[٩٣] کیونکہ سابقہ کتب سماوی کی بنیادی تعلیم وہی کچھ ہے جو قرآن کریم کی ہے اور ان لوگوں کا قرآن یا پہلی کتابوں کو جھٹلانا یہ ہے کہ وہ قرآن سے ہدایت لینے کے خواہشمند نہیں ہوتے بلکہ قرآن میں اپنے قائم کردہ نظریات کو داخل کرنا چاہتے ہیں۔
الذین کذبوا بالکتب …: یعنی ان کے اللہ کی کتاب اور اس کے رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات (توحید، رسالت اور آخرت وغیرہ) پر ایمان لانے کے بجائے ان کے بارے میں جھگڑنے کیا صل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے قبول کرنے کے ارادے سے ان پر سناجیدگی سے غور ہی نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ جھگڑاو پن سے ان کا مقابلہ کرنے اور انہیں جھٹلانے کا راستہ اختیار کئے رکھا۔ سو وہ اپنے اس عمل کا انجام بہت جلد جان لیں گے۔
الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِالْكِتٰبِ وَبِمَآ اَرْسَلْنَا بِہٖ رُسُلَنَا ٠ ۣ ۛ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ٧٠ۙ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
جن لوگوں نے قرآن حکیم کو اور سابقہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کی کتابوں کو جھٹلایا سو ان کو ابھی معلوم ہوا جاتا ہے کہ قیامت کے دن ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔
آیت ٧٠ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِالْکِتٰبِ وَبِمَآ اَرْسَلْنَا بِہٖ رُسُلَنَاقف فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ” وہ لوگ کہ جنہوں نے جھٹلایا کتاب کو اور ان چیزوں کو جن کے ساتھ ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو ‘ تو عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔ “- بس کچھ ہی وقت کی بات ہے ‘ اصل حقیقت ان پر منکشف ہوجائے گی۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :100 یہ ہے ان کے ٹھوکر کھانے کی اصل وجہ ۔ ان کا قرآن کو اور اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کو نہ ماننا اور اللہ کی آیات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے بجائے جھگڑالو پن سے ان کا مقابلہ کرنا ، یہی وہ بنیادی سبب ہے جس نے ان کو بھٹکا دیا ہے اور ان کے لیے سیدھی راہ پر آنے کے سارے امکانات ختم کر دیے ہیں ۔