35۔ 1 یعنی برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی خوبی اگرچہ نہایت مفید اور بڑی ثمر آور ہے لیکن اس پر عمل وہی کرسکیں گے جو صابر ہونگے۔ غصے کو پی جانے والے اور ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے والے۔ 35۔ 2 حظ عظیم (بڑا نصیبہ) سے مراد جنت ہے۔ یعنی مذکورہ خوبیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں جو بڑے نصیبے والا ہوتا ہے، یعنی جنتی جس کے لئے جنت میں جانا لکھ دیا گیا ہو۔
[٤٣] بدلہ لینے کے لحاظ سے لوگوں کی تین قسمیں :۔ دنیا میں لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں۔ اور عام لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے۔ دوسرے وہ جو نیکی کا بدلہ بھی برائی سے دیتے ہیں۔ یہ بدترین لوگ ہوتے ہیں جو بچھو کی سرشت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ بالآخر آپ ہی اپنا نقصان کرتے ہیں۔ ان کی اس بدفطری کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرتے اور ان سے پرے ہی رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور تیسرے وہ جو برائی ہونے پر بھڑک نہیں اٹھتے بلکہ اسے برداشت کر جاتے ہیں۔ بعد میں برائی کرنے والے سے خیرخواہی اور بھلائی کا سلوک کرتے ہیں۔ اور یہ کام کوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ بڑے حوصلہ اور دل گردہ کا کام ہے۔ اور ایسے کام کی اسی سے توقع کی جاسکتی ہے جو بڑا صاحب عزم اور عالی حوصلہ شخص ہو۔ ایسے لوگ سب سے بہتر ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔
(١) وما یلفھا الا الذین صبروا : یعنی برائی کا جواب سب سے اچھے طریقے کے ساتھ دینے کی توفیق انھی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جنہوں نے اس سے پہلے بھی صبر کی عادت اپنئای ہوتی ہے۔ ” صبروا “ مضای کا صیغہ ہے۔- (٢) وما یلقھآ الا ذوحظ عظیم : یعنی یہ خبوی کہ برائی کا جواب سب سے اچھے طریقے کے ساتھ دیں، صرف انھی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو بہت بڑے نصیب والے ہوں۔ معلوم ہوا یہ حوصلہ انسان کے بس کی بات نہیں، محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اس لئے اپنی کوشش کے ساتھ ساتھ اسی سے صبر اور حوصلے کی دعا کرنا لازم ہے۔
وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا ٠ ۚ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ ٣٥- ( لقی) تلقی - السّماحة منه والنّدى خلقاویقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل 6]- وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- حظَّ- الحَظُّ : النصیب المقدّر، وقد حَظِظْتُ وحُظِظْتُ فأنا مَحْظُوظ، وقیل في جمعه : أَحَاظّ وأُحُظّ ، قال اللہ تعالی: فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، وقال تعالی: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء 11] .- ( ح ظ ظ ) الحظ کے معنی معین حصہ کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حظظ واحظ فھو محظوظ ۔ حط کی جمع احاظ و احظ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا (5 ۔ 14) لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء 11] کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
اور آخرت میں جنت ان ہی لوگوں کو ملتی ہے جو مشقتوں اور دشمن کی تکلیفوں پر دنیا میں صبر کرتے ہیں اور یہ بدی کو نیکی سے ٹال دینے کی توفیق ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو جنت میں ثواب کامل کے اعتبار سے بڑے نصیب والے ہوتے ہیں جیسا کہ رسول اکرم اور آپ کے صحابہ کرام۔
آیت ٣٥ وَمَا یُلَقّٰٹہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ” اور یہ مقام نہیں حاصل ہوسکتا مگر ان ہی لوگوں کو جو بہت صبر کرتے ہوں۔ “- اس خاص مقام تک صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جن میں صبر کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو اور وہ اپنی عملی زندگی میں بھی ہمیشہ صبر کی روش پر کاربند ہوں۔- وَمَا یُلَقّٰٹہَا اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ” اور یہ نہیں دیا جاتا مگر ان ہی کو جو بڑے نصیب والے ہوں۔ “- یہ حَظٍّ عَظِیْمٍ کیا ہے اور اس کا حقیقی معیار کیا ہے ؟ ہر انسان کے لیے اس کا صحیح ادراک حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے پہلے یہ لفظ ہم سورة القصص کے آٹھویں رکوع میں قارون کے حوالے سے بھی پڑھ آئے ہیں۔ قارون کے ٹھاٹھ باٹھ اور خدم و حشم سے متاثر ہو کر دنیا دار لوگوں نے حسرت بھرے انداز میں کہا تھا : اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ۔ ( القصص) کہ یقینا یہ شخص بڑا صاحب نصیب ہے۔ لیکن پھر جب وہ اپنے گھر بار سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا تو ان ہی لوگوں نے اس پر شکر و اطمینان کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑی مہربانی کی کہ انہیں قارون جیسا مال و منال نہ دیا ‘ ورنہ انہیں بھی اسی طرح زمین میں دھنسا دیا جاتا۔ چناچہ ایک بندئہ مومن کے لیے اصل کامیابی ‘ حقیقی فوزو فلاح اور ” حظ ِعظیم “ اسی عمل اور اسی کردار میں ہے جس کی نشاندہی اس آیت میں کی گئی ہے۔
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :38 یعنی یہ نسخہ ہے تو بڑا کارگر ، مگر اسے استعمال کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے ۔ اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے ۔ اس کے لیے بڑا عزم ، بڑا حوصلہ ، بڑی قوت برداشت ، اور اپنے نفس پر بہت بڑا قابو درکار ہے ۔ وقتی طور پر ایک آدمی کسی بدی کے مقابلے میں بڑی نیکی برت سکتا ہے ۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ۔ لیکن جہاں کسی شخص کو سالہا سال تک ان باطل پرست اشرار کے مقابلے میں حق کی خاطر لڑنا پڑے جو اخلاق کی کسی حد کو پھاند جانے میں تامل نہ کرتے ہوں ، اور پھر طاقت اور اختیارات کے نشے میں بھی بد مست ہو رہے ہوں ، اور وہاں بدی کا مقابلہ نیکی اور وہ بھی اعلیٰ درجے کی نیکی سے کرتے چلے جانا ، اور کبھی ایک مرتبہ بھی ضبط کی باگیں ہاتھ سے نہ چھوڑنا کسی معمولی آدمی کے بس کا کام نہیں ہے ۔ یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو ٹھنڈے دل سے حق کی سربلندی کے لیے کام کرنے کا پختہ عزم کر چکا ہو ، جس نے پوری طرح سے اپنے نفس کو عقل و شعور کے تابع کر لیا ہو ، اور جس کے اندر نیکی و راستی ایسی گہری جڑیں پکڑ چکی ہو کہ مخالفین کی کوئی شرارت و خباثت بھی اسے اس کے مقام بلند سے نیچے اتار لانے میں کامیاب نہ ہو سکتی ہو ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :39 یہ قانون فطرت ہے ۔ بڑے ہی بلند مرتبے کا انسان ان صفات سے متصف ہوا کرتا ہے ، اور جو شخص یہ صفات رکھتا ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت بھی کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی ۔ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ گھٹیا درجے کے لوگ اپنی کمینہ چالوں ، ذلیل ہتھکنڈوں اور رکیک حرکتوں سے اس کو شکست دے دیں ۔