48۔ 1 یعنی وہ ادھر ادھر ہوگئے اور حسب گمان انہوں نے کسی کو فائدہ نہیں پہنچایا۔ 48۔ 2 یہ گمان، یقین کے معنی میں ہیں یعنی قیامت والے دن وہ یقین کرنے پر مجبور ہوں گے کہ انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا " وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ يَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا "18 ۔ الکہف :53)
[٦٣] یعنی قیامت کی ہولناکیوں سے اس قدر گھبرائے ہوئے اور حواس باختہ ہوں گے کہ انہیں سمجھ ہی نہ آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کے اس سوال کا کیا جواب دیں اور دنیا میں وہ اپنے معبودوں کے متعلق جو تصورات جمائے بیٹھے تھے کہ وہ اللہ سے سفارش کرکے ہمیں بچا لیں گے، سب کچھ بھول جائیں گے کیونکہ انہیں صاف نظر آرہا ہوگا کہ آج کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا، نہ ہی عذاب سے بچنے کی کوئی صورت یا کوئی جگہ نظر آتی ہے۔
(١) وضل عنھم ما کانوا یدعون من قبل : یعنی پریشانی کے عالم میں وہ چ اورں طرف نظر دوڑائیں گے کہ عمر بھر جنہیں پکارتے رہے ، شاید ان میں سے کوئی مدد کو آجائے، انہیں عذاب سے چھڑا لے، یا اس میں کچھ کمی ہی کروا دے، مگر کوئی مددگار نظر نہیں آئے گا۔- (٢) وظنوا ما لہم من محیص :” حاص یحیص حیضاً “ (ض) بھاگنا۔ ” محیص “ مصدر میمی ہے یا ظرف۔ مصدر کا معنی ہوگا بھاگنے کی کوئی صورت اور ظرف کا معنی ہے بھاگنے کی کوئی جگہ۔” ظن “ کا لفظ گمان کے علاوہ یقین کے معنی میں بھی آتا ہے۔ (دیکھیے بقرہ : ٤٦) یہاں بھی ” ظنوا “ یقین کے معنی میں ہے، کیونکہ قیامت کے دن تمام حقیقتیں کھل کر سامنے آجائیں گی اور کسی کو کوئی شک باقین ہیں رہے گا، حتیٰ کہ کفار خود کو یقین ہوجانے کا اقرار کریں گے، فرمایا (ربنا ابصرنا و سمعنا فارجعنا نعمل صالحاً انا موقنون) (السجدۃ : ١٢)” اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور ہم نے سن لیا، پس ہمیں واپس بھیج کہ ہم نیک عمل کریں، بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں۔ “ اور دیکھیے سورة مریم (٣٨) ، سورة ق (٢٢) اور سورة انعام (٣٠) ۔ مطلب یہ ہے کہ کفار کے حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں میں سے کوئی انہیں نہیں آئے گا اور انہیں یقین ہوجائے گا کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھاگ نکلنے کی کوئی جگہ ہے نہ اس کی کوئی صورت۔
وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَدْعُوْنَ مِنْ قَبْلُ وَظَنُّوْا مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِيْصٍ ٤٨- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - حاص - قال تعالی: هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] ، وقوله تعالی: ما لَنا مِنْ مَحِيصٍ [إبراهيم 21] ، أصله من حَيْص بيص أي : شدّة، وحَاصَ عن الحقّ يَحِيصُ ، أي : حاد عنه إلى شدّة ومکروه . وأمّا الحوص فخیاطة الجلد ومنه حصت عين الصّقر .- ( ح ی ص ) حاص - ( ض ) عن الحق کے معنی حق سے بھاگ کر شدت ومکروہ کی طرف جانے کے میں قرآن میں ہے : ۔ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] کہ کہیں بھاگنے کی جگہ ہی : ما لَنا مِنْ مَحِيصٍ [إبراهيم 21] کوئی جگہ گریز اور رہائی ہمارے لئے نہیں ہے ۔ یہ اصل میں حیص وبیص سے ہے جس کے شدت اور سختی کے ہیں مگر الحوص ( وادی ) ہو تو اس کے معنی چمڑا سلنا ہوتے ہیں اور اسی سے حصت عین الصقر کا محاورہ ہے جس کے معنی صقرۃ کی آنکھیں سی دینے کے ہیں ۔
اور جن کی یہ لوگ دنیا میں پوجا کیا کرتے تھے وہ سب غائب ہوجائیں گے اور یہ لوگ سمجھ لیں گے کہ دوزخ کے علاوہ اب ان کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں۔
آیت ٤٨ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَدْعُوْنَ مِنْ قَبْلُ ” اور وہ سب گم ہوجائیں گے ان سے جنہیں وہ پکارا کرتے تھے اس سے پہلے “- اس دن کی سختی کو دیکھ کر گویا ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے ۔- وَظَنُّوْا مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِیْصٍ ” اور وہ یقین کرلیں گے کہ اب ان کے لیے کوئی جائے فرار نہیں۔ “
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :64 یعنی مایوسی کے عالم میں یہ لوگ ہر طرف نظر دوڑائیں گے کہ عمر بھر جن کی سیوا کرتے رہے ، شاید ان میں سے کوئی مدد کو آئے اور ہمیں خدا کے عذاب سے چھڑا لے ، یا کم از کم ہماری سزا ہی کم کرا دے ، مگر کسی طرف سے کوئی مددگار بھی ان کو نظر نہ آئے گا ۔