Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ تم گناہ کا کام کرتے ہوئے لوگوں سے تو چھپنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اس بات کا کوئی خوف تمہیں نہیں تھا کہ تمہارے خلاف خود تمہارے اپنے اعضا بھی گواہی دیں گے جن سے چھپنے کی ضرورت محسوس کرتے۔ اس کی وجہ ان کا بعث و نشور سے انکار اور اس پر عدم یقین تھا۔ 22۔ 1 اس لیے تم اللہ کی حدیں توڑنے اور اس کی نافرمانی کرنے میں بےباک تھے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یعنی یہ بات تمہارے حاشیہ خیال میں بھی نہ آسکتی تھی کہ ہمارے خلاف گواہی دینے والے ہمارے اپنے اعضاء بھی ہوسکتے ہیں۔ لہذا ان سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔ اگر تم یہ سوچ لیتے تو تم سے گناہ کا سرزد ہونا ہی ناممکن تھا۔ کیونکہ نہ تم خود اپنے اعضاء سے چھپ سکتے تھے اور نہ ان سے گناہ کو چھپا سکتے تھے۔ نہ ان کے بغیر گناہ کا کام کرسکتے تھے۔- [٢٧] اللہ کی صفات سمیع وبصیر ہونے میں شک کا نتیجہ۔ بداعمالیاں :۔ بات صرف اتنی نہ تھی کہ تمہیں یہ علم نہ تھا کہ ہمارے اعضاء ہمارے خلاف گواہی دے سکتے ہیں۔ بلکہ تم اللہ تعالیٰ کے علم کے بھی منکر تھے اگر تمہیں یہ یقین ہوتا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اللہ اسے دیکھ رہا ہے یا ہماری باتیں سن رہا ہے یا ہمارے حالات سے پوری طرح باخبر رہتا ہے تو بھی تم سے گناہ سرزد ہونے کا امکان نہ تھا۔ تمہارا اللہ کے متعلق بھی ایسا یقین انتہائی کمزور تھا کہ وہ تمہارے تمام حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔ چناچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حرم کعبہ میں تین آدمی بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ ان تینوں میں سے دو تو قریشی تھے اور ایک ان کا برادر نسبتی تھا۔ جو ثقفی تھا۔ یہ تینوں خوب موٹے تازے تھے توندیں نکلی ہوئی تھیں مگر عقل کے سب ہی پورے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ ہماری باتیں سن سکتا ہے ؟ دوسرا بولا : ہاں اونچی آواز سے بات کریں تب تو سن لیتا ہے۔ اور اگر آہستہ آہستہ آواز سے چپکے چپکے بات کریں تو پھر نہیں سنتا تیسرا کہنے لگا : اگر وہ اونچی آواز کو سن لیتا ہے تو آہستہ آواز والی بات بھی سن سکتا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة حٰم السجدۃ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وما کنتم تستترون ان یشھدعلیکم …: یہ ان کی ملامت کا جواب ہے کہ تم گناہ کا کام کرتے ہوئے لوگوں سے چھپنے اور پردہ کرنے کا تو پورا اہتمام کرتے تھے، مگر تمہیں اس بات کا خوف نہ تھا کہ تمہارے کان، آنکھیں اور چمڑے ہی تمہارے خلاف تمہارے اعمال بد کی شہادت دیں گے۔ اگر تمہیں اس بات کا خوف ہوتا تو تم برے اعمال کر ہی نہیں سکتے تھے، کیونکہ انھی اعضا کے ساتھ ہی تو تم نے اللہ کی نافرمانی کرنا تھی۔- (٢) ولکن ظننتم ان اللہ لایعلم…: یعنی بات صرف اتنی نہ تھی کہ تمہیں یقین نہ تھا کہ قیامت قائم ہوسکتی ہے اور تمہارے اعضا تمہارے خلاف گواہی دے سکتے ہیں، بلکہ اصل بات یہ تھی کہ تم اللہ تعالیٰ کے علم کے بھی منکر تھے ، تم نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بہت سے اعمال کو جانتا ہی نہیں۔ ورنہ اگر تمہیں یقین ہوتا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے، تمہاری ہر بات سن رہا ہے اور تمہارے ہر حال کا علم رکھتا ہے تو تم گناہ پر اتنے دلیر نہ ہوتے۔ مشرکین قریش کی اس نادانی کا ذکر عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا ہے : وہ فرماتے ہیں :(اجتمع عند البیت قرشیان وثقفی ، اوتقصیان و قرشی کثیرۃ شحم بطونھم قلیلۃ فقہ قلوبھم فقال احدھم اترون ان اللہ یسمع مانقول ؟ قال الاخر یسمع ان جھرنا ولا یسمع ان اخفینا ، وقال الاخر ان کان یسمع اذا جھرنا فانہ یسمع اذا اخفینا، فانزل اللہ عزوجل :(وما کنتم تستترون ان یشھد علیکم شبعکم ولا ابصارکم ولا جلودکم ولکن ظننتم ان اللہ لایعلم کثیراً مما تعملون) (بخاری، التفسیر، سورة حم، السجدۃ، باب : (وذلکم ظنکم الذی…):3818)” بیت اللہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قریشی جمع ہوئے، جن کے پیٹ کی چربی بہت تھی، (مگر) دلوں کی سمجھ بہت کم تھی۔ تو ان میں سے ایک نے کہا :” کیا تمہارا خیال ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے اللہ تعالیٰ سن رہا ہے ؟ “ دوسرے نے کہا :” اگر ہم اونچی آواز سے کہیں تو وہ سنتا ہے اور اگر آہستہ کہیں تو نہیں سنتا۔ “ ایک اور بولا : ” اگر وہ اس وقت سننا ہے جب ہم اونچی آواز سے بات کریں تو یقیناً وہ اس وقت بھی سنتا ہے جب ہم آہستہ بات کریں۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی :” اور تم اس سے پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان گواہی دیں گے اور نہ تمہاری آنکھیں اور نہ تمہارے چمڑے اور لیکن تم نے گمان کیا کہ بیشک اللہ بہت سے کام، جو تم کرتے ہو، نہیں جانتا۔ “- یاد رہے کہ اس بات کا مطلب کہ یہ آیت فلاں موقع پر اتری، یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بھی انھی دنوں میں ہوا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فلاں موقع پر یہ آیت پڑھی، یا یہ کہ وہ آیت اس واقعہ پر بھی منطبق ہوتی ہے، جیسا کہ اصول تفسیر میں واضح کیا گیا ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ آیات کا سیاق تو قیامت کے دن کے متعلق ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ الآیة۔ معنی آیت کے یہ ہیں کہ انسان اگر چھپ کر کئی جرم و گناہ کرنا چاہے تو دوسرے لوگوں سے تو چھپا سکتا ہے، خود اپنے ہی اعضاء وجوارح سے کیسے چھپائے۔ جب یہ معلوم ہوجائے کہ ہمارے کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں اور بدن کی کھال اور بال سب ہمارے نہیں بلکہ سرکاری گواہ ہیں اور جب ان سے ہمارے اعمال کو پوچھا جاوے گا تو سچی گواہی دے دیں گے تو پھر چھپا کر کوئی جرم و گناہ کرنے کا کوئی راستہ ہی نہیں رہتا، اس رسوائی سے بچنے کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ گناہ کو ہی چھوڑا جائے۔ مگر تم لوگ یعنی منکرین توحید و رسالت کا ذہن ادھر تو کیا جاتا کہ ہمارے اعضاء وجوارح بھی بولنے لگیں گے اور ہمارے خلاف اللہ کے سامنے گواہی دیں گے، مگر اتنی بات تو ہر ذی عقل کی سمجھ میں آسکتی تھی کہ جس ذات نے ہمیں ایک حقیر چیز سے پیدا کر کے سمیع وبصیر انسان بنایا، پالا اور جوان کیا، کیا اس کا علم ہمارے اعمال و احوال پر محیط نہیں ہوگا ؟ مگر تم نے اس بدیہی چیز کے خلاف یہ گمان کر رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے بہت سے اعمال کی کچھ خبر نہیں۔ اس لئے تمہیں شرک و کفر کرنے پر جرأت ہوئی۔ (آیت) وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ یعنی تمہارے اسی گمان بد نے تمہیں برباد کیا۔- انسان کے اعضاء وجوارح کی محشر میں گواہی :- صحیح مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک روز ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، آپ کو ہنسی آگئی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ میں کس بات پر ہنس رہا ہوں۔ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ہنسی اس کلام پر آئی جو میدان حشر اور موقف حساب میں بندہ اپنے رب سے کرے گا۔ یہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار کیا آپ نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ بیشک دی ہے۔ اس پر بندہ کہے گا کہ اگر یہ بات ہے تو میں اپنے حساب و کتاب کے معاملہ میں اور کسی کی گواہی پر مطمئن نہیں ہوں گا، بجز اس کے کہ میرے وجود ہی میں سے کوئی گواہ کھڑا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا (آیت) کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیباً یعنی اچھا ہے لو تم خود ہی اپنا حساب کرلو۔ اس کے بعد اس کے منہ پر مہر کردی جاوے گی اور اس کے اعضاء وجوارح سے کہا جائے گا کہ تم اس کے اعمال بتلاؤ، ہر عضو بول اٹھے گا اور سچی گواہی پیش کر دے گا۔ اس کے بعد اس کی زبان کھول دی جاوے گی تو یہ خود اپنے اعضاء پر ناراض ہو کر کہے گا بعدا لکن وسحقا فعنکن اناضل۔ یعنی تم غارت و برباد ہو میں نے تو دنیا میں جو کچھ کیا تمہارے ہی آرام پہنچانے کیلئے کیا تھا (اب) ہی میرے خلاف گواہی دینے لگے۔- اور حضرت ابوہریرہ کی روایت میں ہے کہ اس شخص کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران کو کہا جائے گا کہ تو بول اور اس کے اعمال بیان کر، تو انسان کی ران اور گوشت اور ہڈی سب اس کے اعمال کی گواہی دے دیں گے۔ (رواہ مسلم۔ مظہری)- اور حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آنے والا دن انسان کو یہ ندا دیتا ہے کہ میں نیا دن ہوں اور جو کچھ تو میرے اندر عمل کرے گا قیامت میں، میں اس پر گواہی دوں گا۔ اس لئے تجھے چاہئے کہ میرے ختم ہونے سے پہلے پہلے کوئی نیکی کرے کہ میں اس کی گواہی دوں گا اور اگر میں چلا گیا تو پھر تو مجھے کبھی نہ پائے گا۔ اسی طرح ہر رات انسان کو یہ ندا دیتی ہے۔ (ذکرہ ابو نعیم۔ کذا فی القرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْہَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللہَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝ ٢٢- ستر - السَّتْرُ : تغطية الشّيء، والسِّتْرُ والسُّتْرَةُ : ما يستتر به، قال : لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِها سِتْراً [ الكهف 90] ، حِجاباً مَسْتُوراً [ الإسراء 45] ، والِاسْتِتَارُ : الاختفاء، قال :- وَما كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ [ فصلت 22] .- ( س ت ر ) استر - ( مصدر ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو چھپا دینے کے ہیں اور ستر وستر ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کوئی چیز چھپائی جائے قرآن میں ہے : ۔ لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِها سِتْراً [ الكهف 90] جن کے لئے ہم نے اس ( سورج ) سے بچنے کیلئے کوئی اوٹ نہیں بنائی ۔ حِجاباً مَسْتُوراً [ الإسراء 45] ایک گاڑھا پڑدہ ( حائل کردیتے ہیں ) الاستبار اس کے معنی چھپا جانے کے ہیں قرآن میں ہے وما كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ [ فصلت 22] اور اس لئے نہ چھپتے تھے ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور تم اپنے اعضاء کو اس بات سے روکنے پر قادر نہ تھے کہ قیامت کے دن تمہارے کان تمہارے خلاف گواہی دیں یا یہ کہ تم دنیا میں اپنے اعضاء سے کسی طرح بھی ان کے اعمال کو چھپا نہیں سکتے تھے تاکہ تمہارے خلاف گواہی نہ دیں یا یہ کہ تم اس چیز پر تو بالکل یقین ہی نہ کرسکتے تھے کہ قیامت کے دن تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے اعضاء تمہارے خلاف گواہی دیں۔- شان نزول : وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ (الخ)- امام بخاری و مسلم اور ترمذی اور امام احمد وغیرہ نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے کہ بیت اللہ کے قریب تین افراد نے آپس میں بحث کی جن میں دو قریشی اور ایک ثقفی یا یہ کہ ایک قریشی اور دو ثقفی تھے۔- ان میں سے ایک نے کہا تمہاری کیا رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتوں کو سنتا ہے، دوسرا کہنے لگا اگر زور سے باتیں کریں تو سنتا ہے اور اگر آہستہ گفتگو کریں تب نہیں سنتا، تیسرا کہنے لگا اگر وہ زور سے کی ہوئی باتوں کو سنتا ہے تو آہستہ کی ہوئی باتوں کو بھی سنتا ہے، اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی اور تم اس بار تو خود کو چھپا ہی نہیں سکتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْہَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَلَآ اَبْصَارُکُمْ وَلَا جُلُوْدُکُمْ ” اور تم (اس خیال سے) پردہ داری نہیں کرتے تھے کہ تمہارے خلاف گواہی دیں گے تمہارے اپنے کان ‘ تمہاری اپنی آنکھیں اور تمہاری اپنی کھالیں “- انسان دنیا میں جرائم کرتے ہوئے لوگوں سے چھپنے کی کوشش کرتا ہے ‘ مگر خود اپنے ہی اعضاء وجوارح سے کیونکرچھپ سکتا ہے ؟- وَلٰکِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَعْلَمُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ” بلکہ تمہیں تو یہ گمان ہوگیا تھا کہ بہت سی باتیں تو اللہ کے علم میں ہی نہیں ہیں جو تم کر رہے ہو۔ “- گویا ایسے جہلاء بھی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کرتوتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو کچھ معلوم نہیں۔ قبل ازیں اس حوالے سے مشائین (ارسطو اور اس کے پیروکاروں) کا ذکر بھی گزر چکا ہے جن کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ عالم کلیات ہے ‘ وہ جزئیات کا عالم نہیں ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کائنات اور اس کی اشیاء کے متعلق قوانین بنا دیے ہیں اور وہ انہی قوانین کو جانتا ہے ‘ جبکہ ان قوانین کے تحت رونما ہونے والے واقعات و حادثات کی جزئیات سے اسے کوئی سروکار نہیں ۔ - ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ بعض احمق کافر یہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ کوئی گناہ چھپ کر کریں گے تو اللہ تعالیٰ کو اس کا علم نہیں ہوگا، اس وقت وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے گناہ کا نہ کوئی گواہ ہے، اور نہ (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کو اس کا پتہ چلے گا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ تو ہر بات کا گواہ ہے ہی، خود ان کے جسم کے یہ اعضاء بھی ان کے خلاف گواہ بن جائیں گے۔