Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دعا کی ہدایت اور قبولیت کا وعدہ ۔ اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ کے اس احسان پر قربان جائیں کہ وہ ہمیں دعا کی ہدایت کرتا ہے اور قبولیت کا وعدہ فرماتا ہے ۔ امام سفیان ثوری اپنی دعاؤں میں فرمایا کرتے تھے اے وہ اللہ جسے وہ بندہ بہت ہی پیارا لگتا ہے جو بکثرت اس سے دعائیں کیا کرے ۔ اور وہ بندہ اسے سخت برا معلوم ہوتا ہے جو اس سے دعا نہ کرے ۔ اے میرے رب یہ صفت تو صرف تیری ہی ہے ۔ شاعر کہتا ہے اللہ یغضب ان ترکت سوالہ وبنی ادم حین یسال یغضب یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ جب تو اس سے نہ مانگے تو وہ ناخوش ہوتا ہے اور انسان کی یہ حالت ہے کہ اس سے مانگو تو وہ روٹھ جاتا ہے ۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں اس امت کو تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں کہ ان سے پہلے کی کسی امت کو نہیں دی گئیں بجز نبی کے ۔ دیکھو ہر نبی کو اللہ کا فرمان یہ ہوا ہے کہ تو اپنی امت پر گواہ ہے ۔ لیکن تمام لوگوں پر گواہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کیا ہے ۔ اگلے نبیوں سے کہا جاتا تھا کہ تجھ پر دین میں حرج نہیں ۔ لیکن اس امت سے فرمایا گیا کہ تمہارے دین میں تم پر کوئی حرج نہیں ہر نبی سے کہا جاتا تھا کہ مجھے پکار میں تیری پکار قبول کروں گا لیکن اس امت کو فرمایا گیا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار قبول فرماؤں گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) ابو یعلی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا چار خصلتیں ہیں جن میں سے ایک میرے لئے ہے ایک تیرے لئے ایک تیرے اور میرے درمیان اور ایک تیرے درمیان اور میرے دوسرے بندوں کے درمیان ۔ جو خاص میرے لئے ہے وہ تو یہ کہ صرف میری ہی عبادت کر اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر ۔ اور جو تیرا حق مجھ پر ہے وہ یہ کہ تیرے ہر عمل خیر کا بھرپور بدلہ میں تجھے دوں گا ۔ اور جو تیرے میرے درمیان ہے وہ یہ کہ تو دعا کر اور میں قبول کیا کروں ۔ اور چوتھی خصلت جو تیرے اور میرے اور دوسرے بندوں کے درمیان ہے وہ یہ کہ تو ان کیلئے وہ چاہ جو اپنے لئے پسند رکھتا ہے ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دعا عین عبادت ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی یہ حدیث سنن میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ ابن حبان اور حاکم بھی اسے اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔ مسند میں ہے جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے ۔ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری کی موت کے بعد ان کی تلوار کے درمیان میں سے ایک پرچہ نکلا جس میں تحریر تھا کہ تم اپنے رب کی رحمتوں کے مواقع کو تلاش کرتے رہو بہت ممکن ہے کہ کسی ایسے وقت تم دعائے خیر کرو کہ اس وقت رب کی رحمت جوش میں ہو اور تمہیں وہ سعادت مل جائے جس کے بعد کبھی بھی حسرت و افسوس نہ کرنا پڑے ۔ آیت میں عبادت سے مراد دعا اور توحید ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن متکبر لوگ چونٹیوں کی شکل میں جمع کئے جائیں گے ۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ان کی اوپر ہوگی انہیں بولس نامی جہنم کے جیل خانے میں ڈالا جائے گا اور بھڑکتی ہوئی سخت آگ ان کے سروں پر شعلے مارے گی ۔ انہیں جہنمیوں کا لہو پیپ اور پاخانہ پیشاب پلایا جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ایک بزرگ فرماتے ہیں میں ملک روم میں کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو گیا تھا ایک دن میں نے سنا کہ ہاتف غیب ایک پہاڑ کی چوٹی سے بہ آواز بلند کہہ رہا ہے ۔ اے اللہ اس پر تعجب ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے تیرے سوا دوسرے کی ذات سے امیدیں وابستہ رکھتا ہے ۔ اے اللہ اس پر بھی تعجب ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے اپنی حاجتیں دوسروں کے پاس لے جاتا ہے ۔ پھر ذرا ٹھہر کر ایک پر زور آواز اور لگائی اور کہا پورا تعجب اس شخص پر ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے دوسرے کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے وہ کام کرتا ہے جن سے تو ناراض ہو جائے ۔ یہ سن کر میں نے بلند آواز سے پوچھا کہ تو کوئی جن ہے یا انسان؟ جواب آیا کہ انسان ہوں ۔ تو ان کاموں سے اپنا دھیان ہٹا لے جو تجھے فائدہ نہ دیں ۔ اور ان کاموں میں مشغول ہو جاؤ جو تیرے فائدے کے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 گزشتہ آیت میں جب اللہ نے وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا تو اب اس آیت میں ایسی راہنمائی دی جا رہی ہے، جسے اختیار کر کے انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو سکے، اس آیت میں دعا سے اکثر مفسرین نے عبادت مراد لی ہے یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ جیسا کہ حدیث میں میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا، بعض کہتے ہیں کہ دعا سے مراد دعا ہی ہے۔ یعنی اللہ سے جلب نفع اور دفع ضرر کا سوال کرنا، کیونکہ دعا کے شرعی اور حقیقی معنی طلب کرنے کے ہیں، دوسرے مفہوم میں اس کا استعمال مجازی ہے۔ علاوہ ازیں دعا بھی اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے اور حدیث مذکورہ کی رو سے بھی عبادت ہے کیونکہ مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو حاجت روائی کے لئے پکارنا اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔ 60۔ 2 یہ اللہ کی عبادت سے انکار و اعراض یا اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنے والوں کا انجام ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٨] دعا اور عبادت ایک ہی چیز ہے بلکہ دعا عبادت کا مغز ہے۔ اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دعا یا کسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا اور عبادت ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس آیت کے پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے پکارا کرو میں تمہاری پکار کو قبول کرتا ہوں اور دوسرے جملہ میں فرمایا کہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں۔ جو اس آیت پر واضح دلیل ہے کہ دعا اور عبادت ایک ہی چیز ہے پھر اس مفہوم کی تائید احادیث صحیحہ سے بھی ہوجاتی ہے۔ آپ نے فرمایا : (الدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادَۃُ ) (یعنی پکارنا ہی اصل عبادت ہے) اور ایک مرتبہ یوں فرمایا : (الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃ) (یعنی دعا ہی عبادت کا مغز یا اصل عبادت ہے) (ترمذی، ابو اب التفسیر زیر آیت ہذا)- خ دعا عبادت کیسے ہے ؟ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ دعا عبادت کیسے ہے ؟ دعا کرنے والا دعا اس وقت کرتا ہے جب کسی چیز کے حصول یا کسی مصیبت کے دفعیہ کے ظاہری اسباب مفقود ہوں۔ اور جس کو پکارتا ہے وہ یہ سمجھ کر پکارتا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہے میری پکار کو سن رہا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ اس کا باطنی اسباب پر اتنا تصرف ضرور ہے کہ وہ میری تکلیف کو رفع کرسکتا ہے یا میری حاجت پوری کرسکتا ہے۔ گویا پکاری جانے والی ہستی کا ایک تو عالم الغیب نیز سمیع وبصیر ہونا ضروری ہوا۔ اور یہ صفت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی۔ دوسرے جب تک اسباب کائنات میں اس کا تصرف تسلیم نہ کیا جائے اس سے دعا کرنا ایک فعل عبث قرار پاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کو کسی دوسری ہستی میں تسلیم کرنا اسے اللہ کا ہمسر یا شریک سمجھنا ہے اور یہی چیز عین شرک ہے۔ اور جس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی دوسری ہستی کو الوہیت کا یہ مقام دے دیا تو وہ اس کے مقابلہ میں از خود بندگی کے مقام پر اتر آیا گویا پکاری جانے والی ہستی اس کی معبود بن گئی اور یہ پکارنے والا عبادت گزار اور اس کی پکار عین عبادت ہوئی۔- خ اللہ مانگنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے اور یہی عبادت کا خاصہ ہے : واضح رہے کہ انسان اللہ سے دعا کرتا ہے اور وہ کبھی قبول ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی، کبھی بہت مدت بعد جا کر ہوتی ہے تو اس کے کچھ آداب ہیں اور کچھ اسباب ہیں اور کچھ موانع ہیں۔ جن کی تفصیل احادیث میں مذکور ہے۔ یہاں صرف یہ بات ذہن نشین کرانا مطلوب ہے کہ دعا قبول نہ بھی ہو تو بھی اس کا بہت فائدہ ہے۔ کیونکہ دعا بذات خود عبادت ہے۔ اور جتنی دیر اس نے دعا مانگنے میں لگائی وہ مدت گویا اس نے عبادت ہی میں گزار دی۔ لہذا ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم اللہ سے دعا مانگتے رہیں۔ مانگتے رہیں۔ اس کا قبول کرنا نہ کرنا، یا بدیر قبول کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تابع ہے۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ سے مانگنا اور مانگتے رہنا عین تقاضائے بندگی ہے۔ اور جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا تو یہ بات عبادت سے انکار یا تکبر کی علامت ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ مانگنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے اور یہ سب مفہوم عبادت کے لفظ میں شامل ہیں۔- [٧٩] یہ ان کے تکبر کی سزا ہوگی۔ قیامت کے دن خوب جوتے کھائیں گے اور ذلت اور رسوائی کے ساتھ جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وقال ربکم ادعونی استجب لکم …: آخرت کی یاد دہانی کیساتھ ہی توحید کی تاکید فرمائی، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار کے درمیان جھگڑے کی سب سیب ڑی وجہ تھی۔ آیت کے آخر میں جہنم کے ذکر ک صورت میں آخرت کا تذکرہ بھی فرما دیا۔- (٢) ”’ عا “ کا واحد حق دار ہونے کی دلیل کے طور پر اپنا تعارف ” ربکم “ (تمہارا رب) کے لفظ کے ساتھ کروایا کہ ” اعونی “ (مجھے پکارو ) کا حکم تمہیں وہ دے رہا ہے جو ہر لمحے کسی کی شرکت کیب غیر تمہاری پرورش کر رہا ہے اور تمہاری ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔- (٣) تمہارے رب نے فرمایا : تم مجھے پکارو ، مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، میں تمہیں دوں گا۔ نہ مجھ سے بدگمان ہو ، نہ کسی اور کو پکارتے یا اس سے مانگتے پھرو، یہ سمجھ کر کہ وہ تمہیں کچھ دے گا، یا تمہاری درخواستیں میرے دربار سے منظور کروا دے گا۔- (٤) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، مگر دوسری جگہ قبولیت کے وعدے کے ساتھ کچھ شرطیں بھی ذکر فرمائیں، فرمایا :(واذا سالک عبادی عنی فانی قریب، اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلین تجیب وا لی ولیومنوا بی لعلھم یرشدون) (البقرہ : ١٨٦) ” اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضاحت فرمائی کہ دعا تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں ضرور قبول ہوتی ہے، یا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا جلد قبول کرل یتا ہے، یا آخرت میں اس کا ذخیرہ کرلیتا ہے، یا اس سے اتنی برائی ٹال دیتا ہے۔ (دیکھیے مسند احمد : ٣-١٨، ح : ١١٣٩، صحیح ) دعا کی قبولیت کی شرطوں اور صورتوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورة بقرہ (186) کی تفسیر - 5 ۔ ان الذین یستکبرون عن عبادتی : یہ جملہ دلیل ہے کہ دعا ہی عبادت اور پکارنا ہی بندگی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور اس سے فریاد کرتا ہے وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور جو مافوق الاسباب اشیاء کے لیے اس کے سوا کسی اور کو پکارتا ہے، یعنی ” یا علی مدد “ کہتا ہے، یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ کہتا ہے، بہاؤالحق یا کسی خود ساختہ داتا، دستگیر گنج بخش یا غریب نواز کو پکارتا ہے اور ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کی درخواست کرتا ہے، درحقیقت وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، جو اس کے ہاں ناقابل معافی ہے۔ یہ کہنا کہ ہم ان بزرگ ہستیوں کو صرف پکارتے ہیں، ان کی عبادت نہیں کرتے، سراسر دھوکا ہے، جو مشرک اپنے آپ کو اور اللہ کے بندوں کو دے رہے ہیں، کیونکہ پکارنا ہی تو عبادت ہے۔ نعمان بن بشیر (رض) نے اللہ تعالیٰ کے فرمان وقال ربکم ادعونی استجب لکم کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : الدعاء مخ العبادۃ، پکارنا ہی بندگی ہے۔ اور آپ نے یہ آیت پڑھی وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ (ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة البقرۃ : 2969، وقال الالبانی صحیح)- 6 ۔ ان الذین یستکبرون عن عبادتی : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کے منکروں کے جھگڑے اور کج بحثی کا سبب بیان فرمایا تھا کہ وہ محض ان کے دلوں کا کبر اور جھوٹی بڑائی ہے جو انہیں کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اب فرمایا کہ جو لوگ اس کبر میں مبتلا ہیں، میری آیات اور میرے رسولوں پر ایمان نہیں لاتے اور مجھ سے دعا نہیں کرتے وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ دنیا میں وہ جس قدر اونچے بنتے تھے قیامت کے دن اتنے ہی ذلیل و حقیر ہوں گے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا، نہ مانگننا غرور ہے۔ اگر دنیا نہ مانگے تو مغفرت ہی مانگے۔ (موضح)- عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یحشر المتکبرون یوم القیامۃ امثال الدر فی صور الرجال یغشاہم الذل من کل مکان فیساقون الی سجن فی جہنم یسمع بولس تعلوھم نار الانیار یسقون من عصارۃ اھل النار طینۃ الخبار۔ (ترمذی، صفۃ القیامۃ ولرقائق، باب ماجاء فی شدۃ الوعید للمتکبرین : 2492، وقال البانی حسن) تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانک رہی ہوگی، پھر انہیں جہنم میں ایک قید خانے کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا، جس کا نام ” بولس “ ہے۔ ان پر آگوں کی آگ چڑھ رہی ہوگی، انہیں جہنمیوں کے جسموں سے نکلنے والا لہو اور پیپ پلائی جائے گی۔ - اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے کہ اس سے مانگا جائے، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انہ من لم یسال اللہ یغضب علیہ (ترمذی، الدعوات، باب منہ : 3373، وحسنہ الالبانی) جو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غصے ہوجاتا ہے، کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے - اللہ یغضب ان ترکت سوالہ وتری ابن ادم حین یسال یغضب - اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اگر تو اس سے مانگنا چھوڑ دے اور تو ابن آدم کو دیکھے گا کہ جب اس سے مانگا جائے تو غصے ہوتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ- دعا کی حقیقت اور اس کے فضائل و درجات اور شرط قبولیت :- دعا کے لفظی معنے پکارنے کے ہیں اور اکثر استعمال کسی حاجت و ضرورت کے لئے پکارنے میں ہوتا ہے۔ کبھی مطلق ذکر اللہ کو بھی دعا کہا جاتا ہے۔ یہ آیت امت محمدیہ کا خاص اعزاز ہے کہ ان کو دعا مانگنے کا حکم دیا گیا۔ اور اس کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا۔ اور جو دعا نہ مانگے اس کے لئے عذاب کی وعید آئی ہے۔- حضرت قتادہ نے کعب احبار سے نقل کیا ہے کہ پہلے زمانے میں یہ خصوصیت انبیاء کی تھی، کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعا کریں میں قبول کروں گا۔ امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم تمام امت کے لئے عام کردیا گیا۔ (ابن کثیر)- حضرت نعمان بن بشیر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان الدعاء ھو العبادة۔ یعنی دعا عبادت ہی ہے اور پھر آپ نے استدلال میں یہ آیت فرمائی۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ - (رواہ الامام احمد والترمذی و النسائی و ابوداؤد وغیرہ۔ ابن کثیر)- تفسیر مظہر میں ہے کہ جملہ ان الدعا ھو العبادة میں بقاعدہ عربیت (قصر المسند علی المسند الیہ) یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ دعا عبادت ہی کا نام ہے یعنی ہر دعا عبادت ہی ہے اور (قصر المسند الیہ علی المسند کے طور پر) یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ہر عبادت ہی دعا ہے۔ یہاں دونوں احتمال ہیں۔ اور مراد یہاں یہ ہے کہ دعا اور عبادت اگرچہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے دونوں جدا جدا ہیں مگر مصداق کے اعتبار سے دونوں متحد ہیں کہ ہر دعا عبادت ہے اور ہر عبادت دعا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عبادت نام ہے کسی کے سامنے انتہائی تذلل اختیار کرنے کا اور ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو کسی کا محتاج سمجھ کر اس کے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا بڑا تذلل ہے جو مفہوم عبادت کا ہے۔ اسی طرح ہر عبادت کا حاصل بھی اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور جنت اور دنیا اور آخرت کی عافیت مانگنا ہے۔ اسی لئے ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص میری حمد و ثنا میں اتنا مشغول ہو کہ اپنی حاجت مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے ہیں اس کو مانگنے والوں سے زیادہ دوں گا۔ (یعنی اس کی حاجت پوری کر دوں گا) (رواہ اجزری فی النہایہ) اور ترمذی و مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :۔ من شغلہ القرآن عن ذکری ومسئلتی اعطیتہ افضل ما اعطی السائلین۔ یعنی جو شخص تلاوت قرآن میں اتنا مشغول ہو کہ مجھ سے اپنی حاجات مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے تو میں اس کو اتنا دوں گا کہ مانگنے والوں کو بھی اتنا نہیں ملتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر عبادت بھی وہی فائدہ دیتی ہے جو دعا کا فائدہ ہے۔- اور عرفات کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عرفات میں میری دعا اور مجھ سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی دعا (یہ کلمہ ہے) لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شئی قدیر۔ (رواہ ابن ابی شیبہ۔ مظہری)- اس میں عبادت اور ذکر اللہ کو دعا فرمایا ہے، اور اس آیت میں عبادت بمعنے دعا کے ترک کرنے والوں کو جو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے وہ بصورت استکبار ہے یعنی جو شخص بطور استکبار کے اپنے آپ کو دعا سے مستغنی سمجھ کر دعا چھوڑے یہ علامت کفر کی ہے۔ اس لئے وعید جہنم کا استحقاق ہوا۔ ورنہ فی نفسہ عام دعائیں فرض و واجب نہیں، ان کے ترک سے کوئی گناہ نہیں۔ البتہ باجماع علماء مستحب اور افضل ہے۔ (مظہری) اور حسب تصریح احادیث موجب برکات ہے۔- فضائل دعا :- حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز مکرم نہیں۔ (ترمذی۔ ابن ماجہ حاکم عن ابی ہریرة)- حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الدعاء مخ العبادة یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی عن انس)- حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ سوال اور حاجت طلبی کو پسند کرتا ہے اور سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ سختی کے وقت آدمی فراخی کا انتظار کرے۔ (ترمذی عن ابن مسعود)- حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اپنی حاجت کا سوال نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کا اس پر غضب ہوتا ہے۔ (ترمذی۔ ابن حبان۔ حاکم)- ان سب روایات کو تفسیر مظہری میں نقل کر کے فرمایا کہ دعا نہ مانگنے والے پر غضب الٰہی کی وعید اس صورت میں ہے کہ نہ مانگنا تکبر اور اپنے آپ کو مستغنی سمجھنے کی بنا پر ہو جیسا کہ آیت مذکورہ ان الذین یستکبرون کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔- حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دعا سے عاجز نہ ہو کیونکہ دعا کے ساتھ کوئی ہلاک نہیں ہوتا۔ (ابن حبان۔ حاکم عن انس )- حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ (حاکم فی المستدرک عن ابی ہریرة)- حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے لئے دعا کے دروازے کھول دیئے گئے اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا اس سے زیادہ محبوب نہیں مانگی گئی کہ انسان اس سے عافیت کا سوال کرے۔ (ترمذی۔ حاکم عن ابن عمر) لفظ عافیت بڑا جامع لفظ ہے، جس میں بلا سے حفاظت اور ہر ضرورت و حاجت کا پورا ہونا داخل ہے۔- مسئلہ :- کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا مانگنا حرام ہے وہ دعا اللہ کے نزدیک قبول بھی نہیں ہوتی۔ (کما فی الحدیث عن ابی سعید الخدری)- قبولیت دعا کا وعدہ :- آیت مذکورہ میں اس کا وعدہ ہے کہ جو بندہ اللہ سے دعا مانگتا ہے وہ قبول ہوتی ہے مگر بعض اوقات انسان یہ بھی دیکھتا ہے کہ دعا مانگی وہ قبول نہیں ہوئی۔ اس کا جواب ایک حدیث میں ہے جو حضرت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان جو بھی دعا اللہ سے کرتا ہے اللہ اس کو عطا فرماتا ہے۔ بشرطیکہ اس میں کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، اور قبول فرمانے کی تین صورتوں میں سے کوئی صورت ہوتی ہے ایک یہ کہ جو مانگا وہی مل گیا، دوسرے یہ کہ اس کی مطلوب چیز کے بدلے اس کو آخرت کا کوئی اجر وثواب دے دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ مانگی ہوئی چیز تو نہ ملی مگر کوئی آفت و مصیبت اس پر آنے والی تھی وہ ٹل گئی۔ (مسند احمد۔ مظہری)- قبولیت دعا کی شرائط :- آیت مذکورہ میں تو بظاہر کوئی شرط نہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان ہونا بھی قبولیت دعا کی شرط نہیں ہے۔ کافر کی دعا بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ ابلیس کی دعا تا قیامت زندہ رہنے کی قبول ہوگئی۔ نہ دعا کے لئے کوئی وقت شرط نہ طہارت اور نہ باوضو ہونا شرط ہے۔ مگر احادیث معتبرہ میں بعض چیزوں کو موانع قبولیت فرمایا ہے۔ ان چیزوں سے اجتناب لازم ہے جیسا کہ حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بعض آدمی بہت سفر کرتے اور آسمان کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یا رب یا رب کہہ کر اپنی حاجت مانگتے ہیں مگر ان کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، ان کو حرام ہی سے غذا دی گئی تو ان کی دعا کہاں قبول ہوگی۔ (رواہ مسلم)- اسی طرح غفلت و بےپروائی کے ساتھ بغیر دھیان دیئے دعا کے کلمات پڑھیں تو حدیث میں اس کے متعلق بھی آیا ہے کہ ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ (ترمذی عن ابی ہریرة)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَ۝ ٦٠ۧ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] .- ( ج و ب ) الجوب - الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - دخر - قال تعالی: وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل 48] ، أي : أذلّاء، يقال : أدخرته فَدَخَرَ ، أي :- أذللته فذلّ ، وعلی ذلک قوله : إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر 60] ، وقوله : يَدَّخِرُ أصله : يذتخر، ولیس من هذا الباب .- ( د خ ر ) الدخور - والد خور ۔ ( ف ) س ) کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اسے ذلیل کیا تو وہ ذلیں ہوگیا قرآن میں ہے وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل 48] اور وہ ذلیل ہوکر إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر 60] جو لوگ میری عبادت سے از راہ تکبر کنیا تے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے ۔ اور یدخر اصل میں یذ تخر تھا ( پہلے تاء کو دال سے تبدیل کیا پھر ذال کو دال کو دال میں ادغام کرکے یدخر بنالیا اور یہ اس باب ( د خ ر ) سے نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

دعا ہی عبادت ہے - قول باری ہے (وقال ربکم ادعونی استجب لکم۔ اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا) سفیان ثوری نے اعمش اور منصور سے انہوں نے سبیع الکندی سے اور انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان الدعاء ھوالعبادۃ دعا ہی عبادت ہے) پھر آپ نے درج بالا آیت تلاوت فرمائی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ میری توحید کے قائل ہوجاؤ میں تمہاری مغفرت کروں گا یا یہ کہ مجھے پکارو میں تمہاری ہر درخواست قبول کروں گا۔- جو لوگ میری توحید و عبادت سے انکار کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ” اور تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو ‘ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ “- ابتدا میں بتایا گیا تھا کہ اس سورت کا مرکزی مضمون دعا ہے۔ چناچہ نوٹ کیجیے یہاں پھر فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تم میرے بندے ہو تو مجھ سے مانگو انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس سے مانگا جائے تو اس پر گراں گزرتا ہے ‘ جبکہ اللہ سے اگر نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہے۔ گویا عطائے خداوندی خود سائلوں کی تلاش میں رہتی ہے ع ” ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں “ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ رات کے پچھلے پہر اللہ تعالیٰ سمائے دنیا تک نزول فرماتے ہیں اور ایک ندا ہوتی ہے : ھَلْ مِنْ سَائِلٍ فَاُعْطِیَہُ ، ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاَغْفِرَلَـہٗ ، ھَلْ مِنْ تَائِبٍ فَاَتُوْبَ عَلَیْہِ ، ھَلْ مِنْ دَاعٍ فَاُجِیْبَہٗ (١) ” ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اسے عطا کروں ؟ ہے کوئی گناہوں کی معافی مانگنے والا کہ میں اسے معاف کروں ؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں ؟ ہے کوئی پکارنے والا کہ میں اس کی پکار قبول کروں ؟ “- اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ ” یقینا وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کی بنا پر اعراض کرتے ہیں وہ داخل ہوں گے جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر۔ “- قبل ازیں عبادت اور دعا کے لازم و ملزوم ہونے کے بارے میں گفتگو ہوچکی ہے اور اس حدیث کا ذکر بھی ہوچکا ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دعا ہی اصل عبادت ہے۔ چناچہ اس آیت میں یہ نکتہ مزید واضح ہوگیا ہے۔ یہاں پر پہلے دعا کا ذکر کیا گیا ہے (ادْعُوْنِیْٓ ) اور پھر اسی کے لیے عبادت کا لفظ لایا گیا ہے۔ گویا اس آیت میں دعا اور عبادت مترادف الفاظ کے طور پر آئے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :82 آخرت کے بعد اب توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے جو کفار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان دوسری بنائے نزاع تھی ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :83 یعنی دعائیں قبول کرنے اور نہ کرنے کے جملہ اختیارات میرے پاس ہیں ، لہٰذا تم دوسروں سے دعائیں نہ مانگو بلکہ مجھ سے مانگو ۔ اس آیت کی روح کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے تین باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں : اول یہ کہ دعا آدمی صرف اس ہستی سے مانگتا ہے جس کو وہ سمیع و بصیر اور فوق الفطری اقتدار ( ) کا مالک سمجھتا ہے ، اور دعا مانگنے کا محرک دراصل آدمی کا یہ اندرونی احساس ہوتا ہے کہ عالم اسباب کے تحت فطری ذرائع و وسائل اس کی کسی تکلیف کو رفع کرنے یا کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں یا کافی ثابت نہیں ہو رہے ہیں ، اس لیے کسی فوق الفطری اقتدار کی مالک ہستی سے رجوع کرنا ناگزیر ہے ۔ بآواز بلند ہی نہیں ، چپکے چپکے بھی پکارتا ہے ، بلکہ دل ہی دل میں اس سے مدد کی التجائیں کرتا ہے ۔ یہ سب کچھ لازماً اس عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ہستی اس کو ہر جگہ ہر حال میں دیکھ رہی ہے ۔ اس کے دل کی بات بھی سن رہی ہے ۔ اور اس کو ایسی قدرت مطلقہ حاصل ہے کہ اسے پکارنے والا جہاں بھی ہو وہ اس کی مدد کو پہنچ سکتی ہے اور اس کی بگڑی بنا سکتی ہے ۔ دعا کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ سمجھنا آدمی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کو مدد کے لیے پکارتا ہے وہ در حقیقت قطعی اور خالص اور صریح شرک کا ارتکاب کرتا ہے ، کیونکہ وہ اس ہستی کے اندر ان صفات کا اعتقاد رکھتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں ۔ اگر وہ اس کو ان خدائی صفات میں اللہ کا شریک نہ سمجھتا تو اس سے دعا مانگنے کا تصور تک کبھی اس کے ذہن میں نہ آ سکتا تھا ۔ دوسری بات جو اس سلسلے میں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ کسی ہستی کے متعلق آدمی کا اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ وہ اختیارات کی مالک ہے ، اس سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ وہ فی الواقع مالک اختیارات ہو جائے ۔ مالک اختیارات ہونا تو ایک امر واقعی ہے جو کسی کے سمجھنے یا نہ سمجھنے پر موقوف نہیں ہے ۔ جو در حقیقت اختیارات کا مالک ہے وہ بہرحال مالک ہی رہے گا ، خواہ آپ اسے مالک سمجھیں یا نہ سمجھیں ۔ اور جو حقیقت میں مالک نہیں ہے ، اس کو محض یہ بات کہ آپ نے اسے مالک سمجھ لیا ہے ، اختیارات میں ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہ دلوا سکے گی ۔ اب یہ بات ایک امر واقعی ہے کہ قادر مطلق اور مدبر کائنات اور سمیع و بصیر ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور وہی کلی طور پر اختیارات کا مالک ہے ۔ دوسری کوئی ہستی بھی اس پوری کائنات میں ایسی نہیں ہے جو دعائیں سننے اور ان پر قبولیت یا عدم قبولیت کی صورت میں کوئی کارروائی کرنے کے اختیارات رکھتی ہو ۔ اس امر واقعی کے خلاف اگر لوگ اپنی جگہ کچھ انبیاء اور اولیاء اور فرشتوں اور جِنوں اور سیاروں اور فرضی دیوتاؤں کو اختیارات میں شریک سمجھ بیٹھیں تو اس سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق رو نما نہ ہو گا ۔ مالک مالک ہی رہے گا اور بے اختیار بندے ، بندے ہی رہیں گے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دعا مانگنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوان حکومت کی طرف جائے مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں انہی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کر دے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ حضور ہی سب کچھ ہیں ، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے ، میری مراد آپ ہی بر لائیں گے تو بر آئے گی ۔ یہ حرکت اول تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے جبکہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو اور عین اس کی موجودگی میں اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جا رہی ہوں ۔ پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اس وقت پہنچ جاتی ہے جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جا رہی ہو خود بار بار اس کو سمجھائے کہ میں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں ، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے ، اصل حاکم سامنے موجود ہیں ، تو ان کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر ، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ میرے سرکار تو آپ ہیں ، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا ۔ ان تین باتوں کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ مجھے پکارو ، تمہاری دعاؤں کا جواب دینے والا میں ہوں ، انہیں قبول کرنا میرا کام ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :84 اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں ۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دعائیں عبادت اور جان عبادت ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے ، اور اس سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اس لیے اپنے خالق و مالک کے آگے اعتراف عبودیت کرنے سے کتراتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرما دیا ہے ۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان الدعاء ھو العبادۃ ثم قرأ ادعونی استجب لکم ۔ ..... یعنی دعا عین عبادت ہے ، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ( احمد ، ترمذی ، ابو داؤد و ، نسائی ، ابن ماجہ ، بن ابی حتم ، ابن جریر ) ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الدعاء مخ العبادۃ ، دعا مغز عبادت ہے ( ترمذی ) ۔ حضرت ابوہریرہ فرمانے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا من لم یسأل اللہ یغضب علیہ ، جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے ۔ ( ترمذی ) اس مقام پر پہنچ کر وہ عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر الجھن ڈالتا رہتا ہے ۔ لوگ دعا کے معاملے پر اس طرح سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنی غالب حکمت و مصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کر چکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہو کر رہنا ہے تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے ۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے ، اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی ۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتی ہے ۔ اولاً ، اللہ تعالیٰ بالفاظ صریح فرما رہا ہے کہ مجھے پکارو ، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح معاذاللہ ، خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہو گئے ہوں ۔ بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے ، مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے ۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئ ہے وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو ، بہرحال ایک فائدے اور بہت بڑے فائدے سے وہ کسی صورت میں بھی خالی نہیں ہوتی ، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کر کے اور اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی و بالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے ۔ یہ اظہار عبودیت بجائے خود عبادت ، بلکہ جان عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا قطع نظر اس سے کہ وہ خاص چیز اس کو عطا کی جائے یا نہ کی جائے جس کے لیے اس نے دعا کی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ان دونوں مضامین کی بھی پوری وضاحت ہمیں مل جاتی ہے ۔ پہلے مضمون پر حسب ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں : حضرت سلمان فارسی کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا یرد القضاءَ الا الدعاء ( ترمذی ) ۔ قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر دعا ۔ یعنی اللہ کے فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے ، مگر اللہ خود اپنا فیصلہ بدل سکتا ہے ، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ما من احد یدعو بدعاءٍ الّا اٰتاہ اللہ ما سأل او کف عنہ من السوء مثلہ مالم یدع باثمٍ او قطیعۃ رحمٍ ( ترمذی ) ۔ آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے ، اللہ اسے یا تو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسری حدیث میں ہے جو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۔ اس میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ ما من مسلم یدعو بدعوۃٍ لیس فیھا اثم ولا قطیعۃ رحمٍ الا اعطاہ اللہ احدیٰ ثلٰث ، اما ان یعجل لہ دعوتہ ، و اما ان یَدَّخِرھا لہ فی الاٰخرۃ واما ان یصرف عنہ من السوء مثلھا ( مسند احمد ) ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے ، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو ، تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے ۔ یا تو اس کی وہ دعا اسی دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے ۔ یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے ۔ یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا دعا احدکم فلا یقل اللھم اغفرلی ان شئت ، ارحمنی ان شئت ، ارزقنی ان شئت ، وَلْیَعْزِم مسئلتہ ( بخاری ) ۔ جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو یوں نہ کہے کہ خدایا مجھے بخش دے اگر تو چاہے ، مجھ پر رحم کر اگر تو چاہے ، مجھے رزق دے اگر تو چاہے ، بلکہ اسے قطعیت کے ساتھ کہنا چاہیے کہ خدایا میری فلاں حاجت پوری کر ۔ دوسری روایت حضرت ابو ہریرہ ہی سے ان الفاظ میں آئی ہے کہ آپ نے فرمایا ادعوا اللہ وانتم موقنون بالاجابۃ ( ترمذی ) اللہ سے دعا مانگو اس یقین کے ساتھ کہ وہ قبول فرمائے گا ۔ ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ : یستجاب للعبد مالم یدعُ باثم او قطیعۃ رحم مالم یستعجل ، قیل یا رسول اللہ ما الاستعجال؟ قال یقول قد دعوت وقد دعوت فلم اَرَ یُستجاب لی فیستحسر عند ذٰلک ویدع الدعاء ( مسلم ) ۔ بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ، اور جلد بازی سے کام نہ لے ۔ عرض کیا گیا جلد بازی کیا ہے یا رسول اللہ؟ فرمایا جلد بازی یہ ہے کہ آدمی کہے میں نے بہت دعا کی ، مگر میں دیکھتا ہوں کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی ، اور یہ کہہ کر آدمی تھک جائے اور دعا مانگنی چھوڑ دے ۔ دوسرے مضمون کو حسب ذیل احادیث واضح کرتی ہیں : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیس شئ اکرم علی اللہ من الدعاء ( ترمذی ۔ ابن ماجہ ) اللہ کی نگاہ میں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز با وقعت نہیں ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سلوا اللہ من فضلہ فان اللہ یحبّ ان یسأل ( ترمذی ) ۔ اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے کہ اس سے مانگا جائے ۔ حضرت ابن عمر اور حضرت مُعاذ بن جَبَل کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان الدعاء ینفع ممّا نزل و ممّا لم ینزل فعلیکم عباد اللہ بالدعاء ( ترمذی ۔ مسند احمد ) دعا بہرحال نافع ہے ان بلاؤں کے معاملے میں بھی جو نازل ہو چکی ہیں اور انکے معاملے میں بھی جو نازل نہیں ہوئیں ۔ پس اے بندگان خدا تم ضرور دعا مانگا کرو ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یسأل احدکم ربہ حاجتہ کلّہ حتیٰ یسأل شسع نعلہ اذا انقطع ( ترمذی ) تم میں سے ہر شخص کو اپنی حاجت خدا سے مانگنی چاہیے ، حتیٰ کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا سے دعا کرے ۔ یعنی جو معاملات بظاہر آدمی کو اپنے اختیار میں محسوس ہوتے ہیں ان میں بھی تدبیر کرنے سے پہلے اسے خدا سے مدد مانگنی چاہیے ، اس لیے کہ کسی معاملے میں بھی ہماری کوئی تدبیر خدا کی توفیق و تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی ، اور تدبیر سے پہلے دعا کے معنی یہ ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنی عاجزی اور خدا کی بالا دستی کا اعتراف کر رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani