انبیاء کی تکذیب کافروں کا شیوہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حق کے ظاہر ہوچکنے کے بعد اسے نہ ماننا اور اس میں نقصانات پیدا کرنے کی کوشش کرنا کافروں کا ہی کام ہے ۔ یہ لوگ اگر مال دار اور ذی عزت ہوں تو تم کسی دھوکے میں نہ پڑ جانا کہ اگر یہ اللہ کے نزدیک برے ہوتے تو اللہ انہیں اپنی یہ نعمتیں کیوں عطا فرماتا ؟ جیسے اور جگہ ہے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈالے یہ تو کچھ یونہی سا فائدہ ہے آخری انجام تو ان کا جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے ۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے ہم انہیں بہت کم فائدہ دے رہے ہیں بالآخر انہیں سخت عذاب کی طرف بےبس کردیں گے ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ لوگوں کی تکذیب کی وجہ سے گھبرائیں نہیں ۔ اپنے سے اگلے انبیاء کے حالات کو دیکھیں کہ انہیں بھی جھٹلایا گیا اور ان پر ایمان لانے والوں کی بھی بہت کم تعداد تھی ، حضرت نوح علیہ السلام جو بنی آدم میں سب سے پہلے رسول ہو کر آئے انہیں ان کی امت جھٹلاتی رہی بلکہ سب نے اپنے اپنے زمانے کے نبی کو قید کرنا اور مار ڈالنا چاہا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے ان باطل والوں کو پکڑلیا ۔ اور ان کے ان زبردست گناہوں اور بدترین سرکشیوں کی بنا پر انہیں ہلاک کردیا ۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ میرے عذاب ان پر کیسے کچھ ہوئے؟ یعنی بہت سخت نہایت تکلیف دہ اور المناک ، جس طرح ان پر ان کے اس ناپاک عمل کی وجہ سے میرے عذاب اتر پڑے اسی طرح اب اس امت میں سے جو اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں ان پر بھی میرے ایسے ہی عذاب نازل ہونے والے ہیں ۔ یہ گو نبیوں کو سچا مانیں لیکن جب تیری نبوت کے ہی قائل نہ ہوں ان کی سچائی مردود ہے ۔ واللہ اعلم ۔
4۔ 1 اس جھگڑے سے مراد ناجائز اور باطل جھگڑا ہے جس کا مقصد حق کی تکذیب اور اس کی تردید و تغلیظ ہے ورنہ جس جدال بحث ومناظرہ کا مقصد ایضاح حق، ابطال باطل اور منکرین و معترضین کے شبہات کا ازالہ ہو وہ مذموم نہیں نہایت محمود و مستحسن ہے بلکہ اہل علم کو تو اس کی تاکید کی گئی ہے (لَتُبَيِّنُنَّهٗ للنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ ) 3 ۔ ال عمران :187) تم اسے لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرنا اسے چھپانا نہیں بلکہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے دلائل وبراہین کو چھپانا اتنا سخت جرم ہے کہ اس پر کائنات کی ہر چیز لعنت کرتی ہے البقرہ 4۔ 2 یعنی یہ کافر اور مشرک جو تجارت کرتے ہیں اس کے لئے مختلف شہروں میں آتے جاتے ہیں اور کثیر منافع حاصل کرتے ہیں، یہ اپنے کفر کی وجہ سے جلد ہی مؤاخذہ الٰہی میں آجائیں گے، یہ مہلت ضرور دیئے جا رہے ہیں لیکن انہیں چھوڑا نہیں جائے گا۔
[٢] یہاں سے حالات حاضرہ پر تبصرہ شروع کیا جارہا ہے کہ کفار مکہ جو اللہ کی آیات کا کبھی مذاق اڑاتے ہیں کبھی ان میں اعتراضات کرکے شکوک پیدا کرتے ہیں کبھی اسلام کی راہ روکنے کے لئے مسلمانوں کو اذیتیں دیتے ہیں اور کبھی سازشیں تیار کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ ہم اگر جھوٹے ہوتے تو اب تک ہم پر اللہ کا عذاب آجانا چاہئے تھا تو ان لوگوں کا تاحال صحیح و سلامت بچے رہنا اور زمین میں دندناتے پھرنا تم لوگوں کو اس وہم اور دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ شاید یہ اللہ کی گرفت سے بچ جائیں گے۔
(١) مایجادل فی ایت اللہ الا الذین کفروا :” کفر “ کا معنی چھپانا بھی ہے اور انکار بھی اور جھگڑے سے مراد کج بحثی کر کے آیات الٰہی کو جھٹلانا اور انہیں رد کرنا ہے، ورنہ جس جدال اور بحث و مناظرے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی آیات کی تصدیق اور حق بات کو ثابت کرنا ہو وہ قابل تعریف ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا :(وجادلھم بالتیھی احسن) (النحل :125)” اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ “ اور نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے کہا :(ینوح قد جدلتنا فاکثرت جدالنا فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصادقین ) (ھود، ٣٢)” اے نوح بیشک تو نے ہم سے جھگڑا کیا، پھر ہم سے بہت جھگڑا کیا، پس لے آہم پر جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو بچوں سے ہے۔ “ ابراہیم نے اپنے وقت کے بادشاہ کے ساتھ مناظرہ کر کے اسے لاجواب کیا، فرمایا :(الم تر الی الذی حاج ابراہیم فی ربہ) (البقرۃ :285) ” کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) نے سورج، چاند اور ستاروں کی عبادت کرنے والوں کو لا جواب کیا (دیکھیے انعام : ٧٥ تا ٨٣) اور بت پرستوں کو لا جواب کیا۔ (دیکھیے انبیائ : ٥١ تا ٧٠) یعنی اتنی عظیم کتاب، جس کے اتارنے والے کی صفات کا ذکر اوپر گزرا، کوئی حق بات تسلیم کرنے والا شخص اس کی آیات کو جھٹلانے کے لئے جھگڑا نہیں کرتا، صرف وہی لوگ یہ جرأت کرتے ہیں جو حق کو چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(المراء فی القرآن کفر) (ابوداؤد، الستۃ باب النھی عن الجدال فی القرآن : ٧٦٠٣ عن ابی ہریرہ (رح))” قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ “- (٢) فلا یغررک تقلبھم فی البلاد : یعنی ان لوگوں کی خوش حالی اور ان کا عیش و عشرت کے لئے یا تجارت اور دوسرے کاموں کے لئے مختلف شہروں میں پھرنا دیکھ کر کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ یہ اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں، دراصل یہ ان کے لئے مہلت ہے۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (١٩٦، ١٩٧) ۔
(آیت) مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۔ اس آیت نے جدال فی القرآن کو کفر قرار دیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان جدالاً فی القرآن کفر یعنی بعض جدال قرآن میں کفر ہوتے ہیں (رواہ البغوی والبیہقی فی الشعب عن ابی ہریرة ورواہ ابو داؤد والحاکم وصححہ، مظہری)- اور حدیث میں ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو شخصوں کی آواز سنی جو کسی آیت قرآن کے متعلق جھگڑ رہے تھے، آپ غضبناک ہو کر باہر تشریف لائے کہ آپ کے چہرہ مبارک سے غصہ کے آثار محسوس ہو رہے تھے اور فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اسی سے ہلاک ہوئیں کہ وہ اللہ کی کتاب میں جدال کرنے لگی تھیں (رواہ مسلم عن عبداللہ بن عمرو بن شعیب۔ مظہری)- یہ جدال جس کو قرآن و حدیث نے کفر قرار دیا اس سے مراد قرآنی آیات پر طعن کرنا اور فضول قسم کے شبہات نکال کر اس میں جھگڑا ڈالنا ہے یا کسی آیت قرآن کے ایسے معنی بیان کرنا جو دوسری آیات قرآن اور نصوص سنت کے خلاف ہوں جو تحریف قرآن کے درجہ میں ہے ورنہ کسی مبہم یا مجمل کلام کی تحقیق یا مشکل کلام کا حل تلاش کرنا یا کسی آیت سے احکام و مسائل کے استنباط میں باہم بحث و تحقیق کرنا اس میں داخل نہیں بلکہ وہ تو بڑا ثواب ہے۔ (قاضی بیضاوی۔ قرطبی، مظہری)- (آیت) فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ۔ کفار قریش سردی میں یمن کا اور گرمی میں ملک شام کا تجارتی سفر کرتے تھے اور حرم بیت اللہ کی خدمت کی وجہ سے ان کا سارے عرب میں احترام تھا۔ اس لئے اپنے سفروں میں محفوظ رہتے اور تجارتی منافع حاصل کرتے تھے۔ اسی سے ان کی مالداری اور ریاست قائم تھی۔ اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کے باوجود ان کی یہ صورت قائم رہنا ان کے لئے فخر و غرور کا سبب تھا کہ اگر ہم اللہ کے نزدیک مجرم ہوتے تو یہ نعمتیں سلب ہوجاتیں۔ اس سے کچھ مسلمانوں کو بھی شبہات پیدا ہونے کا امکان تھا، اس لئے اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مصلحت سے ان کو یہ چند روزہ مہلت دے رکھی ہے، اس سے آپ یا مسلمان کسی دھوکہ میں نہ پڑیں۔ چند روزہ مہلت کے بعد ان پر عذاب آنے والا ہے اور یہ ریاست فنا ہونے والی ہے جس کی ابتداء غزوہ بدر سے ہوئی اور فتح مکہ تک چھ سال کے اندر اس کا پوری طرح ظہور ہوگیا۔
مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللہِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُہُمْ فِي الْبِلَادِ ٤- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- غرر - يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ «5» ، وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ- [ الانفطار 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ- [ آل عمران 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً- [ النساء 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا - [ الأنعام 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ- [ لقمان 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ «1» ، والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ» «2» .- والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل :- فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة «3» ، فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها .- ( غ ر ر )- غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔- تَقْلِيبُ- الشیء : تغييره من حال إلى حال نحو : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب 66] وتَقْلِيبُ الأمور : تدبیرها والنّظر فيها، قال : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة 48] . وتَقْلِيبُ اللہ القلوب والبصائر : صرفها من رأي إلى رأي، قال : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام 110] ، وتَقْلِيبُ الید : عبارة عن النّدم ذکرا لحال ما يوجد عليه النادم . قال : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف 42] أي : يصفّق ندامة .- قال الشاعر کمغبون يعضّ علی يديه ... تبيّن غبنه بعد البیاع - والتَّقَلُّبُ : التّصرّف، قال تعالی: وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء 219] ، وقال : أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل 46] . ورجل قُلَّبٌ حُوَّلٌ: كثير التّقلّب والحیلة «2» ، والْقُلَابُ : داء يصيب القلب، وما به قَلَبَةٌ «3» : علّة يُقَلِّبُ لأجلها، والْقَلِيبُ. البئر التي لم تطو، والقُلْبُ : الْمَقْلُوبُ من الأسورة .- تقلیب الشئی کے معنی کسی چیز کسی چیز کو متغیر کردینے کے ہیں جیسے فرمایا : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب 66] جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائیں جائیں گے۔ اور تقلیب الامور کے معنی کسی کام کی تدبیر اور اس میں غوروفکر کرنے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة 48] اور بہت سی باتوں میں تمہارے لئے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دلوں اور بصیرتوں کی پھیر دینے سے ان کے آراء کو تبدیل کردینا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام 110] اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے ۔ اور تقلیب الید پشیمانی سے کنایہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ عام طور پر نادم آدمی کا یہی حال ہوتا ہے ( کہ وہ اظہار ندامت کے لئے اپنے ہاتھ ملنے لگ جاتا ہے ) قرآن پاک میں ہے : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف 42] تو ۔۔۔۔۔ و حسرت سے ) ہاتھ ملنے لگا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 358) کمغبون یعض علی یدیہ تبین غبتہ بعدالبیاع جیسے خسارہ اٹھانے والا آدمی تجارت میں خسارہ معلوم کرلینے کے بعد اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے ۔ اور تقلب ( تفعل ) کے معنی پھرنے کے ہیں ۔ ارشاد ہے : وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء 219] اور نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی ۔ أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل 46] یان کو چلتے پھرتے پکڑلے وہ ( خدا کو ) عاجز نہیں کرسکتے۔ رجل قلب بہت زیادہ حیلہ گر اور ہوشیار آدمی جو معاملات میں الٹ پھیر کرنے کا ماہر ہو ۔ القلاب دل کی ایک بیماری ( جو اونٹ کو لگ جاتی ہے) مابہ قلبہ : یعنی وہ تندرست ہے اسے کسی قسم کا عارضہ نہیں ہے جو پریشانی کا موجب ہو القلیب۔ پراناکنواں جو صاف نہ کیا گیا ہو ۔ القلب ایک خاص قسم کا کنگن ۔- بلد - البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی:- بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] ، وقال عزّ وجلّ :- فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر :- وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» .- ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔
مگر اس کے باوجود مکہ والوں میں رسول اکرم اور قرآن کریم کی تکذیب کافر ہی کرتے ہیں تو اے نبی کریم ان لوگوں کا تجارت کے لیے سفر کرنا اور آنا جانا آپ کو شک میں نہ ڈالے کیونکہ یہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔- شان نزول : مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ (الخ)- ابن ابی حاتم نے بواسطہ سدی ابو مالک سے اس آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حارث بن قیس سہمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
آیت ٤ مَا یُجَادِلُ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِی الْْبِلَادِ ” نہیں جھگڑتے اللہ کی آیات میں مگر وہی لوگ جو کفر کرتے ہیں ‘ تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) زمین میں ان کی چلت پھرت آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ “- یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے سب مسلمانوں کو سمجھانا مقصود ہے کہ اے مسلمانو ان غیر مسلموں کے مادی وسائل ‘ ان کی طاقت ‘ ترقی اور ٹیکنالوجی تمہیں مرعوب نہ کرے۔ دیکھو کسی دنیوی ” سپر پاور “ کے دھوکے میں آکر کہیں تم اللہ کی قدرت اور طاقت کو بھول نہ جانا
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :2 جھگڑا کرنے سے مراد ہے کج بحثیاں کرنا ۔ مین میخ نکالنا ۔ الٹے سیدھے اعتراضات جڑنا ۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے کوئی ایک لفظ یا فقرہ لے اڑانا اور اس سے طرح طرح کے نکتے پیدا کر کے شبہات و الزامات کی عمارتیں کھڑی کرنا ۔ کلام کے اصل مدعا کو نظر انداز کر کے اس کو غلط معنی پہنانا تاکہ آدمی نہ خود بات کو سمجھے نہ دوسروں کو سمجھنے دے ۔ یہ طرز اختلاف لازماً صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا اختلاف بد نیتی پر مبنی ہوتا ہے ۔ نیک نیت مخالف اگر بحث کرتا بھی ہے تو تحقیق کی غرض سے کرتا ہے اور اصل مسائل زیر بحث پر گفتگو کر کے یہ اطمینان کرنا چاہتا ہے کہ ان مسائل میں اس کا اپنا نقطہ نظر درست ہے یا فریق مخالف کا ۔ اس قسم کی بحث حق معلوم کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے ۔ بخلاف اس کے بد نیت مخالف کا اصل مقصد سمجھنا اور سمجھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ فریق ثانی کو زک دینا اور زچ کرنا چاہتا ہے اور بحث کے میدان میں اس لیے اترنا ہے کہ دوسرے کی بات کسی طرح چلنے نہیں دینی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ کبھی اصل مسائل کا سامنا نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اطراف ہی میں چھاپے مارتا رہتا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :3 کفر کا لفظ یہاں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ ایک کفران نعمت ۔ دوسرے انکار حق ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اس کے احسانات کو بھول گئے ہیں اور جنہیں یہ احساس نہیں رہا ہے کہ اسی کی نعمتیں ہیں جن کے بل پر وہ پل رہے ہیں ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ یہ طرز عمل صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جنہوں نے حق سے منہ موڑ لیا ہے اور اسے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کفر کرنے والے سے مراد ہر وہ شخص نہیں ہے جو مسلمان نہ ہو ۔ اس لیے کہ جو غیر مسلم اسلام کو سمجھنے کی غرض سے نیک نیتی کے ساتھ بحث کرے اور تحقیق کی غرض سے وہ باتیں سمجھنے کی کوشش کرے جن کے سمجھنے میں اسے زحمت پیش آرہی ہو ، اگرچہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تک اصطلاحاً ہوتا وہ بھی کافر ہی ہے ، لیکن ظاہر ہے کہ اس پر وہ بات راست نہیں آتی جس کی اس آیت میں مذمت کی گئی ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :4 پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ فحوائے کلام سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اللہ عزّوجلّ کی آیات کے مقابلے میں جو لوگ جھگڑالو پن کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ، وہ سزا سے کبھی بچ نہیں سکتے ۔ لامحالہ ایک نہ ایک روز ان کی شامت آنی ہے ۔ اب اگر تم دیکھ رہے ہو کہ وہ لوگ یہ سب کچھ کر کے بھی خدا کی زمین میں اطمینان سے دندناتے پھر رہے ہیں ، اور ان کے کاروبار خوب چمک رہے ہیں ، اور ان کی حکومتیں بڑی شان سے چل رہی ہیں ، اور وہ خوب داد عیش دے رہے ہیں ، تو اس دھوکے میں نہ پڑ جاؤ کہ وہ خدا کی پکڑ سے بچ نکلے ہیں ، یا خدا کی آیات سے جنگ کوئی کھیل ہے جسے تفریح کے طور پر کھیلا جا سکتا ہے اور اس کا کوئی برا نتیجہ اس کھیل کے کھلاڑیوں کو کبھی نہ دیکھنا پڑے گا ۔ یہ تو دراصل ایک مہلت ہے جو خدا کی طرف سے ان کو مل رہی ہے ۔ اس مہلت سے غلط فائدہ اٹھا کر جو لوگ جس قدر زیادہ شرارتیں کرتے ہیں ان کی کشتی اسی قدر زیادہ بھر کر ڈوبتی ہے ۔
1: یعنی کافر لوگ اپنے کفر کے باوجود جس طرح خوش حال نظر آتے ہیں، اس سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ انہیں اپنے کیے کی سزا نہیں ملے گی۔