44۔ 1 عنقریب وہ وقت آئے گا جب میری باتوں کی صداقت اور جن باتوں سے روکتا تھا ان کی شناعت تم پر واضح ہوجائے گی پھر تم ندامت کا اظہار کرو گے مگر وہ وقت ایسا ہوگا کہ ندامت بھی کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ 44۔ 2 یعنی اسی پر بھروسہ کرتا اور اسی سے ہر وقت استعانت کرتا ہوں اور تم سے بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کرتا ہوں۔ 44۔ 3 وہ انہیں دیکھ رہا ہے پس وہ مستحق ہدایت کو ہدایت سے نوازتا اور ضلالت کا استحقاق رکھنے والے کو ضلالت سے ہمکنار کرتا ہے ان امور میں جو حکمتیں ہیں ان کو وہی خوب جانتا ہے۔
[٥٨] مرد مومن کی تقریر کا فرعون پر رد عمل :۔ اس مرد مومن کی تقریر کا یہ آخری حصہ ہے اور اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اس نے یہ تقریر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کی تھی۔ اور یہ کہ اب فرعون اسے کسی قیمت پر زندہ نہیں رہنے دے گا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ مرد مومن کسی معمولی عہدے پر فائز نہ تھا بلکہ کسی انتہائی نازک اور ذمہ دارانہ منصب اس کے سپرد تھا۔ جسے فرعون فوری طور پر گرفتار کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ فرعون کو یہ تو معلوم ہوچکا تھا کہ سیدنا موسیٰ کی دعوت اس کی انتہائی پابندیوں اور سختیوں کے باوجود ایوان بالا تک سرایت کرچکی ہے۔ لہذا اب یہ معاملہ صرف اکیلے اس مرد مومن کا یا موسیٰ ہی کے قتل کا نہ رہا تھا بلکہ اب وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ دعوت اسلامی کے اثرات اس کے اپنے دربار اور اس کی اپنی آل میں کہاں تک نفوذ کرچکے ہیں اس لئے سردست اس نے ان دونوں کو التواء میں ڈال دیا کہ مبادا ان دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں کو قتل کرنے سے کوئی ایسا ہنگامہ نہ اٹھ کھڑا ہو جس پر بعد میں قابو نہ پایا جاسکے۔ اور تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ اس مرد مومن کے دل میں تھا وہ اس نے پوری جرأت کے ساتھ برملا کہہ ڈالا۔ اور اپنی سچائی کی مزید توثیق کے لئے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ عنقریب تم لوگ میری باتوں کو یاد کرو گے کہ جو کچھ اس آدمی نے باتیں کہی تھیں وہ فی الواقع درست تھیں۔ عنقریب سے مرادروز آخرت بھی ہوسکتا ہے اور وہ دن بھی جبکہ آل فرعون پر عذاب آیا تھا اور وہ بحیرہ قلزم میں غرق کردیئے گئے تھے۔
(١) فستذکرون ما اقول لکم : معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرد مومن اس تقریر کے دوران فرعون کی گفتگو سن کر اور قوم کا رویہ دیکھ کر ان کے ایمان لانے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق قتل کا فیصلہ بدلنے سے مایوس ہوگیا تھا اور اپنے متعلق بھی اسے پورا یقین ہوگیا تھا کہ یہ لوگ مجھے بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس لئے اس نے آخری فقرہ اس شخص کے لہجے میں کہا جو اللہ کی راہ میں جان دینے کے لئے تیار کھڑا ہو اور جسے اللہ کی مدد پر پورا یقین ہو۔- (٢) و افوض امری الی اللہ : یہی وہ بات ہے جو اللہ کے خاص بندے اس وقت بھی کہتے ہیں جب تمام ظاہری اسباب ختم ہوجائیں، اس وقت بھی ان کا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ پوری طرح قائم رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کے اعتماد کو بکھی نہیں توڑتا، بلکہ جس طرح چاہتا ہے انہیں بچا لیتا ہے۔ اللہ کے ان بندوں کے الفاظ مختلف ہوسکتے ہیں مگر مفہوم ایک ہی ہوتا ہے کہ ہم نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا، وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے آگ میں گرائے جانے کے وقت ” حسبی اللہ و نعم الوکیل “ کہا۔ (بخاری التفسیر، باب قولہ تعالیٰ : (الذین استجابوا اللہ …): ٦٣٦٣ جنگ احاد کے بعد زخم خوردہ ہونے کے باوجود دشمنوں کی آمد کی خبر سن کر ایمان والوں نے یہ بات ان الفاظ میں کہی :(حسبنا اللہ ونعم الوکیل) (آل عمران : ١٨٣’ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کار ساز ہے۔ “ اور اصحاب الاخدود والے لڑکے نے یہی بات ان الفاظ میں کہی تھی (اللھم اکفینھم بما شئت ) (مسلم الزھد، باب فصۃ اصحاب الاخدود …: ٣٠٠٥)” اے اللہ مجھے ان سے کافی ہوجا جس طرح تو چاہے۔ “ اور آل فرعون کے ماومن نے کہا :(وافوض امری الی اللہ ، ان اللہ بصیر بالعباد) ” میں اپنا معاملہ اللہ کیس پرد کرتا ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ “- (٣) ان اللہ بصیر بالعباد : یعنی وہ تمہارے کفر و شرک اور ظلم و ستم پر اصرار کو اور میری بےچارگی اور اس کی خاطر استقامت کو خوب دیکھ رہا ہے، وہ خود ہی فیصلہ فرما دے گا۔
(آیت) فَسَتَذْكُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَكُمْ ۭ وَاُفَوِّضُ اَمْرِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ ۔ یہ مومن آل فرعون کا آخری کلام ہے جو اپنی قوم کو حق کی طرف بلانے کے سلسلے میں کیا گیا جس میں اظہار ہے کہ آج تو تم میری بات نہیں مانتے مگر جب عذاب تمہیں آپکڑے گا تو اس وقت تم کو میری بات یاد آئے گی۔ مگر اس وقت کا یاد آنا بےکار ہوگا۔ اور اب جبکہ اس طویل مکالمہ اور نصیحت و دعوت کے ذریعہ اس مومن آل فرعون کا ایمان ان لوگوں پر ظاہر ہوگیا تو فکر ہوئی کہ اب یہ لوگ ان کے درپے ہوں گے، اس لئے فرمایا کہ میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ وہ اپنے بندوں کا نگران و محافظ ہے۔ امام تفسیر مقاتل نے فرمایا کہ ان کے گمان کے مطابق قوم فرعون ان کے درپے ہوئی تو یہ پہاڑ کی طرف بھاگ نکلے۔ اور ان کی گرفت میں نہ آسکے جس کا ذکر اگلی آیت میں اس طرح آیا ہے۔
فَسَتَذْكُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَكُمْ ٠ ۭ وَاُفَوِّضُ اَمْرِيْٓ اِلَى اللہِ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ ٤٤- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- فوض - قال تعالی: وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ [ غافر 44] ، أردّه إليه، وأصله من قولهم :- مالهم فَوْضَى بينهم قال الشاعر : طعامهم فوضی فضا في رحالهم ومنه : شركة المُفَاوَضَةِ.- ( ف و ض ) ( فوض ( ائی ) کے معنی کوئی معاملہ کسی کے سپرد کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ [ غافر 44] اور میں اپنا کام خدا کے سپرد کرتا ہوں ۔ یعنی میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتاہوں اصل میں یہ مالھم فرضی بینھم کلے محاورہ سے مشتق ہے ( یعنی ان کا مال سب میں مشترکہ ہے ) شاعر نے کہا ہے ۔ ـ( الطویل ) ( 346 ) طعامھم فوضٰی فضا فی رحالھم ان کے گھرروں میں طعام منتشر اور کھا پڑا ہے اور اسی سے شرکتہ مفاوضتہ ہے یعنی کپنی جس میں سب کے حصص مساوی ہوں ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔
قیامت کے دن تم میری بات یاد کرو گے جو میں تم سے دنیا میں عذاب کے بارے میں کہہ رہا ہوں میں اپنا معاملہ اللہ ہی کے سپرد کرتا ہوں وہ مومن و کافر سب کا خود نگران ہے۔
آیت ٤٤ فَسَتَذْکُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَکُمْ ” تو عنقریب تم یاد کرو گے (یہ باتیں) جو میں تم سے کہہ رہا ہوں۔ “- میں جانتا ہوں کہ تم میری ان باتوں کو نہیں مانو گے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ تم موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور اس کی قوم کے خلاف اپنی ساری چالیں چل کر رہو گے۔ مگر یاد رکھو اگر تم نے ایسا کیا تو یقینا تم اپنی تباہی اور بربادی کو دعوت دو گے۔ بہر حال میری یہ باتیں تمہیں اس وقت ضرور یاد آئیں گی جب تمہارا بھیانک انجام تمہارے سامنے آن کھڑا ہوگا۔- وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ” اور میں تو اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔ “- یہ مرد مومن کی تقریر کے اختتامی الفاظ ہیں۔ اس جملے کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ فرعون کے دربار میں کلمہ حق بلند کرنے کے بعد مرد مومن ذہنی طور پر کسی بھی سزا کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ اس ” گستاخی “ کے بعد انہیں قتل کردیا جائے گا۔ چناچہ انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام اس خوبصورت جملے پر کیا۔ سورة یٰسٓ میں بھی ایک مرد مومن کی ” حق گوئی و بےباکی “ کا ذکر ہوا ہے ‘ جس نے اپنی قوم کو رسولوں کی پیروی کرنے کا مشورہ دیا تھا اور اپنے ایمان کا ڈنکے کی چوٹ اعلان کیا تھا۔ اس ” اعلانِ بغاوت “ کے نتیجے میں اس کو اسی لمحے شہید کردیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسی وقت اسے جنت میں داخل فرما دیا تھا۔ قرآن حکیم میں اس کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : قَالَ یٰـلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ ۔ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ ۔ (یٰسٓ) ” اس نے کہا کاش میری قوم کو معلوم ہوجاتا میرے رب نے جس طرح میری مغفرت فرمائی ہے اور جس طرح مجھے باعزت لوگوں میں شامل کرلیا ہے “ مومن ِآلِ فرعون نے بھی اپنی شہادت کے امکان کو دیکھتے ہوئے کمال اطمینان سے اپنا معاملہ اللہ کو سونپ دیا۔- اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ ” اللہ یقینا اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ “- اسے یقین تھا کہ اللہ اپنے بندوں کے حالات سے خوب واقف ہے ‘ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہے۔ وہ جسے چاہے ظلم و زیادتی کا شکار ہونے سے بچا سکتا ہے۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :60 اس فقرے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ باتیں کہتے وقت اس مومن شخص کو پورا یقین تھا کہ اس حق گوئی کی پاداش میں فرعون کی پوری سلطنت کا عتاب اس پر ٹوٹ پڑے گا اور اسے محض اپنے اعزازات اور مفادات ہی سے نہیں ، اپنی جان تک سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ مگر یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس نے محض اللہ کے بھروسے پر اپنا وہ فرض انجام دے دیا جسے اس نازک موقع پر اس کے ضمیر نے اس کا فرض سمجھا تھا ۔