Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

احسانات و انعامات کا تذکرہ ۔ اللہ تعالیٰ احسان بیان فرماتا ہے کہ اس نے رات کو سکون و راحت کی چیز بنائی ۔ اور دن کو روشن چمکیلا تاکہ ہر شخص کو اپنے کام کاج میں ، سفر میں ، طلب معاش میں سہولت ہو ۔ اور دن بھر کا کسل اور تھکان رات کے سکون و آرام سے اتر جائے ۔ مخلوق پر اللہ تعالیٰ بڑے ہی فضل و کرم کرنے والا ہے ۔ لیکن اکثر لوگ رب کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ۔ ان چیزوں کو پیدا کرنے والا اور یہ راحت و آرام کے سامان مہیا کر دینے والا ہی اللہ واحد ہے ۔ جو تمام چیزوں کا خالق ہے ۔ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، نہ اس کے سوا اور کوئی مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے ۔ پھر تم کیوں اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہو؟ جو خود مخلوق ہیں ۔ کسی چیز کو انہوں نے پیدا نہیں کیا ۔ بلکہ جن بتوں کی تم پرستش کر رہے ہو وہ تو خود تمہارے اپنے ہاتھوں کے گھڑے ہوئے ہیں ، ان سے پہلے کے مشرکین بھی اسی طرح بہکے اور بےدلیل و حجت غیر اللہ کی عبادت کرنے لگے ۔ خواہش نفسانی کو سامنے رکھ کر اللہ کے دلائل کی تکذیب کی ۔ اور جہالت کو آگے رکھ کر بہکتے بھٹکتے رہے اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لئے قرار گاہ بنایا ۔ یعنی ٹھہری ہوئی اور فرش کی طرح بچھی ہوئی کہ اس پر تم اپنی زندگی گزارو چلو پھر آؤ جاؤ ۔ پہاڑوں کو اس پر گاڑ کر اسے ٹھہرا دیا کہ اب ہل جل نہیں سکتی ۔ اس نے آسمان کو چھت بنایا جو ہر طرح محفوظ ہے ۔ اسی نے تمہیں بہترین صورتوں میں پیدا کیا ۔ ہر جوڑ ٹھیک ٹھاک اور نظر فریب بنایا ۔ موزوں قامت مناسب اعضا سڈول بدن خوبصورت چہرہ عطا فرمایا ۔ نفیس اور بہتر چیزیں کھانے پینے کو دیں ۔ پیدا کیا ، بسایا ، اس نے کھلایا پلایا ، اس نے پہنایا اوڑھایا ۔ پس صحیح معنی میں خالق و رازق وہی رب العالمین ہے ۔ جیسے سورہ بقرہ میں فرمایا ۔ ۔ الخ ، یعنی لوگو اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے اگلو کو پیدا کیا تاکہ تم بچو ۔ اسی نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے بارش نازل فرما کر اس کی وجہ سے زمین سے پھل نکال کر تمہیں روزیاں دیں پس تم ان باتوں کے جاننے کے باوجود اللہ کے شریک اوروں کو نہ بناؤ ۔ یہاں بھی اپنی یہ صفتیں بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ یہی اللہ تمہارا رب ہے ۔ اور سارے جہان کا رب بھی وہی ہے ۔ وہ بابرکت ہے ۔ وہ بلندی پاکیزگی برتری اور بزرگی والا ہے ، وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ۔ وہ زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں ۔ وہی اول و آخر ظاہر و باطن ہے ۔ اس کا کوئی وصف کسی دوسرے میں نہیں ۔ اس کا نظیر یا برابر کوئی نہیں ۔ تمہیں چاہئے کہ اس کی توحید کو مانتے ہوئے اس سے دعائیں کرتے رہو ، اور اس کی عبادت میں مشغول رہو ۔ تمام تر تعریفوں کا مالک اللہ رب العالمین ہی ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں اہل علم کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والے کو ساتھ ہی الحمد للہ رب العالمین بھی پڑھنا چاہئے تاکہ اس آیت پر عمل ہو جائے ۔ ابن عباس سے بھی یہ مرودی ہے حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہی جب تک فادعو اللہ مخلصین لہ الدین پڑھے تو لا الہ الا اللہ کہہ لیا کر اور اس کے ساتھ ہی الحمد للہ رب العالمین پڑھ لیا کر ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ہر نماز کے سلام کے بعد ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک والہ الحمد وھو علی کل شی قدیر ) پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کلمات کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے ۔ ( مسلم ابو داؤد ، نسائی )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 یعنی رات کو تاریک بنایا، تاکہ کاروبار زندگی معطل ہوجائیں اور لوگ امن اور سکون سے سو سکیں۔ 61۔ 2 یعنی روشن بنایا تاکہ معاشی محنت اور تگ و دو میں تکلیف نہ ہو۔ 61۔ 2 اللہ کی نعمتوں کا اور نہ ان کا اعتراف ہی کرتے ہیں یا تو کفر وجحود کی وجہ سے جیسا کہ کافروں کا شیوہ ہے یا منعم کے واجبات شکر سے اہمام و غفلت کی وجہ سے جیسا کہ جاہلوں کا شعار ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] ہر جاندار میں کام اور آرام کا خود کار نظام :۔ رات کو نہ سورج کی گرمی ستاتی ہے اور نہ ہی سورج جیسی تیز روشنی ہوتی ہے۔ تاریکی اور مناسب حد تک ٹھنڈک یہ دونوں باتیں نیند اور آرام کرنے کے لئے ساز گار ہیں۔ اور دن کو کام کاج کے لئے روشن بنایا کہ اس میں کسی مصنوعی روشنی کے بغیر ہی کام چل سکتا ہے۔ رات اور دن کو اللہ تعالیٰ نے دلیل توحید کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دن اور رات سورج کے اور زمین کے درمیان ایک انتہائی باقاعدہ نظام کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سورج اور اس زمین کا خالق، مالک اور ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی ایک ہی ہوسکتی ہے۔ اگر ان سیاروں کے مالک الگ الگ دیوتا ہوتے جیسا کہ مشرکوں کا خیال ہے تو یہ دن رات کا نظام کبھی باقاعدگی کے ساتھ چل نہیں سکتا تھا۔ پھر اسی رات اور دن کے نظام میں اور رات کو آرام کرنے اور دن کو کام کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حیران کن عجائبات ہیں۔ دن کو کام کرتے وقت انسان کے بیشمار خلیے ضائع اور تباہ ہوتے رہتے ہیں۔ رات کو جب انسان آرام کرتا ہے تو نیند کی حالت میں ان ضائع شدہ خلیوں کی جگہ دوسرے نئے خلیے پیدا ہوجاتے ہیں۔ اور جب یہ کام ٹھیک طور پر مکمل ہوچکتا ہے تو انسان جاگ اٹھتا ہے۔ گویا اس کا آرام کا وقت پورا ہوگیا۔ پھر وہ نئے سرے سے تازہ دم ہو کر صبح کو پھر سے کام کاج کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا یہ نظام خود کار ہے۔ اگر انسان کام کرنے کے بعد آرام نہ کرے تو نیند اسے جہاں بھی ہو دبا لیتی ہے اور اسے اضطراراً آرام کرنا پڑتا ہے۔ اگر پھر بھی انسان اپنے اس فطری تقاضے کو پورا نہ کرے یا پورا کرنے میں کوتاہی کرے تو انسان کی صحت تباہ ہوجاتی ہے۔- [٨١] یعنی اللہ تعالیٰ کی تو انسان پر اس قدر عنایات ہیں۔ مگر انسان ایسا ناشکرا اور نمک حرام واقع ہوا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کے شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

1 ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بیان کرتے ہوئے توحید اور آخرت دونوں مضامین ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ - ٢۔ والنھار مبصرا۔ اس جملے میں احتباک ہے، یعنی دو جملوں کا ایک ایک حصہ دوسرے جملے کے قرینے کی وجہ سے حذف کردیا ہے، جو کلام کے کمال جامعیت اور بلاغت کا آئینہ دار ہے، مفصل عبارت یوں تھی۔ اللہ الذی جعل لکم اللیل مظلما لتسکنوا فیہ والنھار مبصرا لتعملوا فیہ،۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے رات کو تاریک بنادیا، تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، تاکہ تم اس میں کام کرو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ نعمت متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے یاد کروائی ہے۔ دیکھئے سورة یونس 67، فرقان 47 بنی اسرائیل 12 قصص 71 تا 73 اور لقمان 29 ۔- 3 ۔ ان اللہ لذو فضل علی الناس : لذو فضل پر تنوین تعطیم کے لیے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جو کچھ عطا فرمایا ہے (زمین و آسمان، رات دن، سورج، چاند اور خود ان کا وجود وغیرہ) وہ ان کا اللہ پر کوئی حق یا قرض نہیں بلکہ محض اس کا فضل ہے اور فضل بھی بہت بڑا کہ اس نے انہیں ضرورت کی ہر چیز بخشی، فرمایا : واتاکم من کل ما سالتموہ۔ وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا (ابراہیم : 34) اور تمہیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ پاؤگے۔ پھر انہیں عقل وتمیز عطا فرما کر مہلت بخش اور نافرمانیوں کے باوجود فورا گرفت نہیں فرمائی۔ مومن و کافر سب کو نعمتوں سے نوازتا ہے۔ یہ سب اس اکیلے کی پیدا کردہ اور عطا کردہ نعمتیں۔- 4 ۔ ولکن اکثر الناس لا یشکرون : جب اس اکیلے نے رات دن کا یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور یہ تمام نعمتیں عطا فرمائی ہیں، کسی اور کا ان میں ذرہ برابر دخل نہیں، تو حق تو یہ تھا کہ اس کا شکر ادا کرتے، صرف اسی کو اپنا رب مانتے، اسی سے دعا کرتے اور اس کی آیات اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے، مگر ایسے لوگ بہت کم نکلے۔ اکثر لوگ ان نعمتوں کی قد نہیں کرتے، بلکہ مالک کے ساتھ شریک بنا کر اس کی ناشکری اور غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر روز انہیں نیند اور بیداری کی صورت میں موت کے بعد زندگی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ حق یہ تھا کہ اس روزانہ کے موت و حیات کے مشاہدے کے بعد قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے تمام مخلوق کو زندہ کرنے کی قدرت پر ایمان رکھتے اور اس دن کے لئے تیاری کرتے، مگر انہوں نے اللہ کی نعمتوں کا شکر نہیں کیا، بلکہ ناشکری کی اور قیامت کے انکار پر جمے رہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اللہ ہی ہے جس نے تمہارے (نفع کے) لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اسی نے دن کو (دیکھنے کے لئے) روشن بنایا (تا کہ بےتکلف معاش حاصل کرو) بیشک اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا ہی فضل ہے (کہ ان کی مصلحتوں کی کیسی کیسی رعایت فرمائی) لکن اکثر آدمی (ان نعمتوں کا) شکر نہیں کرتے (بلکہ الٹا شرک کرتے ہیں) یہ اللہ ہے تمہارا رب (جس کا ذکر ہوا نہ وہ جن کو تم نے تراش رکھا ہے) وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں سو (بعد اثبات توحید کے) تم لوگ کہاں (شرک کر کے) الٹے چلے جا رہے ہو (اور مخاطبین کی کیا تخصیص ہے جس طرح تعصب وعناد سے یہ الٹے چلے جا رہے ہیں) اسی طرح وہ (پہلے) لوگ بھی الٹے چلا کرتے تھے جو اللہ کی (تکوینی و تنزیلی) نشانیوں کا انکار کیا کرتے تھے اللہ ہی ہے جس نے زمین کو (مخلوق کا) قرار گاہ بنایا اور آسمان کو (اوپر سے مثل) چھت (کے) بنایا، اور تمہارا نقشہ بنایا، سو عمدہ نقشہ بنایا (چنانچہ انسان کے اعضاء کے برابر کسی حیوان کے اعضاء میں تناسب نہیں اور یہ مشاہد و مسلم ہے) اور تم کو عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو دیں (پس) یہ اللہ ہے تمہارا رب سو بڑا عالی شان ہے اللہ جو سارے جہان کا پروردگار ہے وہی (ازلی ابدی) زندہ (رہنے والا) ہے اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں سو تم (سب) خالص اعتقاد کر کے اس کو پکارا کرو (اور شرک نہ کیا کرو) تمام خوبیاں اسی اللہ کے لئے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا۔ آپ (ان مشرکوں کو سنانے کے لئے) کہہ دیجئے کہ مجھ کو اس سے ممانعت کردی گئی ہے کہ میں ان (شرکاء) کی عبادت کروں جن کو خدا کے علاوہ تم پکارتے ہو جبکہ میرے پاس میرے رب کی نشانیاں آچکیں (مراد دلائل عقلیہ و نقلیہ ہیں مطلب یہ کہ شرک سے مجھے ممانعت ہوئی ہے) اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ میں (صرف) رب العالمین کے سامنے (عبادت میں) گردن جھکا لوں (مطلب یہ کہ مجھ کو توحید کا حکم ہوا ہے) وہی ہے جس نے تم کو (یعنی تمہارے باپ کو) مٹی سے پیدا کیا پھر (آگے ان کی نسل کو) نطفہ سے پھر خون کے لوتھڑے سے (جیسا کہ سورة حج میں بیان ہوا ہے) پھر تم کو بچہ کر کے (ماں کے پیٹ سے) نکالتا ہے پھر (تم کو زندہ رکھتا ہے) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو پھر (تم کو اور زندہ رکھتا ہے) تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ اور کوئی کوئی تم میں سے (ان عمروں سے یعنی جوانی اور بڑھاپے سے) پہلے ہی مر جاتا ہے (یہ تو سب کا الگ الگ حال ہوا کہ کوئی جوان ہوا کوئی نہ ہوا کوئی بوڑھا ہوا کوئی نہ ہوا) اور (یہ امر آئندہ سب میں مشترک ہے کہ تم میں سے ہر اک کو ایک خاص عمر دیتا ہے) تاکہ تم سب (اپنے اپنے) وقت مقرر (مقدر) تک پہنچ جاؤ (پس یہ امر کلی ہے اور جزئیات مختلفہ سب اسی کلی کے جزئی ہیں) اور (یہ سب کچھ اس لئے کیا) تاکہ تم لوگ (ان امور میں غور کر کے خدا تعالیٰ کی توحید کو) سمجھو وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے پھر جب وہ کسی کام کو (دفعتاً ) پورا کرنا چاہتا ہے سو بس اس کی نسبت (اتنا) فرما دیتا ہے کہ ہوجا سو وہ ہوجاتا ہے۔- معارف ومسائل - آیت مذکورہ میں حق تعالیٰ کے انعامات اور قدرت کاملہ کے چند مظاہر پیش کر کے توحید کی دعوت دی گئی ہے۔- (آیت) جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا۔ غور کیجئے کہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ قدرت نے تمام طبقات انسان بلکہ جانوروں تک کے لئے فطری طور پر نیند کا ایک وقت معین کردیا۔ اور اس وقت کو اندھیرا کر کے نیند کے لئے مناسب بنادیا۔ اور سب کی طبیعت و فطرت میں رکھ دیا کہ اسی وقت یعنی رات کو نیند آتی ہے ورنہ جس طرح انسان اپنے کاروبار کے لئے اپنی اپنی طبیعت و سہولت کے لحاظ سے اوقات مقرر کرتا ہے۔ اگر نیند بھی اسی طرح اس کے اختیار میں ہوتی۔ اور ہر انسان اپنی نیند کا پروگرام مختلف اوقات میں بنایا کرتا تو نہ سونے والوں کو نیند کی لذت و راحت ملتی، نہ جاگنے والوں کے کام کا نظم درست ہوتا۔ کیونکہ انسان کی حاجتیں باہم ایک دوسرے سے متعلق ہوتی ہیں، اگر اوقات نیند کے مختلف ہوتے تو جاگنے والوں کے وہ کام مختل ہوجاتے جو سونے والوں سے متعلق ہیں اور سونے والوں کے وہ کام خراب ہوجاتے جن کا تعلق جاگنے والوں سے ہے اور صرف انسانوں کی نیند کا وقت متعین ہوتا۔ بہائم اور حیوانات کی نیند کے اوقات دوسرے ہوتے تو بھی انسانی کاموں کا نظام مختل ہوجاتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَللہُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ۝ ٦١- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- ( بصر) مبصرۃ - بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص 43] أي : جعلناها عبرة لهم، وقوله عزّ وجل : وَكانُوا مُسْتَبْصِرِينَ [ العنکبوت 38] أي : طالبین للبصیرة . ويصحّ أن يستعار الاسْتِبْصَار للإِبْصَار، نحو استعارة الاستجابة للإجابة، وقوله عزّوجلّ : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ تَبْصِرَةً [ ق 7- 8] أي : تبصیرا وتبیانا .- الباصرۃ - کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا آیت کریمہ ؛۔ وَأَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ [ الصافات 179] حالانکہ وہ دیکھنے والے تھے میں مستبصرین کے معنی طالب بصیرت کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتہ ہے کہ بطور استعارہ استبصار ( استفعال ) بمعنی ابصار ( افعال ) ہو جیسا کہ استجابہ بمعنی اجابۃ کے آجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَكانُوا مُسْتَبْصِرِينَ [ العنکبوت 38]- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے فائدہ کے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو ذریعہ معاش تلاش کرنے کے لیے روشن بنایا اور اللہ تعالیٰ خصوصا مکہ والوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے مگر مکہ والے اس چیز کا شکر نہیں ادا کرتے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا ” اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی ہے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن بنا دیا ہے دیکھنے کے لیے۔ “- اس نے رات کو تاریک بنایا ہے تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا ہے تاکہ تم اس میں کام کرو۔- اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ ” یقینا اللہ تو اپنے بندوں پر بہت فضل والا ہے ‘ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :85 یہ آیت دو اہم مضامین پر مشتمل ہے ۔ اوّلاً اس میں رات اور دن کو دلیل توحید کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، کیونکہ ان کا باقاعدگی کے ساتھ آنا یہ معنی رکھتا ہے کہ زمین اور سورج پر ایک ہی خدا حکومت کر رہا ہے ، اور ان کے الٹ پھیر کا انسان اور دوسری مخلوقات ارضی کے لیے نافع ہونا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ وہی ایک خدا ان سب اشیاء کا خالق بھی ہے اور اس نے یہ نظام کمال درجہ حکمت کے ساتھ اس طرح بنایا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کے لیے نافع ہو ۔ ثانیاً ، اس میں خدا کے منکر اور خدا کے ساتھ شرک کرنے والوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ خدا نے رات اور دن کی شکل میں یہ کتنی بڑی نعمت ان کو عطا کی ہے ، اور وہ کتنے سخت ناشکرے ہیں کہ اس کی اس نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شب و روز اس سے غداری و بے وفائی کیے چلے جاتے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم ، صفحات 296 تا 298 ۔ جلد سوم ، صفحات 461 ۔ 606 ۔ 659 ۔ 747 جلد چہارم ، لقمان ، آیت 29 ، حاشیہ 50 ۔ یٰس ، آیت 37 ، حاشیہ 32 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani