Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 اس کا مفہوم واضح ہے کہ گمراہ کرنے والے شیاطین ہی نہیں ہوتے تاہم بعض نے جن سے ابلیس اور انسانوں سے قابیل مراد لیا ہے، جس نے انسانوں میں سے سب سے پہلے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر کے ظلم اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا اور حدیث کے مطابق قیامت تک ہونے والے ناجائز قتلوں کے گناہ کا ایک حصہ بھی اس کو ملتا رہے گا ہمارے خیال میں پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ 29۔ 2 یعنی اپنے قدموں سے انہیں روندیں اور اس طرح ہم انہیں خوب ذلیل و رسوا کریں جہنمیوں کو اپنے لیڈروں پر جو غصہ ہوگا اس کی تشفی کے لیے وہ یہ کہیں گے ورنہ دونوں ہی مجرم ہیں اور دونوں ہی یکساں جہنم کی سزا بھگتیں گے جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف :38) جہنمیوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا تذکرہ فرما رہا ہے جیسا کہ عام طور پر قرآن کا انداز ہے تاکہ ترہیب کے ساتھ ترغیب اور ترغیب کے ساتھ ترہیب کا بھی اہتمام رہے گویا انذار کے بعد اب تبشیر۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٦] گمراہوں کی اپنے لیڈروں کو پاؤں تلے روندنے کی آرزو :۔ یہاں جنوں سے مراد شیطان ہیں یعنی بدکردار جن جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرتے ہیں۔ قیامت کے دن کافر جب اپنا انجام دیکھیں گے تو انہیں اپنے وہ قائد، وہ سیاسی لیڈر وہ مذہبی پیشوا یاد آئیں گے جن کے پیچھے لگ کر یہ گمراہ ہوئے تھے۔ وہ اللہ سے التجا کریں گے کہ آج وہ قائد ہمیں دکھادے تاکہ ہم انہیں اپنے پاؤں کے نیچے مسل کر کچھ تو انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرلیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وقال الذین کفروا ربنا ارنا…: اس سے پہلے آیت (٢٥) (وقیضنا لھم قرنآء …) میں کفار کے اعمال بد کی وجہ سے ان پر جن و انس کے وہ قرین مسلط کرنے کا ذکر ہے جو ان کے لئے ان کے برے اعمال خوش نما بنا کر پیش کرتے رہے، حتیٰ کہا ان پر جہنمی ہونے کا ٹھپا پکا ہوگیا ۔ اب جہنم میں کفار کی اپنے ان دوستوں کے متعلق خواہش اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کا ذکر ہے۔- (٢) کفار یہ بات جہنم میں جانے کے بعد کہیں گے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مضای کا صیغہ ” قال “ استعمال فرمایا : کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بات اتنی یقینی ہے کہ سمجھو یہ کام ہوچکا۔- (٣) قیامت کے دن جہنمی اپنے گمراہ کرنے والے جن و انس میں سے شیاطین دوستوں پر سخت ناراض ہوں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ عذاب ہو۔ “ ارنا “ کا لفظی معنی اگرچہ ” ہمیں دکھا “ ہے، مگر مراد یہ ہے کہ پروردگار تو انھیں ہمارے حوالے کر، تاکہ ہم انھیں اپنے قدموں کے نیچے روندیں، تاکہ وہ سب سے نیچے لوگوں میں شامل ہوں۔ ہر کافر خود گمراہ ہونے کے ساتھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا مجرم بھی ہے۔ کفار کی یہ خواہش پوری ہوگی یا نہیں، اس کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٣٨، ٣٩) اور سورة ص (٥٥ تا ٦١) ۔- (٤) اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن صرف ایمان والوں کی دوستی باقی رہیگ ی، دوسرے سب ایک دوسرے میں سے دشمن ہوجائیں گے۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (١٦٦، ١٦٧) اور سورة زخرف (٦٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَيْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْہُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِيَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِيْنَ۝ ٢٩- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- قدم ( پاؤں)- القَدَمُ : قَدَمُ الرّجل، وجمعه أَقْدَامٌ ، قال تعالی: وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال 11] ، وبه اعتبر التّقدم والتّأخّر، - ( ق د م ) القدم - انسان کا پاؤں جمع اقدام ۔ قرآن میں ہے : وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال 11]- اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے ۔ اسی سے تقدم کا لفظ لیا گیا ہے جو کہ تاخر کی ضد ہے - سفل - السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی،- ( س ف ل ) السفل - یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور دوزخ میں یہ کفار کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں وہ دونوں دکھلا دیجیے جنہوں نے ہمیں حق و ہدایت سے گمراہ کیا ہے یعنی جنوں میں سے ابلیس کو اور انسانوں میں سے قابیل کو جس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا ہے یا یہ کہ جنوں میں سے ابلیس اور شیاطین کو اور انسانوں میں سے ہمارے سرداروں کو تاکہ ہم اس عذاب میں ان کو پیروں تلے روند ڈالیں تاکہ وہ عذاب کے ذریعے خوب ذلیل ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ” اور جو کافر ہیں وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ذرا ہمیں دکھا دے ِجنوں اور انسانوں میں سے وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا “- وہاں جہنم میں بڑے بڑے سرداروں اور لیڈروں کے خلاف ان کے عوام واویلا کر رہے ہوں گے۔ وہ کہیں گے کہ اے پروردگار اس وقت ہم ان لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ وہ لوگ جو ہمیں قرآن سننے سے روکتے رہے ‘ جنہوں نے ہماری عقلوں پر پردے ڈال دیے تھے ‘ جنہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ہمیں ورغلایا ‘ ان کے بارے میں ہمارے دلوں میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کیے ‘ اور ہمارے اور ان کی دعوت کے درمیان آڑ بن گئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت انہیں ہمارے سامنے لایا جائے تاکہ :- نَجْعَلْہُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَکُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ ” ہم انہیں اپنے قدموں کے نیچے روندیں ‘ تاکہ وہ ہوجائیں سب سے نیچے والے۔ “- اگلی سات آیات اپنے مضمون کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ ” مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب “ کے پہلے حصے کا چوتھا درس انہی آیات پر مشتمل ہے۔ منتخب نصاب کے اس حصے میں چار جامع اسباق ہیں اور ان چاروں اسباق یادروس میں مضمون کے اعتبار سے ایک خاص ترتیب اور تدریج پائی جاتی ہے۔ ان میں پہلا درس سورة العصر پر مشتمل ہے : وَالْعَصْرِ ۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّلا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔۔ یہ سورت قرآن حکیم کی تین مختصر ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ اس میں اخروی نجات کے لیے چار شرائط بیان کی گئی ہیں۔ اس کے بعد دوسرا درس آیت البر (سورۃ البقرۃ کی آیت ١٧٧) پر مشتمل ہے۔ اس آیت میں وہی چار نکات قدرے وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں جن کا ذکر سورة العصر میں ہوا ہے۔ تیسرے درس کے لیے سورة لقمان کے دوسرے رکوع کو منتخب کیا گیا ہے۔ اس رکوع میں یہی مضمون ذرا مختلف انداز میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتوں کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ اس طرح سورة العصر کا مضمون ایک خاص ترتیب اور تدریج کے ساتھ چوتھے درس (زیر مطالعہ سورت کی آیات ٣٠ تا ٣٦) میں اپنے نقطہ عروج تک پہنچ گیا ہے۔ چناچہ ان سات آیات کے اندر آپ کو سورة العصر کے چاروں موضوعات (ایمان ‘ اعمالِ صالحہ ‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر) میں سے ہر ایک کی چوٹی نظر آئے گی ‘ اور پھر انہی سات آیات کے عین درمیان میں وہ آیت بھی (آیت ٣٣) آئے گی جو اس سورت کا عمود ہے۔ اس آیت کی مثال ایک بہت بڑے ہیرے کی سی ہے جوان سات آیات کے خوبصورت ہار کے عین وسط میں اپنی خصوصی آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا ہے۔ اس تمہید کے بعد آئیے اب ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :31 یعنی دنیا میں تو یہ لوگ اپنے لیڈروں اور پیشواؤں اور فریب دینے والے شیاطین کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ، مگر جب قیامت کے روز انہیں پتہ چلے گا کہ یہ رہنما انہیں کہاں لے آئے ہیں تو یہی لوگ انہیں کوسنے لگیں گے اور یہ چاہیں گے کہ وہ کسی طرح ان کے ہاتھ آ جائیں تو پکڑ کر انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: دنیا میں انسان کے جو ساتھی اسے دین سے غافل کر کے گمراہ کرتے رہے، وہ بھی اس میں داخل ہیں، اور وہ شیطان جو اسے بہکاتا رہا، وہ بھی۔ ان دونوں کے بارے میں دوزخی شخص یہ کہے گا کہ مجھے یہ گمراہ کرنے والے نظر آجائیں تو میں انہیں پاؤں تلے روند ڈالوں۔