Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ کی بزرگی اور پاکی بیان کرنے پر مامور فرشتے ۔ عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور اس کے آس پاس کے تمام بہترین بزرگ فرشتے ایک طرف تو اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں تمام عیوب اور کل کمیوں اور برائیوں سے اسے دور بتاتے ہیں ، دوسری جانب اسے تمام ستائشوں اور تعریفوں کے قابل مان کر اس کی حمد بجا لاتے ہیں ۔ غرض جو اللہ میں نہیں اس کا انکار کرتے ہیں اور جو صفتیں اس میں ہیں انہیں ثابت کرتے ہیں ۔ اس پر ایمان و یقین رکھتے ہیں ۔ اس سے پستی اور عاجزی ظاہر کرتے ہیں اور کل ایمان دار مردوں عورتوں کیلئے استغفار کرتے رہتے ہیں ۔ چونکہ زمین والوں کا ایمان اللہ تعالیٰ پر اسے دیکھے بغیر تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب فرشتے ان گناہوں کی معافی طلب کرنے کیلئے مقرر کردیئے جو ان کے بن دیکھے ہر وقت ان کی تقصیروں کی معافی طلب کیا کرتے ہیں ، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کیلئے اس کی غیر حاضری میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی دعا پر آمین کہتا ہے اور اس کیلئے دعا کرتا ہے کہ اللہ تجھے بھی یہی دے جو تو اس مسلمان کیلئے اللہ سے مانگ رہا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ امیہ بن صلت کے بعض اشعار کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق کی جیسے یہ شعر ہے زحل و ثور تحت وجل یمینہ والنسر للاخری و لیث مرصد یعنی حاملان عرش چار فرشتے ہیں دو ایک طرف دو دوسری طرف ۔ آپ نے فرمایا سچ ہے پھر اس نے کہا والشمس تطلع کل اخر لیلتہ حمراء یصبح لونھا یتورد تابی فما تطلع لنا فی رسلھا الا معذبتہ والا تجلد یعنی سورج سرخ رنگ طلوع ہوتا ہے پھر گلابی ہو جاتا ہے ، اپنی ہیئت میں کبھی صاف ظاہر نہیں ہوتا بلکہ روکھا پھیکا ہی رہتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ۔ اس کی سند بہت پختہ ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت حاملان عرش چار فرشتے ہیں ، ہاں قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائیں گے ۔ جیسے قرآن مجید میں ہے ( وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ 17؀ۭ ) 69- الحاقة:17 ) ہاں اس آیت کے مطلب اور اس حدیث کے استدلال میں ایک سوال رہ جاتا ہے کہ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ بطحا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے ایک ابر کو گزرتے ہوئے دیکھ کر سوال کیا کہ اس کا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا سحاب ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اسے مزن بھی کہتے ہیں؟ کہا ہاں فرمایا عنان بھی؟ عرض کیا ہاں پوچھا جانتے ہو آسمان و زمین میں کس قدر فاصلہ ہے؟ صحابہ نے کہا نہیں ، فرمایا اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کا راستہ پھر اس کے اوپر کا آسمان بھی پہلے آسمان سے اتنے ہی فاصلے پر اسی طرح ساتوں آسمان ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے جس کی اتنی ہی گہرائی ہے پھر اس پر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت کے ہیں جن کے کھر سے گھٹنے کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے ان کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے جس کی اونچائی بھی اسی قدر ہے ۔ پھر اس کے اوپر اللہ تبارک و تعالیٰ ہے ۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش اللہ اس وقت آٹھ فرشتوں کے اوپر ہے ۔ حضرت شہر بن حوشب کا فرمان ہے کہ حاملان عرش آٹھ ہیں جن میں سے چار کی تسبیح تو یہ ہے ( سبحانک اللھم وبحمد لک الحمد علی حملک بعد عملک ) یعنی اے باری تعالیٰ تیری پاک ذات ہی کیلئے ہر طرح کی حمد و ثناء ہے کہ تو باوجود علم کے پھر بردباری اور علم کرتا ہے ۔ اور دوسرے چار کی تسبیح یہ ہے ( سبحانک اللھم وبحمدک لک الحمد علی عفوک بعد قدرتک ) یعنی اے اللہ باوجود قدرت کے تو جو معافی اور درگذر کرتا رہتا ہے اس پر ہم تیری پاکیزگی اور تیری تعریف بیان کرتے ہیں ۔ اسی لئے مومنوں کے استغفار میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تیری رحمت و علم نے ہر چیز کو اپنی وسعت و کشادگی میں لے لیا ہے ۔ بنی آدم کے تمام گناہ ان کی کل خطاؤں پر تیری رحمت چھائے ہوئے ہے ، اسی طرح تیرا علم بھی ان کے جملہ اقوال و افعال کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ ان کی کل حرکات و سکنات سے تو بخوبی واقف ہے ۔ پس تو ان کے برے لوگوں کو جب وہ توبہ کریں اور تیری طرف جھکیں اور گناہوں سے باز آ جائیں اور تیرے احکام کی تعمیل کریں نیکیاں کریں بدیاں چھوڑیں بخش دے ، اور انہیں جہنم کے دردناک گھبراہٹ والے عذابوں سے نجات دے ۔ انہیں مع ان کے والدین بیویوں اور بچوں کے جنت میں لے جا تاکہ ان کی آنکھیں ہر طرح ٹھنڈی رہیں ۔ گو ان کے اعمال ان جتنے نہ ہوں تاہم تو ان کے درجات بڑھا کر اونچے درجے میں پہنچا دے ۔ جیسے باری تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے ( وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀ ) 52- الطور:21 ) ، یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور ان کے ایمان کی اتباع ان کی اولاد بھی کرے ہم ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے اور ان کا کوئی عمل کم نہ کریں گے ۔ درجے میں سب کو برابری دیں گے ۔ تاکہ دونوں جانب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں ۔ اور پھر یہ نہ کریں گے کہ درجوں میں بڑھے ہوؤں کو نیچا کردیں نہیں بلکہ نیچے والوں کو صرف اپنی رحمت و احسان کے ساتھ اونچا کردیں گے ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں مومن جنت میں جاکر پوچھے گا کہ میرا باپ میرے بھائی میری اولاد کہاں ہے؟ جواب ملے گا کہ ان کی نیکیاں اتنی نہ تھیں کہ وہ اس درجے میں پہنچتے ، یہ کہے گا کہ میں نے تو اپنے لئے اور ان سب کیلئے عمل کئے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دے گا ۔ پھر آپ نے اسی آیت ( رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ Ď۝ۙ ) 40-غافر:8 ) کی تلاوت فرمائی ۔ حضرت مطرف بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ ایمانداروں کی خیر خواہی فرشتے بھی کرتے ہیں پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ اور شیاطین ان کی بدخواہی کرتے ہیں ۔ تو ایسا غالب ہے جس پر کوئی غالب نہیں اور جسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ جو تو چاہتا ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوسکتا ۔ تو اپنے اقوال و افعال شریعت و تقدیر میں حکمت والا ہے ، تو انہیں برائیوں کے کرنے سے دنیا میں اور ان کے وبال سے دونوں جہان میں محفوظ رکھ ، قیامت کے دن رحمت والا وہی شمار ہوسکتا ہے جسے تو اپنی سزا سے اور اپنے عذاب سے بچالے حقیقتاً بڑی کامیابی پوری مقصد دری اور ظفریابی یہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 اس میں ملائکہ مقربین کے ایک خاص گروہ کا تذکرہ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کی وضاحت ہے یہ گروہ ہے ان فرشتوں کا جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو عرش کے ارد گرد ہیں ان کا ایک کام یہ ہے کہ یہ اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں یعنی نقائص سے اس کی تنزیہ کمالات اور خوبیوں کا اس کیلیے اثبات اور اس کے سامنے عجز وتذلل یعنی ایمان کا اظہار کرتے ہیں دوسرا کام ان کا یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کیلیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے چار ہیں مگر قیامت والے دن ان کی تعداد آٹھ ہوگی۔ ابن کثیر

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] حاملین عرش فرشتوں کی مومنوں کے حق میں دعا :۔ ان دندنانے والے کفار مکہ کے مقابلہ میں دوسری طرف مسلمان تھے جن پر کافروں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا اور اسی وجہ سے کچھ مسلمان مکہ کو خیر باد کہہ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرکے چلے گئے تھے۔ ان کی تسلی اور دلجوئی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم پریشان کیوں ہوتے ہو۔ تمہارے حق میں تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور ان کے آس پاس رہنے والے سب کے سب دست بددعا رہتے ہیں۔ اور اللہ کی حمد و ثنا جو ان کا وظیفہ اور روحانی خوراک ہے کے ساتھ ہی تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں اور چونکہ فرشتے وہی کچھ کرتے ہیں جو اللہ کی طرف سے انہیں حکم ملتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انہیں یہ حکم دیا ہے کہ وہ مومنوں کے حق میں دعا و استغفار کرتے رہا کریں۔- [٧] ان کا اللہ پر ایمان اس لحاظ سے مضبوط ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قریب رہتے ہیں۔ ان عرشیوں کی سب ہمدردیاں زمین والے مومنوں کے ساتھ ہیں جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایمان کا رشتہ نہ صرف یہ کہ جغرافیائی حدود کا پابند نہیں بلکہ عرشیوں اور فرشیوں سب کو ایک رشتہ میں منسلک کردیتا ہے۔- [٨] یعنی تیرا علم اتنا وسیع ہے کہ تو اپنے بندوں کے سارے حالات ان کے گناہوں اور ان کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے واقف ہے تو تیری رحمت اس سے بڑھ کر وسیع ہے۔ لہذا جو لوگ توبہ کرچکے اور تیری راہ پر گامزن ہوچکے ہیں تو ان کے گناہ معاف کرکے انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الذین یحملون العرش ومن حولہ …پچھلی آیات میں کفار کا انجام بیان فرمایا، جو اللہ کی آیات ٹھکرانے کے لئے فضول جھگڑا اور کج بحثی کرتے ہیں، اب ان کے مقابلے میں ان لوگوں کا حال بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس پر ایمان لاتے اور کج بحثی سے اجتناب کرتے ہیں۔ ان کے حق میں وہ بلند مرتبہ فرشتے استغفار اور دعائیں کرتے ہیں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو عرش کے اردگرد ہیں، وہ سب ” سبحان اللہ وبحمدہ “ اور اس سے ملتے جلتے کلمات کے ساتھ اپنے رب کی حمد اور اس کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں، یعنی اس پاک ذات کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ تمام صفات کمال کا مالک ہے اور ہر عیب اور کمی سے پاک ہے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کے لئے تسلی بھی ہے کہ ہٹ دھرمی اور کج بحثی کرنے والے کفار کے رویے سے بددل نہ ہوں، اگر یہ لوگ تم سے دشمنی رکھتے ہیں تو تم سے دوستی رکھنے والے بھی بہت ہیں اور بڑی اونچی شان والے ہیں۔ پھر ایسے پاک باز اور خیر خواہ دوستوں کی موجودگی میں ، جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمہارے لئے دعائیں اور بخشش کی درخواست کرتے ہیں تمہیں کسی دشمن کی کیا پروا ہے ؟- (٢) ویومنون بہ : یہاں ایک سوال ہے کہ یہ بات تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ عرش اٹھانے والے اور دور سے تمام فرشتے اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، پھر ان کے اللہ پر ایمان لانے کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا ؟ زمخشری نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ ایمان کی فضیلت و شرف کو نمایاں کرنے کیلئے اور اس کی ترغیب دینے کے لئے کیا گیا ہے، جیسا کہ سورة بلد میں مشکل گھاٹی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے گردن چھڑانے اور نیکی کے دوسرے اعمال کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے کا ذکر فرمایا، تاکہ ایمان کی فضیلت ثابت ہو اور واضح ہوجائے کہ کوئی بھی نیکی اسی وقت معتبر ہے جب اس کے ساتھ ایمان ہو۔- (٣) عرش اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سے سب سے بڑی مخلوق ہے، کیونکہ وہ تمام زمینوں اور آسمانوں کے اوپر ہے اور اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، پھر عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کی عظمت کا کیا حال ہوگا ؟ جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اذن لی ان احدث عن ملک من ملائکۃ اللہ تعالیٰ من حملۃ العرش، ان مابین شحمۃ اذنہ الی عاتقہ مسیرۃ سبعمائۃ عام) (ابوداؤد، السنۃ ، باب فی الجھمیۃ :3828، وقال الالبانی صحیح)” مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے متعلق بیان کروں جو عرش اٹھائے ہوئے ہیں کہ اس کے کان کی کونپل سے اس کے کندھے تک سات سو سال کا فاصلہ ہے۔ “ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ سال دنیا والے ہیں یا وہ سال ہیں جن کا ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے، یا اس سے بھی طویل مدت والے سال مراد ہیں، کیونکہ ہمارے سورج کے دائرے کے باہر وقت کا حساب ہمارے حساب سے نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ افلاک کی وسعت کا کچھ انداز نہیں، جہاں سورج بھی ایک ذرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ غرض یہ ان فرشتوں کی عظمت کا محض ایک اندازہ ہے۔ عرش کو اٹھانے والے اتنے عظیم فرشتے اور عرش کے اردگرد موجود اور اس کا طواف کرنے والے فرشتے جب مومنوں کے حق میں استغفار اور دعائیں کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہے ہیں، جیسا کہ تمام فرشتوں کے متعلق فرمایا :(بل عباد مکرمون، لایبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون) (الانبیائ :28 26) ” بلکہ وہ بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی۔ وہ بات کرنے میں اس سے پہل نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم کے ساتھ ہی عمل کرتے ہیں۔ “ تو اس سے ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ کی بےحد و حساب مہربانی اور رحمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة حاقہ (١٧)- (٤) اس آیت میں توبہ کرنے والوں کے لئے صرف عرش اٹھانے والے اور اس کے اردگرد موجود فرشتوں کے استغفار اور دعا کا ذکر ہے، دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمام فرشتے ان کے لئے استغفار کرتے ہیں، فرمایا :(تکاد السموت یتفطرن من فوقھن والملٓئکۃ یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون لمن فی الارض الا ان اللہ ھو الغفور الرحیم) (الشوری : ٥)” آسمان قریب ہیں کہ اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو زمین میں ہیں، سن لوچ بیشک اللہ ہی بےحد بخشنے والا ناہیت رحم والا ہے۔ “- (٥) ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلماً : یہاں ” یقولون “ (وہ فرشتے کہتے ہیں) محذوف ہے۔ یعنی تسبیح و تحمید کی طرح ایمان والوں کے لئے دعا کرنا بھی ان کے معمولات میں شامل ہے۔ اس سے ایمان کی فضیلت اور ایمان والوں کے باہمی تعلق اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے کہ عرش کے پاس رہنے والے فرشتے زمین پر رہنے والے مومنوں کے حق میں دعائیں کرتے ہیں۔ اسی طرح اس سے دعا کا سلیقہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ” ربنا “ (اے ہمارے رب اے ہمارے پالنے والے ) کہہ کر پکارتے ہیں، پھر اس سے اس کی رحمت اور اس کے علم کا واسطہ دے کر سوال کرتے ہیں، یعنی تیری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے (دیکھیے اعراف : ١٥٦) اور تیرا علم بھی ہر چیز پر وسیع ہے۔ (دیکھیے انعام :80 طلاق : ١٢)- (٦) فاغفر للذین تابوا … اس لئے تو اپنی رحمت اور علم کے تقاضے کے مطابقا ن گناہ گ اورں کو بخش دے جو اپنے گناہوں سے توبہ کریں، ان سے باز آجائیں اور تیرے راستے کی پیروی کریں، تو نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل کریں اور جس سے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیں اور اے اللہ انہیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچا لے۔ مزید دیکھیے سورة شوریٰ کی آیت (٥) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ ۔ حاملان عرش فرشتے اب چار ہیں اور قیامت کے روز آٹھ ہوجائیں گے اور عرش کے گرد کتنے فرشتے ہیں ان کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے۔ بعض روایات میں ان کی صفوں کی تعداد بتلائی ہے جو لاکھوں تک پہنچتی ہے، ان کو کروبی کہا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں۔ اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ یہ سب مقرب فرشتے مومنین کے لئے خصوصاً جو گناہوں سے تائب اور شریعت کے متبع ہوجائیں ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ یا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کام پر مامور فرمایا ہے یا ان کی فطرت و طبیعت ہی ایسی ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندوں کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اسی لئے حضرت مطرف بن عبداللہ ابن شخیر نے فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں مومنین کے خیر خواہ سب سے زیادہ اللہ کے فرشتے ہیں۔ ان کی دعا مومنین کے لئے ایک تو یہ ہوتی ہے کہ ان کی مغفرت فرما اور عذاب جہنم سے بچا۔ اور ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں داخل فرما۔ اس کے ساتھ یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ (آیت) ومن صلح من ابائھم وازواجھم وذریتھم یعنی ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولادوں میں سے جن میں صلاحیت مغفرت کی ہو یعنی جن کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے ان کو بھی انہیں لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل فرما۔- اس سے معلوم ہوا کہ ایمان تو شرط نجات ہے ایمان کے بعد دوسرے اعمال صالحہ ہیں۔ مسلمان کے متعلقین باپ دادے یا بیوی اور اولاد اگر اس کے درجہ سے نیچے بھی ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کے اکرام میں کم درجہ کے متعلقین کو بھی جنت میں انہیں کے ساتھ کردیں گے تاکہ ان کی خوشی ومسرت مکمل ہوجائے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیت میں ارشاد ہے کہ (آیت) الحقنا بھم ذریتھم۔- حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ مومن جب جنت میں جائے گا تو اپنے باپ، بیٹے، بھائی وغیرہ کو پوچھے گا کہ وہ کہاں ہیں اس کو بتلایا جائے گا کہ انہوں نے تمہارے جیسا عمل نہیں کیا (اس لئے وہ یہاں نہیں پہنچ سکیں گے) یہ کہے گا کہ میں نے جو عمل کیا تھا (وہ صرف اپنے لئے نہیں) بلکہ اپنے اور ان کے لئے کیا تھا تو حکم ہوگا ان کو بھی جنت میں داخل کردو۔ (ابن کثیر)- تفسیر مظہری میں اس روایت کو نقل کر کے فرمایا کہ یہ موقوف بحکم مرفوع ہے اور اس بارے میں صریح ہے کہ صلاحیت جو اس آیت میں شرط قرار دی گئی ہے اس سے مراد نفس ایمان ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝ ٠ ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ۝ ٧- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس،- والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے - اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - وسع - السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ :- الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو .- ( و س ع )- اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - جحم - الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما .- ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جو فرشتے عرش الہی کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور ان فرشتوں کی دس جماعتیں ہیں اور جو فرشتے اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے پروردگار کے حکم سے اس کی تسبیح و تمہید کرتے رہتے ہیں اور وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اہل ایمان کے لیے اس طرح دعا و استغفار کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب آپ کے انعامات ہر ایک چیز کیا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور آپ ہر ایک چیز کو جانتے ہیں سو ان لوگوں کو بخش دیجیے جنہوں نے شرک سے توبہ کرلی اور دین اسلام پر چلتے ہیں اور ان سے جہنم کے عذاب کو دور کردیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ ” وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو ان کے ارد گرد ہیں “- اس آیت کو پڑھتے ہوئے سورة الزمر کی آخری آیت کو ذہن میں رکھیے جس میں میدانِ حشر میں عدالت ِالٰہی کا اختتامی منظر دکھایا گیا تھا : وَتَرَی الْمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْج ” اور تم دیکھو گے فرشتوں کو کہ وہ گھیرے ہوئے ہوں گے عرش کو اور اپنے ربّ کی تسبیح بیان کر رہے ہوں گے حمد کے ساتھ “۔ چناچہ یہاں ان حاملین عرش اور ان کے ساتھی ملائکہ کا ذکر دوبارہ ہو رہا ہے کہ :- یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ” وہ سب تسبیح کر رہے ہوتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور اس پر پورا یقین رکھتے ہیں “- وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ” اور اہل ایمان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ “- رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا ” اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے “- فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ ” پس بخش دے ُ تو ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی پیروی کی “- اے پروردگار ہم تجھ سے کیا عرض کریں ؟ تجھے ہر شے کا علم ہے ‘ تیری رحمت پہلے ہی ہرچیز کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی ہم تجھ سے تیری رحمت کی درخواست کرتے ہیں اور اہل زمین میں سے جو مومنین اور نیک لوگ ہیں ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اے پروردگار تو ان کی خطائیں بخش دے اور ان کے گناہوں سے درگزر فرما اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مومنین کے حق میں فرشتے بھی شفاعت کریں گے۔ یہ شفاعت ِحقہ ّہے۔- وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ” اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :6 یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے ۔ وہ اس وقت کفار مکہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں ، اور ان کے مقابلہ میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ ان گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو ، تمہارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الہیٰ کے حامل فرشتے ، اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمہارے حامی ہیں اور تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں ۔ عام فرشتوں کے بجائے عرش الٰہی کے حامل اور اس کے گردو پیش رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنہیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ، تمہارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں ۔ پھر یہ جو فرمایا گیا کہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو انہی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ فرشتوں کے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے ، مگر انہوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا ، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں ، کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انہیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سر اطاعت جھکاتے ہوں ۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلاف جنس اور بُعدِ مقام کے باوجود ان کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہو گیا ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :7 یعنی اپنے بندوں کی کمزوریاں اور لغزشیں اور خطائیں تجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں ، بے شک تو سب کچھ جانتا ہے مگر تیرے علم کی طرح تیرا دامن رحمت بھی تو وسیع ہے ، اس لیے ان کی خطاؤں کو جاننے کے باوجود ان غریبوں کو بخش دے ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بربنائے رحمت ان سب لوگوں کو بخش دے جن کو بربنائے علم تو جانتا ہے کہ انہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہے فی الواقع تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :8 معاف کرنا اور عذاب دوزخ سے بچا لینا اگرچہ صریحاً لازم و ملزوم ہیں اور ایک بات کا ذکر کر دینے کے بعد دوسری بات کہنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی ۔ لیکن اس طرز بیان سے دراصل اہل ایمان کے ساتھ فرشتوں کی گہری دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے ۔ قاعدے کی بات ہے کہ کسی معاملے میں جس شخص کے دل کو لگی ہوئی ہوتی ہے وہ جب حاکم سے گزارش کرنے کا موقع پا لیتا ہے تو پھر وہ اِلحاح کے ساتھ ایک ہی درخواست کو بار بار طرح طرح سے پیش کرتا ہے اور ایک بات بس ایک دفعہ عرض کر کے اسکی تسلی نہیں ہوتی ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :9 یعنی نافرمانی چھوڑ دی ہے ، سرکشی سے باز آ گئے ہیں اور فرمانبرداری اختیار کر کے زندگی کے اس راستے پر چلنے لگے ہیں جو تو نے خود بتایا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani