32۔ 1 تنادی کے معنی ہیں۔ ایک دوسرے کو پکارنا، قیامت کو یَوْمَ التَّنَادِ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن ایک دوسرے کو پکاریں گے۔ اہل جنت اہل نار کو اور اہل نار اہل جنت کو ندائیں دیں گے۔ (وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا يَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِيْمٰىهُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ 48 اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍ ۭ اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ 49) 7 ۔ الاعراف :49-48) ۔ بعض کہتے ہیں کہ میزان کے پاس ایک فرشتہ ہوگا جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا اس کی بدبختی کا یہ فرشتہ چیخ کر اعلان کرے گا بعض کہتے ہیں کہ عملوں کے مطابق لوگوں کو پکارا جائے گا جیسے اہل جنت کو اے جنتیو اور اہل جہتم کو اے جہنمیو امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام بغوی کا یہ قول بہت اچھا ہے کہ ان تمام باتوں ہی کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے۔
[٤٦] یوم التناد کے مختلف مفہوم :۔ اکثر مفسرین نے (یَوْمَ التَّنَادِ ) سے مراد قیامت کا دن لیا ہے جس دن تابعداری کرنے والے اپنے بڑوں (مطاع حضرات) کے متعلق فریاد کررہے ہوں گے۔ مظلوم ظالم کو پکڑے ہوئے فریاد کر رہا ہوگا۔ عابد اپنے معبودوں سے نالاں ہوں گے وغیرہ یا اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اہل جنت اہل دوزخ سے، اہل اعراف اہل دوزخ سے، دوزخی آپس میں جنتی آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہوں گے لیکن جن مفسرین نے (یوم التناد) سے مراد عذاب الٰہی کے نازل ہونے کا دن مرادلیا ہے ـ۔ـ وہ ربط مضمون کے لحاظ سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یعنی عذاب الٰہی کے وقت وہ سب آہ وفغاں کرتے ہوں گے اور اسی حال میں ان کا خاتمہ ہوجائے گا۔
(١) وی قوم انی اخاف علیکم یوم الثناد ” الثنا ”‘ ” ندائ “ سے باب تفاعل ہے، ایک دور سے کو آواز دینا۔ دنیوی عذاب سے ڈرانے کے بعد اس نے آخرت کے عذاب سے ڈرایا۔” یوم الثنا ”‘ (ایک دوسرے کو پکارنے کے دن) سے مراد قیامت کا دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو محبت سے آواز دیں گے اور مشرکین کو اپنے شرکاء پیش کرنے کے لئے آواز دیں گے۔ اس دن اس کے فرشتے نیک و بد کو ان کی حیثیت کے مطابق آواز دیں گے۔ جنتی ایک دوسرے کو آوازیں دیں گے، اسی طرح جہنمی ایک دور سے کو آواز دیں گے۔ اہل جنت جہنمیوں کو اور وہ جنتیوں کو آواز دیں گے۔ حق لینے والے حق دینے والوں کو اور مظلوم ظالموں کو آوازیں دے رہے ہوں گے۔ جہنمی آگ کے خازن کو پکاریں گے، پھر رب تعالیٰ کو آواز دیں گے۔ جنت و جہنم بھی آواز دے رہی ہوں گی۔ موت کا ذبح کردیا جائے گا اور جنتیوں اور جہنمیوں کو آواز دی جائے گی کہ اب ہمیشگی ہے، موت نہیں۔ غرض ، اس دن ایک دوسرے کو پکارنے کا عجیب عالم ہوگا۔ یہاں قرآن مجید سے اس ” یوم الثنا ”‘ کے بارے میں چند مقامات درج کئے جاتے ہیں، احباب تھوڑی سی محنت فرما کر تفصیل ملاحظہ فرما لیں۔ دیکھیے سورة اعراف (٤٣ تا ٥٠) ، زخرف (٧٧) ، حدید (١٤) ، قصص (٦٢، ٦٥، ٧٤) ، کہف (٥٢) ، مومن (١٠) ، حم سجدہ (٤٤) ، ق (٤١) ، ، بنی اسرائیل (٥٢، ٧١) ، یٰسین (٥٢، ٦٠) ، حاقہ (١٩ تا ٣٢) عبس (٣٤ تا ٣٧) اور سورة معاج (١٧)- (٢) بعض مفسرین نے فرمایا کہ ” مثل یوم الاحزاب “ سے جو مراد ہے وہی ” یوم الثنا ”‘ سے مراد ہے، یعنی ” یوم الثنا ”‘ سے بھی وہی دنیا میں آنے والا عذاب مراد ہے کہ جب وہ دن آئے گا تو تم ایک دوسرے کو مدد کے لئے آواز دو گے، مگر کوئی مددد کو نہیں آئے گا اور تم عذاب سے بچنے کے لئے بھاگو گے، مگر تمہیں اللہ تعالیٰ سے کوئی نہیں بچائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” فلما احسوا باسنآ اذا ھم منھا یرکضون لا ترکضوا وارجعوآ الی ما اثر فتم فیہ وم کسی نکم لعلکم تسئلون) (الانبیائ : ١٢، ١٣)” تو جب انہوں نے ہمارا عذبا محسوس کیا اچانک وہ ان (بستیوں) سے بھاگ رہے تھے۔ بھاگو نہیں اور ان (جگہوں) کی طرف واپس آؤ جن میں تمہیں خوش حالی دی گئی تھی اور اپنے گھروں کی طرف، تاکہ تم سے پوچھا جائے۔ “ اگرچہ اکثر مفسرین نے ” یوم الثنادذ سے مراد قیامت کا دن لیا ہے، مگر آیات کے سیاق کے لحاظ سے اس تفسیر کی بھی گنجائش ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :”(یوم الثناد) ہانک پکار کا دن ان پر آیا جس دن فرق ہوئے قلزم میں، ایک دوسرے کو پکارنے لگے ڈوبتے میں۔ “
(آیت) وَيٰقَوْمِ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ ۔ تناد بکسر دال مخفف ہے۔ تنادی کا جس کے معنی ہیں باہم ایک دوسرے کو نداء اور آواز دینے کے۔ قیامت کے روز کو یوم التناد اس لئے کہا گیا کہ اس روز بیشمار ندائیں اور آوازیں ہوں گی۔ جن کا کچھ ذکر خلاصہ تفسیر میں آ چکا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ کا ایک منادی نداء دے گا کہ اللہ کے مخالف لوگ کھڑے ہوجائیں۔ اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو تقدیر کا انکار کرتے تھے۔ اور پھر اصحاب جنت دوزخ والوں کو اور دوزخ والے اصحاب جنت کو اور اصحاب اعراف دونوں کو نداء دے کر اپنی اپنی باتیں کریں گے۔ اور اس وقت ہر خوش نصیب اور بدنصیب کا نام مع ولدیت لے کر اس کے نتیجہ کا اعلان کیا جائے گا کہ فلاں ابن فلاں سعید و کامیاب ہوگیا اس کے بعد شقاوت کا کوئی احتمال نہیں رہا اور فلاں بن فلاں شقی و بدبخت ہوگیا، اب اس کی نیک بختی کا کوئی احتمال نہیں رہا۔ (رواہ ابن ابی حاتم فی السنتہ مظہری) مسند بزار و بیہقی میں حضرت انس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سعادت و شقاوت کا اعلان وزن اعمال کے بعد ہوگا۔- اور حضرت ابوحازم اعرج (رض) سے روایت ہے کہ وہ اپنے نفس کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے تھے کہ اے اعرج قیامت کے روز نداء دی جائے گی کہ فلاں قسم کے گناہ کرنے والے کھڑے ہوجاویں تو ان کے ساتھ کھڑا ہوگا کہ پھر ندا دی جائے گی کہ فلاں قسم کے گناہ کرنے والے کھڑے ہوں تو ان کے ساتھ بھی کھڑا ہوگا، پھر ندا دی جاوے گی کہ فلاں قسم کے گناہ کرنے والے کھڑے ہوں تو ان کے ساتھ بھی کھڑا ہوگا۔ اور میں سمجھتا ہوں ہر گناہ کے اعلان کے وقت تجھے ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا (کیونکہ تم نے ہر قسم کے گناہ جمع کر رکھے ہیں) ۔ (اخرجہ ابونعیم۔ مظہری)
وَيٰقَوْمِ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ ٣٢ۙ- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية .- قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] ،- ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ - ندد - نَدِيدُ الشیءِ : مُشارِكه في جَوْهَره، وذلک ضربٌ من المماثلة، فإنّ المِثْل يقال في أيِّ مشارکةٍ کانتْ ، فكلّ نِدٍّ مثلٌ ، ولیس کلّ مثلٍ نِدّاً ، ويقال : نِدُّهُ ونَدِيدُهُ ونَدِيدَتُهُ ، قال تعالی:- فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة 22] ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة 165] ، وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت 9] وقرئ : (يوم التَّنَادِّ ) [ غافر 32] أي : يَنِدُّ بعضُهم من بعض . نحو : يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس 34] .- ( ن د د )- ندید الشئی ۔ وہ جو کسی چیز کی ذات یا جوہر میں اس کا شریک ہو اور یہ ممانعت کی ایک قسم ہے کیونکہ مثل کا لفظ ہر قسم کی مشارکت پر بولا جاتا ہے ۔ اس بنا پر ہرند کو مثل کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر مثل ند نہیں ہوتا ۔ اور ند ، ندید ندید ۃ تینوں ہم معنی ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔- فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة 22] پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة 165] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک خدا بناتے ہیں ۔ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت 9] اور بتوں کو اس کا مد مقابل بناتے ہو ۔ اور ایک قرات میں یوم التناد تشدید دال کے ساتھ ہے اور یہ نذ یند سے مشتق ہے جس کے معنی دور بھاگنے کے ہیں اور قیامت کے روز بھی چونکہ لوگ اپنے قرابتدروں سے دور بھاگیں گے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس 34] میں مذکور ہے اس لئے روز قیامت کو یو م التناد بتشدید الدال کہا گیا ہے ۔
(٣٢۔ ٣٣) اور اے قوم مجھے تمہاری نسبت اس دن کے عذاب کا اندیشہ ہے جس دن تم میں سے ہر ایک دوسرے کو پکارے گا اور تمہیں اصحاب اعراف آواز دیں گے اور اس دن کو یوم الفرار بھی کہا گیا ہے جس دن تم عذاب خداوندی سے بھاگو گے اور تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور جس کو اللہ ہی گمراہ کردے اس کو کوئی اللہ کے علاوہ ہدایت دینے والا نہیں۔
آیت ٣٢ وَیٰـقَوْمِ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ یَوْمَ التَّنَادِ ” اور اے میری قوم کے لوگو مجھے اندیشہ ہے تم پر چیخ پکار کے دن کا۔ “- جس دن ہر طرف فریاد و فغاں اور چیخ و پکار مچی ہوگی اور لوگ ایک دوسرے کو پکار رہے ہوں گے۔