Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انسان کی سرکشی کا حال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ مال صحت وغیرہ بھلائیوں کی دعاؤں سے تو انسان تھکتا ہی نہیں اور اگر اس پر کوئی بلا آپڑے یا فقر و فاقہ کا موقعہ آجائے تو اس قدر ہراساں اور مایوس ہو جاتا ہے کہ گویا اب کسی بھلائی کا منہ نہیں دیکھے گا ، اور اگر کسی برائی یا سختی کے بعد اسے کوئی بھلائی اور راحت مل جائے تو کہنے بیٹھ جاتا ہے کہ اللہ پر یہ تو میرا حق تھا ، میں اسی کے لائق تھا ، اب اس نعمت پر پھولتا ہے ، اللہ کو بھول جاتا ہے اور صاف منکر بن جاتا ہے ۔ قیامت کے آنے کا صاف انکار کر جاتا ہے ۔ مال و دولت راحت آرام اس کے کفر کا سبب بن جاتا ہے ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے ( كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى Č۝ۙ ) 96- العلق:6 ) یعنی انسان نے جہاں آسائش و آرام پایا وہیں اس نے سر اٹھایا اور سرکشی کی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اتنا ہی نہیں بلکہ اس بد اعمالی پر بھلی امیدیں بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بالفرض اگر قیامت آئی بھی اور میں وہاں اکٹھا بھی کیا گیا تو جس طرح یہاں سکھ چین میں ہوں وہاں بھی ہوں گا ۔ غرض انکار قیامت بھی کرتا ہے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو مانتا بھی نہیں اور پھر امیدیں لمبی باندھتا ہے اور کہتا ہے کہ جیسے میں یہاں ہوں ویسے ہی وہاں بھی رہوں گا ۔ پھر ان لوگوں کو ڈراتا ہے کہ جن کے یہ اعمال و عقائد ہوں انہیں ہم سخت سزا دیں گے پھر فرماتا ہے کہ جب انسان اللہ کی نعمتیں پا لیتا ہے تو اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے اور ماننے سے جی چراتا ہے جیسے فرمایا آیت ( فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 39؀ ) 51- الذاريات:39 ) اور جب اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے بیٹھ جاتا ہے عریض کلام اسے کہتے ہیں جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں اور معنی بہت کم ہوں ۔ اور جو کلام اس کے خلاف ہو یعنی الفاظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ ہوں تو اسے وجیز کلام کہتے ہیں ۔ وہ بہت کم اور بہت کافی ہوتا ہے اسی مضمون کو اور جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے آیت ( وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 12 ؀ ) 10- یونس:12 ) ، جب انسان کو مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر لیٹ کر اور بیٹھ کر اور اکٹھے ہو کر غرض ہر وقت ہم سے مناجات کرتا رہتا ہے اور جب وہ تکلیف ہم دور کر دیتے ہیں تو اس بےپرواہی سے چلا جاتا ہے کہ گویا اس مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یعنی دنیا کا مال و اسباب، صحت وقوت، عزت و رفعت اور دیگر دنیاوی نعمتوں کے مانگنے سے انسان نہیں تھکتا، بلکہ مانگتا ہی رہتا ہے۔ انسان سے مراد انسانوں کی غالب اکثریت ہے۔ 49۔ 2 یعنی تکلیف پہنچنے پر فوراً مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے جب کہ اللہ کے مخلص بندوں کا حال اس سے مختلف ہوتا ہے، وہ ایک تو دنیا کے طالب نہیں ہوتے، ان کے سامنے ہر وقت آخرت ہی ہوتی ہے، دوسرے تکلیف پہنچنے پر بھی اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے مایوس نہیں ہوتے، بلکہ آزمائشوں کو بھی کفارہ سیأت اور رفع درجات کا باعث گردانتے ہیں، گویا مایوسی ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٤] انسان کی حرص کی انتہا :۔ یعنی ایک عام اور دنیا دار انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ مال و دولت سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہر طرح کی بھلائیاں میرے ہی لیے ہوں۔ رزق بھی کشادہ اور وافر ملے، خوشحالی اور عیش و عشرت نصیب ہو، تندرستی بھی ہو اور اولاد بھی اچھی ہو۔ غرض بھلائی کی جو قسم ہوسکتی ہے وہ چاہتا ہے کہ سب کچھ اسے مہیا ہو اور اگر یہ سب چیزیں مہیا ہو بھی جائیں تو پھر یہ چاہتا ہے کہ ان میں ہر آن اضافہ بھی ہوتا رہے اور اس کی یہ حرص کبھی ختم ہونے کو نہیں آتی۔ چناچہ سیدنا عبداللہ بن زبیر نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا : اگر آدمی کو ایک وادی بھر سونا مل جائے جب بھی (قناعت نہیں کرنے کا) دوسری وادی چاہے گا اور اگر دوسری مل جائے تو تیسری چاہے گا۔ بات یہ ہے کہ آدمی کا پیٹ مٹی ہی بھرتی ہے (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب ما یتقی من فتنۃ المال)- [٦٥] تکلیف میں مایوس اور شاکی :۔ اور اس کی طبیعت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب اسے کوئی تنگی، فاقہ یا بیماری یا اسی قسم کا کوئی دوسرا دکھ پہنچتا ہے اور اسے اس تکلیف کے دور ہونے کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر ناشکری کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ ان ظاہری اسباب کے علاوہ بیشمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں جو اسے نظر نہیں آسکتے اور اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں۔ اگر وہ اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھ جائے تو یقیناً اس کی یہ حالت نہ ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) لایسم الانسان …: یہاں سے انسانی طبیعت پر کفر و شرک اور قیامت کے انکار کا ایک بہت برا اثر ذکر فرمایا۔” الانسان “ سے مراد عام انسان ہے جو ایمان و یقین کی دولت سے خالی ہو، اس میں طبعی طور پر یہ کمزوری رکھی گئی ہے۔ توحید و رسالت اور آخرت پر ایمان کے بعد اس کی اس کمزوری کا علاج ہوجاتا ہے اور ایمان جس قدر قوی ہوتا ہے اتنا ہی وہ اس کمزوری سے پاک ہوتا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(ان الانسان خلق ھلوعا اذا مسئلہ الشر جزوعا واذا مسہ الخیر موعا الا المصلین الذین ھم علی صلاتھم دآئمون … اولئک فی جنت مکرمون) (المعارج : ١٩ تا ٣٥)” بلاشبہ انسان تھڑدلا بنایا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔ سوائے نماز ادا کرنے والوں کے۔ وہ جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں … یہی لوگ جنتوں میں عزت دیئے جانے والے ہیں۔ “ مزید دیکھیے سورة ہود (٩ تا ١١) کی تفسیر۔- (٢) من دعآء الخیر :” الخیر “ سے مراد دنیوی بھلائی ہے جس میں مال، اولاد ، عزت، صحت اور قوت سبھی کچھ شامل ہے۔ ”’ عآئ “ سے مراد خیر کی طلب ہے، یعنی انسان دنیوی بھلائی کی طلب سے نہ اکتاتا ہے اور نہ تھکتا ہے، خواہ اسے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا، آپ فرما رہے تھے :(لوکان لابن آدم و ادیان من مال لابتغنی ثالثاً ، ولا یملاً جوف ابن آدم الا التراب ، ویتوب اللہ علی من تاب) (بخاری الرفاق، باب مایتقی من فتنۃ المال :6336)” اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ کوئی تیسری تلاش کرے گا اور ابن آدم کے پیٹ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھرتی اور اللہ اس پر پھر مہربان ہوجاتا ہے جو واپس پلٹ آئے۔ “- (٣) وان مسہ الشرفیوس قنوط :” مس یمس “ (س) چھونا۔ ” فیوس “ ” یس یس یاسا “ (س، ح) سے مبالغے کا صیغہ ہے، بہت ناامید۔ ” قنوط “ ” قنط یقنط قنوطاً “ (س، ن) سے مبالغے کا صیغہ ہے، بہت ناامید۔ بعض مفسرین نے فرمایا ” فیوس “ اور ” قنوط “ دونوں کا معنی ایک ہے، تاکید کے لئے ” فیوس “ کے بعد ” قنوط “ لایا گیا ہے اور بعض نے فرمایا، دونوں کے معنی میں فرق ہے۔ ابوحیان نے فرمایا :” یاس “ دل کی حالت ہے کہ آدمی کا دل خیر کی امید سے خالی ہوجائے اور ” قنوط “ یہ ہے کہ نا امیدی کے آثار اس کے چہرے اور بدن پر بھی ظاہر ہوجائیں۔ “ ظاہر ہے یہ فرق اس وقت ہے جب یہ دونوں لفظ اکٹھے آئیں، ورنہ یاس اور قنوط دونوں میں قل بی اور بدنی ہر طرح کی نا امیدی مراد ہوتی ہے، جیسا کہ ایمان و اسلام کا معاملہ ہے۔” مس “ (چھونے) کے لفظ سے معلوم ہوا کہ کافر اتنا بےحوصلہ ہوتا ہے کہ برائی چھو جانے ہی سے آخری حد تک امید توڑ بیٹھتا ہے۔ مومن ایسا نہیں ہوتا، یہ صرف کافر کا حال ہے، جیسا کہ فرمایا :(انہ لا یا یس من روح اللہ الا القوم الکفرون) (یوسف : ٨٨) ” بیشک حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يَسْـَٔمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَاۗءِ الْخَيْرِ۝ ٠ ۡوَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَيَـــــُٔـــوْسٌ قَنُوْطٌ۝ ٤٩- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- سأم - السَّآمَةُ : الملالة ممّا يكثر لبثه، فعلا کان أو انفعالا قال : وَهُمْ لا يَسْأَمُونَ [ فصلت 38] ، وقال : لا يَسْأَمُ الْإِنْسانُ مِنْ دُعاءِ الْخَيْرِ [ فصلت 49] ، وقال الشاعر :- سَئِمْتُ تکالیف الحیاة ومن يعش ... ثمانین حولا لا أبا لك يَسْأَم - ( س ء م ) السامۃ اس کے معنی کسی چیز کے زیادہ عرصہ تک رہنے کی وجہ سے اس کبیدہ خاطر یا دل بر داشتہ ہوجانے کے ہیں اور یہ فعلا ( کسی کام کو زیادہ عرصہ تک کرنے ) اور انفعالا ( کسی چیز سے زیادہ متاثر ہوئے ) دونوں طرح ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُمْ لا يَسْأَمُونَ [ فصلت 38] اور ( کبھی ) تھکتے ہی نہیں نیز فرمایا : ۔ لا يَسْأَمُ الْإِنْسانُ مِنْ دُعاءِ الْخَيْرِ [ فصلت 49] انسان بھالئی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 249 ) سمت تکالیف الحیاۃ ومن یعش ثما نین حولا لا ابالک یسام میں زندگی کی خوشگواریوں سے اکتا چکا ہوں ہاں جو شخص اسی کو پہنچ جائے وہ لا محالۃ اکتاہی جاتا ہے ۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] - ( ش ر ر ) الشر - وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں - يأس - اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] ،- ( ی ء س ) یأس - ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔- قنط - القُنُوطُ : اليأس من الخیر . يقال : قَنَطَ يَقْنِطُ قُنُوطاً ، وقَنِطَ يَقْنَطُ «3» . قال تعالی: فَلا تَكُنْ مِنَ الْقانِطِينَ [ الحجر 55] ، قال : وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [ الحجر 56] ، وقال : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ [ الزمر 53] ، وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُسٌ قَنُوطٌ [ فصلت 49] ، إِذا هُمْ يَقْنَطُونَ [ الروم 36] . - ( ق ن ط ) القنوط - ( مصدر ) کے معنی بھلائی سے مایوس ہونے کے ہیں اور یہ قنط ( ض ) وقنط ( س ) قناطا یعنی ہر دو ابواب سے استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَلا تَكُنْ مِنَ الْقانِطِينَ [ الحجر 55] آپ مایوس نہ ہوجئے ۔ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [ الحجر 56] خدا کی رحمت سے ( میں مایوس کیوں ہونے لگا ۔ اس سے ) مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے ۔ يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ [ الزمر 53] اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُسٌ قَنُوطٌ [ فصلت 49] اور اگر تکلیف پہنچتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے اور کبھی قنط کا لفظ طرٖد کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِذا هُمْ يَقْنَطُونَ [ الروم 36] تو ناامید ہوکر رہ جاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کافر کا مال و اولاد اور صحت کی خواہش سے کبھی دل نہیں بھرتا اور نہ وہ تھکتا ہے اور اگر اس کو کوئی تکلیف یا فاقہ پہنچتا ہے تو رحمت خداوندی سے خوفزہ اور ناامید ہوجاتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ لَا یَسْئَمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآئِ الْخَیْرِ ” انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا “- یہاں بھلائی (خیر) سے مراد دنیوی نعمتوں اور مال و دولت کی فراوانی ہے۔ کسی انسان کے پاس جتنی چاہے دولت ہو اور جس قدر چاہے نعمتیں اسے میسر ہوں ‘ پھر بھی مزید حاصل کرنے کی اس کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی۔- وَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَئُوْسٌ قَنُوْطٌ ” اور اگر کہیں اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو بالکل مایوس و دل شکستہ ہوجاتا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :65 بھلائی سے مراد ہے خوشحالی ، کشادہ رزق ، تندرستی ، بال بچوں کی خیر وغیرہ ۔ اور انسان سے مراد یہاں نوع انسانی کا ہر فرد نہیں ہے ، کیونکہ اس میں تو انبیاء اور صلحاء بھی آ جاتے ہیں جو اس صفت سے مبرا ہیں جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔ بلکہ اس مقام پر وہ چھچورا اور کم ظرف انسان مراد ہے جو برا وقت آنے پر گڑ گڑانے لگتا ہے اور دنیا کا عیش پاتے ہی آپے سے باہر ہو جاتا ہے ۔ چونکہ نوع انسانی کی اکثریت اسی کمزوری میں مبتلا ہے اس لیے اسے انسان کی کمزوری قرار دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani