Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یعنی شیطان، شریعت کے کام سے پھیرنا چاہے یا احسن طریقے سے برائی کے دفع کرنے میں رکاوٹ ڈالے تو اس کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ 36۔ 2 اور جو ایسا ہو یعنی ہر ایک کی سننے والا اور ہر بات کو جاننے والا، وہی پناہ کے طلب گاروں کو پناہ دے سکتا ہے۔ اس کے بعد اب پھر بعض ان نشانیوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو اللہ کی توحید، اس کی قدرت کاملہ اور اس کی قوت تصرف پر دلالت کرتی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٤] برائی پر غصہ سے بھڑک اٹھنا شیطانی انگیخت ہے :۔ یعنی جب کوئی شخص برائی کرے اور انسان غصہ سے بھڑک اٹھے اور بدلہ لینے پر تیار ہوجائے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ یہ شیطانی انگیخت ہے۔ شیطان اسے یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ اس قسم کی بےعزتی کو ہرگز برداشت نہ کرنا چاہئے۔ پھر وہ اسے انتقام لینے پر آمادہ کردیتا ہے۔ ایسی صورت حال پیش آئے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیجئے اور شیطان مردود سے، جو اس بات کا محرک بنا تھا، اللہ کی پناہ میں آجائیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کی حرکات و سکنات کو بھی دیکھ رہا ہے اور تمہارے احوال سے بھی خوب واقف ہے لہذا وہ خود ہی تمہاری چارا جوئی فرمائے گا۔- [٤٥] غصہ کا علاج :۔ سیدنا سلیمان بن صُرَد کہتے ہیں کہ ایک دفعہ دو آدمیوں نے رسول اللہ کے سامنے گالی گلوچ کی اور ایک کو اتنا غصہ آیا کہ اس کا چہرہ پھول گیا۔ اور رنگ بدل گیا آپ نے فرمایا : مجھے ایک ایساکلمہ معلوم ہے۔ اگر غصہ کرنے والا شخص وہ کلمہ کہے تو اس کا غصہ جاتا رہتا ہے۔ ایک دوسرا شخص اس کے پاس گیا اور آپ نے جو فرمایا تھا اسے اس کی خبر دی اور کہا : شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ وہ کہنے لگا کیا تم نے مجھے دیوانہ سمجھ لیا ہے یا مجھے کوئی روگ ہوگیا ہے ؟ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب ما ینہی من السباب واللعن) حالانکہ اس کا یہ جواب ہی دیوانگی کی علامت ہے۔ غصہ میں انسان کی عقل پر جذبات غالب آجاتے ہیں۔ اور عقل جاتی رہتی ہے اور دیوانہ بھی اسے کہتے ہیں جس میں عقل نہ ہو۔ رہا یہ سوال کہ وہ کلمہ کون سا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اللہ سے پناہ مانگے یا ( أعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیطْنِ الرَّجِیْمِ ) کہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

واما ینزغنک من الشیطن نزع … ” نزع “ کا لفظی معنی ” کسی سوئی یا نوک دار چیز کے ساتھ چوکا مارنا “ ہے، مراد شیطان کا غصہ دلا کر برانگیختہ کردینا ہے۔ اس آیت کی تفسیر سورة اعراف (٢٠٠) اور سورة مومنوں (٩٦ تا ٩٨) میں گزر چکی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ٣٦- نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] - ( ن زع ) نزع - الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال :- عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اگر ابو جہل کی سختیوں کی وجہ سے شیطان کی طرف سے غصہ کا کچھ خیال آنے لگے تو اس شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیا کیجیے وہ ابو جہل کی باتوں کو سننے والا اور اس کی سزا سے باخبر ہے یا یہ کہ آپ کے استفادہ کو سننے والا اور وسوسہ شیطان کو جاننے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ ” اور اگر کبھی تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی چوک لگنے لگے تو اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو۔ “- اگر کبھی کسی کے ناروا سلوک اور مخالفانہ رویے پر غصہ آجائے تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے ‘ شیطان تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے۔ چناچہ ایسی کیفیت میں فوراً اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو ‘ کیونکہ صرف اسی کی پناہ میں آکر تم شیطان کے وار سے بچ سکتے ہو۔- اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ” یقینا وہی ہے سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ جاننے والا۔ “- یہ آیت سورة الاعراف (آیت ٢٠٠) میں بھی آچکی ہے۔ وہاں اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ کے الفاظ ہیں۔ گویا یہاں اللہ تعالیٰ کی مذکورہ صفات (السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) کے بارے میں زیادہ زور اور تاکید کا انداز پایا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :40 شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی ، حق کے لیے لڑنے والوں ، اور خصوصاً ان کے سربر آوردہ لوگوں ، اور سب سے بڑھ کر ان کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جاسکے کہ دیکھیے صاحب ، برائی یک طرفہ نہیں ہے ، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اونچے درجے کے انسان نہیں ہیں ، فلاں رکیک حرکت تو آخر انہوں نے بھی کی ہے ۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسرے طرف کی جوابی کاروائی کے درمیان موازنہ کر سکیں ۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہر طرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راستبازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے ، اس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بے جا حرکت ، یا ان کے مرتبے سے گری ہوئی حرکت سرزد ہو جائے ، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو ، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہو جاتے ہیں ، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانا مل جاتا ہے ۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا کہ شیطان کے فریب سے چوکنے رہو ۔ وہ بڑا درد مند و خیر خواہ بن کر تمہیں اشتعال دلائے گا کہ فلاں زیادتی تو ہرگز برداشت نہ کی جانی چاہیے ، اور فلاں بات کا تو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے ، اور اس حملے کے جواب میں تو لڑ جانا چاہیے ورنہ تمہیں بزدل سمجھا جائے گا اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ ایسے ہر موقع پر جب تمہیں اپنے اندر اس طرح کا کوئی نامناسب اشتعال محسوس ہو تو خبردار ہو جاؤ کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے جو غصہ دلا کر تم سے کوئی غلطی کرانا چاہتا ہے ۔ اور خبردار ہو جانے کے بعد اس زعم میں نہ مبتلا ہو جاؤ کہ میں اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہوں ، شیطان مجھ سے کوئی غلطی نہیں کرا سکتا ۔ یہ اپنی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کا زعم شیطان کا دوسرا اور زیادہ خطرناک فریب ہو گا ۔ اس کے بجائے تم کو خدا سے پناہ مانگنی چاہیے ، کیونکہ وہی توفیق دے اور حفاظت کرے تو آدمی غلطیوں سے بچ سکتا ہے ۔ اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا ۔ حضرت ابو بکر خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکراتے رہے ۔ آخر کار جناب صدیق کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی ۔ ان کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرہ مبارک پر نمایاں ہونے لگا اور آپ فوراً اٹھ کر تشریف لے گئے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی اٹھ کر آپ کے پیچھے ہو لیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے ، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ خاموش مسکراتے رہے ، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپ ناراض ہو گئے؟ فرمایا جب تک تم خاموش تھے ، ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا ، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آ گیا ۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :41 مخالفتوں کے طوفان میں اللہ کی پناہ مانگ لینے کے بعد جو چیز مومن کے دل میں صبر و سکون اور اطمینان کی ٹھنڈک پیدا کرتی ہے وہ یہ یقین ہے کہ اللہ بے خبر نہیں ہے ۔ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اس سے بھی وہ واقف ہے ۔ ہماری اور ہمارے مخالفین کی ساری باتیں وہ سن رہا ہے اور دونوں کا طرز عمل جیسا کچھ بھی ہے اسے وہ دیکھ رہا ہے ۔ اسی اعتماد پر بندہ مومن اپنا اور دشمنان حق کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے پوری طرح مطمئن ہو جا تا ہے ۔ یہ پانچواں موقع ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو دعوت دین اور اصلاح خلق کی یہ حکمت سکھائی گئی ہے ۔ اس سے پہلے کے چار مقامات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۱٤۹ تا ۱۵۳ ، النحل ۱۲۲ ۔ ۱۲۳ ، جلد سوم ، المومنون ، حواشی ۸۹ ۔ ۹۰ ، العنکبوت ، ۸۱ ۔ ۸۲ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: شیطان کے کچوکے سے مراد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے دل میں کوئی گناہ کا یا کوئی برائی کرنے کا وسوسہ ڈالے تو تم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیا کرو جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ یہ کہو : اَعوْذُ باللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم۔