67۔ 1 یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا جو ان کی تمام اولاد کے مٹی سے پیدا ہونے کو مستلزم ہے پھر اس کے بعد نسل انسانی کے تسلسل اور اس کی بقا وتحفظ کے لیے انسانی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کردیا اب ہر انسان اس نطفے سے پیدا ہوتا ہے جو صلب پدر سے رحم مادر میں جا کر قرار پکڑتا ہے سوائے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کہ ان کی پیدائش معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی جیسا کہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے اور جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ 67۔ 2 یعنی ان تمام کیفیتوں اور اطوار سے گزارنے والا وہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ 67۔ 3 یعنی رحم مادر میں مختلف ادوار سے گزر کر باہر آنے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں، بعض بچپن میں، بعض جوانی میں اور بعض بڑھاپے سے قبل فوت ہوجاتے ہیں۔ 67۔ 4 یعنی اللہ تعالیٰ یہ اس لئے کرتا ہے تاکہ جس کی جتنی عمر اللہ نے لکھ دی ہے، وہ اس کو پہنچ جائے اور اتنی زندگی دنیا میں گزار لے۔ 67۔ 5 یعنی جب تم ان اطوار اور مراحل پر غور کرو گے کہ نطفے سے علقہ پھر مضغۃ، پھر بچہ، پھر جوانی، کہولت اور بڑھاپا، تو تم جان لو گے کہ تمہارا رب بھی ایک ہی ہے اور تمہارا معبود بھی ایک اس کے سوا کوئی معبود نہیں علاوہ ازیں یہ بھی سمجھ لو گے کہ جو اللہ یہ سب کچھ کرنے والا ہے اس کے لیے قیامت والے دن انسانوں کو دوبارہ زندہ کردینا بھی مشکل نہیں ہے اور وہ یقینا سب کو زندہ فرمائے گا۔
[٩٠] انسان کی تخلیق اور زندگی کے مختلف مراحل سے بعث بعد الموت پر دلیل :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کے بےجان ذروں سے تمہارے لئے خوراک پیدا کی۔ اسی بےجان خوراک سے کئی مراحل طے کرنے کے بعد تمہارے اندر منی پیدا ہوئی اور اطباء کے قول کے مطابق منی چوتھے ہضم کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ پھر اسی منی کا قطرہ جب ماں کے رحم میں داخل ہوتا ہے اور اسے رحم مادر قبول کرلیتا ہے تو اس پر کئی ادوار آتے ہیں بعد میں اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اور ایک مقررہ مدت کے بعد خوبصورت شکل اور محیرالعقول صلاحیتیں لے کر رحم مادر سے باہر آجاتا ہے۔ اس وقت وہ نہ چل سکتا ہے نہ بول سکتا ہے نہ کچھ سمجھ سکتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس میں وہ قوتیں نشوونما پانے لگتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں رکھ دی ہیں۔ انسان کے بڑھنے کے ساتھ اس کی عقل، اس کا فہم، اس کی جسمانی قوت، اس کا قد وقامت غرض ہر چیز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پھر اس پر بڑھاپے کا وقت آتا ہے تو پہلے جیسی غذائیں کھانے کے باوجود قد بڑھنا رک جاتا ہے اور دوسری قوتوں میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اور آخری مرحلہ موت ہے۔ جو کبھی تو بچپن میں ہی آجاتی ہے، کبھی اسقاط ہوجاتا ہے کبھی جوانی میں انسان مرتا ہے اور کبھی بوڑھا کھوسٹ ہونے کے باوجود بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے مگر اسے موت نہیں آتی۔ ذرا سوچو ان مراحل میں سے کوئی مرحلہ بھی تمہارے اپنے اختیار میں ہے۔ پھر اگر بعث بعد الموت کا ایک اور مرحلہ تم پر گزر جائے تو تم اسے کیسے محال سمجھتے ہو ؟- خ موت سے متعلق چند اٹل حقائق :۔ پھر موت ایک ایسا اضطراری امر اور اٹل حقیقت ہے جو اپنے اندر کئی تلخ حقائق سمیٹے ہوئے ہے۔ کوئی فقیر، کوئی امیر، کوئی بادشاہ اس کی گرفت سے نہ آج تک بچ سکا ہے نہ آئندہ بچ سکے گا۔ پھر اس کا جو وقت مقرر ہے وہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ بعض دفعہ انسان بیشمار حوادث سے بچ نکلتا ہے اور موت کے منہ سے بچا رہتا ہے۔ اور بعض دفعہ ایک معمولی سا حادثہ اس کا جان لیوا ثابت ہوجاتا ہے۔ کوئی بادشاہ کسی اعلیٰ سے اعلیٰ ہسپتال سے داخل ہو کر اور ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود موت کے وقت کو آگے پیچھے نہیں کرسکتا۔ اور اس میں جو ایک مرد مومن اور صاحب عقل کے لئے سبق ہے وہ یہ ہے کہ دشمن اسلام طاقتیں جتنا بھی زور لگا لیں، جتنی بھی سازشیں تیار کرلیں کسی کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتیں جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آئے۔ سیدنا خالد بن ولید تقریباً ایک سو جہاد کے معرکوں میں شریک ہوئے لیکن موت آئی تو بستر مرگ پر گھر میں ہی آئی۔ یہ عقیدہ ایک مجاہد میں بےپناہ جرأت پیدا کردیتا ہے۔- پھر اس کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے ایک خطہ زمین جس میں ایک ہی قسم کا بیج ڈالا جائے۔ سیراب ایک ہی طرح کے پانی سے ہو، موسم اور آب و ہوا ایک جیسی ہو۔ نگہداشت ایک جیسی ہو اس خطہ زمین کے سارے پودے تقریباً ایک ہی جیسی پرورش اور زندگی پاتے ہیں۔ مگر ایک ہی والدین کے چھ بچے جن کی خوراک ایک، آب و ہوا ایک، گھر ایک ماں باپ ایک، لیکن عمریں سب کی جدا جدا ہوتی ہیں کوئی بچپن میں مرتا ہے، کوئی جوانی میں اور کوئی اتنا بوڑھا اور ذلیل ہوجاتا ہے کہ وہ خود چاہتا ہے کہ اللہ اسے دنیا سے اٹھا لے مگر اسے موت نہیں آتی۔ کیا یہ سب باتیں اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کرتیں کہ کوئی قادر مطلق ہستی ہماری موت وحیات پر حکمران ہے۔ کسی دیوتا، کسی پیر، پیغمبر، کسی ستارے اور آستانے والے کا اس میں کچھ دخل نہیں یا کم از کم حکیم اور ڈاکٹر خود تو نہ مرتے۔ ہر کسی کی بےبسی ایک جیسی ہے تو ایسے بےبسوں کو عبادت کا مستحق کیسے قرار دیا جاسکتا ہے اور کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی تسلیم کرلیتے ہیں۔
(١) ھو الذی خلقکم من تراب …: یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور قیامت قائم ہونے کی دلیل ہے۔ اس کی تفسیر سورة حج (٥) اور سورة مومنون (١٢ تا ١٤) میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ البتہ یہاں چند الفاظ کی مخت صر تشریح کی جاتی ہے۔- (٢) ثم لتبلغوا اشدکم “ اور ” ثم لتکونوا شیوخاً “ دونوں میں ” لام کی “ فعل محذوف کے متعلق ہے جو خود بخود سمجھ میں آرہا ہے :” ثم یربیکم “ یعنی پھر وہ تمہاری پرورش کرتا رہتا ہے (تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ) یا ” ثم یبقیکم “ ہے، یعنی پھر وہ تمہیں باقی رکھتا ہے (تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ۔ )- (٣) ومنکم فن یتوفی من قبل : یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے (اسقاط کی صورت میں) کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بوڑھا ہونے سے پہلے فوت کرلیا جاتا ہے۔- (٤) ولیتلغوا اجلاً مسمیٰ : اس ” لتبلغوا “ کا تعلق پہلے ” لتبلغوا “ کے لئے مقدر فعل کے ساتھ نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لئے الگ فعل مقدر ماننا پڑے گا، مثلاً و فعل لکم ذلک لتبلغوا اجلاً مسمی “” اور اس نے تمہارے ساتھ یہ معاملہ اس لئے کیا ہے کہ تم متو کے اس وقت تک پہنچ جاؤ جو تم میں سے ہر ایک کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ “ یعنی کوئی علاقہ بننے تک کوئی مضغہ یا عظام بننے تک، کوئی ولادت تک ، کوئی لڑکپن تک، کوئی جوانی تک اور کوئی بڑھاپے تک پہنچ کر مرے۔ (ابن جزی)- (٥) ولعلکم تعقلون : یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں زندگی کے ان مختلف مراحل سے اس لئے گزارتا ہے کہ جب تم اس حیرت انگیز نظام پر غور کرو تو سمجھ جاؤ کہ کوئی خلاق ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا ہے اور وہ ایک ہی ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ ورنہ کائنات کے اس سلسلے میں ہر چیز کی ایک دوسرے کے ساتھ نہ اتنی زبردست موافقت و مناسبت ہوتی اور نہ ہی یہ نظام ایک لمحے کے لئے چل سکتا یا باقی رہ سکتا۔ اور تاکہ یہ بھی سمجھ جاؤ کہ یہاں ہر مرحلے کے بعد اگلا مرحلہ ہے، مٹی اور نطفے سے پیدا کرنے والے اور اسے ایک وقت تک پہنچانے کے بعد قبض کرلینے والے کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرلے اور تمہارا حساب لے۔ یعنی اگر غور کرو تو پیدائش کے اس سلسلے سے اللہ تعالیٰ کا وجود، اس کی وحدانیت اور تمہیں دوبارہ زندہ کرنے پر اس کا قادر ہونا آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” یعنی اتنے احوال تم پر گزرے ، شاید ایک حال اور بھ گزرے (اور) وہ (ہے) مر کر جینا۔ “ (واضح)
ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّــطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُيُوْخًا ٠ ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ٦٧- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - ترب - التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] .- ( ت ر ب )- التراب کے معنی مٹی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ - نطف - النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ- [ المؤمنون 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به .- ( ن ط ف ) النطفۃ - ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔- علق - العَلَقُ : التّشبّث بالشّيء، يقال : عَلِقَ الصّيد في الحبالة، وأَعْلَقَ الصّائد : إذا علق الصّيد في حبالته، والمِعْلَقُ والمِعْلَاقُ : ما يُعَلَّقُ به، وعِلَاقَةُ السّوط کذلک، وعَلَقُ القربة كذلك، وعَلَقُ البکرة : آلاتها التي تَتَعَلَّقُ بها، ومنه : العُلْقَةُ لما يتمسّك به، وعَلِقَ دم فلان بزید : إذا کان زيد قاتله، والعَلَقُ : دود يتعلّق بالحلق، والعَلَقُ : الدّم الجامد ومنه : العَلَقَةُ التي يكون منها الولد . قال تعالی: خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق 2] ، وقال : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله :- فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً «1» والعِلْقُ : الشّيء النّفيس الذي يتعلّق به صاحبه فلا يفرج عنه، والعَلِيقُ : ما عُلِّقَ علی الدّابّة من القضیم، والعَلِيقَةُ : مرکوب يبعثها الإنسان مع غيره فيغلق أمره . قال الشاعر : أرسلها علیقة وقد علم ... أنّ العلیقات يلاقین الرّقم - «2» والعَلُوقُ : النّاقة التي ترأم ولدها فتعلق به، وقیل للمنيّة : عَلُوقٌ ، والعَلْقَى: شجر يتعلّق به، وعَلِقَتِ المرأة : حبلت، ورجل مِعْلَاقٌ: يتعلق بخصمه .- ( ع ل ق ) العلق کے معنی کسی چیز میں پھنس جانیکے ہیں کہا جاتا ہے علق الصید فی الحبالتہ شکار جال میں پھنس گیا اور جب کسی کے جال میں شکار پھنس جائے تو کہا جاتا ہے اعلق الصائد ۔ المعلق والمعلاق ہر وہ چیز جس کے ساتھ کسی چیز کا لٹکا یا جائے اسی طرح علاقتہ السوط وعلق القریتہ اس رسی یا تسمیہ کو کہتے ہیں جس سے کوڑے کا یا مشک کا منہ باندھ کر اسے لٹکا دیا جاتا ہے ۔ علق الکبرۃ وہ لکڑی وغیرہ جس پر کنوئیں کی چرخی لگی رہتی ہے ۔ اسی سے العلقتہ ہر اس چیز کہا کہا جاتا ہے جسے سہارا کے لئے پکڑا جاتا ہے ۔ علق دم فلان بزید فلاں کا خون زید کے ساتھ چمٹ گیا یعنی زید اس کا قاتل ہے ۔ العلق ( جونک ) ایک قسم کا کیڑا جو حلق کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ نیز جما ہوا خون اسی سے لوتھڑے کی قسم کے خون کو علقہ کہا جاتا جس سے بچہ بنتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا ؛ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله کے آخر میں فرمایا : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةًپھر لو تھڑے کی بوٹی بنائی ۔ العلق اس عمدہ چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ مالک کا دل چمٹا ہوا ہو اور اس کی محبت دل سے اترتی نہ ہو العلیق ۔ جو وغیرہ جو سفر میں جو نور کے کھانے کے لئے اس پر باندھ دیتے ہیں اور العلیقتہ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ بھیجا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( رجز ) ( ارسلھا علیقتہ وقد علم ان العلیقات یلاقیں الرقم اس نے غلہ لینے کے لئے لوگوں کے ساتھ اپنا اونٹ بھیجد یا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ دوسروں کے ساتھ بھیجے ہوئے اونٹ تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں ۔ العلوق وہ اونٹنی جو اپنے بچے پر مہربان ہو اور اس سے لپٹی رہے اور موت کو بھی علوق کہا جاتا ہے العلقی درخت جس میں انسان الجھ جائے تو اس سے نکلنا مشکل علقت المرءۃ عورت حاملہ ہوگئی ۔ رجل معلاق جھگڑالو آدمی جو اپنے مخالف کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس سے چمٹار ہے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - طفل - الطِّفْلُ : الولدُ ما دام ناعما، وقد يقع علی الجمع، قال تعالی: ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا - [ غافر 67] ، أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا[ النور 31] ، وقد يجمع علی أَطْفَالٍ. قال :- وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ [ النور 59] ، وباعتبار النّعومة قيل : امرأة طِفْلَةٌ ، وقد طَفِلَتْ طُفُولَةً وطَفَالَةً ، والمِطْفَلُ من الظبية : التي معها طِفْلُهَا، وطَفَلَتِ الشمسُ : إذا همَّت بالدَّوْرِ ، ولمّا يستمکن الضَّحُّ من الأرضِ قال : وعلی الأرض غياياتُ الطَّفَلِ وأما طَفَّلَ : إذا أتى طعاما لم يدع إليه، فقیل، إنما هو من : طَفَلَ النهارُ ، وهو إتيانه في ذلک الوقت، وقیل : هو أن يفعل فِعْلَ طُفَيْلِ العرائسِ ، وکان رجلا معروفا بحضور الدّعوات يسمّى طُفَيْلًا - ( ط ف ل) الطفل جب تک بچہ نرم و نازک رہے اس وقت تک اسے طفل کہاجاتا ہے یہ اصل میں مفرد ہے مگر کبھی بمعنی جمع بھی آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا[ غافر 67] پھر تم کو نکالتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو ۔ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا[ النور 31] یا ایسے لڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں ۔ طفل کی جمع اطفال آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ [ النور 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں ۔ اور نرمونازک ہونے کے معنی کی مناسبت سے گداز بدن عورت کو طفلۃ کہاجاتا ہے ۔ اور طفلت طفولۃ وطفالۃ کے نرم ونازک ہونے کے ہیں ۔ اور جس ہرنی کے ساتھ اس کا بچہ ہوا سے مطفل کہاجاتا ہے طفلت الشمس اس وقت بولا جاتا ہے جس آفتاب نکلنے کو ہو اور ابھی تک اس کی دھوپ اچھی طرح زمین پر نہ پھیلی ہو ۔ شاعرنے کہا ہے ۔ ( الرمل) (293) وعلی الارض غیایات الطفل اور زمین پر تاحال صبح کا سوجھا کا موجود تھا ۔ اور طفل جس کے معنی ایسے کھانا میں شریک ہونا کے ہیں جس پر اسے ملایا نہ گیا ہو ، کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ یہ طفل النھار سے ماخوذ ہے یعنی اس وقت آنا اور بعض نے کہا ہے کہ طفیل العرس ایک مشہور آدمی کا نام ہے جو بلا دعوت تقریبات میں شریک ہوجاتا تھا ۔ اور اسی سے طفل ہے جس کے معنی طفیلی بن کر جانے کے ہیں ۔- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - شيخ - يقال لمن طعن في السّنّ : الشَّيْخُ ، وقد يعبّر به فيما بيننا عمّن يكثر علمه، لما کان من شأن الشَّيْخِ أن يكثر تجاربه ومعارفه، ويقال : شَيْخٌ بيّن الشَّيْخُوخَةُ ، والشَّيْخُ ، والتَّشْيِيخُ. قال اللہ تعالی: هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] ، وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص 23] .- ( ش ی خ ) الشیخ - کے معنی معمر آدمی کے ہیں عمر رسید ہ آدمی کے چونکہ تجربات اور معارف زیادہ ہوتے ہیں اس مناسب سے کثیر العلم شخص کو بھی شیخ کہہ دیا جاتا ہے ۔ محاورہ شیخ بین الشیوخۃ والشیخ ولتیشخ یعنی وہ بہت بڑا عالم ہے قرآن میں ہے : ۔ هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص 23] . ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں ۔- وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ- [ البقرة 281] ، إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور 39] ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ- [ الأنعام 60] ، قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة 11] ، اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل 70] ، الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 28] ، تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام 61] ، أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] ، وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران 193] ، وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف 126] ، تَوَفَّنِي مُسْلِماً [يوسف 101] ، يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ- [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران 185] اور تم کو تہمارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔ اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة 11] کہدو کہ موت کا فرشتہ تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل 70] اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے ۔ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 28] ( ان کا حال یہ ہے کہ جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں ۔ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام 61]( تو ) ہمارے فرشتے ان کی روحیں قبض کرلیتے ہیں ۔ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں ۔ وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران 193] اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا ۔ وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف 126] اور ہمیں ماریو تو مسلمان ہی ماریو ۔ مجھے اپنی اطاعت کی حالت میں اٹھائیو ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
اور وہی اللہ ہے جس نے تمہیں بذریعہ آدم مٹی سے پیدا کیا پھر تمہیں تمہارے آباء کے نطفہ سے پیدا کیا پھر خون کے لوتھڑ سے پھر تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے بچہ کی صورت میں نکالتا ہے تاکہ تم اپنی جوانی کو یعنی اٹھارہ سال سے لیکر تیس سال تک پہنچ جاؤ اور تاکہ تم پھر جوانی کے بعد بوڑھے ہوجاؤ۔- اور کسی کی تم میں سے بلوغ اور بڑھاپے سے پہلے ہی روح قبض کرلی جاتی ہے اور تاکہ تم سب اپنے وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ تاکہ تم بعث بعد الموت کی تصدیق کرو۔
آیت ٦٧ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ” وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پہلے مٹی سے ‘ پھر نطفے سے ‘ پھر علقہ سے “- عَلَقَہکے لغوی معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی دوسری چیز کے ساتھ معلق ّہو۔ اس لفظ میں بچے کی تخلیق کے حوالے سے دوسرے مرحلے کی کیفیت بیان ہوئی ہے جب نطفہ رحم مادر کی دیوار کے ساتھ لٹکی ہوئی ایک جونک کی سی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ - ۔ - ۔ - ۔ لفظ ” عَلَقَہ “ کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة المومنون کی آیت ١٤ کی تشریح۔- ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ” پھر وہ تمہیں نکال لیتا ہے ایک بچے کی حیثیت سے “- ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ” پھر (تمہیں پروان چڑھاتا ہے ) تاکہ تم پہنچ جائو اپنی جوانی کو “- ثُمَّ لِتَکُوْنُوْا شُیُوْخًا ” پھر (تمہیں مزید عمر دیتا ہے ) تاکہ تم ہو جائو بوڑھے۔ “- یعنی حیات انسانی کا دورانیہ ( ) عام طور پر اسی نہج پر چلتا ہے۔- وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی مِنْ قَبْلُ ” اور تم میں سے بعض وہ بھی ہیں جنہیں اس سے پہلے ہی وفات دے دی جاتی ہے “- بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو بڑھاپے کی عمر تک نہیں پہنچ پاتے۔ کوئی بچپن میں فوت ہوجاتا ہے اور کوئی جوانی میں۔- وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّی وَّلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ۔ ” اور (بعض کو مہلت دیتا ہے) تاکہ تم ایک وقت معین ّکو پہنچ جائو اور (یہ اس لیے ہے ) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ “- چاہے کوئی بچپن میں ہی انتقال کر جائے ‘ کوئی جوانی میں فوت ہو یا کوئی بہت طویل عمر پالے ‘ ہر شخص نے اپنی موت تک بہر صورت زندہ رہنا ہے اور ہر شخص کی موت کا وقت اللہ کے ہاں مقرر اور طے شدہ ہے۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :96 یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے اور کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے مر جاتا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :97 وقت مقرر سے مراد یا تو موت کا وقت ہے ، یا وہ وقت جب تمام انسانوں کو دوبارہ اٹھ کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزارتا ہوا اس ساعت خاص تک لے جاتا ہے جو اس نے ہر ایک کی واپسی کے لیے مقرر کر رکھی ہے ۔ اس وقت سے پہلے ساری دنیا مل کر بھی کسی کو مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی ، اور وہ وقت آجانے کے بعد دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کسی کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ ہنگامہ ہستی اس لیے برپا نہیں کیا گیا ہے کہ تم مر کر مٹی میں مل جاؤ اور فنا ہو جاؤ ، بلکہ زندگی کے ان مختلف مرحلوں سے اللہ تم کو اس لیے گزارتا ہے کہ تم سب اس وقت پر جو اس نے مقرر کر رکھا ہے ، اس کے سامنے حاضر ہو ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :98 یعنی زندگی کے ان مختلف مراحل سے تم کو اس لیے نہیں گزارا جاتا کہ تم جانوروں کی طرح جیو اور انہی کی طرح مر جاؤ ، بلکہ اس لیے گزارا جاتا ہے کہ تم اس عقل سے کام لو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس نظام کو سمجھو جس میں خود تمہارے اپنے وجود پر یہ احوال گزرتے ہیں ۔ زمین کے بے جان مادوں میں زندگی جیسی عجیب و غریب چیز کا پیدا ہونا ، پھر نطفے کے ایک خورد بینی کیڑے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق کا وجود میں آنا ، پھر ماں کے پیٹ میں استقرار حمل کے وقت سے وضع حمل تک اندر ہی اندر اس کا اس طرح پرورش پانا کہ اس کی جنس ، اس کی شکل و صورت ، اس کے جسم کی ساخت ، اس کے ذہن کی خصوصیات ، اور اس کی قوتیں اور صلاحیتیں سب کچھ وہیں متعین ہو جائیں اور ان کی تشکیل پر دنیا کی کوئی طاقت اثر انداز نہ ہو سکے ، پھر یہ بات کہ جسی اسقاط حمل کا شکار ہونا ہے اس کا اسقاط ہی ہو کر رہتا ہے ، جسے بچپن میں مرنا ہے وہ بچپن ہی میں مرتا ہے خواہ وہ کسی بادشاہ ہی کا بچہ کیوں نہ ہو ، اور جسے جوانی یا بڑھاپے کی کسی عمر تک پہنچنا ہے وہ خطرناک سے خطرناک حالات سے گزر کر بھی ، جن میں بظاہر موت یقینی ہونی چاہیے ، اس عمر کو پہنچ کر رہتا ہے ، اور جسے عمر کے جس خاص مرحلے میں مرنا ہے اس میں وہ دنیا کے کسی بہترین ہسپتال کے اندر بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہوئے بھی مر کر رہتا ہے ، یہ ساری باتیں کیا اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہیں کہ ہماری اپنی حیات و ممات کا سر رشتہ کسی قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے؟ اور جب امر واقعہ یہی ہے کہ ایک قادر مطلق ہماری موت و زیست پر حکمراں ہے تو پھر کوئی نبی یا ولی یا فرشتہ یا ستارہ اور سیارہ آخر کیسے ہماری بندگی و عبادت کا مستحق ہو گیا ؟ کسی بندے کو یہ مقام کب سے حاصل ہوا کہ ہم اس سے دعائیں مانگیں اور اپنی قسمت کے بننے اور بگڑنے کا مختار اس کو مان لیں؟ اور کسی انسانی طاقت کا یہ منصب کیسے ہو گیا کہ ہم اس کے قانون اور اس کے امر و نہی اور اس کے خود ساختہ حلال و حرام کی بے چون و چرا اطاعت کریں؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم ، الحج ، حاشیہ ۹ ) ۔
18: یعنی یہ سمجھو کہ جو ذات انسان کو تخلیق کے ان سارے مراحل سے گذار رہی ہے، اس کو کسی اور شریک کی کیا حاجت ہے؟ اور اس کے سوا کون ہے جو عبادت کے لائق ہو؟ نیز جس نے انسان کو اتنے سارے مراحل سے گذارا، کیا وہ اسے ایک اور مرحلے سے گذار کر اسے ایک دوسری زندگی نہیں دے سکتی؟