Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 اس آگ پر برزخ میں یعنی قبروں میں لوگ روزانہ صبح شام پیش کئے جاتے ہیں، جس سے قبر کا عذاب ثابت ہوتا ہے جس کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں۔ حدیث میں تو بڑی وضاحت سے عذاب قبر پر روشنی ڈالی گئی ہے مثلاً حضرت عائشہ (رض) کے سوال کے جواب میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں قبر کا عذاب حق ہے اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا گیا جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر میں) اس پر صبح و شام اس کی جگہ پیش کی جاتی ہے یعنی اگر وہ جنتی ہے تو جنت اور جہنمی ہے تو جہنم اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیری اصل جگہ ہے، جہاں قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے بھیجے گا (صحیح بخاری اس کا مطلب ہے کہ منکرین عذاب قبر قرآن و حدیث دونوں کی صراحتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ 46۔ 2 اس سے بالکل واضح ہے کہ عرض علی النار کا معاملہ جو صبح وشام ہوتا ہے قیامت سے پہلے کا ہے اور قیامت سے پہلے برزخ اور قبر ہی کی زندگی ہے قیامت والے دن اس کو قبر سے نکال کر سخت ترین عذاب یعنی جہنم میں ڈال دیا جائے گا آل فرعون سے مراد فرعون اس کی قوم اور اس کے سارے پیروکار ہیں یہ کہنا کہ ہمیں تو قبر میں مردہ آرام سے پڑا نظر آتا ہے اسے اگر عذاب ہو تو اس طرح نظر نہ آئے لغو ہے کیونکہ عذاب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں نظر بھی آ‏ئے اللہ تعالیٰ ہر طرح عذاب دینے پر قادر ہے کیا ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ خواب میں ایک شخص نہایت المناک منظر دیکھ کر سخت کرب و اذیت محسوس کرتا ہے لیکن دیکھنے والوں کو ذرا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ خوابیدہ شخص تکلیف سے دو چار ہے اس کے باوجود عذاب قبر کا انکار محض ہٹ دھرمی اور بےجا تحکم ہے بلکہ بیداری میں بھی انسان کو جو تکالیف ہوتی ہیں وہ خود ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ صرف انسان کا تڑپنا اور تلملانا ظاہر ہوتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ تڑپے اور تلمائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٠] فرعون اور آل فرعون کا انجام اور عذاب قبر کا ثبوت :۔ ان غرق ہو کر مرنے والوں میں سے صرف فرعون کی لاش کو اللہ نے بچا لیا۔ باقی سب لوگوں کی لاشیں سمندر میں آبی جانوروں کی خوراک بن گئیں یا سمندر کی تہہ میں چلی گئیں۔ فرعون کی لاش کو سمندر کی موجوں نے اللہ کے حکم سے کنارے پر پھینک دیا۔ تاکہ عامۃ الناس اس خدائی کا دعویٰ کرنے والے شہنشاہ کا حشر دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ اور یہ مدتوں ساحل سمندر پر پڑی رہی۔ اور گلی سڑی نہیں بلکہ جوں کی توں قائم رہی۔ کہتے ہیں کہ اس کے مردہ جسم پر سمندر کے نمک کی دبیز تہہ چڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا جسم گلنے سڑنے سے محفوظ رہا۔ اب ان غرق ہونے والوں کی لاشیں خواہ سمندر کی تہہ میں ہوں یا آبی جانوروں کے پیٹ میں یا فرعون کی لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑی ہو ان سب کی ارواح غرق ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں چلی گئی تھیں۔ غرق ہونے کے دن سے لے کر قیامت تک ان ارواح کو ہر روز صبح و شام اس دوزخ پر لاکھڑا کیا جاتا ہے جس میں وہ قیامت کے دن اپنے جسموں سمیت داخل ہونے والے ہیں۔ ان کی موت سے لے کر قیامت تک کے عرصہ میں، جسے اصطلاحی زبان میں عالم برزخ کہا جاتا ہے، صرف آگ پر پیشی ہوتی ہے اور صرف ارواح کی ہوتی ہے لیکن قیامت کے دن وہ آگ میں داخل ہوں گے اور جسموں سمیت داخل ہوں گے۔ اس لحاظ سے عالم برزخ کا عذاب قیامت کے عذاب کی نسبت بہت ہلکا اور قیامت کا عذاب عالم برزخ کے مقابلہ میں شدید تر عذاب ہے۔- اس آیت میں عالم برزخ کے عذاب یا عذاب قبر کی ٹھیک ٹھیک صراحت موجود ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے ایک فرقہ نے عذاب قبر سے انکار کردیا ہے اور ان حضرات کا تعاقب میں نے اپنی تصنیف آئینہ پرویزیت میں پیش کردیا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں۔ یہاں سردست صرف بخاری سے چند احادیث درج کر رہا ہوں جن سے واضح طور پر عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے :- ١۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرنے والے واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے بٹھا دیتے ہیں پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تو ان صاحب محمد کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا ؟ اس سوال کے جواب میں مومن یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لے۔ اللہ نے اس کے بدلہ تجھ کو جنت میں ٹھکانا دیا۔ پھر اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ لیکن کافر یا منافق سے جب بھی سوال کیا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے ؟ تو وہ کہے گا۔ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کچھ کہہ دیتا تھا پھر اس سے کہا جائے گا کہ نہ تو تو خود سمجھا اور نہ سمجھانے والے کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے سے اتنی مار پڑتی ہے کہ وہ چلا اٹھتا اور جن اور انسان کے سوا سب اس کے آس پاس والے اس کی چیخ و پکار کو سنتے ہیں (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر)- ٢۔ سیدنا ایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سورج غروب ہونے کے بعد رسول اللہ مدینہ سے باہر گئے وہاں ایک آواز سنی تو فرمایا : یہ یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب التعوذ من عذاب القبر)- ٣۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ دو قبروں پر سے گزرے۔ آپ نے فرمایا : ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی بات میں عذاب نہیں ہورہا۔ ان میں سے ایک تو چغلی کھاتا پھرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک ہری ٹہنی لی۔ اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ پھر فرمایا : امید ہے کہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب ہلکا رہے (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول)- ٤۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ یوں دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ میں قبر کے عذاب سے، دوزخ کے عذاب سے، زندگی اور موت کی بلاؤں سے اور کانے دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب التعوذ من عذاب القبر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) النار یعرضون علیھا عدوآ و عیشیا، سمندر میں غرق کئے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں گھیرنے والے دو بدترین عذابوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک قیامت تک ہونے والا عذاب ، عذاب قبر یا عذاب برزخ ہے، جو موت اور آخرت کے درمیانے وقفے میں انھیں آگ کی صورت میں ہو رہا ہے، جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں۔ خواہ ان کے جسم سمندری جانوروں کی خوراک بنے ہوں یا کسی عجائب گھر میں محفوظ ہوں، یا خاک میں مل گئے ہوں ، ان کا ہر ذرہ جہاں بھی ہے وہی اس کی قبر ہے اور قیامت تک اسے یہ عذاب ہوگا۔ صبح و شام سے مراد ہر وقت ہے اور یہ محاورہ عربی ہی نہیں ہر زبان میں بولا جاتا ہے۔ دیکھیے سورة مریم (٦٢) ۔- (٢) ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا ال فرعون اشد العذاب : یہ دوسرا عذاب ہے جو قیامت کے دن شروع ہوگا۔ یہ آیت عذاب قبر کی واضح دلیل ہے۔ بعض لوگوں نے واضح آیات و احادیث کے باوجود عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ لعیہ نے صحیح بخاری میں ” کتاب الجنائر “ کے تحت ” باب ما جآء فی عذاب القبر “ میں عذاب قبر ثابت کرنے کے لئے تین آیات اور متعدد احادیث ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی آیت :(اذا الظلمون فی عمرت الموت والملئکۃ باسطوا ایدیھم اخرجوا انفسکم الیوم تجرون عذاب الھون) (الانعام : ٩٣)” جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں، نکالو اپنی جانیں، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ “ دوسری آیت (سنعذبھم مرتبین ثم یرذون الی عذاب عظیم) (التوبۃ : ١٠١) ” عنقریب ہم انہیں دو بار عذاب دیں گے، پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ “ تیسری یہ آیت جو یہاں زیر تفسیر ہے۔- عذاب قبر سے متعلق صحیح بخاری میں مذکور احادیث میں سے چند یہاں درج کی جتای ہیں۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان العبد اذا وضع فی قبرہ وتولی عنہ اضحابہ و انہ لیسمع فرع نعالھم اتاہ ملکان فیقعد انہ فیقولان ماکنت تقول فی ھذا الرجل لمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ فاما المومن فیقول اشھد انہ عبداللہ و رسولہ فیقال لہ انظر الی مقعدک من النار، قد ابدلک اللہ بہ مقعداً من الجنۃ ، فیر ا ھما جمیعاً ، قال قتادہ و ذکر لنا انہ یفسح لہ فی قبرہ ثم رجع الی حدیث انس قال و اما المنافق والکافر فیقال لہ ما کنت نقول فی ھذا الرجل ؟ فیقول لا اذری کنت اقول مایقول الناس فیقال لا ذریت ولا تلیث و یضرب بمطارق من خدید صربۃ فیصیح صیحۃ یسمعھا من یدرہ غیر التعلمین ) (بخاری، الحنائر، باب و ما جاء فی عذاب القبر :1383)” آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے واپس لوٹتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس وہ فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں :” تو اس آدمی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟ “ جو مومن ہے وہ کہتا ہے :” میں شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ “ تو اس سے کہا اجتا ہے :” آگ میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں تجھے جنت میں ٹھکانا دے دیا ہے۔ “ تو اسے وہ دونوں ٹھکانے اکٹھے دکھائیج اتے ہیں۔ قتادہ نے کہا ” ہمیں بتایا گیا کہ پھر اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ “ پھر قتادہ نے انس (رض) سے مروی حدیث آگے بیان فرمائی :” اور جو منافق یا کافر ہے، اس سے کہا جاتا ہے :” تو اس آدمی کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟ “ و کہتا ہے :” میں نہیں جانتا، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ “ تو اس سے کہا جاتا ہے :” نہ تو نے جانا اور نہ کسی کے پیچھے چلا۔ “ پھر اسے لوو ہے کے ہتھوڑوں سے ایک ایسی ضرب ماری جاتی ہے، جس سے وہ ایسی چیخ مارتا ہے جسے انسانوں اور جنوں کے سوا اس کے آس پاس کے سب سنتے ہیں۔ “- ابو ایوب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورج غروب ہونے کے بعد باہر نکلے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آواز سنی، تو فرمایا (یھود تعذب فی قبورھا) (بخاری، الجنائر، باب التعوذ من عذاب القبر :1385) ’ یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔ “ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا :(انھما لیعذبان، وما یعذبان فی کبیر ، ثم قال بلی، اما اخدھما فکان یسعی بالنمعمۃ واما اخدھما فکان لایستبرمن بولہ) (بخاری، الجنائر، باب عذاب القبر من الغیۃ والیول :1368)” بلا شبہ یقیناً ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ “ پھر آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں (وہ واقعی بڑی ہیں) ان میں جو ایک ہے وہ چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیا کرتے تھے (اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر، ومن عذاب النار، ومن فتنۃ المحیا والممات، ومن فتنہ المسیح الدجال) (بخاری، الجنائر، باب التعوذ من عذاب القبر :1388)” اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّ آ وَيَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ آل فرعون کی روحیں سیاہ پرندوں کی شکل میں ہر روز صبح اور شام دو مرتبہ جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں اور جہنم کو دکھلا کر ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا ٹھکانہ یہ ہے۔ (اخرجہ عبدالرزاق وابن ابی حاتم، مظہری)- اور صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو عالم برزخ میں صبح و شام اس کو وہ مقام دکھلایا جاتا ہے جہاں قیامت کے حساب کے بعد اس کو پہنچنا ہے اور یہ مقام دکھلا کر روزانہ اس سے کہا جاتا ہے کہ تجھے آخر کار یہاں پہنچنا ہے۔ اگر یہ شخص اہل جنت میں سے ہے تو اس کا مقام جنت اس کو دکھلایا جائے گا اور اہل جہنم میں سے ہے تو اس کا مقام جہنم اس کو دکھلایا جائے گا۔- عذاب قبر :- یہ آیت دلیل ہے عذاب قبر کی اور حدیث کی روایات متواترہ اور اجماع امت اس پر شاہد ہیں، جن کو احقر نے ایک مستقل رسالہ بنام السیر بعذاب القبر میں جمع کردیا ہے۔ مع آیات متعلقہ کے یہ رسالہ احکام القرآن حزب سادس کا جز ہو کر بزبان عربی شائع ہوگیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْہَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا۝ ٠ وَيَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَۃُ۝ ٠ ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۝ ٤٦- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - غدا - الْغُدْوَةُ والغَدَاةُ من أول النهار، وقوبل في القرآن الغُدُوُّ بالآصال، نحو قوله : بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ- [ الأعراف 205] ، وقوبل الغَدَاةُ بالعشيّ ، قال : بِالْغَداةِ وَالْعَشِيِ [ الأنعام 52] ، غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] - ( غ د و ) الغدوۃ - والغداۃ کے معنی دن کا ابتدائی حصہ کے ہیں قرآن میں غدو ( غدوۃ کی جمع ) کے مقابلہ میں اصال استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : ۔ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] صبح وشام ( یا د کرتے رہو ) ( غدو ( مصدر ) رواح کے مقابلہ میں ) جیسے فرمایا : ۔ غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] اس کا صبح کا جانا ایک مہینہ کی راہ ہوتی ہے اور شام کا جانا بھی ایک مہینے کی ۔- عشا - العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، - ( ع ش ی ) العشی - زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔- العشاء - ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قیامت سے پہلے بھی عذاب ہے - قول باری ہے (النار یعرضون علیھا غدوا وعشیا۔ وہ لوگ صبح وشام آگ پر پیش کیے جاتے ہیں) یہ آیت عذاب قبر پر دلات کرتی ہے کیونکہ قول باری ہے (ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا ال فرعون اشد العذاب۔ اور جس روز قیامت قائم ہوگی (یہ کہا جائے گا) اہل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو) یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت زیر بحث میں وہ عذاب مراد ہے جو قیامت سے پہلے انہیں دیا جائے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

فرعون والے فرعون سمیت دوزخ میں قیامت تک دوزخ کے سامنے صبح و شامل لائے جاتے رہیں گے۔ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو سخت ترین دوزخ کے عذاب میں داخل کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا ” آگ ہے جس پر وہ پیش کیے جاتے ہیں صبح وشام۔ “- یہ قرآن مجید کی دوسری آیت ہے جس سے عذاب قبر سے متعلق دلیل ملتی ہے (نیز ملاحظہ ہو : سورة الفرقان کی آیت ٦٩ کی تشریح۔ )- وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُقف اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ ” اور جس دن قیامت قائم ہوگی (اُس دن کہہ دیا جائے گا کہ) داخل کر دو فرعون کی قوم کو شدید ترین عذاب میں۔ “- اس آیت کے مفہوم کے مطابق آلِ فرعون کو شدید ترین عذاب میں تو قیام قیامت کے بعد داخل کیا جائے گا ‘ لیکن اس سے پہلے قبر کی زندگی کے دوران صبح وشام انہیں آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔ - ۔ عذابِ قبر کے حوالے سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودات بہت واضح ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (اِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ اَوْ حُفْرَۃٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ ) (١) ” قبریا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا “۔ منکرین حدیث البتہ عذاب قبر کی نفی کرتے ہیں۔ در اصل قبر کا معاملہ ایک دوسرے جہان کا معاملہ ہے جو عالم غیب ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ قبر سے مراد وہ مخصوص گڑھا نہیں جہاں میت کو دفن کیا جاتا ہے ‘ بلکہ اس سے مراد عالم برزخ ہے۔ سورة المُطفِّفِین میں عالم برزخ کی دو کیفیات عِلِّیِیْناور سِجِّیْنکا ذکر ملتا ہے۔ اس عالم میں انسان نیم شعوری کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی خوش قسمت ” عِلِّیِیْن “ میں ہے تو وہاں جنت کی کھڑکی کھلی ہوتی ہے اور وہ جنت کی ٹھنڈی ہوائوں کے مزے لے رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ” سِجِّیْن “ میں جہنم کی کھڑکی میں سے آگ کی لپٹ آرہی ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :63 یہ آیت اس عذاب برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذاب قبر کے عنوان سے آیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرما رہا ہے ، ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آل فرعون کو اب دیا جا رہا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انہیں صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے وہ دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے ۔ اس کے بعد جب قیامت آ جائے گی تو انہیں وہ اصلی اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے ، یعنی وہ اسی دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انہیں غرقاب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا ۔ اور یہ معاملہ صرف فرعون و آل فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے ۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے کر قیامت تک وہ انجام بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے ، اور تمام نیک لوگوں کو اس انجام نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے ۔ بخاری ، مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان احدکم اذا مات عرض علیہ مقعدہ بالغداۃ و العشی ، ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ ، وان کان من اھل النار فمن اھل النار ، فیقال ھٰذا مقعدک حتیٰ یبعثک اللہ عزوجل الیہ یوم القیٰمۃ تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے ، خواہ وہ جنتی ہو یا دوزخی ۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اٹھا کر اپنے حضور بلائے گا ۔ ( مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القران جلد اول ، صفحہ 386 ۔ جلد دوم ، ص 150 ۔ 535 تا 538 ۔ جلد سوم ، ص 299 ۔ 300 ۔ جلد چہارم ، سورہ یٰسٓ ، حاشیہ 22 ۔ 23 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: انسان کے مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے انسان کی روح جس عالم میں رہتی ہے، اسے عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو عالم برزخ میں دوزخ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا ٹھکانا یہ ہے۔