64۔ 1 آگے نعمتوں کی کچھ قسمیں بیان کی جا رہی ہیں تاکہ اللہ کی قدرت کاملہ بھی واضح ہوجائے اور اس کا بلا شرکت غیرے معبود ہونا بھی۔ 64۔ 2 جس میں تم رہتے چلتے پھرتے کاروبار کرتے اور زندگی گزارتے ہو پھر بالآخر موت سے ہمکنار ہو کر قیامت تک کے لیے اسی میں آسودہ خواب رہتے ہو۔ 64۔ 3 یعنی قائم اور ثابت رہنے والی چھت اگر اس کے گرنے کا اندیشہ رہتا تو کوئی شخص آرام کی نیند سو سکتا تھا نہ کسی کے لیے کاروبار حیات کرنا ممکن ہوتا۔ ۔ 64۔ 4 جتنے بھی روئے زمین پر حیوانات ہیں، ان سب میں (تم) انسانوں کو سب سے زیادہ خوش شکل اور متناسب الا، عضا بنایا ہے۔ 64۔ 5 یعنی اقسام و انواع کے کھانے تمہارے لئے مہیا کئے، جو لذیذ بھی ہیں اور قوت بخش بھی۔
[٨٣] زمین کے جائے قرار ہونے کے مختلف پہلو :۔ زمین کے جائے قرار ہونے کے بھی کئی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے توازن و تناسب سے اس میں پہاڑ رکھ دیئے کہ وہ انسانوں اور تمام جانداروں کے لئے جائے قرار بن گئی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان اسی زمین پر پیدا ہوتا ہے اسی پر زندگی گزارتا ہے اسی میں مرنے کے بعد دفن ہوتا ہے اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کے کھانے، پینے، لباس اور دوسری تمام ضروریات اسی زمین سے وابستہ ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ زمین میں ایسی خصوصیات نہ رکھ دیتا تو نہ یہاں کوئی جاندار زندہ رہ سکتا اور نہ ہی زمین جائے قرار بن سکتی تھی۔- [٨٤] آسمان ایک محفوظ چھت کیسے ؟ اس مقام پر آسمان کو چھت قرار دیا گیا ہے جبکہ سورة انبیاء کی آیت نمبر ٣٢ میں اسے (سَقْفًا مَّحْفُوْظًا 32) 21 ۔ الأنبیاء :32) یعنی محفوظ چھت قرار دیا گیا ہے۔ اور چھت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آفات سماوی سے محفوظ رکھتا ہے یہی فائدہ آسمان دنیا کا ہے۔ اس وسیع کائنات میں لاتعداد سیارے، دمدار ستارے اور ٹوٹنے والے ستارے انتہائی تیز رفتاری سے تیرتے پھرتے ہیں۔ یہ آپس میں بعض دفعہ ٹکرا کر پاش پاش بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر اللہ نے ہمارے اوپر یہ محفوظ چھت بنادی ہے۔ ورنہ عالم بالا کی آفات زمین پر بارش کی طرح برس کر زمین والوں کو تہس نہس کر دیتیں۔ اس آسمان سے گزر کر کوئی تباہ کن چیز ہم تک نہیں پہنچ سکتی۔ حتیٰ کہ آفاق کی مہلک شعاعیں بھی ہم تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اسی وجہ سے ہم اس زمین پر امن و چین سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔- [٨٥] جسمانی اعتبار سے انسان دوسرے جانوروں سے کن باتوں میں ممتاز ہے ؟:۔ تمہاری شکل و صورت تمام جانداروں سے اعلیٰ قسم کی بنائی۔ دوسرے جانداروں سے انسان کی نمایاں جسمانی خصوصیات یہ ہیں کہ تمام جاندار اپنے منہ سے غذا کھاتے ہیں جبکہ انسان اپنے ہاتھ سے خوراک منہ تک لے جاتا ہے اکثر جاندار زمین پر ہی رینگتے یا چار پیروں پر چلتے ہیں۔ جبکہ انسان دو پاؤں پر چلتا ہے اور اپنا جسم سیدھا رکھ کر چلتا ہے۔ انسان کے ہاتھ اور پاؤں کثیرالمقاصد ہیں جتنا کام انسان اپنے ہاتھ پاؤں سے لے سکتا ہے۔ دوسرا کوئی جاندار نہیں لے سکتا اس کے بےنظیر جسم اور جسمانی صلاحیتوں کے علاوہ جتنی ذہنی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخشی ہیں وہ کسی دوسرے جاندار کو نہیں دی گئیں۔ اور یہ صلاحیتیں عطا کرنا محض اللہ کا فضل و کرم ہے جس میں کسی دیوتا، کسی نبی اور ولی اور بزرگ کا کچھ دخل نہیں ہوتا۔- [٨٦] زمین کی پیداوارکا بہترین حصہ انسان کے لئے ہے زمینی پیداوار سے انسان کا بیشمار اشیاء بناکر کا لطف اٹھانا :۔ جتنی بھی پیداوار زمین سے اگتی ہے اس کا بہترین حصہ انسان کی خوراک کے کام آتا ہے کسی جاندار کو اتنی عمدہ اور لذیذ چیزیں کھانے کو میسر نہیں آسکتیں۔ جتنی انسان کو یہ میسر آتی ہیں۔ یہ ٹھنڈا میٹھا اور نتھرا ہوا صاف شفاف پانی، یہ غلے، یہ پھل، یہ ترکاریاں، یہ دودھ، یہ شہد، یہ گوشت، یہ نمک مرچ اور مسالے انسان کی صرف غذا کا ہی کام نہیں دیتے بلکہ انسان ان سے اور پھر ان سے دوسری بہت چیزیں تیار کرکے زندگی کا لطف اٹھاتا ہے۔ پھر انسان خوشبودار پھولوں اور ان سے عطریات تیار کرکے جو لطف اٹھاتا ہے وہ دوسرے کسی جاندار کے حصہ میں نہیں آتے۔ یہ سب چیزیں آخر کس نے اتنی فراوانی کے ساتھ زمین پر پیدا کی ہیں اور کس نے یہ انتظام کیا ہے کہ غذا کے یہ بےحساب خزانے زمین سے پے در پے نکلتے چلے آتے ہیں اور ان میں کبھی انقطاع واقع نہیں ہوتا اگر اللہ تعالیٰ تمہارے پاکیزہ رزق کا یہ انتظام نہ فرماتا تو تم خود سوچ لو کہ تمہاری زندگی کیسی بےکیف ہوتی۔ کیا یہ بات اس امرکا صریح ثبوت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالق ہی نہیں بلکہ وہ حکیم اور رحیم بھی ہے۔
(١) اللہ الذی جعل لکم الارض قراراً …: اس سے پہلے لیل و نہار کے ذکر کے ساتھ زمانی نعمتوں کا ذکر فرمایا : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر پانی بیشمار نعمتوں میں سے مزید پانچ نعمتوں کا ذکر فرما اکر اپنے اکیلے رب ہونے کی یاد دہانی فرمائی۔ ان نعمتوں کا تعلق مکان سے ہے یا انسان کی ذات یہ۔ پہلی نعمت زمین کو رہنے کی جگہ بنانا ہے۔ اس میں کئی چیزیں شامل ہیں، ایک یہ کہ اس نے زمین کو پیدا کیا تو ہم چکولے کھاتی تھی، پھر اس میں ایسے توازن و تنساب سے پہاڑ گاڑ دیے کہ وہ انسانوں اور تمام جاندارں کے لئے جائے قرار بن گئی۔ اگر اس میں مسلسل زلزلے کی کیفیت رہتی تو کوئی متنفس اس پر نہ بس سکتا۔ (دیکھیے نحل : ١٥۔ انبیائ : ٣١- لقمان : ١٠) دوسری یہ کہ زمین انسان کو اور تمام جان داروں کو زندگی میں بسیرا مہیا کرتی ہیا ور مرنے کے بعد بھی انہیں سمیٹتی ہے، اگر اس میں یہ وصف نہ ہوتا تو تعفن کی وجہ سے کوئی جاندار زندہ و سلامت نہ رہتا۔ (دیکھیے مرسلات : ٢٥، ٢٦) اور تیسری یہ کہ انسان کی تمام ضروریات کھانا پینا اور لباس وغیرہ سب زمین سے وابستہ ہیں، اگر اللہ تعالیٰ اس میں یہ صفت نہ رکھتا تو کوئی جاندار یہاں زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ بات بیان ہوئی ہے۔ دوسری نعمت آسمان کو چھت بنانا ہے، چھت بھی ستونوں کے بغیر اور گرنے سے اور ہر قسم کی آفات سے محفوظ۔ تفصیل کیلئے دیکھیے سورة انبیاء (٣٢) ، رعد (٢) اور لقمان (١٠) ۔- تیسیر نعمت انسان کی صورت بنانا ہے، وہ بھی نہایت اہتمام کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے۔ (دیکھیے سورة ص : ٣٨) چوتھی نعمت انسان کی صورت اچھی بنانا ہے، دوسرے جانوروں کے برعکس وہ سیدھے قد کے ساتھ دو پاؤں پر چلتا ہے اور ہاتھ کے ساتھ کھانا پیتا ہے۔ مزید تفصیل کیلئے سورة بنی اسرائیل کی آیت (٧٠) : (ولقد کرمنا بنی ادم وحملنھم فی البرو البحر) کی تفسیر دیکھیں۔ پانچویں نعمت ” طیبات “ (پاکیزہ چیزیں) بطور رزق عطا کرنا ہے۔” الطیبت “ کا لفظ حرام و حلال کے سلسلے میں آئے تو مراد حلال چیزیں ہوتی ہیں اور انعام کے طور پر ذکر کیا جائے تو اس سے مراد لذیذ چیزیں ہوتی ہیں۔ یہاں یہی مراد ہے، کیونکہ تمام جانوروں کے برعکس انسان کی خوراک ہر چیز میں سے اس کا لذیذ ترین حصہ ہے ۔ خوراک کے علاوہ اس میں نکاح، لباس، زینت اور بود و باش کی بیشمار طیبات شامل ہیں۔- (٢) ذلکم اللہ ربکم، اس کی تفسیر پچھلی آیات میں گزر چکی ہے۔- (٣) فتبرک اللہ رب العلمین : ” تبارک “ کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة ملک کی پہلی آیت۔
(آیت) وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ۔ انسان کی صورت کو اللہ تعالیٰ نے سب جانوروں سے ممتاز، اعلیٰ اور بہتر ہئیت میں بنایا ہے۔ اس کو سوچنے سمجھنے کی عقل عطا فرمائی۔ اس کے ہاتھ پاؤں ایسے بنائے کہ ان سے طرح طرح کی اشیاء و مصنوعات بنا کر اپنی راحت کے سامان پیدا کرلیتا ہے۔ اس کا کھانا پینا بھی عام جانوروں سے ممتاز ہے وہ اپنے منہ سے چرتے اور پیتے ہیں یہ ہاتھوں سے کام لیتا ہے۔ عام جانوروں کی غذا مفردات سے ہے، کوئی گوشت کھاتا ہے کوئی گھاس اور پتے اور وہ بھی بالکل مفرد بخلاف انسان کے کہ یہ اپنے کھانے کو مختلف قسم کی چیزوں پھلوں، ترکاریوں، گوشت اور مصالحہ سے لذیذ و مرغوب بنا کر کھاتا ہے۔ ایک ایک پھل سے طرح طرح کے کھانے اور اچار، مربے، چٹنی تیار کرتا ہے۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔
اَللہُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ٠ ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ ٠ ۚۖ فَتَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ٦٤- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - قرار - قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64] - ( ق ر ر ) قرر - فی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے - صور - الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» «4» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» «1» ، وقوله تعالی:- فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن «3» وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ «4» ، وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ «5» ، وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش «6» أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «7» بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «8» من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع .- ( ص و ر ) الصورۃ - : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
اللہ ہی ہے جس نے زمین کو زندوں اور مردوں کی آرام گاہ بنایا اور آسمان کو اوپر چھت کی طرح بنایا اور رحموں کے اندر تمہاری شکلیں بنائیں اور جانوروں کی روزی کے مقابلہ میں تمہیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو دیں یا یہ کہ حلال روزی دی بس ان چیزوں کا خالق یہ اللہ ہے تمہارا رب اسی کا شکر کرو سو وہ بڑی عالی شان اور برکتوں والا ہے جو کہ ہر اس جاندار چیز کا بھی خدا ہے جو کہ روئے زمین پر موجود ہے۔
آیت ٦٤ اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآئَ بِنَآئً ” اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے بنا دیا زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت “- وَّصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ ” اور تمہاری صورت گری کی ‘ تو کیا ہی عمدہ تمہاری صورتیں بنائیں “- وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ” اور تمہیں رزق بہم پہنچایا پاکیزہ چیزوں سے۔ “- ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْج ” وہ ہے اللہ تمہارا رب “- فَتَبٰـرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ” تو بہت بابرکت ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ “
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :89 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم ، النمل ، حواشی ۷٤ ۔ ۷۵ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :90 یعنی تمہیں کھلی فضا میں نہیں چھوڑ دیا گیا کہ عالم بالا کی آفات بارش کی طرح برس کر تم کو تہس نہس کر دیں ، بلکہ زمین کے اوپر ایک نہایت مستحکم سماوی نظام ( جو دیکھنے والی آنکھ کو گنبد کی طرح نظر آتا ہے ) تعمیر کر دیا جس سے گزر کر کوئی تباہ کن چیز تم تک نہیں پہنچ سکتی ، حتیٰ کہ آفاق کی مہلک شعاعیں تک نہیں پہنچ سکتیں ، اور اسی وجہ سے تم امن و چین کے ساتھ زمین پر جی رہے ہو ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :91 یعنی تمہارے پیدا کرنے سے پہلے تمہارے لیے اس قدر محفوظ اور پر امن جائے قرار مہیا کی ۔ پھر تمہیں پیدا کیا تو اس طرح کہ ایک بہترین جسم ، نہایت موزوں اعضاء اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جسمانی و ذہنی قوتوں کے ساتھ تم کو عطا کیا ۔ یہ سیدھا قامت ، یہ ہاتھ اور یہ پاؤں ، یہ آنکھ ناک اور یہ کان ، یہ بولتی ہوئی زبان اور یہ بہترین صلاحیتوں کا مخزن دماغ تم خود بنا کر نہیں لے آئے تھے ، نہ تمہاری ماں اور تمہارے باپ نے انہیں بنایا تھا ، نہ کوئی نبی یا ولی یا دیوتا میں یہ قدرت تھی کہ انہیں بناتا ۔ ان کا بنانے والا وہ حکیم و رحیم قادر مطلق تھا جس نے انسان کو وجود میں لانے کا جب فیصلہ کیا تو اسے دنیا میں کام کرنے کے لیے ایسا بے نظیر جسم دے کر پیدا کیا ۔ پھر پیدا ہوتے ہی اس کی مہربانی سے تم نے اپنے لیے پاکیزہ رزق کا ایک وسیع خوان یغما بچھا ہوا پایا ۔ کھانے اور پینے کا ایسا پاکیزہ سامان جو زہریلا نہیں بلکہ صحت بخش ہے ، کڑوا کسیلا اور بد مزہ نہیں بلکہ خوش ذائقہ ہے ، سڑا بسا اور بدبو دار نہیں بلکہ خوش رائحہ ہے ، بے جان پھوک نہیں بلکہ ان حیاتینوں اور مفید غذائی مادوں سے مالا مال ہے جو تمہارے جسم کی پرورش اور نشو و نما کے لیے موزوں ترین ہیں ۔ یہ پانی ، یہ غلے ، یہ ترکاریاں ، یہ پھل ، یہ دودھ ، یہ شہد ، یہ گوشت ، یہ نمک مرچ اور مسالے ، جو تمہارے ، جو تمہارے تغذیے کے لیے اس قدر موزوں اور تمہیں زندگی کی طاقت ہی نہیں ، زندگی کا لطف دینے کے لیے بھی اس قدر مناسب ہیں ، آخر کس نے اس زمین پر اتنی افراط کے ساتھ مہیا کیے ہیں ، اور کس نے یہ انتظام کیا ہے کہ غذا کے یہ بے حساب خزانے زمین سے پے در پے نکلتے چلے آئیں اور ان کی رسد کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے نہ پائے؟ یہ رزق کا انتظام نہ ہوتا اور بس تم پیدا کر دیے جاتے تو سوچو کہ تمہاری زندگی کا کیا رنگ ہوتا ۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ تمہارا پیدا کرنے والا محض خالق ہی نہیں بلکہ خالق حکیم اور رب رحیم ہے؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم ، ہود ، حواشی٦ ۔ ۷ ، جلد سوم ، النمل ، حواشی ۷۳ تا۸۳ )