مخلوق کو نہیں خالق کو سجدہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو اپنی عظیم الشان قدرت اور بےمثال طاقت دکھاتا ہے کہ وہ جو کرنا چاہے کر ڈالتا ہے سورج چاند دن رات اس کی قدرت کاملہ کے نشانات ہیں ۔ رات کو اس کے اندھیروں سمیت دن کو اس کے اجالوں سمیت اس نے بنایا ہے ۔ کیسے یکے بعد دیگرے آتے جاتے ہیں؟ سورج کو روشنی اور چمکتے چاند کو اور اس کی نورانیت کو دیکھ لو ان کی بھی منزلیں اور آسمان مقرر ہیں ۔ ان کے طلوع و غروب سے دن رات کا فرق ہو جاتا ہے ۔ مہینے اور برسوں کی گنتی معلوم ہو جاتی ہے جس سے عبادات معاملات اور حقوق کی باقادہ ادائیگی ہوتی ہے ۔ چونکہ آسمان و زمین میں زیادہ خوبصورت اور منور سورج اور چاند تھا اس لئے انہیں خصوصیت سے اپنا مخلوق ہونا بتایا اور فرمایا کہ اگر اللہ کے بندے ہو تو سورج چاند کے سامنے ماتھا نہ ٹیکنا اس لئے کہ وہ مخلوق ہیں اور مخلوق سجدہ کرنے کے قابل نہیں ہوتی سجدہ کئے جانے کے لائق وہ ہے جو سب کا خالق ہے ۔ پس تم اللہ کی عبادت کئے چلے جاؤ ۔ لیکن اگر تم نے اللہ کے سوا اس کی کسی مخلوق کی بھی عبادت کرلی تو تم اس کی نظروں سے گر جاؤ گے اور پھر تو وہ تمہیں کبھی نہ بخشے گا ، جو لوگ صرف اس کی عبادت نہیں کرتے بلکہ کسی اور کی بھی عبادت کر لیتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کے عابد وہی ہیں ۔ وہ اگر اس کی عبادت چھوڑ دیں گے تو اور کوئی اس کا عابد نہیں رہے گا ۔ نہیں نہیں اللہ ان کی عبادتوں سے محض بےپرواہ ہے اس کے فرشتے دن رات اس کی پاکیزگی کے بیان اور اس کی خالص عبادتوں میں بےتھکے اور بن اکتائے ہر وقت مغشول ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے اگر یہ کفر کریں تو ہم نے ایک قوم ایسی بھی مقرر کر رکھی ہے جو کفر نہ کرے گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں رات دن کو سورج چاند کو اور ہوا کو برا نہ کہو یہ چیزیں بعض لوگوں کے لئے رحمت ہیں اور بعض کے لئے زحمت ، اس کی اس قدرت کی نشانی کہ وہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اگر دیکھنا چاہتے ہو تو مردہ زمین کا بارش سے جی اٹھنا دیکھ لو کہ وہ خشک چٹیل اور بےگھاس پتوں کے بغیر ہوتی ہے ۔ مینہ برستے ہی کھیتیاں پھل سبزہ گھاس اور پھول وغیرہ اگ آتے ہیں اور وہ ایک عجیب انداز سے اپنے سبزے کے ساتھ لہلہانے لگتی ہے ، اسے زندہ کرنے والا ہی تمہیں بھی زندہ کرے گا ۔ یقین مانو کہ وہ جو چاہے اس کی قدرت میں ہے ۔
37۔ 1 یعنی رات کو تاریک بنانا تاکہ لوگ اس میں آرام کرسکیں دن کو روشن بنانا تاکہ کسب معاش میں پریشانی نہ ہو پھر یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کا آنا جانا اور کبھی رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور کبھی اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہوتا اسی طرح سورج اور چاند کا اپنے اپنے وقت پر طلوع وغرب ہونا اور اپنے اپنے مدار پر اپنی منزلیں طے کرتے رہنا اور آپس میں باہمی تصادم محفوظ رہنا، یہ سب اس بات کی دلیلیں ہیں کہ ان کا یقینا کوئی خالق اور مالک ہے نیز وہ ایک اور صرف ایک ہے اور کائنات میں صرف اسی کا تصرف اور حکم چلتا ہے اگر تدبیر و امر کا اختیار رکھنے والے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں تو یہ نظام کائنات ایسے مستحکم اور لگے بندھے طریقے سے کبھی نہیں چل سکتا تھا۔ 37۔ 2 اس لئے کہ یہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں، خدائی اختیارات سے بہرہ ور یا ان میں شریک نہیں ہیں 37۔ 3 خلقھن میں جمع مونث کی ضمیر اس لیے آئی ہے کہ یہ یا تو خلق ھذہ الاربعۃ المذکورۃ کے مفہوم میں ہے کیونکہ غیر عاقل کی جمع کا حکم جمع مونث ہی کا ہے یا اس کا مرجع صرف شمس وقمر ہی ہیں اور بعض ازمہ نحاۃ کے نزدیک تثنیہ بھی جمع ہے یا پھر مراد الآیات ہیں فتح القدیر
[٤٦] پیکر محسوس اور غیر اللہ کی پوجا :۔ مشرکین اور بعض صاحبان طریقت یا وحدت الوجود کے قائلین رہبان اور پیر و فقیر قسم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سورج اور چاند وغیرہ اللہ تعالیٰ کے مظاہر ہیں۔ لہذا ہم جو سورج اور چاند کی پرستش کرتے ہیں تو فی الحقیقت انہیں اللہ کا پیکر محسوس سمجھ کر اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اللہ کے مظاہر یا پیکر محسوس نہیں بلکہ اللہ کی یہ نشانیاں ہیں اور اس کے غلام ہیں۔ ان کا تعلق دن اور رات سے ہے۔ دن کو سورج نکلتا ہے تو چاند روپوش ہوتا ہے اور رات کو چاند ہوتا تو سورج روپوش ہوتا ہے۔ اس سے ایک تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس قدر پابندی سے اپنا کام سرانجام دینے والی چیزیں الٰہ نہیں ہوسکتیں۔ اور دوسرا یہ کہ جو چیزیں عروج وزوال سے دوچار ہوں وہ الٰہ نہیں ہوسکتیں۔ لہذا اگر تم فی الواقع اللہ کی عبادت کرنا چاہتے ہو تو براہ راست اللہ کی عبادت کرو جو ان چیزوں کا خالق اور مالک ہے اور ان درمیانی وسائط کو درمیان سے نکال دو ۔ کوئی چیز بھی اللہ کا مظہر نہیں یہ تو اس کی نشانیاں ہیں تاکہ ان سے تم اس کی معرفت حاصل کرو۔
(١) ومن ایتہ الیل و الھار ’ : اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کو سب سے اچھی بات قرار دیا، اب اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کے لئے چند اور چیزیں بطور دلیل ذکر فرمائیں، جن میں سے بعض آسمان سے تعلق رکھتی ہیں اور بعض زمین سے اور واضح فرمایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔- (٢) انسان کو نظر آنے والی اشیا میں سے سب سے عظیم اور سب سے روشن چیزیں سورج اور چاند ہیں، اس لئے بہت سے لوگ انھی کو رب تعالیٰ سمجھ بیٹھے۔ بعض نے انھیں اللہ تعالیٰ کا مظہر سمجھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور ان کی پرستش اور انہیں سجدہ کرنے لگے، جیسے صابی اور پارسی لوگ ہیں۔ (ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم شرک کی متعدد صورتوں میں مبتلا تھی ، وہ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ سورج، چاند اور ستاروں کی بھی پرستش کرتی تھی۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت حکمت کے ساتھ ان کا بےاختیار ہونا اور رب نہ ہونا واضح فرمایا۔ دیکھیے سورة انعام : ٧٦ تا ٨٢) زیر تفسیر آیات سے ان مشرکین کا رڈ مقصود ہے۔ چناچہ بتلایا کہ رات دن اور سورج چاند اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت کی نشانیوں اور دلیلوں میں سے ہیں۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس لئے فرمایا ج کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج یا نمودار ہوجانا صاف دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی رب یا رب تعالیٰ کا مظہر نہیں کہ اس کی صورت میں وہ خود ظاہر ہو رہا ہے، بلکہ یہ دونوں مجبور اور لاچار پیدا کئیگئے ہیں، جو رب تعالیٰ کے فرمان کے تحت مسخر ہیں اور پانی گردش اور طلوع و غروب میں اس کے حکم کے پابند ہیں۔ اگر یہ خود رب ہوتے تو دن کے وقتک ا سورج رات اور چاند کو نہ آنے دیتا، اسی طرح رات دن کے مقابلے میں ڈٹ جاتی اور اسے قدم نہ رکھنے دیتی، مگر ان سب کا بےاختیار ہو کر گردش کرتے چلے جانا اور ان میں کبھی کسی حادثے کا رونما نہ ہونا اکیلے رب تعالیٰ کے وجود کی دلیل ہے، جو ہر چیز کو اپنی حکمت کے تحت چلا رہا ہے۔- (٣) رات دن کے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہونے اور ان آیات کے حوالے کے لئے جن میں اس کی تفصیل ہے، دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آیت (١٢) کی تفسیر۔- (٤) لاتسجدوا للشمس ولا للقمر…: اس سے معلوم ہوا کہ مخلوق کو سجدہ کرنا حرام ہے، سجدہ صرف اللہ کے لئے ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا۔- (٥) ان کنتم ایاہ تعبدون : کچھ لوگ عقلی ڈھکو سلے گھڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، جیسا کہ مشرکین کہتے تھے۔ (مانعبدھم الا لیقربوناً الی اللہ زلفی) (الزمر : ٣)” ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔ “ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : اگر تم واقعی اللہ ہی کی عبادت کرتے ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، سیدھے اسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟ - (٦) سجدہ عبادت اور سجدہ تعظیم میں فرق اور سجدہ تعظیم کی حرمت کے لئے دیکھیے سورة بقرہ (٣٤) اور سورة یوسف (١٠٠) ۔
خلاصہ تفسیر - اور منجملہ اس کی (قدرت و توحید) کی نشانیوں کے رات اور دن ہے اور سورج ہے اور چاند ہے (پس) تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو (جیسا کہ صائبین ستاروں کی عبادت کیا کرتے تھے کما فی الکشاف) اور (صرف) اس خدا کو سجدہ کرو جس نے ان (سب) نشانیوں کو پیدا کیا۔ اگر تم کو خدا کی عبادت کرنا ہے (یعنی اگر خدا کی عبادت کرنا ہے تو وہ صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت نہ کرو، مشرکین کی طرح اللہ کی عبادت کے ساتھ دوسروں کو عبادت میں شریک کردیا تو پھر وہ اللہ کی عبادت نہیں رہتی) پھر اگر یہ لوگ (توحید کی عبادت اختیار کرنے اور اپنی آبائی رسوم شرک کو چھوڑنے سے عار) اور تکبر کریں تو (ان کی حماقت ہے، کیونکہ) جو فرشتے آپ کے رب کے مقرب ہیں وہ شب وروز اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور وہ (اس سے ذرا) نہیں اکتاتے (جب اللہ کے مقرب فرشتے جو ان لوگوں سے لاکھوں درجہ مکرم و معظم ہیں ان کو عار نہیں تو ان احمقوں کو عار کرنے کی کیا موقع ہے) اور منجملہ اس کی (قدرت و توحید) کی نشانیوں کے ایک یہ ہے کہ تو زمین کو دیکھتا ہے دبی دبائی (پڑی) ہے۔ پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ابھرتی اور پھولتی ہے (اس کے توحید پر بھی استدلال ہوتا ہے اور بعث یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر بھی کیونکہ) جس نے زمین کو (اس کے مناسب) زندہ کردیا وہی مردوں کو (ان کے مناسب) زندہ کر دے گا، بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔- معارف و مسائل - اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں :- (آیت) لَا تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ ۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ سجدہ صرف خالق کائنات کا حق ہے۔ اس کے سوا کسی ستارے یا انسان وغیرہ کو سجدہ کرنا حرام ہے، خواہ وہ عبادت کی نیت سے ہو یا محض تعظیم و تکریم کی نیت سے، دونوں صورتیں باجماع امت حرام ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جو عبادت کی نیت سے کسی کو سجدہ کرے گا وہ کافر ہوجاوے گا اور جس نے محض تعظیم و تکریم کے لئے سجدہ کیا اس کو کافر نہ کہیں گے مگر ارتکاب حرام کا مجرم اور فاسق کہا جائے گا۔- سجدہ عبادت تو اللہ کے سوا کسی کو کسی امت و شریعت میں حلال نہیں رہا۔ کیونکہ وہ شرک میں داخل ہے۔ اور شرک تمام شرائع انبیاء میں حرام رہا ہے۔ البتہ کسی کو تعظیماً سجدہ کرنا، یہ پچھلی شریعتوں میں جائز تھا۔ دنیا میں آنے سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے سب فرشتوں کو سجدہ کا حکم ہوا۔ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے والد اور بھائیوں نے سجدہ کیا جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے مگر باتفاق فقہاء امت یہ حکم ان شریعتوں میں تھا۔ اسلام میں منسوخ قرار دیا گیا اور غیر اللہ کو سجدہ مطلقاً حرام قرار دیا گیا۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل احقر کے رسالہ ” المقالة المرضیہ فی حکم سجدة التحیہ “ میں مذکور ہے جو بزبان عربی ہے اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔
وَمِنْ اٰيٰتِہِ الَّيْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ٠ ۭ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلہِ الَّذِيْ خَلَقَہُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ٣٧- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔
یہاں مقام سجدہ کونسا ہے ؟- قول باری ہے (واسجدوا للہ الذی خلقھن ان کنتم ایاہ تعبدون۔ اور صرف اللہ کے لئے سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا اگر تم واقعی اس کے پرستار ہو)- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سورت میں مقام سجدہ کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس، مسروق اور قتادہ سے مروی ہے کہ قول باری (وھم یسامون۔ اور وہ اکتاتے نہیں) مقام سجدہ ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) کے اصحاب ، حسن اور ابوعبدالرحمان سے مروی ہے کہ قول باری (ان کنتم ایاہ تعبدون) مقام سجدہ ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بہتر صورت تو یہی ہے کہ دونوں آیتوں کا اختتام مقام سجدہ قرار دیا جائے کیونکہ سلسلہ کلام کا اختتام وہیں جاکر ہوتا ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے۔ جب سلف کا کسی مسئلے میں اختلاف ہوجائے تو دو باتوں میں سے جو آخری بات ہو اس پر عمل کرنا اولیٰ ہوتا ہے۔- کیونکہ آخری بات پر عمل کرنے پر سب کا اتفاق ہوتا ہے اور پہلی بات کے جواز میں اختلاف ہوتا ہے۔
اور اس کی قدرت اور توحید کی نشانیوں میں سے رات ہے اور دن ہے سورج ہے اور چاند ہے یہ سب قدرت الہیہ کی نشانیاں ہیں لہٰذا نہ سورج کی عبادت کرو اور نہ چاند کی اور اسی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جس نے چاند سورج رات اور دن کو پیدا کیا ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے یا یہ کہ اگر تم چاند و سورج کی پوجا کو عبادت خداوندی سمجھتے ہو تو پھر ان کی پوجا نہ کرو اللہ کی عبادت ان کی عبادت کے چھوڑنے میں ہے۔
آیت ٣٧ وَمِنْ اٰیٰتِہِ الَّـیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ” اور اسی کی نشانیوں میں سے ہیں رات ‘ دن ‘ سورج اور چاند۔ “- لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ ” تم سورج کو سجدہ مت کرو اور نہ چاند کو “- وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ” بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ‘ اگر تم واقعتا اسی کی بندگی کرتے ہو۔ “
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :42 اب روئے سخن عوام الناس کی طرف مڑ رہا ہے اور چند فقرے ان کو حقیقت سمجھانے کے لیے ارشاد ہورے ہیں ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :43 یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے ، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی اور اس کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیاء علیہم السلام جس توحید خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امر واقعی ہے ۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا ، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہر نہیں ہے ، بلکہ دونوں ہی مجبور و لاچار بندے ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوئے گردش کر رہے ہیں ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :44 یہ جواب ہے اس فلسفے کا جو شرک کو معقول ثابت کرنے کے لیے کچھ زیادہ ذہین قسم کے مشرکین عموماً بگھارا کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے ، براہ راست خود اسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے ۔