Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہر مخلوق خالق کائنات پر دلیل ہے ۔ انعام یعنی اونٹ گائے بکری اللہ تعالیٰ نے انسان کے طرح طرح کے نفع کیلئے پیدا کئے ہیں سواریوں کے کام آتے ہیں کھائے جاتے ہیں ۔ اونٹ سواری کا کام بھی دے کھایا بھی جائے ، دودھ بھی دے ، بوجھ بھی ڈھوئے اور دور دراز کے سفر بہ آسانی سے کرا دیئے ۔ گائے کا گوشت کھانے کے کام بھی آئے دودھ بھی دے ۔ ہل بھی جتے ، بکری کا گوشت بھی کھایا جائے اور دودھ بھی پیا جائے ۔ پھر ان کے سب کے بال بیسیوں کاموں میں آئیں ۔ جیسے کہ سورہ انعام سورہ نحل وغیرہ میں بیان ہو چکا ہے ۔ یہاں بھی یہ منافع بطور انعام گنوائے جا رہے ہیں ، دنیا جہاں میں اور اس کے گوشے گوشے میں اور کائنات کے ذرے ذرے میں اور خود تمہاری جانوں میں اس اللہ کی نشانیاں موجود ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی ان گنت نشانیوں میں سے ایک کا بھی کوئی شخص صحیح معنی میں انکاری نہیں ہو سکتا یہ اور بات ہے کہ ضد اور اکڑ سے کام لے اور آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 اللہ تعالیٰ اپنی ان گنت نعمتوں میں سے بعض نعمتوں کا تذکرہ فرما رہا ہے چوپائے سے مراد اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ ہے یہ نر مادہ مل کر آٹھ ہیں جیسا کہ سورة انعام میں ہے 79۔ 2 یہ سواری کے کام بھی آتے ہیں، ان کا دودھ بھی پیا جاتا ہے (جیسے بکری، گائے اور اونٹنی کا دودھ) ان کا گوشت انسان کی مرغوب ترین غذا ہے اور بار برداری کا کام بھی ان سے لیا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) اللہ الذی جعل لکم الانعام لترکبوا…:” جعل “ یہاں ” خلق “ کے معنی میں ہے : جیسا کہ فرمایا :(الحمد للہ الذی خلق السموت والارض وجعل الظلمت والنور) (الانعام : ١)” سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا۔ “” الانعام “” نعم “ (نون اور عین کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے، اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکریاں، نر و مادہ دونوں۔ (دیکھیے انعام : ١٤٢، ١٤٣) یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ عموماً یہ لفظ اونٹوں پر بولا جاتا ہے۔ اس آیت میں مذکور زیادہ تر فوائد اونٹوں کے بیان ہوئے ہیں۔ ان آیات کی مفصل تفسیر کے لئے دیکھیے سورة نحل (٥ تا ٨، ٦٦، ٨٠) اور سورة مومنون (٢١، ٢٢)- (٢) لترکبوا منھا “ میں جانوروں پر سواری کا ذکر فرمایا، پھر اس سے اگلی آیت میں کشتیوں کیساتھ ساتھ دوبارہ ان پر سواری کا ذکر فرمایا۔ بعض مفسرین نے اس میں یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ ” الترکبوا منھا “ میں عام شہروں اور بستیوں کے درمیان معمول کی سواری مراد ہے اور ” تحملون “ سے مراد دور دراز کے سفر ہیں۔ (ابن عطیہ) (واللہ اعلم)- (٣) مفسر عبدالرحمٰن گیلانی لکھتے ہیں :” کفار مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طرح سرح کے حسی معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے، جس کا ایک جواب تو سابقہ آیت میں دیا گیا ہے کہ ایسا معجزہ پیش کرنا رسول کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ان آیات میں کفار کے اسی مطالبے کا دوسرا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں تمہیں اپنے دائیں بائیں، اندر باہر اور اوپر نیچے ہر طرف ہی مل سکتی ہیں۔ اگر تم سوچو تو تمہارے راہ راست کو قبول کرنے کے لئے راہنمائی ان میں بھی موجود ہے۔ مثلاً جو مویشی تم پالتے ہو ان پر بھی نظر ڈال کر دیکھ لو، ان کی ساخت اور ان کی فطرت ہی ہم نے ایسی بنادی ہے کہ وہ فوراً تمہارے تابع بن جاتے ہیں۔ پھر ان سے تم ہز اورں قسم کے فوائد حاصل کرتے ہو۔ ان کے دودھ سے بالائی، مکھن، پنیر، گھی اور لسی بناتے ہو اور یہ چیزیں تمہارے جسم کا انتہائی اہم جزو ہیں۔ پھر تم ان پر سواری کرتے ہو۔ تمہارے بوجھل سامان کو یہ اٹھاتے ہیں، تمہار کھیتی میں ہل یہ چلاتے ہیں، کنوئیں سے پانی یہ کیھنچتے ہیں، تم مشقت کے سب کام ان سے لیتے ہو۔ پھر ان کو ذبح کر کے ان کا گوشت بھی کھاتے ہو، ان کے بالوں سے پوشاک تیار کرتے ہو اور مرنے کے بعد ان کی ہڈیوں ، کھالوں اور دانتوں تک کو اپنے کام میں لاتے ہو۔ ان مویشیوں میں اسنان کے لئے یہ خوئے غلامی کس نے پیدا کی ؟ تمہاری پیدائش سے بھی پہلے تمہاری ضروریات کا اس قدر خیال رکھنے والا کون ہے ؟- اب دوسری طرف نظر ڈالو، زمین کے تین چوتھئای حصے پر پانی یا سمندر پھیلے ہوئے ہیں، خشکی صرف چوتھا حصہ ہے، جس پر تم اور تمہارے مویشی سب رہتے ہیں۔ اتنے سے خشکی کے حصے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا پانی کا ذخیرہ کیوں پیدا کردیا ؟ کیا کبھی تم نے اللہ کی اس نشانی پر غور کیا ڈ پھر پانی اور ہواؤں کو ایسے طبعی قوانین کا پابند کردیا کہ تم دریاؤں اور سمندروں میں کشتی بانی اور جہاز رانی کے قابل ہوگئے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے طبعی قوانین ہی بدل ڈالے اور وہ ہر چیز کا خلاق ہے اور اس میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے، تو کیا تم جہاز رانی کرسکتے تھے، یا اس زمین پر زندہ رہ سکتے تھیڈ پھر یہ بھی سوچہ کہ جس حکمتوں والے پروردگار نے اپنی اتنی بیشمار چیزیں تمہارے تصرف میں دے رکھی ہیں، کیا وہ انسان کو اتنے اختیارات دے کر اس کو یونہی چھوڑ دے گا اور اس سے اپنی نعمتوں کا کبھی حساب نہ لے گا ؟ اور یہ نہ پوچھے گا کہ جس رحیم پروردگار نے تمہاری جملہ ضروریات کا اس قدر خیال رکھا، پھر اس کے ساتھ اپنی رحمتیں بھی نازل فرماتا رہا تو کیا انسان نے اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کی اور اس کا شکریہ ادا کیا، یا وہ نمک حرام اور ناشکرا ثابت ہوا اور اپنی نیاز مندیاں اللہ کے بجائے دوسروں کے سامنے نچھاور کرنے لگا۔ “ (تیسیرا القرآن)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے مویشی بنائے تاکہ ان میں بعض سے سواری لو اور ان میں بعض (ایسے ہیں کہ ان کو) کھاتے بھی ہو اور تمہارے لئے ان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں (کہ ان کے بال اور اون کام آتی ہے) اور (اس لئے بنائے) تاکہ تم ان پر (سوار ہو کر) اپنے مطلب تک پہنچو جو تمہارے دلوں میں ہے (جیسے کسی سے ملنے کے لئے جانا، تجارت کے لئے جانا وغیرہ وغیرہ) اور (سوار ہونے میں کچھ ان ہی کی تخصیص نہیں بلکہ) ان پر (بھی) اور کشتی پر (بھی) لدے لدے پھرتے ہو (اور ان کے علاوہ) تم کو اپنی (قدرت کی) اور نشانیاں دکھلاتا رہتا ہے۔ (چنانچہ ہر مصنوع اس کی صنعت پر ایک نشان ہے) سو تم اللہ کی کون کون سی نشانوں کا انکار کرو گے (اور یہ لوگ جو بعد قیام دلائل بھی توحید کے منکر ہیں تو کیا ان کو شرک کے وبال کی خبر نہیں اور) کیا ان لوگوں نے ملک میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ جو (مشرک) لوگ ان سے پہلے ہو کر گزرے ہیں (اس شرک کی بدولت) ان کا کیسا انجام ہوا (حالانکہ) وہ لوگ ان سے (عدد میں بھی) زیادہ تھے اور قوت اور نشانیوں میں (بھی) جو کہ زمین پر چھوڑ گئے ہیں (مثل عمارات وغیرہ) بڑھے ہوئے تھے سو ان کی (یہ تمام تر) کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی (اور عذاب الٰہی سے نہ بچ سکے) غرض جب ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی دلیلیں لے کر آئے تو وہ لوگ اپنے (اس) علم (معاش) پر بڑے نازاں ہوئے جو ان کو حاصل تھا (یعنی معاش کو مقصود سمجھ کر اور اس میں جو ان کو لیاقت حاصل تھی، اس پر خوش ہوئے اور معاد کا انکار کر کے اس کی طلب کو دیوانگی اور اس کے انکار پر وعید عذاب سے تمسخر کیا) اور (اس کے وبال میں) ان پر وہ عذاب آ پڑا جس کے ساتھ تمسخر کرتے تھے، پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہنے لگے (اب) ہم خدائے واحد پر ایمان لائے اور ان سب چیزوں سے ہم منکر ہوئے جن کو ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے سو ان کا یہ ایمان لانا نافع نہ ہوا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ (کیونکہ وہ ایمان اضطراری ہے اور بندہ مکلف ہے ایمان اختیاری کا) اللہ تعالیٰ نے اپنا یہی معمول مقرر کیا ہے جو اس کے بندوں میں پہلے سے ہوتا چلا آیا ہے اور اس وقت (یعنی جبکہ ایمان نافع نہ ہوا) کافر خسارہ میں رہ گئے (پس ان مشرکین کو بھی یہ سمجھ کر ڈرنا چاہئے، ان کے لئے بھی یہی ہوگا پھر کچھ تلافی نہ ہو سکے گی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَللہُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْہَا وَمِنْہَا تَاْكُلُوْنَ۝ ٧٩ۡ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- ركب - الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ- ) رک ب ) الرکوب - کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٩۔ ٨٠) اللہ ہی نے تمہارے لیے مویشی پیدا کیے جن میں سے بعض سے تم سواری کا کام لیتے ہو اور بعض کا گوشت کھاتے اور ان مویشیوں کا دودھ اور ان کی اون بھی تمہارے کام آتی ہے۔- اور تاکہ تم ان کے ذریعے سے اپنی دلی مراد کو پورا کرو اور خشکی میں ان جانوروں پر بھی اور سمندر میں کشتیوں پر بھی تم سفر کرتے پھرتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْکَبُوْا مِنْہَا وَمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ ” اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے بنا دیے تاکہ تم سواری کرو ان میں سے بعض پر اور ان میں سے بعض کا تم گوشت بھی کھاتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani