23۔ 1 یعنی تمہارے اس اعتقاد فاسد اور گمان باطل نے کہ اللہ کو ہمارے بہت سے عملوں کا علم نہیں ہوتا تمہیں ہلاکت میں ڈال دیا کیونکہ اس کی وجہ سے تم ہر قسم کا گناہ کرنے میں دلیر اور بےخوف ہوگئے تھے اس کی شان نزول میں ایک روایت ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ خانہ کعبہ کے پاس دو قرشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قرشی جمع ہوئے فربہ بدن قلیل الفہم ان میں سے ایک نے کہا کیا تم سمجھتے ہو ہماری باتیں اللہ سنتا ہے ؟ دوسرے نے کہا ہماری جہری باتیں سنتا ہے اور سری باتیں نہیں سنتا ایک اور نے کہا اگر وہ ہماری جہری باتیں سنتا ہے تو ہماری سری باتیں بھی یقینا سنتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت وما کنتم تسترون نازل فرمائی (صحیح بخاری، تفسیر سورة حم السجدۃ)
[٢٨] اللہ کے متعلق جیسا بندہ گمان رکھے گا ویسا ہی اللہ اس سے معاملہ کرے گا :۔ تمہارا اللہ کے متعلق علم اس قدر کمزور اور مشکوک قسم کا گمان رہا۔ اس لیے تم نے گناہوں سے بچنے کی کبھی کوشش ہی نہ کی تھی اور اس سے بڑھ کر یہ بات تھی کہ تم نہ روز آخرت کے قائل تھے اور نہ اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور سے خائف تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم گناہوں پر دلیر ہوتے گئے اور ساری زندگی ہی گناہوں میں گزار دی۔ اپنے پروردگار سے تمہاری یہی بےیقینی تمہاری ہلاکت کا باعث بن گئی۔ اس سے واضح طور پر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان جس قسم کی معرفت اپنے پروردگار کی نسبت رکھتا ہے اس طرز اور اسی سانچے میں اس کی پوری زندگی ڈھل جاتی ہے۔ اگر اللہ کی معرفت درست ہوگی تو اس کا طرز عمل پورے کا پورا درست رہے گا اور اس کے نتائج بھی درست نکلیں گے اور اگر معرفت ہی مشکوک یا غلط ہوگی تو اس کے دنیوی یا اخروی نتائج بھی ویسے ہی نکلیں گے۔ چناچہ درج ذیل حدیث قدسی اسی حقیقت کی وضاحت کرتی ہے : سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ( أنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ ) (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ تعالیٰ (يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ ۭ 15) 48 ۔ الفتح :15) یعنی میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان رکھتا ہے ویسا ہی اس کا میرے بارے میں معاملہ ہوگا اور اسی کے گمان کے مطابق میں اس سے سلوک کروں گا۔ اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے :- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے زندگی میں کوئی نیکی کا کام نہ کیا تھا۔ اس نے مرتے وقت یہ وصیت کی کہ میری لاش کو جلا کر آدھی راکھ دریا میں پھینک دینا اور آدھی ہوا میں بکھیر دینا۔ اللہ کی قسم اگر اس نے مجھے پکڑ لیا تو مجھے ایسی سزا دے گا جو سارے جہانوں میں کسی دوسرے کو نہ دی گئی ہو۔ اللہ نے دریا اور ہوا کو حکم دیا اور اس کے تمام اجزاء اکٹھے کرلیے۔ پھر اسے اپنے پاس حاضر کرکے پوچھا : تم نے ایسا کام کیوں کیا تھا ؟ اس نے جواب دیا : اے اللہ تو جانتا ہی ہے کہ میں نے یہ کام تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا پھر اللہ نے اسے بخش دیا۔ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ تعالیٰ (يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ ۭ 15) 48 ۔ الفتح :15)
وذلکم ظنکم الذی ظنتم بربکم …” ذلکم “ کی خبر ” ظنکم “ معرفہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” یہی تمہارا گمان تھا “ کیا گیا ہے۔ “ ارذی یردی “ (افعال) ہلاک کرنا۔ یعنی تمہارے اسی باطل گمان اور غلط عقیدے نے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بہت سے اعمال کا علم نہیں ہوتا، تمہیں ہلاک کردیا، کیونکہ اس سے تم اس کی نافرمانی پر دلیر ہوگئے اور خسارا پانے والوں میں سے ہوگئے۔- یاد رہے کہ گمراہی کے اسباب میں سے بہت بڑا سبب صحیح غور و فکر نہ کرنا اور محض گمان کے پیچھے چلتے رہنا ہے۔ مشرکین کی اصل گمرایہ بھی یہی تھی، جیسا کہ فرمایا :(ان یبتعون الا الظن) (الانعام : ١١٦) ” وہ تو گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے۔ “ اور فرمایا :(یظنون باللہ غیر الحق ظن الجاھلیۃ) (آل عمران : ١٥٣) ” وہ اللہ کیب ارے میں ناحق جاہلیت کا گمان کر رہے تھے۔ “
وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ ٢٣- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- رَّدَى- : الهلاك، والتَّرَدِّي : التّعرّض للهلاك، قال تعالی: وَما يُغْنِي عَنْهُ مالُهُ إِذا تَرَدَّى[ اللیل 11] ، وقال : وَاتَّبَعَ هَواهُ فَتَرْدى[ طه 16] ، وقال : تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ، والمرداة : حجر تکسر بها الحجارة فَتُرْدِيهَا .- ( ر د ی ) الردی ۔- ( س ) کے معنی ہلاکت کے ہیں اور التردی ( تفعل ) کے معنی ہیں اپنے آپ کو ہلاکت کے سامنے پیش کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما يُغْنِي عَنْهُ مالُهُ إِذا تَرَدَّى[ اللیل 11] اور جب وہ جہنم میں گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ بھی کام نہ آئے گا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ فَتَرْدى[ طه 16] اور وہ اپنی نفسانی خواہش کے پیچھے پڑا ( اگر ایسا کرو گے ) تو تم تباہ ہوجاؤ گے ۔ ( الارداء ) افعال ہلاک کرنا قرآن میں ہے :۔ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] خدا کی قسم تو تو مجھے تباہ کرنے کو تھا ۔ المرداۃ وہ پتھر جس سے دوسرے پتھر توڑے جاتے ہیں ۔- صبح - الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ - ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
(٢٣۔ ٢٤) مگر تم اس گمان اور دعوے میں رہے کہ ہم خاموشی کے ساتھ کام کرتے اور باتیں کرتے ہیں اس کی اللہ کو خبر نہیں اور تمہارے اسی جھوٹے گمان نے جو کہ تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تمہیں ہلاک کردیا۔- کہ تم سزا کی وجہ سے خسارہ میں پڑگئے اب خواہ تم دوزخ میں صبر کرو یا نہ کرو دوزخ تمہارا ٹھکانا ہے۔ اور اگر دنیا میں پھر واپس جانے کی درخواست کرو تو تمہیں دنیا میں اب ہرگز واپس نہیں بھیجا جائے گا۔
آیت ٢٣ وَذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَرْدٰٹکُمْ ” اور تمہارا یہی وہ گمان ہے جو تم نے اپنے رب کے بارے میں کیا تھا ‘ جس نے تمہیں غارت کیا ہے “- اس حوالے سے ہمیں خود اپنے بارے میں بھی غور کرنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ایک ایک حرکت کو دیکھتا اور جانتا ہے لیکن اپنے اس ایمان کے مطابق ہمارے دلوں میں اس بارے میں یقین پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم غلط کام کرتے ہوئے اس حقیقت سے لاپرواہی برت جاتے ہیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے ‘ ورنہ اگر واقعی کسی کے دل میں یقین ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے تو بھلاوہ کوئی غلط حرکت کیسے کرسکتا ہے۔- فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ ” تو آج تم ہوگئے خسارہ پانے والوں میں۔ “
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :27 حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ نے اس آیت کی تشریح میں خوب فرمایا ہے کہ ہر آدمی کا رویہ اس گمان کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے جو وہ اپنے رب کے متعلق قائم کرتا ہے ۔ مومن صالح کا رویہ اس لیے درست ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کے بارے میں صحیح گمان رکھتا ہے ، اور کافر و منافق اور فاسق و ظالم کا رویہ اس لیے غلط ہوتا ہے کہ اپنے رب کے بارے میں اس کا گمان غلط ہوتا ہے ۔ یہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑی جامع اور مختصر حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا رب کہتا ہے انا عند ظن عبدی بی ، میں اس گمان کے ساتھ ہوں جو میرا بندہ مجھ سے رکھتا ہے ۔ ( بخاری و مسلم )