Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان ۔ فرماتا ہے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہوگی؟ یہ ہے جس نے اپنے تئیں نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا ۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے ۔ یہ آیت عام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے قیامت کے دن موذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے ۔ سنن میں ہے امام ضامن ہے اور موذن امانتدار ہے اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت سعد بن وقاص فرماتے ہیں ۔ اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے ۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں اگر میں موذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی ۔ حضرت عمر سے منقول ہے ۔ اگر میں موذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی ۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا ۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی ۔ اس پر میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں لیکن اے عمر ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ موذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا ۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں موذن ہیں ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا حی علی الصلوۃ کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے ۔ ابن عمر اور عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت موذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے ۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی صحیح بات یہ ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے موذن غیر موذن ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے ۔ یہ یاد رہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تو سرے سے اذان شروع ہی نہ تھی ۔ اس لئے کہ آیت مکے میں اترتی ہے اور اذان مدینے پہنچ جانے کے بعد مقرر ہوئی ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ نے اپنے خواب میں اذان دیتے دیکھا اور سنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا حضرت بلال کو سکھاؤ ۔ وہ بلند آواز والے ہیں ۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آیت عام ہے اس میں موذن بھی شامل ہیں ۔ حضرت حسن بصری اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں یہی لوگ حبیب اللہ ہیں ۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں ، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بیحد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر ۔ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا ، اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے درگذر کرلیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں ، انسانی شر سے بچنے کا طریقہ ۔ اب شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ کی طرف جھک جایا کرو اسی نے اسے یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ دل میں وساوس پیدا کرے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رکھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے ، اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ ۔ پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورہ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے ( خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ١٩٩؁ ) 7- الاعراف:199 ) اور سورہ مومنین کی آیت ( اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ 96؀ ) 23- المؤمنون:96 ) ، میں حکم ہوا ہے کہ درگذر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو وغیرہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے ساتھ خود بھی ہدایت یافتہ، دین کا پابند اور اللہ کا مطیع ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤١] اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو تبلیغ :۔ پچھلی آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہوا جو اللہ پر ایمان لانے کے بعد ساری زندگی اپنے اس قول وقرار پر پہرہ بھی دیتے ہیں۔ اس آیت میں ان سے بھی اگلے درجہ کے ایمانداروں کا ذکر ہے۔ یعنی وہ لوگ جو صرف خود ہی احکام الٰہی کی بجاآوری پر جمے نہیں رہتے بلکہ دوسروں کو اسی بات کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ سب سے پہلے خود عمل پیرا ہو کر اللہ کی فرمانبرداری کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دوسروں کو بلاتے ہیں۔ ان لوگوں کا پہلے خود عمل پیرا ہونا پھر اس کے بعد اللہ کے دین کی طرف بلانا انتہائی بہترین عمل ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) من احسن قولاً منن دعا الی اللہ …: پچھلی آیات میں ایمان لا کر اس پر استقامت اختیار کرنے والوں کو فرشتوں کے نزول ، دنیا و آخرت میں ان کی دوستی، جنت میں داخلے اور غفور و رحیم کی مہمانی کی بشارت دے کر ان کے قلبی سکون و اطمینان اور دلی راحت کا سامان فرمایا، اب ایک ایسے کام کا ذکر فرمایا جو ” ربنا اللہ “ کہنے کا فطری تقاضا ہے کہ وہ اس نعمت کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ ان کی کوشش اسے دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچانے کی ہوتی ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو نعمت انھیں عطا ہوئی ہے وہ ہر شخص کو عطا ہوجائے۔ یہ کام سر انجام دیتے ہوئے جب وہ تین باتوں کا اہتمام کریں تو بات میں ان سے بہتر اور درجے میں ان سے بلند کوئی نہیں ہوسکتا ۔ پہلی بات ”’ عآ الی اللہ “ یعنی وہ صرف اللہ کی طرف بلائیں۔ نہ اپنی ذات کی طرف، نہ کسی شخصیت کی طرف اور نہ کسی قبیلے، جماعت، نسل یا وطن کی طرف، بلکہ ان کی دعوت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہو کہ سب اسی کے بندے اور فرمان بردار بن جاؤ، جیسا کہ فرمایا :(قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اثبعنی، وسبحن اللہ وما انا من المشرکین) (یوسف :108)” کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنہوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں۔ “ یہ پیغمبروں کا اور ان کے جانشینوں کا کام ہے اور اتنا عظیم کام ہے کہ ان کی دعوت سے جو لوگ راہ ہدایت اختیار کریں گے ان کا اجر ان کے علاوہ انھیں بھی ملے گا۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(من دعا الی ھدی کان لہ من الاخر مثل اجور من تبعہ، لا بعض ذلک من اجورھم شیئاً ومن دعا الی ضلالہ، کان علیہ من الاثم مثل انام من تبعہ لا ینفص ذلک من آثامھم شیئاً ) (مسلم، العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ اوسیئۃ…:2683)” جو شخص ہدایت کی کسی بات کی طرف دعوت دے اس کے لئے ان لوگوں کے اجروں جیسا اجر ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے اجروں میں کوئی کمی نہیں کرے گا اور جو شخص گمراہی کی کسی بات کی طرف دعوت دے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جیسا گناہ ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔ “- یہی وجہ ہے کہ پوری امت مل کر بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجے کو نہیں پاسکتی، نہ ہی صحابہ کرام (رض) کے بعد آنے والے ان کے درجے تک پہنچ سکتے ہیں، یہی حال بعد میں دعوت الی اللہ دینے والوں کا ہے۔ پھر بات میں ان سے بہتر کون ہوسکتا ہے جسے ان اعمال کا اجر بھی مل رہا ہو جو اس نے نہیں کئے۔ کوئی شخص خود کتنا بھی عمل کرلے یہ مقام کیسے حاصل کرسکتا ہے ؟- (٢) اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت زبان کے ساتھ بھی ہے اور ہاتھ کے ساتھ بھی۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کے ساتھ تلوار دے کر بھیجا گیا، آپ کے اصحاب نے آپ کا ساتھ دیا، پھر زبانی دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ اسلام مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔ یہی مناسبت ہے : (ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الذین کلہ، وکفی باللہ شھیداً (الفتح :28) کے بعد :(محمد رسول اللہ ، والذین معہ اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم …) (الفتح :29) میں۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (١٠٤، ١١٠) ۔- (٣) قول میں سب سے بہتر ہونے کے لئے دوسری ضروری بات ” وعمل صالحاً “ ہے یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ وہ خود بھی عمل صالح کریں۔ صالح عمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ خلاص اللہ کے لئے ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ (دیکھیے سورة کہف کی آخری آیت) جو شخص دوسروں کو دعوت دے مگر خود اس کے خلاف عمل کرے اس کے لئے شدید وعید آئی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٤٤)- (٤) تیسری بات ” وقال اننی من المسلمین “ یعنی وہ ڈنکے کی چوٹ یہودی، نصرانی، ہندو، سکھ، کمیونسٹ، ڈیموکیرٹ اور لبرل وغیرہ ہونے کے بجائے اپنے مسلم ہونے کا اعلان کرے، اس پر فخر کرے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرے۔” من المسلمین “ یعنی مسلمانوں کی جماعت کافرد ہونے پر اسے خوشی ہوا ور کسی دین، مذہب، ملت یا معاشرے کو اسلام اور مسلمانوں سے بہتر نہ سمجھے۔ آج کل کے بعض ملحدوں کی طرح نہیں جو مسلمانوں میں پیدا ہوگئے، مگر وہ کفار سے اس قدر مرعوب ہیں کہ بعض اوقات یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ہم بدقسمتی سے مسلماناوں میں پیدا ہوگئے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔- نہ بہ نظم شاعر خوش غزل، نہ بہ نثر ناشر بےبدل بہ غلامی شہ عزوجل و بعاشقی نبی خوشم - ” نہ کسی خوب صورت غزل والے شاعر کی نظم پر اور نہ کسی بےمثال نثر لکھنے والے کی نثر پر، بلکہ میں کائنات کے بادشاہ عزو جل کی غلامی پر اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت پر خوش ہوں۔ “- عباس بن عبدالمطلب (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا :(ذاق طعم الایمان من ضری باللہ ربا و بالا اسلام دینا و بمحمد رسولاً ) (مسلم، الایمان، باب الدلیل علی ان من رضی باللہ ربا …:38) ترمذی :2623)” اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا ۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ ۔ یہ مومنین کاملین کا دوسرا حصہ احوال ہے کہ وہ صرف خود ہی اپنے ایمان و عمل پر قناعت نہیں کرتے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیتے ہیں۔ اور فرمایا کہ اس سے اچھا کس کا قول ہوسکتا ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے۔ معلوم ہوا کہ انسان کے کلام میں سب سے افضل و احسن وہ کلام ہے جس میں دوسروں کو دعوت حق دی گئی ہو، اس میں دعوت الی اللہ کی سب صورتیں داخل ہیں۔ زبان سے تحریر سے یا کسی عنوان سے، اذان دینے والا بھی اس میں داخل ہے، کیونکہ وہ دوسروں کو نماز کی طرف بلاتا ہے۔ اسی لئے حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ یہ آیت موذنوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور اس دعا الیٰ اللہ کے بعد عمل صالحاً آیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان دو رکعت نماز پڑھ لے۔- ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اذان و اقامت کے درمیان جو دعا کی جاتی ہے وہ رد نہیں ہوتی۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی عن انس۔ مظہری)- اذان اور جواب اذان کے فضائل و برکات احادیث صحیحہ میں بہت بڑے ہیں۔ بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے اذان دے، اجرت و معاوضہ پیش نظر نہ ہو۔ احادیث میں اس جگہ تفسیر مظہری میں جمع کردی ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝ ٣٣- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - س صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

دعوت الی اللہ فرض ہے - قول باری ہے (ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا۔ اور اس سے بہتر بات کس کی ہے جو دوسروں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیک عمل کرے) اس میں یہ بیان ہے کہ یہی بات سب سے بہتر ہے۔ اس کے ذریعے اس امر پر دلالت ہورہی ہے کہ اللہ کی طرف بلانے کی فرضیت لازم ہے ۔ کیونکہ نفل کا فرض سے بہتر ہونا کسی طرح درست نہیں ہے۔ اگر اللہ کی طرف بلانا فرض نہ ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین قرار دیا ہے تو یہ اس امر کا مقتضی ہوتا کہ نفل کو فرض سے بہتر قرار دیا جائے حالانکہ یہ امر ممتنع ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اس سے زیادہ محکم یا یہ کہ بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو لوگوں کو توحید کی طرف بلائے یعنی رسول اکرم کی ذات اقدس اور فرائض کو ادا کرے نیز کہا گیا ہے کہ یہ آیت موذنوں کے بارے میں نازل ہوئی یعنی جو اذان کے ذریعہ سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے اس سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے اور خود بھی مغرب کی اذان کے علاوہ اور اذانوں کے بعد دو رکعتیں پڑھے اور اسلام کا اقرار کرے اور کہے کہ میں بیشک مومن ہوں ان اوصاف کے مالک رسول اکرم کی ذات بابرکت اور آپ کے اصحاب ہیں۔- اور رسول اکرم کا توحید کی طرف دعوت دینا اور ابو جہل کا شرک کی طرف بلانا یہ دونوں باتیں برابر نہیں ہوسکتیں یا یہ کلمہ لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ ” اور اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف “- جس خوش قسمت شخص کو ایمان کے بعد ” استقامت “ کا مقام حاصل ہوچکا ہو ‘ اسے بھلا اب کس بات کی دھن ہوگی ؟ کیا وہ اب بھی مال و دولت ِدنیا کے پیچھے دوڑے گا ؟ یا کیا حکومت اور اقتدار کے حصول کی خواہش اب بھی اس کے دامن دل کو اپنی طرف کھینچے گی ؟ نہیں ہرگز نہیں اس ” متاعِ غرور “ کو تو وہ ٹھکرا کر بہت آگے نکل آیا ہے۔ مسند ِاستقامت پر رونق افروز ہونے کے بعد دنیا ومافیہا کے بارے میں اس کی ترجیحات بہت واضح ہوچکی ہیں۔ اب تو وہ خوب سمجھتا ہے کہ یہ سب آنی جانی چیزیں ہیں ‘ آج ہیں تو کل نہیں ہیں۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا اور اس کے لوازمات کی بہتات سے مسئولیت بڑھتی ہے اور حساب آخرت مشکل ہوجاتا ہے۔ چناچہ اب اس کے دل میں ایک ہی تڑپ ہے اور وہ ہے دعوت الی اللہ کی تڑپ۔ اب اس کی دوڑ دھوپ اور جدوجہد کا اگر کوئی ہدف ہے تو بس یہی کہ میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو راہ ہدایت پر لے آئوں۔- وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ” اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ “- اعمالِ صالحہ کا مفہوم ” استقامت “ کے اندر بھی پوشیدہ ہے ‘ لیکن یہاں پر اس کا علیحدہ ذکر بھی آگیا ہے ‘ اس لیے کہ دعوت الی اللہ اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ایک داعی کا اپنا عمل درست نہیں ہوگا تو نہ صرف یہ کہ اس کی دعوت موثر نہیں رہے گی بلکہ وہ دعوت کی بدنامی کا باعث بھی بنے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :36 اہل ایمان کو تسکین دینے اور ان کی ہمت بندھانے کے بعد اب ان کو ان کے اصل کام کی طرف رغبت دلائی جا رہی ہے ۔ گزشتہ آیت میں ان کو بتایا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی پر ثابت قدم ہو جانا اور اس راستے کو اختیار کر لینے کے بعد پھر اس سے منحرف نہ ہونا بجائے خود وہ بنیادی نیکی ہے جو آدمی کو فرشتوں کا دوست اور جنت کا مستحق بناتی ہے ۔ اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آگے کا درجہ ، جس سے زیادہ بلند کوئی درجہ انسان کے لیے نہیں ہے ، یہ ہے کہ تم خوب نیک عمل کرو ، اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلاؤ ، اور شدید مخالفت کے ماحول میں بھی ، جہاں اسلام کا اعلان و اظہار کرنا اپنے اوپر مصیبتوں کو دعوت دینا ہے ، ڈٹ کر کہو کہ میں مسلمان ہوں ۔ اس ارشاد کی پوری اہمیت سمجھنے کے لیے اس ماحول کا نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی تھی ۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ جو شخص بھی مسلمان ہونے کا اظہار کرتا تھا اسے یکایک یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا اس نے درندوں کے جنگل میں قدم رکھ دیا ہے جہاں ہر ایک اسے پھاڑ کھانے کو دوڑ رہا ہے ۔ اور اس سے آگے بڑھ کر جس نے اسلام کی تبلیغ کے لیے زبان کھولی اس نے تو گویا درندوں کو پکار دیا کہ آؤ اور مجھے بھنبھوڑ ڈالو ۔ ان حالات میں فرمایا گیا ہے کہ کسی شخص کا اللہ کو اپنا رب مان کر سیدھی راہ اختیار کرلینا اور اس سے نہ ہٹنا بلا شبہ اپنی جگہ بڑی اور بنیادی نیکی ہے ، لیکن کمال درجے کی نیکی یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں ، اور نتائج سے بے پرواہ ہو کر اللہ کی بندگی کی طرف خلق خدا کو دعوت دے ، اور اس کام کو کرتے ہوئے اپنا عمل اتنا پاکیزہ رکھے کہ کسی کو اسلام اور اس کے علمبرداروں پر حرف رکھنے کی گنجائش نہ ملے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani