Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یعنی وہ ہر طرح سے محفوظ ہے، آگے سے، کا مطلب ہے کمی اور پیچھے سے، کا مطلب ہے زیادتی یعنی باطل اس کے آگے سے آ کر اس میں کمی اور نہ اس کے پیچھے سے آ کر اضافہ کرسکتا ہے اور نہ کوئی تغیر و تحریف ہی کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کی طرف سے نازل کردہ ہے جو اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے اور حمید یعنی محمود ہے یا وہ جن باتوں کا حکم دیتا ہے اور جن سے منع فرماتا ہے عواقب اور غایات کے اعتبار سے سب محمود ہیں یعنی اچھے اور مفید ہیں (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] قرآن میں باطل کی عدم مداخلت کے مختلف پہلو :۔ یہ آیت کتاب اللہ کے زبردست ہونے کی وجہ یہ بتارہی ہے کہ اس میں نہ آگے سے، نہ پیچھے سے، نہ اوپر سے، نہ نیچے سے غرض کسی طرف سے بھی باطل داخل نہیں ہوسکتا اور اس جملہ کے بھی کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا کلام ہے جسے اللہ نے جبرئیل کے ذریعہ رسول اللہ کے دل پر نازل کیا۔ جبرئیل فرشتہ ایسا ہے جو امین بھی ہے اور قوی بھی۔ یعنی نہ تو وہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں خود کوئی کمی بیشی کرتا ہے اور نہ کوئی جن یا شیطان یا کوئی دوسری طاقت اس سے کسی کلام کا کچھ حصہ چھین سکتی یا اس میں آمیزش کرسکتی ہے۔ پھر جب جبرئیل نے آپ کے دل پر اتار دیا اور آپ کی صداقت و دیانت پر آپ کے دشمن بھی شاہد تھے اور آپ نے وہ کلام جوں کا توں امت تک پہنچا دیا تو اب بتاؤ کہ اس کلام میں باطل کی آمیزش کے لیے کہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے ؟ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب سے قرآن نازل ہوا ہے۔ اسی وقت سے مسلمانوں کے سینوں کے اندر محفوظ ہو کر نسلاً بعد نسل تواتر کے ساتھ منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اور ہر زمانہ میں لاکھوں کی تعداد میں اس کے حافظ موجود رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں اور یہ شرف کسی دوسری کتاب کو حاصل نہیں۔ دوسری طرف اس کے نزول کے ساتھ ہی اس کی کتابت شروع ہوگئی تھی اس دور سے لے کر آج تک مسلسل اور متواتر اس کی اشاعت ہو رہی ہے اور کروڑوں اور اربوں تک اس کے نسخے لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ شرف بھی اسی کتاب کو حاصل ہے کہ یہ دنیا بھر کی سب سے زیادہ کثیر الاشاعت کتاب ہے۔ اب ایک طرف یہ کتاب سامنے رکھئے دوسری طرف ایک چھوٹے سے حافظ بچے کو سنانے کے لیے کہہ دیجئے۔ آپ پر اس قرآن کا اعجاز ثابت ہوجائے گا۔ قرآن کے شائقین نے اس کی آیات، اس کے الفاظ، اس کے حروف، اس کے نقاط اور اس کے اعراب (زیر، زبر، پیش) غرضیکہ ایک ایک چیز کو گن کر ریکارڈ کر رکھا ہے۔ اب بتائیے کہ اس کتاب میں کسی ایک لفظ بلکہ حرف کی بھی کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ ؟ اور باطل اس میں کسی طرح راہ پاسکتا ہے ؟ اور اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے جو حقائق بیان کئے ہیں، کوئی علم ایسا وجود میں نہیں آسکتا جو فی الواقع علم ہو اور قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید کرتا ہو، کوئی تجربہ کوئی مشاہدہ ایسا نہیں ہوسکتا جو یہ ثابت کرے کہ قرآن نے عقائد، اخلاق، قانون، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست کے باب میں انسان کی جو رہنمائی دی ہے وہ غلط ہے۔ باطل خواہ سامنے سے آکر حملہ آور ہو یا ادھر ادھر کے راستوں سے ہو کر چھاپے مارے وہ کسی طرح بھی اس حقیقت کو شکست نہیں دے سکتا جو قرآن نے پیش کی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق انسان کا علم خواہ کتنا ہی ترقی کر جائے وہ محدود ہی ہوگا اور اس کے بعد بھی اس چیز کے متعلق مزید انکشافات ہوتے رہیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم لامحدود ہے۔ علاوہ ازیں وہ ہر چیز کا خالق ہے اور خالق اپنی بنائی ہوئی چیز کے متعلق جتنی معلومات رکھتا ہے دوسرا کوئی نہیں جان سکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ : اس کے پاس نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ باطل آکر اس پر غلبہ نہیں پاسکتا، یعنی باطل کی مجال نہیں کہ کسی پہلو سے آکر اس پر غلبہ پا سکے، نہ کھلم کھلا سامنے آکر اور نہ چوری چھپے پیچھے سے۔ یہ مطلب بھی ہے کہ پہلے کی کوئی کتاب یا تحقیق اس قرآن کی کسی بات کو غلط یا باطل ثابت نہیں کرسکتی اور نہ ہی بعد کی کوئی کتاب یا تحقیق اس کی کسی بات کو غلط ثابت کرسکے گی، اور یہ مطلب بھی ہے کہ اس میں باطل کی آمیزش نہ کوئی کھلم کھلا کرسکتا ہے نہ چوری چھپے، جیسا پہلی کتابوں کے ساتھ ہوا، بلکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے، فرمایا :(انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحفظون) (الحجر : ٩)” بیشک ہم نے یہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بیشک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔ “- (٢) تنزیل من حکیم حمید : قرآن مجید کی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی، اس میں کسی باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی اور نہ ہی دلیل میں باطل کسی طرح اس پر غالب آسکتا ہے، کیونکہ یہ حکیم وحمید کی طرف سے تنزیل ہے۔ ” تنزیل “ کے مفہوم کے لئے دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آیت (١٠٦) یعنی وہ کتاب اس نے تھوڑی تھوڑی کر کے نازل فرمائی ہے جو کمال حکمت والا ہے، ہر تعریف کا مستحق اور ہر خوبی کا مالک ہے۔” حکیم “ وہ جس کی کسی تدبیر میں خطا نہ ہو اور ” حمی “ وہ جس کے کسی فعل کی مذمت نہ ہو سکے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ ۔ آگے اس کتاب کے لئے منجانب اللہ حفاظت کا بیان ہے۔ قتاوہ اور سدی نے فرمایا کہ باطل سے مراد شیطان ہے اور مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ یعنی نہ سامنے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے، اس سے مراد تمام جوانب ہیں۔ مطلب یہ کہ شیطان کا کوئی تصرف و تدبیر اس کتاب میں نہیں چلتی کہ وہ اس کتاب میں کمی و بیشی یا کوئی تحریف کرسکے۔- تفسیر مظہری میں اس کو نقل کر کے فرمایا کہ شیطان اس جگہ عام ہے شیطان الجن ہو یا آدمی شیطان کسی کی تحریف و تبدیل قرآن میں نہیں چلتی جیسے بعض روافض نے قرآن میں دس پاروں کا، بعض نے خاص خاص آیات کا اضافہ کرنا چاہا مگر کسی کی بات نہ چلی۔- ابوحیان نے بحر محیط میں فرمایا کہ لفظ باطل اپنے الفاظ کے اعتبار سے شیطان کے ساتھ مخصوص نہیں۔ ہر باطل و مبطل شیطان کی طرف سے ہو یا کسی دوسرے کی طرف سے، قرآن میں وہ نہیں چل سکتا۔ پھر بحوالہ طبری آیت کا یہ مفہوم بتلایا کہ کسی اہل باطل کی مجال نہیں کہ سامنے آ کر اس کتاب میں کوئی تغیر و تبدل کرے اور نہ اس کی مجال ہے کہ پیچھے سے چھپ کر اس کے معانی میں تحریف اور الحاد کرے۔- طبری کی تفسیر اس مقام سے بہت زیادہ مناسب ہے۔ کیونکہ قرآن میں الحادو تحریف کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ کوئی اہل باطل کھلے طور پر قرآن میں کوئی کمی وبیشی کرنا چاہے اس کو تو من بین یدیہ سے تعبیر فرمایا۔ دوسرے یہ کہ کوئی شخص بظاہر دعویٰ ایمان کا کرے، مگر چھپ کر تاویلات باطلہ کے ذریعہ قرآن کے معنی میں تحریف کرے، اس کو من خلفہ کے لفظ سے تعبیر فرمایا۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب اللہ کے نزدیک ایسی عزیز و کریم ہے کہ نہ اس کے الفاظ میں کوئی کمی و بیشی اور تحریف و تبدیل پر کسی کو قدرت ہے اور نہ معانی میں تحریف کر کے قرآن کے احکام بدل دینے کی مجال ہے۔ جب کبھی کسی بدبخت نے اس کا ارادہ کیا وہ ہمیشہ رسوا ہوا۔ قرآن اس کی ناپاک تدبیر سے پاک صاف رہا۔ الفاظ میں تحریف و تبدیل کی راہ نہ ہونا تو ہر شخص دیکھتا سمجھتا ہے کہ تقریباً چودہ سو سال سے ساری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔ لاکھوں انسانوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔ ایک زیر زبر کی غلطی کسی سے ہوجائے تو بوڑھوں سے لے کر بچوں تک، عالموں سے لے کر جاہلوں تک لاکھوں مسلمان اس کی غلطی پکڑنے والے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ من خلفہ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ کردیا کہ قرآن کی حفاظت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے انا لہ لحفظون وہ صرف الفاظ کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ اس کے معانی کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ ہی کفیل ہے۔ اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے بلاواسطہ شاگردوں یعنی صحابہ کرام کے ذریعہ معانی قرآن اور احکام قرآن کو بھی ایسا محفوظ کردیا ہے کہ کوئی ملحد بےدین اس میں تاویلات باطلہ کے ذریعہ تحریف کا ارادہ کرے تو ہر جگہ ہر زمانے میں ہزاروں علماء اس کی تردید کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ خائب و خاسر ہوتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ آیت انا لہ لحافظون میں ضمیر لہ قرآن کی طرف راجع ہے اور قرآن صرف الفاظ کا نام نہیں بلکہ نظم ومعنی دونوں کے مجموعہ کا نام ہے۔- خلاصہ آیات مذکورہ کے مضمون کا یہ ہوگیا کہ جو لوگ بظاہر مسلمان ہیں، اس لئے کھل کر قرآن کا انکار تو نہیں کرتے مگر آیات قرآنی میں تاویلات باطلہ سے کام لے کر ان کو ایسے مطلب پر محمول کرتے ہیں جو قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قطعی تصریحات کے خلاف ہے۔ ان کی تحریف سے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو ایسا محفوظ کردیا ہے کہ یہ گھڑے ہوئے معانی کسی کے چل نہیں سکتے۔ قرآن و حدیث کی دوسری نصوص اور علماء امت اس کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ اور احادیث صحیحہ کی تصریح کے مطابق قیامت تک مسلمانوں میں ایسی جماعت قائم رہے گی جو تحریف کرنے والوں کی تحریف کا پردہ چاک کر کے قرآن کے صحیح مفہوم کو واضح کردے۔ اور دنیا سے وہ اپنے کفر کو کیسا ہی چھپائیں اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپا سکتے۔ اور جب اللہ تعالیٰ ان کی اس سازش سے باخبر ہے تو ان کو اس کی سزا ملنا بھی ضروری ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَّا يَاْتِيْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝ ٠ ۭ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ۝ ٤٢- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي :- موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي :- قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة .- ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا،- بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں - خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - حمید - إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد،- ( ح م د ) حمید - اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ ” باطل اس پر حملہ آور ہو ہی نہیں سکتا ‘ نہ اس کے سامنے سے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔ “- اس دورئہ ترجمہ قرآن کے دوران بار بار میں مثالیں دیتا رہا ہوں کہ قرآن کس طرح اپنی حفاظت کرتا ہے اور کس طرح ان لوگوں کے عزائم کو ناکام بناتا ہے جو اس کی آیات کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں یا کسی آیت کی تعبیر اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔- تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ” اس کا اتارا جانا ہے ایک حکیم اور حمید ہستی کی طرف سے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :52 سامنے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پر براہ راست حملہ کر کے اگر کوئی شخص اس کی کسی بات کو غلط اور کسی تعلیم کو باطل و فاسد ثابت کرنا چاہے تو اس میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ پیچھے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کوئی حقیقت و صداقت ایسی منکشف نہیں ہو سکتی جو قرآن کے پیش کردہ حقائق کے خلاف ہو ، کوئی علم ایسا نہیں آ سکتا جو فی الواقع علم ہو اور قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید کرتا ہو ، کوئی تجربہ اور مشاہدہ ایسا نہیں ہو سکتا جو یہ ثابت کر دے کہ قرآن نے عقائد ، اخلاق ، قانون ، تہذیب و تمدن ، معیشت و معاشرت اور سیاست و تمدن کے باب میں انسان کو جو رہنمائی دی ہے وہ غلط ہے ۔ اس کتاب نے جس چیز کو حق کہہ دیا ہے وہ کبھی باطل ثابت نہیں ہو سکتی اور جسے باطل کہہ دیا ہے وہ کبھی حق ثابت نہیں ہو سکتی ۔ مزید برآں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ باطل خواہ سامنے سے آ کر حملہ آور ہو یا ہیر پھیر کے راستوں سے چھاپے مارے ، بہرحال کسی طرح بھی وہ اس دعوت کو شکست نہیں دے سکتا جسے لے کر قرآن آیا ہے ۔ تمام مخالفتوں اور مخالفین کی ساری خفیہ اور علانیہ چالوں کے علی الرغم یہ دعوت پھیل کر رہے گی اور کوئی اسے زک نہیں دے سکے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani