کذلک یوفک الذین کانوا …: اگرچہ ” افک “ کا معنی جھوٹ اور بہتان بھی ہے، مگر یہاں ” افک بافک افکا “ (ض) (ہمزہ کے فتح کے ساتھ) سے ہے، جس کا معنی ” پھیرنا “ ہے، جیسا کہ سورة احقاف میں ہے :(قالوا اجنتنا لتافکنا عن الھتنا فاتنا بما تعدناً ان کنت من الصدیقین) (الاحقاف : ٢٢)” انہوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے ہٹا دے، سو ہم پر وہ (عذاب) لے آجس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو سچوں سے ہے۔ “ (کانوا بایت اللہ یجحدون “ میں ” کان “ کی وجہ سے استمرار ہے، اس لئے ترجمہ کیا گیا ہے :” ال ہیک آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔ “” جحد یجحد جحوداً “ (ف) جاننے کے باوجود انکار کردینا۔ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اتنے واضح دلائل کے باوجود آخر ان لوگوں کے حق سے انحراف کا اصل باعث کیا ہے اور یہ کہ ان سے پہلے بھی کسی نے یہ روش اختیار کی ہے یا یہ صرف انھی کا کام ہے ؟ فرمایا : یہ لوگ ہی نہیں بلکہ ان سے پہلے وہ سب لوگ بھی انھی کی طرح حق سے پھیر دیئے جاتے رہے ہیں جو علم کے باوجود اللہ کی آیات کا ضد اور عناد کی وجہ سے انکار کردیا کرتے تھے۔ تکبر و جحود ان کی بیماری ہے، یہی بیماری پہلوں کی بھی تھی۔ اب جو طے کرلے کہ اس نے ماننا ہی نہیں، اسے کون منوائے ؟ جس طرح سوئے ہوئے کہ تو جگا یا جاسکتا ہے ، لیکن جو جاگتا ہونے کے باوجود آنکھیں بند کرنے پر ڈٹ جائے اسے کون جگائے ؟
كَذٰلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِيْنَ كَانُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ يَجْحَدُوْنَ ٦٣- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- جحد - الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد .- ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد - وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔
اسی طرح وہ لوگ جھوٹ باندھتے ہیں جو رسول اکرم اور قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں۔
آیت ٦٣ کَذٰلِکَ یُؤْفَکُ الَّذِیْنَ کَانُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ” اسی طرح وہ لوگ بھی الٹے پھرائے گئے تھے جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔ “
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :88 یعنی ہر زمانے میں عوام الناس صرف اس وجہ سے ان بہکانے والوں کے فریب میں آتے رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے حقیقت سمجھانے کے لیے جو آیات نازل کیں ، لوگوں نے ان کو نہ مانا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان خود غرض فریبیوں کے جال میں پھنس گئے جو اپنی دکان چمکانے کے لیے جعلی خداؤں کے آستانے بنائے بیٹھے تھے ۔