Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دوزخیوں کیلئے ایک اور عذب ۔ جہنمی لوگ جہنم کے اور عذابوں کو برداشت کرتے ہوئے ایک اور عذاب کے بھی شکار ہوں گے جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے ۔ یہ عذاب فرعون کو بھی ہو گا اور دوسرے دوزخیوں کو بھی یعنی آپس میں تھوکنا تذلیل اور لڑائی جھگڑے ۔ چھوٹے بڑوں سے یعنی تابعداری کرنے اور حکم احکام کے ماننے والے جن کی بڑائی اور بزرگی کے قائل تھے اور جن کی باتیں تسلیم کیا کرتے تھے اور جن کے کہے ہوئے پر عامل تھے ان سے کہیں گے ۔ کہ دنیا میں ہم تو آپ کے تابع فرمان رہے ۔ جو آپ نے کہا ہم بجا لاتے ۔ کفر اور گمراہی کے احکام بھی جو آپ کی بارگاہ سے صادر ہوئے آپ کے تقدس اور علم و فضل سرداری اور حکومت کی بنا پر ہم سب کو مانتے رہے ، اب یہاں آپ ہمیں کچھ تو کام آئے ۔ ہمارے عذابوں کا ہی کوئی حصہ اپنے اوپر اٹھا لیجئے ، یہ رؤسا اور امرا سادات اور بزرگ جواب دیں گے کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ جل بھن رہے ہیں ۔ ہمیں جو عذاب ہو رہے ہیں وہ کیا کم ہیں جو ہم تمہارے عذاب اٹھائیں؟ اللہ کا حکم جاری ہو چکا ہے ۔ رب فیصلے صادر فرما چکا ہے ۔ ہر ایک کو اس کے بداعمال کے مطابق سزا دے چکا ہے ۔ اب اس میں کمی ناممکن ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ہر ایک کیلئے بڑھا چڑھا عذاب گو تم نہ سمجھو ۔ جب اہل دوزخ سمجھ لیں گے کہ اللہ ان کی دعا قبول نہیں فرما رہا بلکہ کان بھی نہیں لگاتا ۔ بلکہ انہیں ڈانٹ دیا ہے اور فرما چکا ہے کہ یہیں پڑے رہو اور مجھ سے کلام بھی نہ کرو تو وہ جہنم کے داروغوں سے کہیں گے ۔ جو وہاں کے ایسے ہی پاسبان ہیں جیسے دنیا کے جیل خانوں کے نگہبان داروغے اور محافظ سپاہ ہوتے ہیں ۔ ان سے کہیں گے کہ تم ہی ذرا اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ کسی ایک دن ہی وہ ہمارے عذاب ہلکے کر دے ، وہ انہیں جواب دیں گے کہ کیا رسولوں کی زبانی احکام ربانی دنیا میں تمہیں پہنچے نہ تھے؟ یہ کہیں گے ہاں پہنچے تھے ۔ تو فرشتے کہیں گے پھر اب تم آپ ہی اللہ سے کہہ سن لو ۔ ہم تو تمہاری طرف سے کوئی عرض اس کی جناب میں کر نہیں سکتے ۔ بلکہ ہم خود تم سے بیزار اور تمہارے دشمن ہیں سنو ہم تمہیں کہہ دیتے ہیں کہ خواہ تم دعا کرو خواہ تمہارے لئے اور کوئی دعا کرے ناممکن ہے کہ تمہارے عذابوں میں کمی ہو ۔ کافروں کی دعا نامقبول اور مردود ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦١] مطیع اور مطاع کا مکالمہ :۔ بڑا بننے والوں سے مرادہر وہ شخص ہے جس کا اپنا حلقہ اثر ہو اور اس حلقہ میں اس کی بات تسلیم کی جاتی ہو۔ یہ گاؤں کے چودھری بھی ہوسکتے ہیں۔ حکمران بھی اور سرکاری درباری حضرات اور حکومت کے افسر بھی، سیاسی لیڈر بھی اور علمائے کرام اور مشائخ عظام بھی۔ جب ایسے بڑے حضرات بھی جہنم پر جا پہنچیں گے تو ان کے تابعدار ان سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہاری اطاعت کرتے رہے۔ آج جو ہمیں عذاب ہو رہا ہے اس کا کچھ حصہ تو اپنے ذمہ لو اور ہمارا بوجھ بٹاؤ اور وہ یہ بات انہیں اس لئے نہیں کہیں گے کہ وہ فی الواقع کچھ بوجھ بٹا سکتے ہیں۔ اس بات کی انہیں خوب سمجھ آچکی ہوگی کہ آج بےبسی میں دونوں فریق ایک جیسے ہیں بلکہ وہ یہ بات انہیں ذلیل کرنے کی خاطر کہیں گے اور اس لئے بھی کہ وہ اپنے اندر کی جلن کو کچھ ہلکا کرسکیں اور دل کے پھپھولے پھوڑ سکیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) واذ یتخآجون فی النار فیقول الصعفوآ…: فرعون اور آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے چلنے والوں کا انجام آگ اور قیامت کے دن ” اشد العذاب “ بیان فرمانے کے بعد بتایا کہ صرف فرعون ہی نہیں، ہر متکبر اور اس کے اندھا دھند پیرو کار جہنم میں جائیں (ایک دوسرے سے جھگڑیں گے) کے لفظ سے ظاہر ہے کہ کمزور لوگوں کا بڑا بننے والوں سے کہنا :(انا کنا لکم تبعاً فھل انتم معنون عنا نصیباً من النار) (کہ ہم دنیا میں تمہارے تابع تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹاؤ گے ؟ ) ان سے آگ ہٹانے کی درخواست کے لئے نہیں ہوگا، بلکہ انہیں ذلیل کرنے کے لئے اور اپنے دل کا ابال نکالنے کے لئے ہوگا۔ ان بڑے بننے والوں کے پاس بھی یہ کہنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ ہم خود آگ میں ہیں، تمہارے کس کام آسکتے ہیں ؟ اس پر وہ ایک دوسرے کو لعنت کریں گے، مگر کسی کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جھگڑے کا کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٦٦) ، ١٦٧) ، سورة ابراہیم (٢١، ٢٢) ، سورة اعراف (٣٨، ٣٩) اور سورة سبا (٣١ تا ٣٣) ۔- (٢) ان اللہ قد حکم بین العباد : یعنی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نازل ہوچکا، اب تم اپنی سزا بھگتو ہم اپنی بھگت رہے ہیں، اس عذاب میں کمی بیشی ہمارے بس میں نہیں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (وہ وقت بھی پیش نظر رکھنے کے قابل ہے) جبکہ کفار دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو ادنیٰ درجہ کے لوگ (یعنی تابعین) بڑے درجہ کے لوگوں سے (یعنی متبوعین سے جن کا وہ دنیا میں اتباع کیا کرتے تھے) کہیں گے کہ ہم (دنیا میں) تمہارے تابع تھے کیا تم ہم سے آگ کا کوئی جز ہٹا سکتے ہو (یعنی جب دنیا میں تم نے ہمیں اپنا تابع اور پیرو بنا رکھا تھا تو آج تمہیں ہماری مدد کرنا چاہئے) وہ بڑے لوگ کہیں گے کہ ہم سب ہی دوزخ میں ہیں (یعنی ہم اپنا ہی عذاب کم نہیں کرسکتے تو تمہارا کیا کریں گے) اللہ تعالیٰ (اپنے) بندوں کے درمیان (قطعی) فیصلہ کرچکا (اب اس کے خلاف کرنے کی کس کو مجال ہے) اور (اس کے بعد) جتنے لوگ دوزخ میں ہوں گے (یعنی بڑے اور چھوٹے تابع اور متبوع سب مل کر) جہنم کے موکل فرشتوں سے (درخواست کے طور پر) کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ کسی دن تو ہم سے عذاب ہلکا کر دے (یعنی عذاب کے بالکل ہٹ جانے یا ہمیشہ کے لئے کم ہوجانے کی امید تو نہیں، کم از کم ایک روز کی تو کچھ چھٹی مل جایا کرے) فرشتے کہیں گے کہ (یہ بتلاؤ) کیا تمہارے پاس تمہارے پیغمبر معجزات لے کر نہیں آتے رہے (اور دوزخ سے بچنے کا نہیں بتلاتے رہے تھے) دوزخی کہیں گے ہاں آتے تو رہے تھے (مگر ہم نے ان کا کہنا نہ مانا (آیت) بلی قدجاءنا نذیر فکذبنا) فرشتے کہیں گے کہ تو پھر (ہم تمہارے لئے دعا نہیں کرسکتے کیونکہ کافروں کے لئے دعا کرنے کی ہم کو اجازت نہیں ہے) تم ہی (اگر جی چاہے تو خود) دعا کرلو، اور (تمہاری دعا کا بھی کچھ نتیجہ نہ ہوگا کیونکہ) کافروں کی دعا (آخرت میں) محض بےاثر ہے (کیونکہ آخرت میں کوئی دعا بغیر ایمان کے قبول نہیں ہو سکتی اور ایمان کا موقع دنیا ہی میں تھا وہ تم کھو چکے اور یہ جو کہا کہ ” آخرت میں “ اس سے فائدہ یہ ہے کہ دنیا میں تو کافروں کی دعا بھی قبول ہو سکتی ہے، جیسا کہ سب سے بڑا کافر ابلیس کی سب سے بڑی دعا قیامت تک زندہ رہنے کی قبول کرلی گئی) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ يَتَـحَاۗجُّوْنَ فِي النَّارِ فَيَقُوْلُ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَہَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِيْبًا مِّنَ النَّارِ۝ ٤٧- حاجَّة- والمُحاجَّة : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر :- يحجّ مأمومة في قعرها لجف - الحاجۃ ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - ضعف - والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل :- الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66]- ( ض ع ف ) الضعف - اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ - الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - نَّصِيبُ :- الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53]- ( ن ص ب ) نصیب - و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جب دوزخ میں کافر سردار اور ان کے پیرو ایک دوسرے سے جھگڑیں گے اور ادنی درجے کے لوگ ان سرداروں سے جو کہ ایمان لانے سے تکبر کرتے تھے کہیں گے کہ ہم دنیا میں تمہارے طریقے پر چلتے تھے تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹا سکتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ وَاِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا ” اور جب وہ آگ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ بڑے بننے والوں سے کہیں گے “- اِنَّا کُنَّا لَـکُمْ تَبَعًا فَہَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ ” ہم تو تمہاری پیروی کرتے تھے ‘ تو کیا تم لوگ ہم سے آگ کے عذاب کا کوئی حصہ کم کروا سکتے ہو ؟ “- دنیا میں تو تمہارا ہر جگہ حکم چلتا تھا۔ تو اگر یہاں پر بھی تمہارا کچھ اختیار ہے تو ہمارے عذاب میں کچھ کمی کروا دو ۔ آخر ہم تمہاری پیروی کر کے ہی اس حال کو پہنچے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :64 یہ بات وہ اس امید پر نہیں کہیں گے کہ ہمارے یہ سابق پیشوا یا حاکم یا رہنما فی الواقع ہمیں عذاب سے بچا سکیں گے یا اس میں کچھ کمی کرا دیں گے ۔ اس وقت تو ان پر یہ حقیقت کھل چکی ہو گی کہ یہ لوگ یہاں ہمارے کسی کام آنے والے نہیں ہیں ۔ مگر وہ انہیں ذلیل کرنے کے لیے ان سے کہیں گے کہ دنیا میں تو حضور بڑے طنطنے سے اپنی سرداری ہم پر چلاتے تھے ، اب یہاں اس آفت سے بھی تو ہمیں بچایئے جو آپ ہی کی بدولت ہم پر آئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani