چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جھوٹ متعدد آیات میں بیان فرمایا ہے۔ (دیکھیے نمل : ١٢ تا ١٤) بنی اسرائیل : ١٠٢) اس کا مقصد اپنی قوم کو بیوقوف بنانا تھا اور واقعی اس نے انہیں بےقوف بنا لیا، جیسا کہ سورة زخرف میں ہے :(فاستخف قومہ فاطاعوہ انھم کانوا قوماً فسقین) (الزخرف : ٥٣) ” غرض اس نے اپنی قوم کو ہلکا (بےوزن) کردیا تو انہوں نے اس کی اطاعت کرلی، یقینا وہ نافرمان لوگ تھے۔ “- اس کے علاوہ اس کا یہ کہنا کہ ” میں تمہارے لئے وہی سوچتا ہوں جو اپنے لئے سوچتا ہوں “ اس لئے بھی صاف جھوٹ تھا کہ اپنے لئے تو وہ رب الاعلیٰ سے نیچے کسی مقام پر قناعت کے لئے تیار نہ تھا، مگر قوم کے لئے اس کے پاس انہیں اپنا غلام بنا کر رکھنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ آج کے حکمرانوں کے قول و عمل کا بھی یہی حال ہے۔- (٣) وما اھدیکم الاسبیل الرشاد : اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں واضح فرمایا کہ اس کا یہ کہنا بھی غلط تھا کہ ” میں تمہیں بھلائی کا راستہ ہی بتارہا ہوں۔ “ دیکھیے سورة ہود (٩) اور سورة طہ (٧٩)
يٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظٰہِرِيْنَ فِي الْاَرْضِ ٠ ۡفَمَنْ يَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللہِ اِنْ جَاۗءَنَا ٠ ۭ قَالَ فِرْعَوْنُ مَآ اُرِيْكُمْ اِلَّا مَآ اَرٰى وَمَآ اَہْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ ٢٩- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - ظَاهَرَ ( مدد)- وَظَهَرَ عليه : غلبه، وقال : إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] ، وظاهَرْتُهُ :- عاونته . قال تعالی: وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ- [ التحریم 4] ، أي : تعاونا، تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] ، وقرئ : ( تَظَّاهَرَا) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ- ظھر علیہ کے معنی ہیں وہ اس پر غالب آگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں ۔ ظاھرتہ : میں نے اس کی مدد کی ( اور ظاھر علیہ کے معنی ہیں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی ) قرآن پاک میں ہے : ۔ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] اور انہوں نے تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم 4] اور اگر پیغمبر کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی ۔ ایک قرات میں تظاھر ا ہے ( یعنی تار کو ظاء میں ادغام کیسا تھ ) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ [ الأحزاب 26] اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی ۔ تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- رشد - الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] - ( ر ش د ) الرشد - والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔
اے میرے بھائیو آج سرزمین مصر پر تمہاری بادشاہت ہے تو اللہ کے عذاب میں ہماری کون مدد کرے گا اگر وہ ہم پر آپڑا۔- فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی رائے دوں گا جو میں خود صحیح سمجھ رہا ہوں کہ تم میری عبادت کرو اور میں تمہیں عین حق و ہدایت کا راستہ بتاتا ہوں۔
آیت ٢٩ یٰــقَوْمِ لَکُمُ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ظٰہِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ ” اے میری قوم کے لوگو آج تو تمہارے ہاتھ میں حکومت ہے اور تم ہر طرح سے زمین میں غالب ہو۔ “- آج تو تم ایک عظیم الشان سلطنت کے مالک ہو اور پوری دنیا میں تمہاری طاقت کا ڈنکا بج رہا ہے۔- فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْم بَاْسِ اللّٰہِ اِنْ جَآئَ نَا ” لیکن اگر کہیں ہم پر اللہ کا عذاب آگیا تو اس سے بچانے کے لیے ہماری مدد کون کرے گا ؟ “- قَالَ فِرْعَوْنُ مَآ اُرِیْکُمْ اِلَّا مَآ اَرٰی ” فرعون نے کہا : میں تو تمہیں وہی کچھ دکھا رہا ہوں جو مجھے نظر آ رہا ہے “- مجھے تو یہ نظر آ رہا ہے کہ اگر اب بھی موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کا قصہ پاک نہ کیا گیا تو پانی ہمارے سروں سے گزر جائے گا اور یہ مصر کے طول و عرض میں فسادبرپا کر دے گا۔ اس طرح جو تباہی آئے گی وہ ہمارا سب کچھ برباد کر کے رکھ دے گی۔ اس فقرے کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں نے تو تمہارے سامنے اپنی وہی رائے پیش کی ہے جو مجھے مناسب نظر آتی ہے ۔ - ۔ - مردِ مومن کی کھری کھری باتوں کے جواب میں فرعون کا یہ معذرت خواہانہ رد عمل حیران کن ہے۔ فرعون کی مطلق العنانی کا تصور ذہن میں رکھیے اور پھر اس مختصر سے جملے کے ایک ایک لفظ سے ٹپکتی ہوئی بےبسی اور بےچارگی ملاحظہ کیجیے۔- وَمَآ اَہْدِیْکُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ ۔ ” اور میں نہیں راہنمائی کر رہا تمہاری مگر کامیابی کے راستے کی طرف۔ “
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :48 یعنی کیوں اللہ کی دی ہوئی اس نعمت غلبہ و اقتدار کی ناشکری کر کے اس کے غضب کو اپنے اوپر دعوت دیتے ہو؟ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :49 فرعون کے اس جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی تک وہ یہ راز نہیں پاسکا تھا کہ اس کے دربار کا یہ امیر دل میں مومن ہو چکا ہے ، اسی لیے اس نے اس شخص کی بات پر کسی ناراضی کا اظہار تو نہیں کیا ، البتہ یہ واضح کر دیا کہ اس کے خیالات سننے کے بعد بھی اپنی رائے بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔