Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 بلکہ ان میں عظیم فرق ہے۔ 24۔ 2 یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ، زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ غضب کا صبر کے ساتھ بےہودگیوں کا جواب چشم پوشی کے ساتھ اور مکروہات کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن دوست بن جائے گا دور دور رہنے والا قریب ہوجائے گا اور خون کا پیاسا تمہارا گرویدہ اور جانثار ہو جا‏ئے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] بدی کا جواب بدی سے دینے سے دعوت کو نقصان پہنچتا ہے اور بھلائی سے دینے سے دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔ اس آیت میں دعوت الیٰ اللہ کا ایک زریں اصول بیان کیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ نیکی اور بدی کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ اور یہ اس لیے بتایا گیا ہے کہ کفار مکہ دعوت اسلام کو کچلنے کے لیے بدترین ہتھکنڈوں پر اتر آئے تھے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ بدی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ بدی بالآخر بدی کرنے والے کا ہی بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ لہذا داعی الیٰ اللہ کو بدی کا جواب کبھی بدی سے نہ دینا چاہئے۔ بلکہ اسے برداشت کرنا چاہئے اسے کوئی فوری جواب نہ دینا چاہئے اور اس سے اگلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ اس کی بدی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ اس طرح دشمن خود نگوسار اور شرمندہ ہوگا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ میں نے کیا سلوک کیا تھا۔ اور فریق مخالف کا میرے حق میں سلوک کیا ہے ؟ وہ آپ کے خلوص اور آپ کی خیرخواہی اور راست بازی کا معتقد ہوجائے گا حتیٰ کہ آپ کی مخالفت چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملے گا اور آپ کا جگری دوست بن جائے گا۔ اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کی دعوت الی اللہ کی منزل کھوٹی نہیں ہوگی۔ بلکہ اس میں مزید پیش رفت ہوجائے گی۔ اور اگر آپ برائی کا جواب برائی سے دیں گے تو پھر ادھر سے مزید برائی اٹھے گی اس طرح ایک تو مخالفت پہلے سے بھی بڑھ جائے گی۔ دوسرے تمہارا اصل مقصد فوت ہوجائے گا اور دعوت الی اللہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ولا تستوی الحسنۃ …: اس آیت میں دعوت کے مخاطب لوگوں کی زیادتی اور برائی کا جواب دینے کا طریقہ سکھایا گیا ہے۔ عام طور پر ” ولا السیئۃ “ کے ” لا “ کو زائد کہہ کر ترجمہ کیا جاتا ہے کہ ” نیکی اور برائی برابر نہیں۔ “ بعض حضرات اسے زائد برائے تاکید کہہ دیتے ہیں، حالانکہ قرآن مجید کے کسی لفظ بلکہ حرف کو زائد کہنے کے بجائے وہ فائدہ سمجھنے کی کوشش ضروری ہے جس کے لئے وہ لفظ لایا گیا ہے، جو بظاہر زائد ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے اس بات سے کہ بلا ضرورت کوئی لفظ لائے۔ اصل میں یہاں بات بیان ہو رہی ہے کہ نیکی برابر نہیں، نہ اپنی جنس کے افراد کے لحاظ سے، کیونکہ نیکیوں کے بیشمار درجے ہیں، کوئی کمتر درجے کی نیکی، کوئی اس سے برتر اور کوئی سب سے سے برتر ، جیسا کہ حدیث میں ہے : فاذا ناھا اماطۃ الاذی عن الطریق وارفععھا قول لا الہ الا اللہ) (ترمذی، الایمان، باب فی استکمال الایمان…2613)” سب سے کمتر نیکی راستے سے تکلیف وہ چیز ہٹانا اور سب سے اونچی لا الہ الا اللہ کہتا ہے ۔” اور نہ ہی ایک نیکی اپنے درجات کے اعتبار سے برابر ہے، مثلاً کسی کے ساتھ حسن سلوک کے کئی درجے ہیں۔ اسی طرح ایک ہی نیکی اپنے کرنے والوں کے مختلف ہونے کے لحاظ سے بھی برابر نہیں، کوئی اسے خلاص نیت سے کرتا ہے اور کوئی ریا سے ، کوئی پوری کوشش سے کرتا ہے، کوئی درمیانی کوشش سے اور کوئی بےدلی سے۔ غرض کوئی بھی نیکی نہ دوسری نیکیوں کے ساتھ برابر ہے، نہ اپنی ذات میں برابر ہے اور نہ کرنے والوں کے لحاظ سے برابر ہے۔- (٢) ولا السینۃ : برائی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ برابر نہیں۔ زبانی دشمنی اور تیر تلوار کے ساتھ دشمنی میں فرق ہے، ابو طالب اور ابوجہل کے کفر میں فرق ہے۔ اس لئے آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ” اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ “ شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین دونوں کے ترجمہ میں یہ بات محلوظ رکھی گئی ہے۔- (٣) اذفح بالتیھی احسن …: یعنی برائی کا جواب صرف یہ نہیں کہ نیکی کے ساتھ دو ، بلکہ اس طریقے سے دو جو سب سے اچھا ہے اور نیکی کا سب سے اونچا درجہ ہے۔ یہ سب سے اچھا طریقہ بعض اوقات اچھی بات اور اچھا لہجہ ہوتا ہے، جیسا کہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا ہے :(امر اللہ المومنین بالصبر عند العضب والحلم والعفو عند الاساء ۃ ، فاذا فعلوا ذلک عصمھم اللہ من الشیطان، وخضع لھم عدوھم، کانہ ولی خمیم) (طبری، 30893 السنن الکبیری للبیہقی :30 8، ح : 13680” اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو غصے کے وقت صبر کا اور بدسلوکی کے وقت حلم اور عفو کا حکم دیا، تو جب وہ ایسا کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں شیطان سے بچائے گا اور ان کا دشمن ان کے لئے زیر ہوجائے گا، گویا کہ وہ دلی دوست ہے۔ “ اور بعض اوقات سب سے اچھا طریقہ خوش اخلاقی اور بہترین بات کے ساتھ ساتھ جہاد بالید ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو سب سے بہتر امت قرار دیا (دیکھیے آل عمران، 110) اور جس کی وجہ سے بڑے بڑے دشمن دلی دوست بن جاتے ہیں، جیسے ثمامہ بن اثال، ابوسفیان، صفوان بن امیہ، حارث بن ہشام (رض) اور بیشمار کفار جو جہاد کی برکت سے جگری دوست بن گئے۔ آج بھی جب تک کافر ملکوں کے فرماں رواؤں کی گردنوں کے سریے کاٹ کر انہیں ثمامہ بن اثال (رض) کی طرح مسجد نبوی کے ستون سے باندھ کر اسلام کی تعلیمات کا آنکھوں سے مشاہدہ نہ کروایا جائے ان کا مسلمان ہونا یا دلی دوست بننا مشکل ہے۔ (مزید دیکھیے رعد : ٢٢) مومن نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو ہوتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ، یہاں سے دعوت الیٰ اللہ کی خدمت انجام دینے والوں کو خاص ہدایات دی گئی ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیں بلکہ صبر اور احسان سے کام لیں اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ یعنی داعیان حق کی خصلت یہ ہونی چاہئے کہ وہ لوگوں کو برائی کو طریق احسن سے دفع کریں۔ وہ یہ کہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ لینا اور معاف کردینا تو عمل حسن ہے اور۔ احسن یہ ہے کہ جس نے تمہارے ساتھ برا سلوک کیا، تم اس کو معاف بھی کردو اور اس کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرو۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت میں حکم یہ ہے کہ جو شخص تم پر غصہ کا اظہار کرے، تم اس کے مقابلہ میں صبر سے کام لو۔ جو تمہارے ساتھ جہالت سے پیش آوے تم اس کے ساتھ حلم و بردباری کا معاملہ کرو اور جس نے تمہیں ستایا اس کو معاف کردو۔ (مظہری)- بعض روایات میں ہے کہ صدیق اکبر کو کسی شخص نے گالی دی یا برا کہا تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر تم اپنے کلام میں سچے ہو کہ میں مجرم وخطا وار اور برا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دے، اور اگر تم نے جھوٹ بولا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرما دے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝ ٠ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۝ ٣٤- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - دفع - الدَّفْعُ إذا عدّي بإلى اقتضی معنی الإنالة، نحو قوله تعالی: فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ- [ النساء 6] ، وإذا عدّي بعن اقتضی معنی الحماية، نحو : إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا - [ الحج 38] ، وقال : وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج 40] ، وقوله : لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 2- 3] ، أي : حام، والمُدَفَّع : الذي يدفعه كلّ أحد «3» ، والدُّفْعَة من المطر، والدُّفَّاع من السّيل .- ( د ف ع ) الدفع ( دفع کرنا ، ہٹا دینا ) جب اس کا تعدیہ بذریعہ الیٰ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالے کردینا ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء 6] تو ان کا مال ان کے حوالے کردو ۔ اور جب بذریعہ عن متعدی ہو تو اس کے معنی مدافعت اور حمایت کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الحج 38] خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا تا تا رہتا ہے ہے ۔ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج 40] اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے ( پر چڑھائی اور حملہ کرنے ) سے ہٹاتا نہ رہتا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 2- 3] کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا ۔ اور وہ ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے ( نازل ہوگا ) میں دافع کے معنی حامی اور محافظ کے ہیں ۔ المدقع ۔ ہر جگہ سے دھتکار ہوا ۔ ذلیل ار سوار ۔ الدفعۃ ۔ بارش کی بوچھاڑ ۔ الدفاع سیلاب کا زور ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - حم - الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه :- حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما - علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ- [ الشعراء 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل :- الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي :- العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم - ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ترک تعلق بھی بطریق احسن ہو - قول باری ہے (ادفع بالتیھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عدوۃ کانہ ولی حمیم۔ آپ نیکی سے بدی کو ٹال دیا کیجئے تو پھر یہ ہوگا کہ جس شخص میں اور آپ میں عداوت ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دست ہوتا ہے) بعض اہل علم کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کا ذکر کیا اور پھر اس کے متعلق ایک تدبیر بتائی کہ اس پر عمل کیا جائے یہاں تک کہ اس کی دشمنی زائل ہوجائے اور وہ ایسا بن جائے جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے۔- چنانچہ ارشاد ہوا (ادفع بالتیھی احسن) تا آخر آیت۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعض دفعہ تمہارا سامانا کسی ایسے شخص سے ہوجائے جو اپنے دل میں تمہارے خلاف دشمنی اور کینہ چھپائے ہوئے ہو تم اسے سلام کرنے میں پہل کرو یا اس کے سامنے اپنے چہرے پر مسکراہٹ طاری کردو تو اس کا دل نرم پڑجائے گا اور اس کا سینہ تمہاری دشمنی سے پاک ہوجائے گا۔- انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حاسد کا ذکر کیا ہے اسے یہ معلوم تھا کہ اس کی دوستی حاصل کرنے، اس کے غصے پر قابو پانے اور اس کا کینہ دور کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی تدبیر اور حیلہ نہیں ہے۔ چناچہ ارشا ہوا (قل اعوذ برب الفلق) تا قول باری (ومن شر حاسد اذا حسد) اس لئے اس نے حاسد سے اس کی پناہ میں آنے کا حکم دیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ حاسد کو راضی کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی تدبیر نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے محمد آپ کلمہ لا الہ الا اللہ کے ذریعے ابو جہل کے شرک کو ٹال دیا کیجیئے یا یہ کہ آپ ابوجہل کی برائی کو اپنے اوپر نیک برتاؤ اور حسن خوبی و نرمی کلامی سے ٹال دیا کیجیے۔ جب آپ اس طریقے پر عمل کریں گے تو مثلا ابو جہل جس کو آپ سے دینی دشمنی تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی قریبی رشتہ دار ہوتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ” اور (دیکھو ) اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوتے۔ “- اب کون کہے گا کہ یہ دونوں برابر ہیں۔ چناچہ بات اس نکتے سے شروع کی جا رہی ہے جو سب کے ہاں متفق علیہ اور مسلم ّہے ۔- اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ” تم مدافعت کرو بہترین طریقے سے “- لوگ بیشک آپ کو گالیاں دیں ‘ مگر آپ انہیں دعائیں دو ‘ اگر کوئی آپ کو پتھر مارے تو آپ جواب میں اسے پھول پیش کرو۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ اس طرز عمل کے سامنے بڑے سے بڑا کٹھور دل انسان بھی نرم پڑجاتا ہے۔ یہاں اس مضمون کے حوالے سے یہ نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اگلی سورت یعنی سورة الشوریٰ میں اس تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آئے گا۔ لیکن یاد رہے کہ سورة الشوریٰ میں سختی کا جواب سختی سے دینے کی بات اقامت دین کے حوالے سے ہوئی ہے جبکہ یہاں دعوت دین کے مرحلے کی حکمت عملی بتائی جا رہی ہے۔ دونوں مرحلوں پر پالیسی کے اس فرق کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بہر حال ” دعوت “ کے مرحلے کی پالیسی یہی ہے کہ جب تم دعوت کو لے کر چلو تو ایسے بےضرر انسان بن جائو کہ بدھ مت کے بھکشو نظر آئو۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اسی حکمت عملی کے بارے میں فرمایا تھا کہ تم سانپ کی مانند چوکنے اور فاختہ کی طرح بےضرر بنو یعنی ایک داعی کو ایسا احمق اور بدھو نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے اسے ضرر پہنچا جائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ خود اس کی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس حوالے سے رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ہمارے سامنے ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گالیاں دینے والوں کو ہمیشہ دعائیں دیں ‘ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ابوجہل جیسے دشمنوں کی ہدایت کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں ؎- سلام اس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں - سلام اس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں - زیر مطالعہ موضوع یعنی ” دعوت توحید “ کی اہمیت کو اقامت دین کی جدوجہد کے حوالے سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ توحید عملی کے تدریجی مراحل کو اپنے ذہن میں ایک مرتبہ پھر سے تازہ کرلیں۔ اب تک ہم انفرادی سطح پر توحید عملی کے دو پہلوئوں کا مطالعہ کرچکے ہیں۔ سورة الزمر میں توحید کا خارجی یا ظاہری پہلو بیان ہوا ہے کہ عبادت صرف اللہ کی کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اس کے بعد سورة المومن میں توحید کے داخلی پہلو کا ذکر آیا تھا کہ دعا صرف اللہ سے کرو ‘ اور وہ بھی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اب سورة حٰمٓ السجدہ میں توحید کو انفرادی سطح سے اجتماعیت کی طرف بڑھانے کی بات ہو رہی ہے۔ گویا ” توحید “ ایک فرد سے نکل کر دوسرے افراد تک پہنچنا شروع ہوگی اور دعوت کے ذریعے ” متعدی “ صورت اختیارکر کے معاشرے میں پھیلتی چلی جائے گی۔ سورة آل عمران میں اس بنیاد پر باقاعدہ ایک جماعت قائم کرنے کی ضرورت اور اہمیت ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے : وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ” اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے ‘ نیکی کا حکم دیتی رہے اور بدی سے روکتی رہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔ “- بہر حال زیر مطالعہ آیات کا موضوع دعوت توحید ہے اور اس حوالے سے داعیانِ حق کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ تم برائی کا جواب ہمیشہ نیکی اور خوش اخلاقی سے دو ۔ اگر تم یہ روش اختیار کرو گے :- فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ” تو (تم دیکھو گے کہ) وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے وہ گویا گرم جوش دوست بن جائے گا۔ “- انسان آخر انسان ہے۔ اگر کوئی شخص ہر وقت آپ کی مخالفت پر ہی کمر بستہ ہے اور آپ ہیں کہ ہمیشہ اس کی بھلائی کے لیے کوشاں ہیں تو آخر وہ کب تک اپنے منفی طرزعمل پر کاربند رہے گا۔ بالآخر اسے آپ کے اخلاق کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :37 اس ارشاد کی پوری معنویت سمجھنے کے لیے بھی وہ حالات نگاہ میں رہنے چاہییں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ، اور آپ کے واسطے سے آپ کے پیروؤں کو ، یہ ہدایت دی گئی تھی ۔ صورت حال یہ تھی کہ دعوت حق کا مقابلہ انتہائی ہٹ دھرمی اور سخت جارحانہ مخالفت سے کیا جا رہا تھا ، جس میں اخلاق انسانیت اور شرافت کی ساری حدیں توڑ ڈالی گئی تھیں ۔ ہر جھوٹ حضور اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف بولا جا رہا تھا ۔ ہر طرح کے ہتھکنڈے آپ کو بدنام کرنے اور آپ کی طرف سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے ۔ طرح طرح کے الزامات آپ پر چسپاں کیے جا رہے تھے اور مخالفانہ پروپیگنڈا کرنے والوں کی ایک فوج کی فوج آپ کے خلاف دلوں میں وسوسے ڈالتی پھر رہی تھی ۔ ہر قسم کی اذیتیں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں جن سے تنگ آ کر مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہو گئی تھی ۔ پھر آپ کی تبلیغ کو روک دینے کے لیے پروگرام یہ بنایا گیا تھا کہ ہلڑ مچانے والوں کا ایک گروہ ہر وقت آپ کی تاک میں لگا رہے اور جب آپ دعوت حق کے لیے زبان کھولیں ، اتنا شور برپا کر دیا جائے کہ کوئی آپ کی بات نہ سن سکے ۔ یہ ایسے ہمت شکن حالات تھے جن میں بظاہر دعوت کے تمام راستے مسدود نظر آتے تھے ۔ اس وقت مخالفتوں کے توڑنے کا یہ نسخہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ۔ یعنی بظاہر تمہارے مخالفین بدی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھا لائے ہوں جس کے مقابلے میں نیکی بالکل عاجز اور بے بس محسوس ہوتی ہو ، لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر وہ کمزوری رکھتی ہے جو آخر کار اس کا بَھٹّہ بٹھا دیتی ہے ۔ کیونکہ انسان جب تک انسان ہے اس کی فطرت بدی سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ بدی کے ساتھی ہی نہیں ، خود اس کے علمبردار تک اپنے دلوں میں یہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں ، ظالم ہیں ، اور اپنی اغراض کے لیے ہٹ دھرمی کر رہے ہیں ۔ یہ چیز دوسروں کے دلوں میں ان کا وقار پیدا کرنا تو درکنار انہیں خود اپنی نظروں سے گرا دیتی ہے اور ان کے اپنے دلوں میں ایک چور بیٹھ جاتا ہے جو ہر مخالفانہ اقدام کے وقت ان کے عزم و ہمت پر اندر سے چھاپا مارتا رہتا ہے ۔ اس بدی کے مقابلے میں اگر وہی نیکی جو بالکل عاجز و بے بس نظر آتی ہے ، مسلسل کام کرتی چلی جائے ، تو آخر کار وہ غالب آ کر رہتی ہے ۔ کیونکہ اول تو نیکی میں بجائے خود دلوں کو مسخر کرتی ہے ، اور آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہوا ہو ، اپنے دل میں اس کی قدر محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ پھر جب نیکی اور بدی آمنے سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پوری طرح نمایاں ہو جائیں ، ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرویدہ نہ ہو جائیں ۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ نیکی سے نہیں بلکہ اس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجے کی ہو یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کر دو تو یہ محض نیکی ہے ۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو ۔ اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بد ترین دشمن بھی آخر کار جگری دوست بن جائے گا ۔ اس لیے کہ یہی انسانی فطرت ہے ۔ گالی کے جواب میں آپ خاموش رہ جائیں تو بے شک یہ ایک نیکی ہو گی ، مگر گالی دینے والے کی زبان بند نہ کر سکے گی ۔ لیکن اگر آپ گالی کے جواب میں دعائے خیر کریں تو بڑے سے بڑا بے حیا مخالف بھی شرمندہ ہو کر رہ جائے گا اور پھر مشکل ہی سے کبھی اس کی زبان آپ کے خلاف بد کلامی کے لیے کھل سکے گی ۔ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا ہو اور آپ اس کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شرارتوں پر اور زیادہ دلیر ہو جائے ۔ لیکن اگر کسی موقع پر اسے نقصان پہنچ رہا ہو اور آپ اسے بچا لیں تو وہ آپ کے قدموں میں آ رہے گا ، کیونکہ کوئی شرارت مشکل ہی سے اس نیکی کے مقابلے میں کھڑی رہ سکتی ہے ۔ تاہم اس قاعدہ کلیہ کو اس معنی میں لینا درست نہیں ہے کہ اس اعلیٰ درجے کی نیکی سے لازماً ہر دشمن جگری دوست ہی بن جائے گا ۔ دنیا میں ایسے خبیث النفس لوگ بھی ہوتے ہیں کہ آپ ان کی زیادتیوں سے در گزر کرنے اور ان کی برائی کا جواب احسان اور بھلائی سے دینے میں خواہ کتنا ہی کمال کر دکھائیں ، ان کے نیش عقرب کا زہریلا پن ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوتا ۔ لیکن اس طرح کے شر مجسم انسان قریب قریب اتنے ہی کم پائے جاتے ہیں جتنے خیر مجسم انسان کمیاب ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14:۔ یعن جو شخص تمہارے ساتھ برا سلوک کر رہا ہو، اگرچہ تمہارے لیے یہ بھی جائز ہے کہ اس سے برابر کا بدلہ لے لو، لیکن بہتر یہ ہے کہ اس کی برائی کا بدلہ اچھائی سے دو۔ ایسا کرو گے تو تمہارا دشمن بھی دوست بن جائے گا، اور تم نے اس کی برائی پر جو صبر کیا اس کا بہترین ثواب آخرت میں تمہیں ملے گا۔