33۔ 1 یعنی موقف (میدان محشر) سے جہنم کی طرف جاؤ گے، یا حساب کے بعد وہاں سے بھاگو گے ۔ 33۔ 2 جو اسے ہدایت کا راستہ بتاسکے یعنی چلا سکے۔
[٤٧] اس سے مراد قیامت کا دن بھی ہوسکتا ہے اور کسی قوم پر عذاب کا دن بھی۔ لیکن اس وقت اگر کوئی پیٹھ پھیر کر بھاگنا بھی چاہے تو وہ اللہ کی گرفت سے کبھی بچ نہیں سکتا۔
(١) یوم تولون مدبرین : اس میں ” یوم الثنا ”‘ کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ دن ہے جس میں تم اللہ کے عذاب سے پیٹھ پھیرتے ہوئے بھاگو گے۔- (٢) مالکم من اللہ من عاصم : مگر تمہیں اللہ سے، یعنی اس کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، جیسا کہ فرمایا (یقول الانسان یومئذ این المفر کلا لاوزر الی ربک یومئذ المستقر) (القیامۃ : ١٠ تا ١٢)” انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ؟ ہرگز نہیں، پناہ کی جگہ کوئی نہیں۔ اس دن تیرے رب ہی کی طرف جا ٹھہرنا ہے۔ “- (٣) ومن یضلل اللہ فمالہ من ھاد : یعنی میں نے تمہیں نصیحت کردی، مگر تمہاری ضد اور عناد کی وجہ سے اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں گمراہی میں ہی پڑا رہنے کا ارادہ کرلیا ہے تو جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے پھر اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٦، ٢٧)
(آیت) يَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِيْنَ ۔ یعنی جب تم پشت پھیر کر لوٹو گے۔ خلاصہ تفسیر میں بحوالہ امام بغوی اس کے معنی یہ بیان ہوئے ہیں کہ یہ اس حالت کا بیان ہے جب مجرمین موقف حساب سے جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ پہلے یہ ندائیں اور اعلانات جن کا ذکر یوم التناد کی تفسیر میں اوپر ہوا ہے، وہ سب ہو چکیں گے۔ اس کے بعد یہ لوگ موقف حساب سے مڑ کر جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔- اور بعض حضرات مفسرین کے نزدیک یہ حال دنیا میں نفخہ اولیٰ کے وقت کا بیان کیا گیا ہے، کہ جب پہلا صور پھونکا جائے گا اور زمین پھٹے گی تو یہ لوگ ادھر ادھر بھاگیں گے مگر ہر طرف فرشتوں کا پہرہ ہوگا، کہیں نکلنے کا راستہ نہ ہوگا۔ ان حضرات کے نزدیک یوم التناد سے مراد بھی نفخہ اولیٰ کا وقت ہے کہ اس میں ہر طرف سے چیخ و پکار ہوگی۔ آیت کی دوسری قرات سے اس کی تائید ہوتی ہے جو حضرت ابن عباس اور ضحاک سے منقول ہے کہ یوم التناد کو بدال مشدد پڑھتے تھے، جو ندا مصدر سے مشتق ہے جس کے معنے بھاگنے کے ہیں تو یوم التناد کے معنی بھی اس تفسیر کی رو سے بھاگنے کا دن ہوئے اور تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِيْنَ اسی کی تشریح ہوئی۔- تفسیر مظہری میں ایک طویل حدیث بحوالہ ابن جریر اور مسند ابویعلی اور بیہقی اور مسند عبد بن حمید وغیرہ حضرت ابوہریرہ سے نقل کی ہے جس میں قیامت کے روز صور کے تین نفخوں کا ذکر ہے۔ پہلا نفخہ فزع دوسرا نفخہ صعق تیسرا نفخہ نشر، نفخہ فترع سے ساری مخلوق میں گھبراہٹ اور اضطراب پیدا ہوگا۔ یہی نفخہ اور طویل ہو کر نفخہ صعق بن جائے گا، جس سے سب بےہوش ہوجائیں گے پھر مر جائیں گے۔ عام طور پر ان دونوں نفخوں کے مجموعہ کو نفخہ اولیٰ کہا گیا ہے جس کی وجہ ظاہر ہے کہ یہ ایک ہی نفخہ کے وقت دو کیفیتیں ہوں گی۔ پہلی فزع دوسری صعق۔ اس حدیث میں بھی نفخہ فزع کے وقت لوگوں کے ادھر ادھر بھاگنے کا ذکر کر کے یہ فرمایا ہے وھو الذی یقول اللہ یوم التناد۔ جس سے معلوم ہوا کہ آیت میں یوم التناد سے مراد پہلے نفخہ کے وقت لوگوں کا مضطربانہ ادھر ادھر دوڑنا ہے۔- (واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم)
يَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِيْنَ ٠ ۚ مَا لَكُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ عَاصِمٍ ٠ ۚ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ ٣٣- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ- دُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ، أي :- قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ- «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ - عصم - العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه،- ( ع ص م ) العصم - کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔
آیت ٣٣ یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَج مَا لَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ ” جس دن تم پیٹھ موڑ کر بھاگو گے ‘ لیکن اللہ کی پکڑ سے تمہیں بچا نے والا کوئی نہیں ہوگا۔ “- وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ ” اور جسے اللہ ہی گمراہ کر دے پھر اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ “