[٧٧] جہاں عقل کی حد ختم ہوجائے وہاں سے وحی کا آغاز ہوتا ہے اور وحی کی بنیاد یقینی علم پر ہے :۔ اس آیت میں بڑے زور دار الفاظ میں انسان کو اللہ تعالیٰ متنبہ فرما رہے ہیں کہ قیامت کے آنے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ آکے رہے گی کسی کے روکنے یا نہ چاہنے سے رک نہیں سکتی۔ عقلی دلائل کا ماحصل تو یہی ہوسکتا تھا کہ فلاں چیز کا ہونا ممکن ہے یا ہونا چاہئے لیکن عقل یہ حکم نہیں لگا سکتی کہ فلاں چیز یقیناً واقع ہو کے رہے گی۔ یہ بس وحی الٰہی کا کام ہے جو کائنات کے خالق اور اس کے آغاز اور انجام سے پوری طرح واقف ہے۔ ضمناً اس سے یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ دین کی بنیاد محض قیاس و استدلال پر نہیں رکھی گئی بلکہ اس کی بنیاد وحی الٰہی یا یقینی علم پر رکھی گئی ہے۔
(١) ان الساعۃ لاتیۃ لاریب فیھا، وہ بات جو اس سے پہلی وہ آیات میں دلیلوں کے ساتھ بیان فرمائی۔ اب نہایت صریح الفاظ میں ” ان “ اور ” لام “ کی تاکید کے ساتھ بیان فرمائی ۔ ان دونوں لفظوں کا اکٹھا آنا اہل عرب کے ہاں تاکید کی قوت میں قسم کے برابر ہے۔ پھیل آیات میں قیامت کے حق ہونے کی دلیلیں ذکر فرمائیں، اب کائنات کے خلالق ومالک نے قسم کھا کر فرمایا آنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قسمک ھا کر یہ بات کہنا بجائے خود دلیل ہے اور سب سے بڑی دلیل ہے۔- (٢) ولکن اکثر الناس لایومنون : اور لیکن اکثر لوگ اتنی واضح اور سچی بات ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ اسے ماننے کے بعد انہیں اپنی سرکش خواہشوں اور لذتوں کو ترک کر نا پڑتا ہے، جس کے لئے وہ تیار نہیں ہیں۔ مزید دیکھیے سورة قیامہ (٥) ۔
اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِيَۃٌ لَّا رَيْبَ فِيْہَا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ ٥٩- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔
قرآن کی اکثر باتوں پر غور نہیں کرتے قیامت تو بالآخر قائم ہو کر رہے گی اس کے آنے میں تو کسی قسم کا شک ہی نہیں مگر مکہ والے قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے۔
آیت ٥٩ اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْہَاز وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ ” ( اور دیکھو ) یقینا قیامت آکر رہے گی اس میں کوئی شک نہیں ہے ‘ لیکن اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں۔ “
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :81 یہ وقوع آخرت کا قطعی حکم ہے جو استدلال کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف علم ہی کی بنا پر لگایا جا سکتا ہے ، اور کلام وحی کے سوا کسی دوسرے کلام میں یہ بات اس قطعیت کے ساتھ بیان نہیں ہو سکتی ۔ وحی کے بغیر محض عقلی استدلال سے جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ بس اسی قدر ہے کہ آخرت ہو سکتی ہے ، اور اس کو ہونا چاہیے ۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنا کہ آخرت یقیناً ہو گی اور ہو کر رہے گی ، یہ صرف اس ہستی کے کہنے کی بات ہے جسے معلوم ہے کہ آخرت ہو گی ، اور وہ ہستی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قیاس و استدلال کے بجائے خالص علم پر دین کی بنیاد اگر قائم ہو سکتی ہے تو وہ صرف وحی الہیٰ کے ذریعہ ہی سے ہو سکتی ہے ۔