Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی وہ لوگ جو بغیر آسمانی دلیل کے بحث و حجت کرتے ہیں، یہ محض تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، تاہم اس سے جو ان کا مقصد ہے کہ حق کمزور اور باطل مضبوط ہو وہ ان کو حاصل نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٣] اللہ کی آیات سے مراد :۔ آیات الٰہی سے مرادیہاں دلائل توحید اور دلائل بعث بعد الموت ہیں۔ کیونکہ انہی دو باتوں میں کفار مکہ زیادہ تر تکرار کرتے تھے اور فضول قسم کی بحث اور استہزاء کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل تو ہے نہیں جس کی بنیاد پر وہ مدلل بحث کرسکیں بلکہ ان کے جھگڑا کی اصل وجہ ان کا تکبر ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے رسول کی بات مان لی تو پھر ہمیں اس کا مطیع بن کر رہنا پڑے گا۔ اور یہی پندار نفس ان کے ایمان لانے میں آڑے آرہا ہے۔ مگر جس بڑا بنے رہنے کی انہیں فکر دامنگیر ہے وہ بڑائی ان کے پاس رہ نہیں سکتی۔ کیونکہ عزت اور ذلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والا کبھی عزت نہیں پاسکتا۔ جس بلند مقام پر وہ آپنے آپ کو کھڑا سمجھ رہے ہیں لازماً انہیں اس مقام سے نیچے اترنا اور ذلیل ہونا پڑے گا۔- [٧٤] یعنی ان جھگڑا کرنے والے متکبرین کے شر سے بچنے کے لئے اللہ سے پناہ مانگتے رہیے۔ جو ان کی ہر ایک سازش اور ہر ایک شرارت کو دیکھ بھی رہا ہے اور ان کی باتوں کو سن بھی رہا ہے۔ پھر انہیں سزا دینے اور ان کے شر سے آپ کو بچانے کی پوری قدرت بھی رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ان الذین یجادلون فی ایت اللہ …: اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو ٹھکرانے کے لئے جھگڑتے اور کج بحثی کرتے ہیں اس کا سبب یہ نہیں کہ ان آیات کو سمجھنا کچھ مشکل ہے، یا ان کے مضامین (توحید، قیامت اور رسالت وغیرہ) کے لئے بیان کردہ دلائلکم یا کمزور ہیں، بلکہ اس کا باعث ان لوگوں کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور اپنے مقام سے بہت اونچا بننے کی خواہش و کوشش ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی رسول پر ایمان لا کر اس کے تابع فرمان ہونا انہیں گوارا ہے۔ چناچہ وہ اپنی جھوٹی بڑائی برقرار رکھنے کے لئے رسول کو جھٹلاتے ہیں، حق کا انکار کرتے ہیں، مسلمانوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور انہیں نیچا دکھانے کے لئے ہر ذلیل سے ذلیل حربہ اختیار کرتے ہیں۔- (٢) ماھم ببالغیہ :” بائ “ کے ساتھ ” ما “ نافیہ کی تاکید ہو رہی ہے، اس لئے ترجمہ کیا گیا ہے ” جس تک وہ ہرگز پہنچنے والے نہیں۔ “ یعنی ان جھوٹے اور حقیر لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں اپنے لئے جو بڑائی سوچ رکھی ہے وہ انہیں ہرگز میسر نہیں ہو سکے گی اور نہ ہی وہ کسی صورت اس مقام تک پہنچنے والے ہیں۔- (٣) فاستعذ باللہ : یعنی جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی طرف سے قتل کی دھمکی پر ہر متکبر سے رب تعالیٰ کی پناہ مانگی، جو یوم حساب پر ایمان نہ رکھتا ہو، اسی طرح آپ بھی ایسے تمام متکبروں اور ان کی ظاہری مخالفت اور پوشیدہ سازشوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں۔- (٤) ان ھو السمیع البصیر : وہی ہے جو ہر بلند اور آہستہ آہستہ بات کو سنتا اور ہر ظاہر اور پوشیدہ کو دیکھتا ہے۔ وہی آپ کو ہرق سم کے نقصان سے بچا سکتا ہے اور بچائے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اِنْ فِيْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِيْهِ ۔ یعنی یہ لوگ جو اللہ کی آیات میں بغیر کسی حجت و دلیل کے جدال کرتے ہیں، اور مقصد دراصل اس دین سے انکار کرنا ہے جس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے دلوں میں تکبر ہے۔ یہ اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور اپنی بےوقوفی سے یوں سمجھے ہوئے ہیں کہ یہ بڑائی ہمیں اپنے مذہب پر قائم رہنے سے حاصل ہے، اس کو چھوڑ کر مسلمان ہوجائیں گے تو ہماری یہ ریاست و اقتدا نہ رہے گا۔ قرآن کریم نے فرما دیا کہ مّا هُمْ بِبَالِغِيْهِ یعنی وہ اپنی مزعومہ بڑائی عظمت اور ریاست کو اسلام لائے بغیر نہ پاسکیں گے۔ البتہ اسلام لے آئے تو عزت و عظمت ان کے ساتھ ہوتی۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللہِ بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىہُمْ۝ ٠ ۙ اِنْ فِيْ صُدُوْرِہِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا ہُمْ بِبَالِغِيْہِ۝ ٠ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۝ ٥٦- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔- كَبِيرَةُ ، گناه، مشكل - والْكَبِيرَةُ متعارفة في كلّ ذنب تعظم عقوبته، والجمع : الْكَبَائِرُ. قال : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم 32] ، وقال : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء 31] قيل : أريد به الشّرک لقوله : إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] . وقیل : هي الشّرک وسائر المعاصي الموبقة، کالزّنا وقتل النّفس المحرّمة، ولذلک قال : إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219] . وتستعمل الکبيرة فيما يشقّ ويصعب نحو :- وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة 45] ، وقال : كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری 13] ، وقال : وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام 35] ، وقوله : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف 5] ففيه تنبيه علی عظم ذلک من بين الذّنوب وعظم عقوبته . ولذلک قال : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف 3] ، وقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11] إشارة إلى من أوقع حدیث الإفك . وتنبيها أنّ كلّ من سنّ سنّة قبیحة يصير مقتدی به فذنبه أكبر . وقوله : إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر 56] ، أي تكبّر . وقیل : أمر كَبِيرٌ من السّنّ ، کقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11] - الکبیرۃ ۔ عرف میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کی سزا بڑی سخت ہو ۔ اس کی جمع الکبائر آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم 32] جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اور آیت ؛ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو ۔ میں بعض نے کہا ہے ۔ کہ کبائر سے مراد شرک ہے ۔ کیونکہ دوسری آیت ۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ؛میں شرک کو ظلم عظیم کہا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہ ے کہ کبائر کا لفظ ۔ شر ک اور تمام مہلک گناہوں کو شامل ہے ۔ جیسے زنا اور کسی جان کا ناحق قتل کرنا جیسا کہ فرمایا :إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے ۔ قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ۔ مگر ان کے نقصان فاہدوں سے زیادہ ہیں ۔ اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو ۔ چناچہ فرمایا : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری 13] جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے ۔ وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام 35] اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت کریمہ : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف 5]( یہ ) بڑی بات ہے ۔ میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف 3] خدا اس بات سے سخت بیزار ہے ۔ اور آیت : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11] اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ۔ میں تولی کبرہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا ۔ اور آیت :إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر 56]( ارادہ ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں ۔ میں بکر کے معنی بھی تکبر ہی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے ۔ اور یہ کبر بمعنی پیرا نہ سالی سے ماخوذ ہے جیسا کہ آیت ۔: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11]- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال :- عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جو لوگ بلا کسی سند کے جو اللہ کی جانب سے ان کے پاس موجود ہو یعنی یہودی رسول اکرم اور قرآن کریم کے بارے میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں۔- اور یہ لوگ رسول اکرم سے دجال کی صفت اور اس بات پر کہ میں خروج دجال کے وقت پھر ان لوگوں کو سلطنت دوں گا اس میں بھی مباحثہ کیا کرتے تھے ان کے دلوں میں صرف اللہ سے برائی ہی برائی ہے اور وہ اس بڑائی تک کبھی نہیں پہنچ سکتے کہ خروج دجال کے وقت پھر ان کو بادشاہت ملے تو آپ دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے رہیں۔ وہ ان یہودیوں کی باتوں کو سننے والا اور ان کو اور ان کے اعمال کو اور خروج دجال اور اس کے فتنہ کو جاننے والا ہے۔- شان نزول : اِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ (الخ)- ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے کہ یہودی رسول اکرم کی خدمت میں آئے اور دجال کا ذکر کیا اور کہنے لگے وہ آخری زمانہ میں ہوگا اور اس کی حالت کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور کہنے لگے کہ وہ ایسا ایسا کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دجال کے فتنہ سے پناہ مانگنے کا حکم دیا اور فرمایا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا دجال کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے اور کعب احبار سے اس آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ آیات خداوندی سے جھگڑنے والے یہ یہودی ہیں یہ دجال کے نکلنے کے منتظر تھے اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰٹہُمْ ” یقینا وہ لوگ جو اللہ کی آیات میں جھگڑے ڈالتے ہیں بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو “- اِنْ فِیْ صُدُوْرِہِمْ اِلَّا کِبْرٌ مَّا ہُمْ بِبَالِغِیْہِ ” نہیں ہے ان کے دلوں میں کچھ ‘ مگر تکبر جس تک وہ پہنچنے والے نہیں ہیں۔ “- ان کے دلوں میں صرف بڑائی کی خواہش ہے ‘ جو کبھی پوری نہیں ہوگی۔- فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ” پس آپ اللہ کی پناہ طلب کیجیے ‘ یقینا وہ سب کچھ سننے والا ‘ ہرچیز کو دیکھنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :75 یعنی ان لوگوں کی بے دلیل مخالفت اور ان کی غیر معقول کج بحثیوں کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کی آیات میں جو سچائیاں اور خیر و صلاح کی باتیں ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتیں اس لیے یہ نیک نیتی کے ساتھ ان کو سمجھنے کی خاطر بحثیں کرتے ہیں ، بلکہ ان کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا غرور نفس یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ان کے ہوتے عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشوائی و رہنمائی تسلیم کر لی جائے اور بالآخر ایک روز انہیں خود بھی اس شخص کی قیادت ماننی پڑے جس کے مقابلے میں یہ اپنے آپ کو سرداری کا زیادہ حقدار سمجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کسی طرح نہ چلنے پائے ، اور اس مقصد کے لیے انہیں کوئی ذلیل سے ذلیل حربہ استعمال کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :76 دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ جس کو اللہ نے بڑا بنایا ہے وہی بڑا بن کر رہے گا ، اور یہ چھوٹے لوگ اپنی بڑائی قائم رکھنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں وہ سب آخر کار ناکام ہو جائیں گی ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :77 یعنی جس طرح فرعون کی دھمکیوں کے مقابلے میں اللہ واحد قہار کی پناہ مانگ کر موسیٰ بے فکر ہو گئے تھے ، اسی طرح سرداران قریش کی دھمکیوں اور سازشوں کے مقابلے میں تم بھی اس کی پناہ لے لو اور پھر بے فکر ہو کر اس کا کلمہ بلند کرنے میں لگ جاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16 یعنی ان کو اپنے بارے میں جو گھمنڈ ہے کہ ہم کوئی بہت اونچے درجے پر فائز ہیں، یہ سراسر غلط ہے، نہ وہ اس وقت کسی بڑے مرتبے پر ہیں، اور نہ کبھی ایسے کسی مرتبے پر پہنچ پائیں گے۔