Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

علم الٰہی کی وسعتیں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کب آئے گی ؟ اس کا علم اس کے سوا اور کسی کو نہیں تمام انسانوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب فرشتوں کے سرداروں میں سے ایک سردار یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے قیامت کے آنے کا وقت پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جس سے پوچھا جاتا ہے وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ جاننے والا نہیں ۔ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے ( اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰهَا 44؀ۭ ) 79- النازعات:44 ) یعنی قیامت کب ہو گی ؟ اس کے علم کا مدار تیرے رب کی طرف ہی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اور جگہ فرمایا آیت ( لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ۂ ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ۭ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ١٨٧؁ ) 7- الاعراف:187 ) مطلب یہی ہے کہ قیامت کے وقت کو اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہر چیز کو اس اللہ کا علم گھیرے ہوئے ہے یہاں تک کہ جو پھل شگوفہ سے کھل کر نکلے جس عورت کو حمل رہے جو بچہ اسے ہو یہ سب اس کے علم میں ہے ۔ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْـقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ Ǽ۝ڎڎ ) 34- سبأ:3 ) ایک اور آیت میں ہے ( وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ 59؀ ) 6- الانعام:59 ) یعنی جو پتہ جھڑتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے ۔ ہر مادہ کو جو حمل رہتا ہے اور رحم جو کچھ گھٹاتے بڑھاتے رہتے ہیں اللہ خوب جانتا ہے اس کے پاس ہر چیز کا اندازہ ہے ۔ جس قدر عمریں گھٹتی بڑھتی ہیں وہ بھی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ایسا کوئی کام نہیں جو اللہ پر مشکل ہو ۔ قیامت والے دن مشرکوں سے تمام مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ جنہیں تم میرے ساتھ پرستش میں شریک کرتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟ وہ جواب دیں گے کہ تو ہمارے بارے میں علم رکھتا ہے ۔ آج تو ہم میں سے کوئی بھی اس کا اقرار نہ کرے گا کہ تیرا کوئی شریک بھی ہے ، قیامت والے ان کے معبودان باطل سب گم ہو جائیں گے کوئی نظر نہ آئے گا جو انہیں نفع پہنچا سکے ۔ اور یہ خود جان لیں گے کہ آج اللہ کے عزاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں یہاں ظن یقین کے معنی میں ہے ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے آیت ( وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ يَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا 53؀ۧ ) 18- الكهف:53 ) یعنی گنہگار لوگ جہنم دیکھ لیں گے ۔ اور انہیں یقین ہو جائے گا کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 یعنی اللہ کے سوا اس کے وقوع کا علم کسی کو نہیں۔ اس لئے جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے واقع ہونے کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا اس کی بابت مجھے بھی اتنا علم ہے، جتنا تجھے ہے، میں تجھ سے زیادہ نہیں جانتا۔ دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰهَا) 79 ۔ النازعات :44) 47۔ 2 یہ اللہ کے علم کا محیط کا بیان ہے اور اس کی صفت علم میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے یعنی اس طرح کا علم کامل کسی کو حاصل نہیں، حتیٰ کے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی نہیں انہیں بھی اتنا ہی علم ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعے سے بتلا دیتا ہے۔ 47۔ 3 یعنی آج ہم میں سے کوئی شخص یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ تیرا کوئی شریک ہے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦١] جواب کا رخ اس طرف موڑ دینا جس کا تعلق عملی زندگی سے ہو :۔ اللہ تعالیٰ کی وسعت علم کا یہ حال ہے کہ شگوفہ کے اندر اس کے پھل کے نکلنے تک جو کیفیات گزرتی ہیں اور رحم مادر میں جنین پر جو جو مرحلے پیش آتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ ایسی ہی علیم ہستی جب یہ خبر دے رہی ہے کہ قیامت یقینی طور پر آنے والی ہے تو تمہیں اس بات پر یقین کرلینا چاہئے۔ رہی یہ بات کہ وہ کب آئے گی تو اس کا علم بھی صرف اللہ کو ہے اور یہ بات بتانا مشیئت الٰہی کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس طرح تخلیق انسانی کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ کافروں کا یہ مشغلہ سا بن گیا تھا کہ وہ بار بار رسول اللہ سے یہی سوال کرتے رہتے تھے تو اس کے جواب میں مختلف مقامات پر مختلف جوابات دیئے گئے ہیں اور ان میں وہ پہلو اختیار کیا گیا ہے جس کا تعلق عملی زندگی سے ہو، رسول اللہ کا بھی یہی دستور تھا۔ چناچہ ایک دفعہ آپ سفر میں کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستہ میں کسی شخص نے زور سے پکارا : یا محمد قیامت کب آئے گی ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا : تجھ پر افسوس کیا تو نے اس کے لیے کچھ تیاری کرلی ہے (مسلم۔ کتاب البرو الصلۃ والادب۔ باب المرء مع من احب)- [٦٢] ( اٰذنّٰکَ ) کے معنی ہیں ہم آپ کے گوش گزار کر تو چکے ہیں یعنی قیامت کے دن مشرک لوگ شرک کا انجام دیکھیں گے تو اپنے شرک کا اقرار کرنے کی بجائے صاف مکر جائیں گے۔ بعض علماء نے یہاں شہید سے شاہد مراد لیا ہے۔ یعنی آج ہمیں اپنے معبودوں میں سے کوئی بھی یہاں نظر نہیں آرہا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) الیہ یرد علم الساعۃ : پچھلی آیت کے ضمن میں ہر نیک و بدعمل کی جزا کا ذکر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اکثر لوگ جزا کے بغیر فوت ہوجاتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کا وعدہ فرما رکھا ہے۔ اسی کا نام ہی ” یوم الدین “ (جزا کا دن) ہے، کیونکہ اگر وہ نیک و بد کو جز نہ دے تو یہ ظلم ہے، جب کہ وہ اپنے بندوں پر ذرہ برابر ظلم کرنے والا نہیں۔ کفار چونکہ قیامت قائم ہونے اور اس پر اللہ تعالیٰ کے پوری طرح قادر ہونے کی بات کو دلیل کے ساتھ نہیں جھٹلا سکتے تھے، اس لئے انہوں نے جھٹلانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ بار بار پوچھتے، قیامت کب ہوگی ؟ گویا انکی فرمائش پر وہ فوراً قائم نہ ہوئی تو کہہ سکیں گے کہ قیامت ہوتی تو آجاتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ یعنی انسان ، جن اور فرشتے، غرض جس کسی سے قیامت کے متعلق پوچھو وہ بیخبر ہوگا۔ کسی دوسرے پوچھنے کو کہے گا تو وہ بھی بیخبر ہوگا۔ پوچھتے پوچھتے سبھی جس کی طرف لوٹائیں گے کہ وہی بتاسکتا ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، باقی سب بیخبر ہیں۔ مزید دیکھیے سورة نازعات (٤٢ تا ٤٤) ، انعام (٥٩) اور سورة اعراف (١٨٧) جبریل (علیہ السلام) نے انسانی شکل میں آکر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ قیامت کب ہوگی ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ما المسؤل عنھا باعلم من السائل) (بخاری، الایمان، باب سوال جبریل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) …: ٥٠)” جس سے اس کے متعلق پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ “ مطلب یہ ہے کہ تم جس بات کے پیچھے پڑے ہو تمہیں اس سے کچھ حاصل نہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم ہی نہیں، اس لئے تم یہ فکر کرو کہ اس دن تمہارا بنے گا کیا اور تم نے اس کے لئے تیاری کیا کی ہے ؟- (٢) وما تخرج من ثمرات من اکمامھا :” اکمام “” کم “ (کاف کے کسرہ کے ساتھ) کی جمع ہے، وہ غلاف یا پردہ جس کے اندر شروع میں پھل چھپا ہوتا ہے۔” ثمرات “ جمع ہے اور نکرہ ہے، اس پر ” من “ آنے سے عموم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان سب باتوں کو محلوظ رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے ” کسی قسم کے پھل اپنے غلافوں سے نہیں نکلتے۔ “ مطلب یہ ہے کہ صرف قیامت کا علم ہی نہیں، غیب کے متعلق جتنے بھی امور ہیں ان سب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، کسی نبی، ولی یا فرشتے کو غیب کے معاملات کا علم اسی حد تک ہو ستکا ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اسے خبر دی ہوتی ہے ۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٥٩) اور سورة اعراف (١٨٧) ۔ - (٣) وما تحمل من انثی ولا تضع الا بعلمہ : دیکھیے سورة رعد (٨) اور سورة فاطر (١١) ۔ یعنی قیامت کے علاوہ کسی پھل کے اپنے غلامف سے نکلنے یا کسی مادہ کے حاملہ ہونے یا بچہ جننے کے وقت کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں، تو کیا آج تک تم نے اس وجہ سے کسی پھل کے اپنے غلاف سے نکلنے یا کسی مادہ کے حاملہ ہونے یا بچہ جننے سے اور دوسری بیشمار چیزوں کے واقع ہونے سے اس لئے انکار کیا ہے کہ اس کا متعین وقت تمہیں نہیں بتایا گیا، تو قیامت کا انکار صرف اس لئے کیوں کہ تمہیں اس کے بپا ہونے کا وقت نہیں بتایا گیا ؟- (٤) ویوم ینادیھم این شرکآء ی :” یوم “ فعل محذوف ” اذکر “ کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ قیامت کا ذکر کرتے ہئے فرمایا کہ وہ دن یاد کرو جب اللہ تعالیٰ مشرکین کو پکار کر کہے گا، کہاں ہیں میرے شریک ؟” شرکآء ی “ (میرے شریک) سے مراد وہ ہیں جو انہوں نے بنا رکھے تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ کا شریک کون ہوسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا انہیں یہ کہنا صرف انہیں ذلیل کرنے کے لئے ہوگا، کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اس کا کوئی شریک نہیں جسے وہ لے آئیں گے۔- (٥) قالوا اذنک مامنا من شھید : یعنی وہ اپنے مشرک ہونے کا انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تجھے صاف بتادیا ہے کہ ہم میں سے کوئی اس کی شہادت دینے والا نہیں کہ تیرا کوئی شریک ہے، یعنی ہم نے تیرے ساتھ کبھی شرک کیا ہی نہیں۔ (دیکھیے انعام : ٢٢ تا ٢٤) حقیقت یہ ہے کہ قیامت کے دن وہ کبھی اپنے مشرک ہونے سے انکار کریں گے، کبھی بےاختیار اس کا اقرار کریں گے، پھر انکار کریں گے۔ (دیکھیے مومن : ٧٣، ٧٤) پھر شہادتیں پیش ہونے پر اقرار کے سوا کچھ چارہ نہ ہوگا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اوپر جس قیامت کا ذکر ہے کہ اس میں ان کو جزا ملے گی اس) قیامت کے علم کا حوالہ خدا ہی کی طرف دیا جاسکتا ہے (یعنی اس سوال کے جواب میں کہ قیامت کب آوے گی جیسا کہ کفار بغرض انکار ایسا کہا کرتے تھے یہی کہا جاوے گا کہ اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ مخلوق کو اس کا علم نہ ہونے سے اس کا عدم وقوع لازم نہیں آتا) اور (قیامت ہی کی کیا تخصیص ہے۔ اس کا علم ہر شے کو محیط ہے حتیٰ کہ) کوئی پھل اپنے خول میں سے نہیں نکلتا اور نہ کسی عورت کو حمل رہتا ہے اور نہ وہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب اس کی اطلاع سے ہوتا ہے (اور اس اطلاع کی وجہ اس کی صفت علم کا ذاتی ہونا ہے جو بوجہ اعلیٰ درجہ کے کمال ہونے کے دلیل توحید بھی ہے۔ اور دلیل علم قیامت کی بھی ہے۔ پس اس سے دونوں مضمونوں کی تائید ہوگئی) اور (آگے اس قیامت کے ایک واقعہ کا ذکر ہے جس سے اثبات توحید وابطال شرک بھی ہوتا ہے یعنی) جس روز اللہ تعالیٰ ان (مشرکین) کو پکارے گا (اور کہے گا) کہ (جن کو تم نے میرا شریک قرار دے رکھا تھا وہ) میرے شریک (اب) کہاں ہیں (ان کو بلاؤ کہ تم کو اس مصیبت سے بچاویں) وہ کہیں گے کہ (اب تو) ہم آپ سے یہی عرض کرتے ہیں کہ ہم میں کوئی (اس عقیدہ کا) مدعی نہیں (یعنی اپنی غلطی کے مقر ہیں چونکہ وہاں حقائق عقائد منکشف ہوجاویں گے۔ پس یہ اقرار یا تو اضطراری ہے یا اس لئے ہے کہ اس سے کچھ توقع نجات کی ہو) اور جن جن کو یہ لوگ پہلے سے (یعنی دنیا میں) پوجا کرتے تھے وہ سب غائب ہوجاویں گے اور (جب یہ احوال دیکھیں گے تو) یہ لوگ سمجھ لیں گے کہ ان کے لئے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں (اس وقت جھوٹے خداؤں کا بےبس ہونا اور الہ واحد کا حق ہونا معلوم ہوجاوے گا آگے شرک و کفر کا ایک بڑا اثر طبیعت انسانی پر بیان فرماتے ہیں کہ جو شخص توحید و ایمان سے بےبہرہ ہے اس) آدمی (کے اخلاق و عقائد و اعمال ایسے برے ہوتے ہیں کہ ایک تو کسی حالت میں یعنی فراخی اور تنگی دونوں میں) ترقی کی خواہش سے اس کا جی نہیں بھرتا (جو انتہائی حرص کی علامت ہے) اور (خاص حالت تنگی وغیرہ میں یہ کیفیت ہے کہ) اگر اس کو کچھ تکلیف پہنچتی ہے تو ناامید اور ہراساں ہوجاتا ہے (اور یہ انتہائی ناشکری اور اللہ تعالیٰ سے بدگمانی کی علامت ہے) اور (جب تنگی دور ہوجاتی ہے تو اس وقت اس کی یہ کیفیت ہے کہ) اگر ہم اس کو کسی تکلیف کے بعد جو کہ اس پر واقع ہوئی تھی اپنی مہربانی کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ہونا ہی چاہئے تھا) کیونکہ میری تدبیر و لیاقت و فضیلت اسی کی مقتضی تھی اور یہ بھی انتہائی ناشکری اور تکبر ہے) اور (اس نعمت میں یہاں تک پھولتا ہے اور بھولتا ہے کہ یوں بھی کہتا ہے کہ) میں قیامت کو آنے والا نہیں خیال کرتا اور اگر (بفرض محال آئی بھی اور) میں اپنے رب کے پاس پہنچایا بھی گیا (جیسا نبی کہتے ہیں) تو میرے لئے اس کے پاس بھی بہتری ہی ہے (کیونکہ میں حق پر ہوں اور اس کا مستحق ہوں۔ قیامت کا انکار جو غایت درجہ کفر ہے اور قیامت واقع ہونے کی صورت میں یہ گمان کہ وہاں بھی مجھے انعامات ملیں گے، یہ اللہ کے معاملے میں انتہائی دھوکہ میں مبتلا ہونا ہے۔ غرض کفر و شرک سے یہ مفاسد پیدا ہوئے۔ وہ ایسی بری چیز ہے) سو (یہ لوگ یہاں جو چاہیں دعوے احقاق و استحقاق کا کرلیں اب عنقریب) ہم ان منکروں کو ان کے (یہ) سب کردار ضرور بتلا دیں گے اور ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھا دیں گے اور (نیز کفر و شرک کا ایک اثر یہ ہے کہ) جب ہم (ایسے) آدمی کو نعمت عطا کرتے ہیں تو (ہم سے اور ہمارے احکام سے) منہ موڑ لیتا ہے اور کروٹ پھیر لیتا ہے (جو انتہائی درجہ کی ناشکری ہے) اور (حالت تنگی و ضرر میں آثار کفر و شرک میں سے ایک یہ ہے کہ) جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو (نعمت سلب ہوجانے پر جزع و فزع کی راہ سے نہ کہ منعم کی طرف سے التجاء کے طور پر) خوب لمبی چوڑی دعائیں کرتا ہے۔ (اور یہ غایت درج کی بےصبری اور حب دنیا میں انہماک ہے۔ آگے رسالت اور قرآن کی حقانیت کی طرف دعوت دینے کے لئے ارشاد ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (ان منکرین سے) کہئے کہ (اے منکرو، قرآن کے حق ہونے پر جو دلائل قائم ہیں جیسے اس کا معجزہ ہونا اور غیب کی خبریں صحیح صحیح دینا، اگر تم عدم تدبر کی وجہ سے ان کو سبب یقین نہیں سمجھتے تو کم از کم اس کے احتمال کے درجہ کی تو نفی تم بھی نہیں کرسکتے کیونکہ نفی پر تمہارے پاس کوئی دلیل تو قائم نہیں سو) بھلا یہ بتلاؤ کہ اگر (بناء علی الاحتمال المذکور) یہ قرآن خدا کے یہاں سے آیا ہو اور پھر تم اس کا انکار کرو تو ایسے شخص سے زیادہ کون غلطی میں ہوگا جو (حق سے) ایسی دور دراز کی مخالفت میں پڑا ہو (اس لئے انکار میں جلد بازی نہ کرو، بلکہ سوچ سمجھ کر کام لو تاکہ حق واضح اور متعین ہوجاوے اور ان لوگوں سے تو کیا امید ہے کہ تدبیر کریں مگر خیر) ہم (خود ہی) عنقریب ان کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں (جو کہ دال ہوں صدق قرآن پر) ان کے گرد و نواح میں بھی دکھائیں گے (تمام عرب پیشین گوئی کے موافق فتح ہوگا) اور خود ان کی ذات (خاص) میں بھی (دکھلائیں گے کہ بدر میں مارے جائیں گے اور ان کا مسکن مکہ بھی فتح ہوجاوے گا) یہاں تک کہ (بالاضطرار ان پیشین گوئیوں کے وقوع سے) ان پر ظاہر ہوجاوے گا کہ وہ قرآن حق ہے (کہ اس کی پیشین گوئیاں کس طرح صادق ہو رہی ہیں۔ گو یہ علم اضطراری بدون تصدیق اختیاری کے مقبول نہیں، لیکن اتمام حجت میں تو قوت زیادہ ہوجاوے گی۔ غرض اس کی حقیقت ایک روز اس طرح ظاہر ہوگی باقی فی الحال جو یہ لوگ آپ کی وحی رسالت کا انکار کر رہے ہیں آپ مغموم نہ ہوں کیونکہ اگر یہ لوگ اس پر شہادت نہ دیں تو) کیا آپ کے رب کی بات (آپ کی حقانیت کی شہادت اور تسلی کے لئے) کافی نہیں کہ وہ ہر (واقعی) چیز کا شاہد ہے (اور اس نے جا بجا آپ کی رسالت کی شہادت دی ہے، آگے اصل وجہ اس انکار کی بتلاتے ہیں اور اس سے تسلی بھی زیادہ ہو سکتی ہے) یاد رکھو کہ وہ لوگ اپنے رب کے رو برو جانے کے طرف سے شک میں پڑے ہیں (اس لئے دل میں ڈر نہیں جس سے حق کو طلب کریں مگر) یاد رکھو کہ وہ ہر چیز کو (اپنے علم سے) احاطے میں لئے ہوئے ہے (پس ان کے شک وشبہ کو بھی جانتا ہے اور اس پر سزا دے گا) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَيْہِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ۝ ٠ ۭ وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِہَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ۝ ٠ ۭ وَيَوْمَ يُنَادِيْہِمْ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيْ۝ ٠ ۙ قَالُوْٓا اٰذَنّٰكَ۝ ٠ ۙ مَا مِنَّا مِنْ شَہِيْدٍ۝ ٤٧ ۚ - رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - كم - كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو :- كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال :- وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة .- کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- أنث - الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء 124] ، ولمّا کان الأنثی في جمیع الحیوان تضعف عن الذکر اعتبر فيها الضعف، فقیل لما يضعف عمله : أنثی، ومنه قيل : حدید أنيث قال الشاعر : عندي ... جراز لا أفلّ ولا أنيث وقیل : أرض أنيث : سهل، اعتبارا بالسهولة التي في الأنثی، أو يقال ذلک اعتبارا بجودة إنباتها تشبيها بالأنثی، ولذا قال : أرض حرّة وولودة .- ولمّا شبّه في حکم اللفظ بعض الأشياء بالذّكر فذكّر أحكامه، وبعضها بالأنثی فأنّث أحكامها، نحو : الید والأذن، والخصية، سمیت الخصية لتأنيث لفظ الأنثيين، وکذلک الأذن . قال الشاعر :- ضربناه تحت الأنثيين علی الکرد وقال آخر : وما ذکر وإن يسمن فأنثی يعني : القراد، فإنّه يقال له إذا کبر : حلمة، فيؤنّث . وقوله تعالی: إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِناثاً [ النساء 117] فمن المفسرین من اعتبر حکم اللفظ فقال : لمّا کانت أسماء معبوداتهم مؤنثة نحو : اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَناةَ الثَّالِثَةَ [ النجم 19- 20] قال ذلک : ومنهم۔ وهو أصحّ- من اعتبر حکم المعنی، وقال : المنفعل يقال له : أنيث، ومنه قيل للحدید الليّن : أنيث، فقال :- ولمّا کانت الموجودات بإضافة بعضها إلى بعض ثلاثة أضرب :- فاعلا غير منفعل، وذلک هو الباري عزّ وجلّ فقط .- ومنفعلا غير فاعل، وذلک هو الجمادات .- ومنفعلا من وجه کالملائكة والإنس والجن، وهم بالإضافة إلى اللہ تعالیٰ منفعلة، وبالإضافة إلى مصنوعاتهم فاعلة، ولمّا کانت معبوداتهم من جملة الجمادات التي هي منفعلة غير فاعلة سمّاها اللہ تعالیٰ أنثی وبكّتهم بها، ونبّههم علی جهلهم في اعتقاداتهم فيها أنها آلهة، مع أنها لا تعقل ولا تسمع ولا تبصر، بل لا تفعل فعلا بوجه، وعلی هذا قول إبراهيم عليه الصلاة والسلام : يا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئاً- [ مریم 42] . وأمّا قوله عزّ وجل : وَجَعَلُوا الْمَلائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبادُ الرَّحْمنِ إِناثاً [ الزخرف 19] فلزعم الذین قالوا : إنّ الملائكة بنات اللہ .- ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) اور چونکہ تمام حیوانات میں مادہ منسلک نر کے کمزور ہوتی ہے لہذا اس میں معنی ضعف کا اعتبار کرکے ہر ضعیف الاثر چیز کو انثیٰ کہہ دیا جاتا ہے چناچہ کمزور لوہے کو حدید انیث کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع (28) ۔۔۔۔۔ عندی ۔۔ جراز لا افل ولا انیث میرے پاس شمشیر براں ہے جو کند اور کمزور نہیں ہی ۔ اور انثی ٰ ( مادہ) کے ساتھ تشبیہ دیکر نرم اور زرخیز زمین کو بھی ارض انیث کہہ دیا جاتا ہے یہ تشبہ یا تو محض نری کے اعتبار سے ہے ۔ اور یا عمدہ اور پیداوار دینے کے اعتبار سے ہے سے اسے انیث کہا گیا ہے جیسا کہ زمین کو عمدہ اور پیداوار کے اعتبار سے حرۃ اور ولو د کہا جات ہے ۔ پھر بعض اشیاء کو لفظوں میں مذکر کے ساتھ تشبیہ دے کر اس کے لئے صیغہ مذکر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور بعض کو مؤنث کے ساتھ تشبیہ دے کر صیغہ تانیث استعمال کرتے ہیں جیسے ۔ ید ۔ اذن اور خصیۃ چناچہ خصیتیں پر تانیث لفظی کی وجہ سے انثیین کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( ع وافر) (29) وماذکر وان یسمن مانثی ٰاور کونسا مذکر ہے کہ اگر وہ موٹا ہوجائے تو مؤنث ہوجاتا ہے ۔ اس سے مراد قرا دیعنی چیچر ہے کہ جب وہ بڑھ کر خوب موٹا ہوجاتا ہے تو اسے حلمۃ بلفظ مونث کہا جاتا ہے اسی طرح آیت کریمہ ؛۔ إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا ( سورة النساء 117) وہ خد ا کے سو ا جن کی بھی پرستش کرتے ہیں وہ مادہ ہیں ۔ میں اناث ، انثی ٰ کی جمع ہے ) بعض مفسرین نے احکام لفظیہ کا اعتبار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرکین اپنے بتوں کو جن اسماء سے پکارتے تھے جیسے لات ، عزی ، منات الثالثہ یہ سب مؤنث ہیں اس لئے قرآن نے اناث کہہ کر پکارا ہے ۔ اور بعض نے معنٰی کا اعتبار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر منفعل اور ضعیف چیز کو انیث کہا جاتا ہے جیسے کمزور لوہے پر انیث کا لفظ بولتے ہیں اسکی تفصیل یہ ہے کہ موجودات کی باہمی نسبت کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں فاعل غیر منفعل ، یہ صفت صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے ۔ منفعل غیر فاعل یہ خاصہ جمادات کا ہے ۔ 3 ۔ ایک اعتبار سے فاعل اور دوسرے اعتبار سے منفعل جیس جن دانس اور ملائکہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے منفعل اور اپنی مصنوعات کے لحاظ سے فاعل ہے اور چونکہ ان کے معبود جمادات کی قسم سے تھے جو منفعل محض ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اثاث کہہ کر پکارا ہے اور اس سے ان کی اعتقادی جہالت پر تنبیہ کی ہے کہ جنکو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں نہ عقل ہے نہ سمجھ ، نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں بلکہ کسی حیثیت سے بھی کوئی کام سرانجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے و تو حید کی طرف دعوت کے سلسلہ میں ) اپنے باپ سے کہا ۔ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا ( سورة مریم 42) کہ ابا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں لیکن آیت کریمہ ؛۔ وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا ( سورة الزخرف 19) اور انہوں نے فرشتوں کو کہ وہ بھی خدا کے بندہ ہیں ( مادہ خدا کی بیٹیاں ) بنادیا میں ملائکہ کو اناث قرار دینے کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے ۔- وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- أين - أَيْنَ لفظ يبحث به عن المکان، كما أنّ «متی» يبحث به عن الزمان، والآن : كل زمان مقدّر بين زمانین ماض ومستقبل، نحو : أنا الآن أفعل کذا، وخصّ الآن بالألف واللام المعرّف بهما ولزماه، وافعل کذا آونة، أي : وقتا بعد وقت، وهو من قولهم : الآن .- وقولهم : هذا أوان ذلك، أي : زمانه المختص به وبفعله .- قال سيبويه رحمه اللہ تعالی: الآن آنك، أي : هذا الوقت وقتک .- وآن يؤون، قال أبو العباس رحمه اللہ :- ليس من الأوّل، وإنما هو فعل علی حدته .- والأَيْنُ : الإعياء، يقال : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، وکذلك : أنى يأني أينا : إذا حان .- وأمّا بلغ إناه فقد قيل : هو مقلوب من أنى، وقد تقدّم .- قال أبو العباس : قال قوم : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، والهمزة مقلوبة فيه عن الحاء، وأصله : حان يحين حينا، قال : وأصل الکلمة من الحین .- این ( ظرف ) یہ کلمہ کسی جگہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے جیسا کہ لفظ متی ، ، زمانہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے ( ا ی ن ) الاین ( ض) کے معنی تھک کر چلنے سے عاجز ۔ ہوجانا کے ہیں آن یئین اینا اور انیٰ یانی ان یا کے معنی کسی چیز کا موسم یا وقت آجانا کے ہیں اور محاورہ میں بلغ اناہ کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ انیٰ ( ناقص) سے مقلوب ہے جیسا کہ پہلے گزچکا ہے ۔ ابوالعباس نے کہا ہے کہ آن مقلوب ( بدلاہوا ) ہے اور اصل میں حان یحین حینا ہے اور اصل کلمہ الحین ہے ۔- - شرك ( شريك)- الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی:- وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ- [ الزخرف 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] .- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ - اذن ( تأذين)- : كل من يعلم بشیءٍ نداءً ، قال عالی: ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ [يوسف 70] ، فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ [ الأعراف 44] ، وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ [ الحج 27] اذنتہ بکذا او اذنتہ کے ایک معنی ہیں یعنی اطلاع دینا اور اعلان کرنا اور اعلان کرنے والے کو مؤذن کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ ( سورة يوسف 70) تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ اے قافلے والو ۔ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ ( سورة الأَعراف 44) تو اس وقت ان ایک پکارنے والا پکارا دیگا ۔ وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ ( سورة الحج 27) اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کردو ۔- اذنک : اذنا۔ ماضی جمع متکلم ایذان ( افعال) مصدر۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ ہم نے تجھ کو کہہ سنایا۔ ہم نے تجھ سے عرض کردیا ہے۔ اذن اطلاع دینا کہہ سنانا۔ اعلان کرنا۔ اسی سے ہے مؤذن اطلاع دینے والا۔ پکارنے والا۔- شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر :- مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه .- شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

قیامت کے علم کا حوالہ اللہ ہی کی طرف کیا جاتا ہے اللہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں کہ قیامت کب ہوگی۔ اور ایسے ہی کوئی پھل اپنے خول میں سے نہیں نکلتا اور نہ کسی حاملہ عورت کو حمل رہتا ہے اور نہ وہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب اس کی اجازت سے ہوتا ہے اس کے علاوہ اور کسی کو ان باتوں کا علم نہیں۔- اور دوزخ میں جب اللہ تعالیٰ مشرکین سے فرمائے گا کہ وہ میرے شریک اب کہاں ہیں جن کی تم میرے علاوہ عبادت کرتے تھے اور میرے شریک ان کو سمجھتے تھے تو وہ کہیں گے کہ ہم اس سے پہلے آپ سے عرض کرچکے ہیں کہ ہم نے آپ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہیں کی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ اِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ ” اسی کی طرف لوٹتا ہے قیامت کا علم۔ “- یعنی قیامت کا علم صرف اسی کے پاس ہے۔- وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَکْمَامِہَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ ” اور نہیں نکلتے کوئی پھل اپنے غلافوں سے اور نہ کسی مادہ کو حمل ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اس کو جنتی ہے ‘ مگر اسی کے علم سے۔ “- یعنی صرف قیامت ہی نہیں بلکہ تمام امور غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ جزئیات کا بھی اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے کہ اس کی نگاہ سے کسی شخص کا کوئی چھوٹا سا عمل بھی مخفی نہیں رہ سکتا۔- واضح رہے کہ یہاں پر اُنْثٰی کا لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے انسانوں کے علاوہ تمام حیوانات کی مادائوں کا احاطہ بھی کرتا ہے۔- وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ اَیْنَ شُرَکَآئِ ” اور جس دن وہ ان کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک ؟ “- قَالُوْٓا اٰذَنّٰکَ مَا مِنَّا مِنْ شَہِیْدٍ ” وہ کہیں گے : ہم نے تو آپ سے عرض کردیا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کی گواہی دینے والا نہیں۔ “- اس وقت وہ بےبسی کے عالم میں یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ دنیا میں ہم نے واقعتا کچھ سہارے ڈھونڈ کر ان سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :60 اس ساعت سے مراد قیامت ہے ، یعنی وہ گھڑی جب بدی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ دیا جائیگا اور ان نیک انسانوں کی داد رسی کی جائے گی جن کے ساتھ بدی کی گئی ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :61 یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کب آئے گی ۔ یہ جواب ہے کفار کے اس سوال کا کہ ہم پر بدی کا وبال پڑنے کی جو دھمکی دی جا رہی ہے وہ آخر کب پوری ہو گی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :62 اس ارشاد سے سامعین کو دو باتوں کا احساس دلایا گیا ہے ، ایک یہ کہ صرف ایک قیامت ہی نہیں بلکہ تمام امور غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے ، کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جو خدا جزئیات کا اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے اس کی نگاہ سے کسی شخص کے اعمال و افعال کا چوک جانا ممکن نہیں ہے ، لہٰذا کسی کو بھی اس کی خدائی میں بے خوف ہو کر من مانی نہیں کرنی چاہیے ۔ اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا تعلق بعد کے فقروں سے جڑتا ہے ۔ اس رشاد کے معاً بعد جو کچھ فرمایا گیا ہے اس پر غور کیجیے تو ترتیب کلام سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا نظر آئے گا کہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنے کی فکر میں کہاں پڑے ہو ، فکر اس بات کی کرو کہ جب وہ آئے گی تو اپنی ان گمراہیوں کا تمہیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ یہی بات ہے جو ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی تاریخ پوچھنے والے ایک شخص سے فرمائی تھی ۔ صحاح اور سنن اور مسانید میں حد تواتر کو پہنچی ہوئی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے ۔ راستہ میں ایک شخص نے دور سے پکارا یا محمد ۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا بولو کیا کہنا ہے ۔ اس نے کہا قیامت کب آئے گی؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جواب دیا : ویحک انھا کائنۃ لا محالۃ فما اعددت لھا ؟ بندہ خدا ، وہ تو بہرحال آنی ہی ہے ۔ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی؟ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :63 یعنی اب ہم پر حقیقت کھل چکی ہے اور ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ سراسر غلط تھا ۔ اب ہمارے درمیان کوئی ایک شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ خدائی میں کوئی دوسرا بھی آپ کا شریک ہے ۔ ہم عرض کر چکے ہیں کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قیامت کے روز بار بار ہر مرحلے میں کفار سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تم خدا کے رسولوں کا کہا ماننے سے انکار کرتے رہے ، اب بولو حق پر وہ تھے یا تم؟ اور ہر موقع پر کفار اس بات کا اعتراف کرتے چلے جائیں گے کہ واقعی حق وہی تھا جو انہوں نے بتایا تھا اور غلطی ہماری تھی کہ اس علم کو چھوڑ کر اپنی جہالتوں پر اصرار کرتے رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani