کفار کو عذاب جہنم اور طوق و سلاسل کی وعید ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا تمہیں ان لوگوں پر تعجب نہیں ہوتا جو اللہ کی باتوں کو جھٹلاتے ہیں اور اپنے باطل کے سہارے حق سے اڑتے ہیں؟ تم نہیں دیکھ رہے کہ کس طرح ان کی عقلیں ماری گئی ہیں؟ اور بھلائی کو چھوڑ برائی کو کیسے بری طرح چمٹ گئے ہیں؟ پھر ان بدکردار کفار کو ڈرا رہا ہے کہ ہدایت و بھلائی کو جھوٹ جاننے والے کلام اللہ اور کلام رسول کے منکر اپنا انجام ابھی دیکھ لیں گے ۔ جیسے فرمایا جھٹلانے والوں کیلئے ہلاکت ہے ، جبکہ گردنوں میں طوق اور زنجیریں پڑی ہوئی ہوں گی اور داروغہ جہنم گھسیٹے گھسیٹے پھر رہے ہوں گے ۔ کبھی حمیم میں اور کبھی حجیم میں ۔ گرم کھولتے ہوئے پانی میں سے گھسیٹے جائیں گے ۔ اور آگ جہنم میں جھلسائے جائیں گے ۔ جیسے اور جگہ ہے ۔ یہ ہے وہ جہنم جسے گنہگار لوگ جھوٹا جانا کرتے تھے ۔ اب یہ اس کے اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان مارے مارے پریشان پھرا کریں ۔ اور آیتوں میں ان کا زقوم کھانا اور گرم پانی پینا بیان فرما کر فرمایا ( ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ 68 ) 37- الصافات:68 ) کہ پھر ان کی بازگشت تو جہنم ہی کطرف ہے ۔ سورہ واقعہ میں اصحاب شمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا بائیں ہاتھ والے کس قدر برے ہیں؟ وہ آگ میں ہیں اور گرم پانی میں اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا ہے نہ سود مند ، آگے چل کر فرمایا ، اے بہکے ہوئے جھٹلانے والو البتہ سینڈ کا درخت کھاؤ گے اسی سے اپنے پیٹ بھرو گے ۔ پھر اس پر جلتا پانی پیو گے اور اس طرح جس طرح تونس والا اونٹ پیتا ہے ۔ آج انصاف کے دن ان کی مہمانی یہی ہوگی ۔ اور جگہ فرمایا ہے ( اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ 43ۙ ) 44- الدخان:43 ) ، یعنی یقینا گنہگاروں کا کھانا زقوم کا درخت ہے جو مثل پگھلے ہوئے تابنے کے ہے جو پیٹوں میں کھولتا رہتا ہے ۔ جیسے تیز گرم پانی ۔ اسے پکڑو اور دھکیلتے ہوئے بیچوں بیچ جہنم میں پہنچاؤ پھر اس کے سر پر تیز گرم جلتے جلتے پانی کا عذاب بہاؤ لے چکھ تو بڑا ہی ذی عزت اور بڑی ہی تعظیم تکریر والا شخص تھا ۔ جس سے تم شک شبہ میں تھے ۔ مقصد یہ ہے کہ ایک طرف سے تو وہ یہ دکھ سہ رہے ہوں گے جن کا بیان ہوا اور دوسری جانب سے انہیں ذلیل و خوار و رو سیاہ ناہنجار کرنے کیلئے بطور استہزاء اور تمسخر کے بطور ڈانٹ اور ڈپٹ کے بطور حقارت اور ذلت کے ان سے یہ کہا جائے گا جس کا ذکر ہوا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ ایک جانب سے سیاہ ابر اٹھے گا جسے جہنمی دیکھیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ ابر کو دیکھتے ہوئے دنیا کے انداز پر کہیں گے کہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ برسے وہیں اس میں سے طوق اور زنجیریں اور آگ کے انگارے برسنے لگیں گے جس کے شعلے انہیں جلائیں جھلسائیں گے اور وہ طوق و سلاسل ان کے طوق و سلاسل کے ساتھ اضافہ کر دیئے جائیں گے ۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ کیوں جی دنیا میں اللہ عزوجل کے سوا جن جن کو پوجتے رہے وہ سب آج کہاں ہیں؟ کیوں وہ تمہاری مدد کو نہیں آئے؟ کیوں تمہیں یوں کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا ؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہاں وہ تو سب آج ناپید ہوگئے وہ تھے ہی بےسود ۔ پھر انہیں کچھ خیال آئے گا اور کہیں گے نہیں نہیں ہم نے تو ان کی عبادت کبھی نہیں کی ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جب ان کے بنائے کچھ نہ بنے گی تو صاف انکار کر دیں گے اور جھوٹ بول دیں گے کہ ( وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ 23 ) 6- الانعام:23 ) اللہ ہمیں تیری قسم ہم مشرک نہ تھے ۔ یہ کفار اسی طرح بیکاری میں کھوئے رہتے ہیں ، ان سے فرشتے کہیں گے یہ بدلہ ہے اس کا جو دنیا میں بےوجہ گردن اکڑائے اکڑتے پھرتے تھے ۔ تکبر و جبر پر چست کمر رہتے تھے لو اب آ جاؤ جہنم کے ان دروازوں میں داخل ہو جاؤ اب ہمیشہ یہیں پے رہنا تم جیسے اترانے والوں کی ہی یہ بدمنزل اور بری جائے قرار ہے ۔ جس قدر تکبر کئے تھے اتنے ہی ذلیل و خوار آج بنو گے ۔ جتنے ہی بلند گئے تھے اتنے ہی گرو گے ۔ واللہ اعلم ۔
69۔ 1 انکار اور تکذیب کے لئے یا اس کے رد و ابطال کے لئے۔ 69۔ 2 یعنی ظہور دلائل اور وضوح حق کے باوجود وہ کس طرح حق کو نہیں مانتے۔ یہ تعجب کا اظہار ہے۔
[٩٢] قرآن کی آیات سے اپنے نظریات کشید کرنا اور ان میں جھگڑا اور فرقہ بازی :۔ اللہ کی آیات سے مراد آیات آفاق وانفس بھی ہوسکتی ہے جن کا قرآن نے بیشمار مقامات پر اور یہاں بھی توحید کے دلائل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ پھر بھی مشرک لوگ ان میں جھگڑا کرتے اور اللہ کے پیاروں کو اللہ کے اختیارات میں شریک بنا لیتے ہیں اور اگر ان آیات سے مراد اللہ کے احکام وارشادات لئے جائیں تو اس سے مرادوہ لوگ ہیں جو کسی ایک پہلو کی انتہا کو پہنچ کر ایک نظریہ قائم کرلیتے ہیں پھر جو آیات اپنے اس قائم کردہ نظریہ کے خلاف نظر آئیں ان کی تاویل کرلیتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگوں نے جب موت وحیات اور رزق وغیرہ کے معاملہ میں انسان کی بےبسی دیکھی تو یہ نظریہ قائم کرلیا کہ انسان مجبور محض اور قدرت کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونے کی حیثیت رکھتا ہے پھر جن آیات سے انسان کا اختیار ثابت ہوتا تھا ان کی تاویل کر ڈالی۔ ایسے لوگوں کے مقابلہ میں کچھ دوسرے لوگ اٹھے جنہوں نے قرآن ہی کی آیات سے یہ نظریہ قائم کرلیا کہ انسان مختار مطلق ہے اور جو کام بھی وہ کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ اور ایسی آیات جن سے انسان کی بےبسی ثابت ہوتی تھی ان کی تاویل کر ڈالی۔ اس طرح اللہ کی آیات میں بحث وجدال اور ایک ہی طرف انتہا کو پہنچنے اور دوسرے پہلو سے صرف نظر کرنے کی بنا پر آغاز اسلام میں دو فرقے جبریہ اور قدریہ ایک دوسرے کے مدمقابل کے طور پر سامنے آگئے۔ وہی مسئلہ تقدیر جس پر بحث کرنے سے رسول اللہ نے سختی سے روک دیا تھا۔ اسی مسئلہ پر بحث وجدال کے نتیجہ میں یہ دو فرقے پیدا ہوئے اور اپنے اپنے نظریہ کی حمایت میں قرآن کی آیات میں بحث وجدال اور انہی سے استدلال کرنے لگے۔۔ حالانکہ اس مسئلہ میں راہ صواب اور راہ اعتدال یہ ہے کہ انسان بعض معاملات میں مجبور ہے اور بعض میں مختار۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت ہے اب اللہ تعالیٰ کا عدل یہ ہے کہ جس کام میں انسان مجبور ہے وہاں اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔ مؤاخذہ یا باز پرس صرف اس کام کے متعلق ہوگی جس میں وہ مختار ہے۔ یا جس حد تک مختار ہے۔۔ بعد ازاں جتنے بھی بدعی فرقے پیدا ہوئے ہر ایک نے اپنی بنائے استدلال قرآن ہی پر رکھی اور من مانی تاویل حتیٰ کہ اپنی بات کی اپچ میں آکر معنوی اور لفظی تحریف تک سے باز نہ آئے اور ایسی چند تاویلات ہم اپنے حواشی میں پیش کرچکے ہیں۔
الم ترالی الذین یجادلون … اس سورت میں شروع سے یہاں تک کفار کے ناحق جدال کا اور اس کی مذمت کا پانچ مرتبہ ذکر آیا ہے۔ دیکھیے آیت (٤، ٥، ٣٥، ٥٦، ٦٩) یہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ان آیات کے سننے یا پڑھنے والے ہر شخص کو فرمایا کہ صسورت کے شروع سے یہاں تک کی تقریر سے) کیا تمہیں معلوم نہیں ہوا کہ اللہ کی آیات میں ناحق جھگڑا اور کج بحثی کرنے والے لوگ ان کے صحیح ہونے کے دلائل جاننے کے باوجود کہاں سے ٹھوکر کھا کر گمراہی کے گڑھے میں گر رہے ہیں ؟
خلاصہ تفسیر - کیا آپ نے ان لوگوں (کی حالت) کو نہیں دیکھا جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑے نکالتے ہیں (حق سے) کہاں پھرے چلے جا رہے ہیں، جن لوگوں نے اس کتاب (یعنی قرآن) کو جھٹلایا اور اس چیز کو بھی (جھٹلایا) جو ہم نے اپنے پیغمبروں کو دے کر بھیجا تھا (اس میں کتب و احکام و معجزات سب داخل ہوگئے کیونکہ مشرکین عرب اور کسی پیغمبر کو بھی نہ مانتے تھے) سو ان کو ابھی (یعنی قیامت میں کہ قریب ہے) معلوم ہوا جاتا ہے جبکہ طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور ان (طوقوں میں) زنجیریں (پروئی ہوئی ہوں گی، جن کا دوسرا سرا فرشتوں کے ہاتھ میں ہوگا اور ان زنجیروں سے) ان کو گھسیٹتے ہوئے کھولتے پانی میں پہنچائیں گے۔ پھر یہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے، پھر ان سے پوچھا جاوے گا کہ وہ (معبود) غیر اللہ کہاں گئے جن کو تم شریک (خدائی) ٹھہراتے تھے (یعنی تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے) وہ کہیں گے کہ وہ تو سب ہم سے غائب ہوگئے، بلکہ (سچ بات تو یہ ہے کہ) ہم اس کے قبل (دنیا میں جو بتوں کو پوجتے تھے تو اب معلوم ہوا کہ) کسی کو بھی نہیں پوجتے تھے (یعنی معلوم ہوا کہ وہ لا شی محض تھے ایسی بات غلطی ظاہر ہونے کے وقت کہی جاتی ہے جیسے کوئی شخص تجارت میں خسارہ اٹھائے اور اس سے پوچھا جاوے کہ تم فلاں مال کی تجارت کیا کرتے ہو اور وہ کہے کہ میں تو کسی کی بھی تجارت نہیں کرتا یعنی جب اس کا ثمرہ حاصل نہ ہو تو یوں سمجھنا چاہئے کہ گویا وہ عمل ہی نہ ہوا، آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کو غلطی میں پھنسائے رکھتا ہے (کہ جس چیز کے لا شی وغیر نافع ہونے کا وہاں خود اقرار کریں گے، آج یہاں ان کی عبادت میں مشغول ہیں ارشاد ہوگا کہ) یہ (سزا) اس کے بدلہ میں ہے کہ تم دنیا میں ناحق خوشیاں مناتے تھے اور اس کے بدلہ میں کہ تم اتراتے تھے (اور اس کے قبل ان کو حکم ہوگا) کہ جہنم کے دروازوں میں گھسو (اور) ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہو سو متکبرین (عن آیات اللہ) کا وہ برا ٹھکانہ ہے۔ (اور جب ان سے اس طرح انتقام لیا جاوے گا) تو آپ (چندے) صبر کیجئے بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے، پھر جس (عذاب) کا (مطلقاً ) ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں (کہ کفر موجب عذاب ہے) اس میں سے کچھ تھوڑا سا (عذاب) اگر ہم آپ کو دکھلا دیں (یعنی آپ کی حیات میں ان پر اس کا نزول ہوجائے) یا (اس کے نزول کے قبل ہی) ہم آپ کو وفات دے دیں (پھر خواہ بعد میں نزول ہو یا نہ ہو) سو (دونوں احتمال ہیں کوئی شق ضروری نہیں لیکن ہر حال اور ہر احتمال پر) ہمارے ہی پاس ان کو آنا ہوگا (اور اس وقت بالیقین ان پر عذاب واقع ہوگا) اور (اس بات کو یاد کر کے بھی تسلی حاصل کیجئے کہ) ہم نے آپ سے پہلے بہت سے پیغمبر بھیجے جن میں بعضے تو وہ ہیں کہ ان کا قصہ ہم نے آپ سے (اجمالاً وتفصیلاً ) بیان کیا ہے اور بعضے وہ ہیں جن کا ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا اور (اتنا امر سب میں مشترک ہے کہ) کسی رسول سے یہ نہ ہوسکا کہ کوئی معجزہ بدون اذن الٰہی کے ظاہر ہو سکے (اور امت کی ہر فرمائش پوری کرسکے۔ سو بعضے اس لئے بھی ان کی تکذیب کرتے رہے، اسی طرح یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو آپ تسلی رکھئے اور صبر کیجئے) پھر جس وقت اللہ کا حکم (نزول عذاب کے لئے) آوے گا، (خواہ دنیا میں یا آخرت میں لقولہ تعالیٰ (آیت) فاما نرینک بعض الذین نعدھم الخ) تو ٹھیک ٹھیک (عملی) فیصلہ ہوجاوے گا اور اس وقت اہل باطل خسارہ میں رہ جاویں گے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللہِ ٠ ۭ اَنّٰى يُصْرَفُوْنَ ٦٩ۚۖۛ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152]- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔
اے محمد کیا آپ کو بذریعہ قرآن حکیم ان لوگوں کی حالت کا علم نہیں ہوا جو کہ قرآن حکیم کی تکذیب کرتے ہیں یہ اپنے جھوٹ کی وجہ سے کہاں بہکے جارہے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ پر بہتان لگاتے ہیں۔
آیت ٦٩ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ َیُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ ” کیا تم نے غور نہیں کیا ان لوگوں کے حال پر جو اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں “- اَلَمْ تَرَکا لفظی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ کیا تم نے دیکھا نہیں ؟ لیکن اس کا مفہوم یہی ہے کہ کیا تم نے غور نہیں کیا ؟- اَنّٰی یُصْرَفُوْنَ ” وہ کہاں سے پھرائے جا رہے ہیں ؟ “- یعنی وہ حق کے قریب پہنچ کر واپس پلٹ گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور نصیب ہوا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک شہر اور ایک جگہ اکٹھے رہنے کا موقع ملا۔ لیکن ان کی بد قسمتی ملاحظہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے انعام کے باوجود بھی یہ لوگ ہدایت سے محروم رہ گئے۔ مقامِ عبرت ہے دیکھو ‘ یہ لوگ کہاں تک پہنچ کر ناکام لوٹے ہیں : ؎- قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند - دو چار ہاتھ جبکہ لب ِبام رہ گیا
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :99 مطلب یہ ہے کہ اوپر والی تقریر کے بعد بھی کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ ان لوگوں کی غلط بینی اور غلط روی کا اصل سر چشمہ کہاں ہے اور کہاں سے ٹھوکر کھا کر یہ اس گمراہی کے گڑھے میں گرے ہیں؟ ( واضح رہے کہ یہاں تم کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو ان آیات کو پڑھے یا سنے )