81۔ 1 جو اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ نشانیاں آفاق میں ہی نہیں ہیں تمہارے نفسوں کے اندر بھی ہیں۔ 81۔ 2 یعنی یہ اتنی واضح عام اور کثیر ہیں جن کا کوئی منکر انکار کرنے کی قدرت نہیں رکھتا یہ استفہام انکار کے لیے ہے۔
[١٠١] مویشیوں میں انسان کے لئے خوئے غلامی کس نے پیدا کی مویشیوں سے انسان کو حاصل ہونے والے فوائد :۔ کفار مکہ رسول اللہ سے طرح طرح کے حسی معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ جس کا ایک جواب تو سابقہ آیت میں دیا گیا ہے کہ ایسا معجزہ پیش کرنا کسی رسول کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ان آیات میں کفار کے اسی مطالبہ کا دوسرا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں تو تمہیں اپنے دائیں بائیں، اوپر نیچے اندر باہر ہر طرف ہی مل سکتی ہیں۔ اگر تم سوچو تو تمہارے راہ راست کو قبول کرنے کے لئے رہنمائی ان میں بھی موجود ہے۔ مثلاً جو مویشی تم پالتے ہو ان پر بھی نظر ڈال کر دیکھ لو۔ ان کی ساخت اور ان کی فطرت ہی ہم نے ایسی بنادی ہے کہ وہ فوراً تمہارے تابع بن جاتے ہیں۔ پھر ان سے تم ہزاروں قسم کے فوائد حاصل کرتے ہو۔ ان کے دودھ سے بالائی، مکھن، پنیر، گھی اور لسی بناتے ہو۔ اور یہ چیزیں تمہارے جسم کا انتہائی اہم جزو ہیں۔ پھر ان پر سواری کرتے ہو۔ تمہارے بوجھل سامان کو یہ اٹھاتے ہیں۔ تمہاری کھیتی میں ہل یہ چلاتے ہیں۔ کنوئیں سے پانی یہ کھینچتے ہیں۔ مشقت کے سب کام تم ان سے لیتے ہو۔ پھر انہیں ذبح کرکے ان کا گوشت بھی کھاتے ہو۔ ان کے بالوں سے اپنی پوشاک تیار کرتے ہو۔ اور مرنے کے بعد ان کی ہڈیوں، دانتوں اور کھالوں تک کو اپنے کام میں لاتے ہو۔ ان مویشیوں میں انسان کے لئے یہ خوئے غلامی کس نے پیدا کی ؟ تمہاری پیدائش سے بھی بہت پہلے تمہاری ضروریات کا اس قدر خیال رکھنے والا کون ہے ؟- خ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والوں کا کیوں محاسبہ نہ کیا جائے :۔ اب دوسری طرف نظر ڈالو۔ زمین کے تین چوتھائی حصہ پر پانی یا سمندر پھیلے ہوئے ہیں۔ خشکی صرف چوتھا حصہ ہے جس پر تم اور تمہارے مویشی سب رہتے ہیں۔ اتنے سے خشکی کے حصہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا پانی کا ذخیرہ کیوں پیدا کردیا ؟ کیا کبھی تم نے اللہ کی اس نشانی پر غور کیا ؟ پھر پانی اور ہواؤں کو ایسے طبعی قوانین کا پابند بنادیا کہ تم دریاؤں اور سمندروں میں کشتی بانی اور جہاز رانی کے قابل بن گئے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے طبعی قوانین ہی بدل ڈالے اور وہ ہر چیز کا خالق ہے اور اس میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے تو کیا تم جہاز رانی کرسکتے تھے ؟ یا اس زمین پر زندہ رہ سکتے تھے ؟ پھر یہ بھی سوچو کہ جس حکمتوں والے پروردگار نے اپنی اتنی بیشمار چیزیں تمہارے تصرف میں دے رکھی ہیں کیا وہ انسان کو اتنے اختیارات دے کر اس کو یونہی چھوڑ دے گا اور اس سے اپنی ان نعمتوں کا کبھی حساب نہ لے گا ؟ اور یہ نہ پوچھے گا کہ جس رحیم پروردگار نے تمہاری جملہ ضروریات کا اس قدر خیال رکھا۔ پھر ساتھ کے ساتھ اپنی رحمتیں بھی نازل فرماتا رہا تو کیا انسان نے اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کی ؟ اس کا شکریہ ادا کیا ؟ یا وہ نمک حرام اور ناشکرا ثابت ہوا اور اپنی نیاز مندیاں اللہ کے بجائے دوسرے کے سامنے نچھاور کرنے لگا ؟
وَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِہٖ ٠ ۤۖ فَاَيَّ اٰيٰتِ اللہِ تُنْكِرُوْنَ ٨١- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔
اور مکہ والو اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی قدرت کی اور بھی نشانیاں دکھاتا رہتا ہے جیسا کہ چاند اور سورج، ستارے، رات، دن، پہاڑ، بادل، دریا وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں سو تم اللہ کی کون کون کون سی نشانیاں کا انکار کرو گے کہ یہ اللہ نشانی نہیں۔
آیت ٨١ وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖق فَاَیَّ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُنْکِرُوْنَ ” اور وہ تمہیں اپنی آیات دکھاتا رہتا ہے ‘ تو تم اللہ کی کون کون سی آیات کا انکار کرو گے ؟ “- گزشتہ تین آیات میں آیات آفاقیہ کا ذکر ہوا۔ اب آگے ” ایام اللہ “ یعنی عبرت آموز تاریخی حقائق کا تذکرہ ہے۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :110 مطلب یہ ہے کہ اگر تم محض تماشا دیکھنے اور دل بہلانے کے لیے معجزے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہو ، بلکہ تمہیں صرف یہ اطمینان کرنے کی ضرورت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنّاتوں کو ماننے کی دعوت تمہیں دے رہے ہیں ( یعنی توحید اور آخرت ) وہ حق ہیں یا نہیں ، تو اس کے لیے خدا کی یہ نشانیاں بہت کافی ہیں جو ہر وقت تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آ رہی ہیں ۔ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان نشانیوں کے ہوتے کسی اور نشانی کی کیا حاجت رہ جاتی ہے ۔ یہ معجزات کے مطالبے کا تیسرا جواب ہے ۔ یہ جواب بھی اس سے پہلے متعدد مقامات پر قرآن میں دیا گیا ہے اور ہم اس کی تشریح اچھی طرح کر چکے ہیں ( ملاحظہ ہو جلد اول ، الانعام ، حواشی ۲٦ ۔ ۲۷ ، جلد دوم یونس ، حاشیہ ۱۰۵ ، الرعد حواشی ۱۵ تا ۲۰ ، جلد سوم ، الشعراء ، حواشی ۳ ۔ ٤ ۔ ۵ ) ۔ زمین پر جو جانور انسان کی خدمت کر رہے ہیں ، خصوصاً گائے ، بیل ، بھینس ، بھیڑ ، بکری ، اونٹ اور گھوڑے ، ان کو بنانے والے نے ایسے نقشے پر بنایا ہے کہ یہ بآسانی انسان کے پالتو خادم بن جاتے ہیں ، اور ان سے اس کی بے شمار ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ ان پر سواری کرتا ہے ۔ ان سے بار برداری کا کام لیتا ہے ۔ انہیں کھیتی باڑی کے کام میں استعمال کرتا ہے ۔ ان کا دودھ نکال کر اسے پیتا بھی ہے اور اس سے دہی ، لسّی ، مکھن ، گھی ، کھویا ، پنیر ، اور طرح طرح کی مٹھائیاں بناتا ہے ۔ ان کا گوشت کھاتا ہے ۔ ان کی چربی استعمال کرتا ہے ۔ ان کے اون اور بال اور کھال اور آنتیں اور ہڈی اور خون اور گوبر ، ہر چیز اسکے کام آتی ہے ۔ کیا یہ اس بات کا کھلا ثبوت نہیں ہے کہ انسان کے خالق نے زمین پر اس کو پیدا کرنے سے بھی پہلے اس کی ان بے شمار ضروریات کو سامنے رکھ کر یہ جانور اس خاص نقشے پر پیدا کر دیے تھے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے؟ پھر زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی سے لبریز ہے اور صرف ایک چوتھائی خشکی پر مشتمل ہے ۔ خشک حصوں کے بھی بہت سے چھوٹے اور بڑے رقبے ایسے ہیں جن کے درمیان پانی حائل ہے ۔ کرہ زمین کے ان خشک علاقوں پر انسانی آبادیوں کا پھیلنا اور پھر ان کے درمیان سفر و تجارت کے تعلقات کا قائم ہونا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ پانی اور سمندروں اور ہواؤں کو ایسے قوانین کا پابند بنایا جاتا جن کی بدولت جہاز رانی کی جا سکتی ، اور زمین پر وہ سر و سامان پیدا کیا جاتا جسے استعمال کر کے انسان جہاز سازی پر قادر ہوتا ۔ کیا یہ اس بات کی صریح علامت نہیں ہے کہ ایک ہی قادر مطلق رب رحیم و حکیم ہے جس نے انسان اور زمین اور پانی اور سمندروں اور ہواؤں اور ان تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اپنے خاص منصوبے کے مطابق بنایا ہے ۔ بلکہ اگر انسان صرف جہاز رانی ہی کے نقطہ نظر سے دیکھے تو اس میں تاروں کے مواقع اور سیاروں کی باقاعدہ گردش سے جو مدد ملتی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ زمین ہی نہیں ، آسمان کا خالق بھی وہی ایک رب کریم ہے ۔ اس کے بعد اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جس خدائے حکیم نے اپنی اتنی بے شمار چیزیں انسان کے تصرف میں دی ہیں اور اس کے مفاد کے لیے یہ کچھ سر و سامان فراہم کیا ہے ، کیا بسلامتی ہوش و حواس آپ اس کے متعلق یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ معاذاللہ ایسا آنکھ کا اندھا اور گانٹھ کا پورا ہو گا کہ وہ انسان کو یہ سب کچھ دے کر کبھی اس سے حساب نہ لے گا ۔