Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٧] اللہ کی تسبیح میں ہمہ وقت مشغول رہنے والے فرشتے :۔ اپنے شرک اور اپنی جہالت پر ڈٹے رہیں اور آپ کی بات تسلیم کرنے میں اپنی توہین سمجھیں تو اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں کیونکہ اللہ ان کی نافرمانی یا فرمانبرداری سے بےنیاز ہے اور اس کے پاس فرشتوں کی ایک عظیم جمعیت موجود ہے جو اس کے حکم سے تدبیر امور کائنات کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ انہیں اللہ کے حکم سے سرتابی کی مجال نہیں۔ وہ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے علاوہ ازیں وہ اس کی تسبیح وتحمید میں بھی ہر وقت مشغول رہتے ہیں یہی ان کی غذا اور یہی ان کا وظیفہ حیات ہے۔ وہ اپنے قول اور فعل سے اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق ومالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ پھر اگر یہ لوگ ان حقائق کے علی الرغم اللہ کے شریک بنانے پر ہی تلے بیٹھے ہیں تو ان کی اس جہالت سے حقائق تو نہیں بدل سکتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) فان استکبروا :” پھر اگر وہ تکبر کریں “ یعنی یہ سب کچھ سن کر بھی اگر وہ اپنی بات چھوڑنے کو ذلت سمجھیں، سورج چاند اور مخلوق کو سجدہ کرنے پر اڑے رہیں اور اپنی جھوٹی عزت اور بڑائی کی وجہ سے جہالت اور شرک پر اصرار کرتے چلے جائیں۔ - (٢) یعنی اگر مشرکین اس قدر مغرور اور متکبر ہوگئے ہیں کہ اکیلے اللہ کو سجدہ کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں ، اللہ تعالیٰ ان کا محتاج نہیں۔ اس کی عظمت کا تو یہ عالم ہے کہ وہ مقرب ترین فرشتے جو اس کے پاس ہیں، اس کا عرش اٹھائے ہوئے ہیں، یا عرش کے اردگرد یا اس کے نیچے عاجزی سے کھڑے ہیں۔ (دیکھیے مومن : ٧) جن کے ذریعے سے ساری کائنات کے معاملات کی تدبیر ہو رہی ہے۔ وہ سب دن رات اس کی تسبیح کر رہے ہیں، یعنی اس بات کی شہادت دے رہے ہیں اور اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ ان کا مالک اس سے پاک ہے کہ اس کے رب ہونے میں یا اس کے معبود برحق ہونے میں کوئی اس کا شریک ہو۔ مزید دیکھیے سورة انبیاء (١٩، ٢٠) اور سورة اعراف (٢٠٦) ۔ اب اگر چند احمق سمجھانے پر نہیں سمجھتے اور ساری کائنات کی شہادت کو رد کر کے اپنی عزت اور بڑائی کے جھوٹے گمان پر اڑے ہوئے ہیں تو وہ اپنا ہی نقصان کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی بھی ہے۔- (٣) جو لوگ عرش الٰہی کے منکر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو کائنات سے الگ سب سے بلندی پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ اوپر ہے نہ نیچے، نہ کائنتا کے اندر ہے نہ اس سے باہر، وہ لفظ ” فالذین عندربک “ (وہ فرشتے جو تیرے رب کے پاس ہیں) کی عجیب و غریب تاویلیں کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ رب تعالیٰ کے ہاں بڑا مقام و متربہ رکھتے ہیں، کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ، مگر رحمٰن کے عرش کو فرشتوں کے اٹھائے ہونے کے صریح الفاظ ان کی ایسی تمام تاویلوں کا تار و پود بکھیر دیتے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة مومن (٧) اور سورة حاقہ (١٧) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَهُمْ لَا يَسْـَٔــمُوْنَ ۔ اس پر تو امت کا اجماع ہے کہ اس سورت میں سجدہ تلاوت واجب ہے مقام سجدہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ حضرت علی اور ابن مسعود (رض) پہلی آیت کے ختم پر سجدہ کرتے تھے یعنی (آیت) اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ پر اور اسی کو امام مالک نے اختیار فرمایا ہے اور حضرت ابن عباس دوسری آیت کے آخر یعنی لا یسمون پر سجدہ کرتے تھے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر نے بھی یہی فرمایا کہ دوسری آیت کے ختم پر سجدہ کریں۔ مسروق، ابو عبدالرحمن سلمی، ابراہیم نخعی، ابن سیرین، قتادہ وغیرہ، جمہور فقہاء لا یسمون۔ ہی پر سجدہ کرتے تھے۔ امام ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ یہی مذہب تمام ائمہ حنفیہ کا ہے اور فرمایا کہ اختلاف کی بنا پر احتیاط بھی اسی میں ہے کہ دوسری آیت کے ختم پر سجدہ کیا جائے کیونکہ اگر سجدہ پہلی آیت سے واجب ہوچکا ہے تو وہ اب ادا ہوجائے گا اور اگر اسی آیت سے واجب ہے تو اس کا ادا ہونا خود ظاہر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِنِ اسْـتَكْبَرُوْا فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَہُمْ لَا يَسْـَٔــمُوْنَ۝ ٣٨۞- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

پھر یہ لوگ ایمان لانے اور عبادت خداوندی سے تکبر کریں تو جو فرشتے آپ کے رب کے مقرب ہیں وہ رات دن اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور عبادت خداوندی سے ذرا نہیں بیزار ہوتے اور تھکتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ فَاِنِ اسْتَکْبَرُوْا فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَہُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ ” پس (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اگر وہ استکبار کریں تو (پروا نہیں) وہ جو آپ کے رب کے پاس ہیں وہ دن رات اس کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں اور وہ (اس سے ) تھکتے نہیں۔ “- اگر یہ لوگ تکبر کی بنا پر مجھے سجدہ کرنے کو تیار نہیں تو مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے پاس تو فرشتوں کی فوجیں ہیں جو دن رات مسلسل میری تسبیح اور حمد میں لگے رہتے ہیں۔ اس بارے میں فرشتوں کا یہ بیان ہم سورة البقرہ کی آیت ٣٠ میں پڑھ چکے ہیں : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَط ” اور ہم آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :45 غرور میں آ کر سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ تمہاری بات مان لینے میں اپنی ذلت سمجھ کر اسی جہالت پر اصرار کیے چلے جائیں جس میں یہ مبتلا ہیں ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :46 مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کا نظام ، جو ان فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے ، اللہ کی توحید اور اسی کی بندگی میں رواں دواں ہے ، اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی خداوندی اور معبودیت میں اس کا شریک ہو ۔ اب اگر چند احمق سمجھانے پر نہیں مانتے اور ساری کائنات جس راستے پر چل رہی ہے اس سے منہ موڑ کر شرک ہی کی راہ پر چلنے پر اصرار کیے جاتے ہیں تو پڑا رہنے دو ان کو اپنی اس حماقت میں ۔ اس مقام کے متعلق یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ یہاں سجدہ لازم آتا ہے ، مگر اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے کہ اوپر کی دونوں آیتوں میں سے کس پر سجدہ کرنا چاہیے ۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما : اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ پر سجدہ کرتے تھے ۔ اسی قول کو امام مالک نے اختیار کیا ہے ، اور ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے ۔ لیکن حضرات ابن عباس ، ابن عمر ، سعید بن المسیّب ، مسرق ، قتادہ ، حسن بصری ، ابو عبدالرحمٰن السُّلَمِی ، ابن سیرین ، ابراہیم نَخَعی اور متعدد دوسرے اکابر : وَھُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ پر سجدے کے قائل ہیں ۔ یہی امام ابو حنیفہ کا قول بھی ہے اور شافعیوں کے ہاں بھی مرجَّح قول یہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: یہ آیت سجدہ ہے، یعنی جو شخص اس کی تلاوت کرے، یا کسی کو تلاوت کرتے ہوئے سنے، اس پر ایک سجدہ کرنا واجب ہے۔