Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اکنہ کنان کی جمع ہے۔ پردہ۔ یعنی ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں کہ ہم تیری توحید و ایمان کی دعوت کو سمجھ سکیں۔ 5۔ 2 وَقْر کے اصل معنی بوجھ کے ہیں، یہاں مراد بہرا پن ہے، جو حق کے سننے میں مانع تھا۔ 5۔ 3 یعنی ہمارے اور تیرے درمیان ایسا پردہ حائل ہے کہ تو جو کہتا ہے، وہ سن نہیں سکتے اور جو کرتا ہے، اسے دیکھ نہیں سکتے، اس لئے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے اور ہم تجھے تیرے حال پر چھوڑ دیں، تو ہمارے دین پر عمل نہیں کرتا، ہم تیرے دین پر عمل نہیں کرسکتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] قرآن کی ان گونا گوں خوبیوں کے باوجود زیادہ تر لوگ اس کی مخالفت پر اتر آئے ہیں وہ اس کی آیات کو تسلیم کرنا تو درکنار سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ پھر اپنی اس خصلت پر فخر بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم ہمارے دلوں پر مطلقاً اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ ہمارے دل ایسے اثرات قبول کرنے سے کلیتاً محفوظ ہیں۔ بلکہ ہمیں تو ان آیات کا سننا بھی گوارا نہیں۔ ایسی باتیں سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ لہذا وہ سننے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( ) تمہاری اس دعوت سے ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت کی ایک دیوار حائل ہوچکی ہے اور اس دعوت نے ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دی ہے۔ لہذا ہم تمہاری اس دعوت کو کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔- [٤] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ہمیں تم سے اور تمہیں ہم سے اب کوئی سروکار نہیں اور ہم دونوں کبھی مل کر بیٹھ نہیں سکتے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی دعوت سے باز نہیں آتے تو اپنا کام کئے جاؤ۔ ہم بھی تمہاری مخالفت سے کبھی باز نہ آئیں گے۔ اس جملہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفوں کی ایذا رسانیوں اور معاندانہ سرگرمیوں کے باوجود اسلام کی دعوت میں اتنی پیش رفت ہوچکی تھی کہ مخالفین مساویانہ سطح پر گفتگو کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وقالوا قلوبنا فی اکنۃ …” اکنۃ “” کنان “ کی جمع ہے، پردہ جیسا کہ ” غطاء “ کی جمع ” اغطیۃ “ ہے۔ ترکش یعنی تیروں کا تھیلا جس میں تیر چھپے ہوتے ہیں ” کنانۃ “ کہلاتا ہے۔” وقر “ کا اصل معنی ” بوجھ “ ہے، مراد بہرا پن ہے۔- (٢) فرمایا ، کفار کا آیات الٰہی سے اعراض اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ صرف یہ نہیں کہ وہ سنتے نہیں یا منہ موڑ کر چلے جاتے ہیں ، بلکہ ان کی نفرت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ انہوں نے واشگاف الفاظ میں اس کا اظہار کیا اور اس کی تنی وجہیں بیان کیں۔ پہلی یہ کہ تم ہمیں جس بات کی طرف دعوت دیتے ہو ہمارے دل اس سے بھاری پردوں میں محفوظ ہیں۔ (اکنۃ کی تنوین تعظیم کے لئے ہے) وہ دعوت ہمارے دلوں تک پہنچتی ہی نہیں۔ دوسری یہ کہ ہمارے کانوں میں بھاری بوجھ ہے۔ (وقر کی تنوین تعظیم کے لئے ہے) وہ تمہاری بات سننے سے شدید بہرے ہیں اور تیسری یہ کہ ہمارے اور تمہارے درمیان بھاری پردہ ہے۔ غرض ہماری آنکھیں یا کان یا دل تمہاری کوئی بھی بات سننے یا سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ کفار نے یہ بات اپنی خوبی کے طور پرب یان کی۔- سورة بقرہ میں ہے : (وقالوا قلوبنا غلف ، بل لعنھم اللہ بکفرھم فقلیلاً ما یومنون) (البقرۃ : ٨٨)” اور انہوں نے کہا ہمارے دل غلاف میں (محفوظ) ہیں، بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کردی، پس وہ بہت کم ایمان لاتے ہیں۔ “- (٣) ومن بیننا وبینک حجاب : بقاعی نے اس ” من “ سے تبعیض کا مفہوم اخذ کیا ہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کے بعض معاملات میں ایک پردہ ہے، یعنی ایک دوسرے کے دنیوی معاملات تو ہم دیکھتے، سنتے اور سمجھتے ہیں، مگر دین کے معاملات میں ہمارے اور تمہارے درمیان بھاری پردہ ہے، لہٰذا تم اپنے دین پر عمل کرو اور ہم اپنے دین پر عمل کرنے والے ہیں۔- (٤) دوسری جگہ فرمایا کہ ان کے دلوں، آنکھوں اور کانوں پر یہ پردے ہم نے ڈالے ہیں اور اس کی وجہ خود ان کا اعراض اور گریز ہے، جیسا کہ فرمایا :(ومن اظلم ممن ذکر بایت ربہ فاعرض عنھا ونسی ما قدمت یدہ، انا جعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقھوۃ و فی اذاتنھم وقراً وان تدعھم الی الھدی فلن یھتدوا اذا ابداً ) (الکھف : ٥٨)” اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی گئی تو اس نے ان سے منہ پھیرلیا اور اسے بھول گیا جو اس کے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا، بیشک ہم نے ان کے دلوں پر پردے بنا دیئے ہیں، اس سے کہ اسے سمجھے اور ان کے کانوں میں بوجھ رکھ دیا ہے اور اگر تو انہیں سیدھی راہ کی طرف بلائے تو اس وقت وہ ہرگز کبھی راہ پر نہ آئیں گے۔ “ اور ضد اور عناد کی وجہ سے مخالفت پر ڈٹ جانے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے، فرمایا :(ومن یشاق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی و یتبغ غیر سبیل المومنین نولہ ما تولی ونضلہ جھنم وسآء ت بصیراً (النسائ : ١١٥)” اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لئے ہدایت خوب واضح ہوچکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے “ اور فرمایا :(فلما زاغوا اراغ اللہ قلوبھم ) (الصف : ٥) ” پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیئے۔ “- (٥) فاعمل اننا عملون : بار بار دعوت اور نصیحت سے امید ہوتی ہے کہ شاید کسی وقت ہی اثر کر جائے۔ اس لئے کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری طرح مایوس کرنے کے لئے یہ جملہ کہا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ کفار کو ” لکم دینکم ولی دین “ (تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے) کہہ کر اس بات سے پوری طرح مایوس کردیں کہ آپ ان کے معبودوں کی کبھی کسی صورت میں بھی عبادت کرسکتے ہیں۔ (دیکھیے کافرون : ٦)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ ۔ اس جگہ کفار قریش کے تین قول نقل کئے گئے، اول یہ کہ آپ کے کلام سے ہمارے دلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے آپ کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ دوسرے یہ کہ آپ کے کلام سے ہمارے کان بہرے ہیں۔ تیسرے یہ کہ ہمارے اور آپ کے درمیان پردے حائل ہیں۔ قرآن میں اس قول کو بطور مذمت کے نقل کیا ہے۔ جس سے ان کا کہنا غلط معلوم ہوتا ہے۔ مگر دوسری جگہ خود قرآن نے ان کا ایسا ہی حال بیان فرمایا ہے۔ سورة انعام کی آیت میں ہے۔ (آیت) وجعلنا علیٰ قلوبھم اکنۃ ان یفقھوہ وفی اذانھم وقراً ۔ و مثلہ فی سورة بنی اسرائیل و الکہف۔- اس کا جواب یہ ہے کہ کفار کا اس کہنے سے مطلب یہ تھا کہ ہم تو مجبور و معذور ہیں کہ ہمارے دلوں پر پردہ اور کانوں میں بوجھ اور درمیانی حجابات ہیں، تو ہم کیسے آپ کی بات سنیں اور مانیں گویا اپنے آپ کو مجبور ثابت کرنا تھا۔ اور قرآن نے جو ان کا ایسا ہی حال بیان فرمایا، اس میں ان کو مجبور نہیں قرار دیا بلکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ ان میں آیات آلٰہیہ کو سننے اور سمجھنے کی پوری صلاحیت تھی مگر جب انہوں نے کسی طرح ادھر کان بھی نہ لگائے اور سمجھنے کا ارادہ بھی نہ کیا تو سزا کے طور پر ان پر غفلت و جہالت مسلط کردی گئی مگر وہ بھی اس درجہ میں نہیں کہ یہ لوگ مسلوب الاختیار ہوجائیں، بلکہ اب بھی ارادہ کرلیں تو پھر سننے اور سمجھنے کی صلاحیت عود کر آئے گی۔ (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْہِ وَفِيْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ۝ ٥- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - كن - الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ- [ الصافات 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] .- وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل 81] . والکِنَانُ :- الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ.- نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ- [ الواقعة 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة .- ( ک ن ن ) الکن - ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ - الکنان ۔- پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - أذن (کان)- الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة 61] أي :- استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم .- ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔- وقر - الوَقْرُ : الثِّقلُ في الأُذُن . يقال : وَقَرَتْ أُذُنُهُ تَقِرُ وتَوْقَرُ. قال أبو زيد : وَقِرَتْ تَوْقَرُ فهي مَوْقُورَةٌ. قال تعالی: وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت 5] ، وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] والوَقْرُ :- الحِمْل للحمار وللبغل کالوسق للبعیر، وقد أَوْقَرْتُهُ ، ونخلةٌ مُوقِرَةٌ ومُوقَرَةٌ ، والوَقارُ : السّكونُ والحلمُ. يقال : هو وَقُورٌ ، ووَقَارٌ ومُتَوَقِّرٌ. قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً- [ نوح 13] وفلان ذو وَقْرَةٍ ، وقوله : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب 33] قيل : هو من الوَقَارِ.- وقال بعضهم : هو من قولهم : وَقَرْتُ أَقِرُ وَقْراً. أي : جلست، والوَقِيرُ : القطیعُ العظیمُ من الضأن، كأنّ فيها وَقَاراً لکثرتها وبطء سيرها .- ( و ق ر ) الوقر - ۔ کان میں بھاری پن ۔ وقرت اذنہ تقر وتو قر کان میں ثقل ہونا یعنی باب ضرب وفتح سے آتا ہے ۔ لیکن ابوزید نے اسے سمع سے مانا ہے اور اس سے موقورۃ صفت مفعولی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت 5] اور ہمارے کانوں میں بوجھ یعنی بہرہ پن ہے ۔ وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا ۔ نیز وقر کا لفظ گدھے یا خچر کے ایک بوجھ پر بھی بولا جاتا جیسا کہ وسق کا لفظ اونٹ کے بوجھ کے ساتھ مخصوص ہے اور او قرتہ کے معنی بوجھ لادنے کے ہیں ۔ نخلۃ مر قرۃ ومو قرۃ پھل سے لدی ہوئی کھجور ۔ الوقار کے معنی سنجدگی اور حلم کے ہیں باوقار اور حلیم آدمی کو دقور وقار اور متوقر کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تم کو کیا ہوا کہ تم خدا کی عظمت کا اعتماد نہیں رکھتے فلان ذو و قرۃ فلاں بر د بار ہے ۔ اور آیت : ۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب 33] اور اپنے گھروں میں بڑی رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قرن وقار بمعنی سکون سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ وقرت اقر وقر ا سے ہے جس کے معنی بیٹھ رہنا کے ہیں ۔ الوقیر ۔ بھیڑ بکری کا بہت بڑا ریوڑ ۔ یہ بھی وقار سے ہے گویا کثرت رفتاری کی وقار سکون پایا جاتا ہے ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - حجب - الحَجْب والحِجَاب : المنع من الوصول، يقال : حَجَبَه حَجْباً وحِجَاباً ، وحِجَاب الجوف :- ما يحجب عن الفؤاد، وقوله تعالی: وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف 46] ، ليس يعني به ما يحجب البصر، وإنما يعني ما يمنع من وصول لذّة أهل الجنّة إلى أهل النّار، وأذيّة أهل النّار إلى أهل الجنّة، کقوله عزّ وجل : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] ، وقال عزّ وجل : وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری 51] ، أي : من حيث ما لا يراه مكلّمه ومبلّغه، وقوله تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] ، يعني الشّمس إذا استترت بالمغیب . والحَاجِبُ : المانع عن السلطان، والحاجبان في الرأس لکونهما کالحاجبین للعین في الذّب عنهما . وحاجب الشمس سمّي لتقدّمه عليها تقدّم الحاجب للسلطان، وقوله عزّ وجلّ : كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین 15] ، إشارة إلى منع النور عنهم المشار إليه بقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] .- ( ح ج ب ) الحجب - والحجاب ( ن ) کسی چیز تک پہنچنے سے روکنا اور درمیان میں حائل ہوجانا اور وہ پر وہ جو دل اور پیٹ کے درمیان حائل ہے اسے حجاب الجوف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف 46] اور ان دونوں ( بہشت اور دوزخ ) کے درمیان پر وہ حائل ہوگا ۔ میں حجاب سے وہ پر دہ مراد نہیں ہے جو ظاہری نظر کو روک لیتا ہے ۔ بلکہ اس سے مراد وہ آڑ ہے جو جنت کی لذتوں کو اہل دوزخ تک پہنچنے سے مانع ہوگی اسی طرح اہل جہنم کی اذیت کو اہل جنت تک پہنچنے سے روک دے گی ۔ جیسے فرمایا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار گھڑی کردی جائے گی اس کے باطن میں رحمت ہوگی اور بظاہر اس طرف عذاب ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری 51] ، اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے بات کرے مگر الہام ( کے زریعے ) سے یا پردہ کے پیچھے سے ۔ میں پردے کے پیچھے سے کلام کرنے کے معنی یہ ہیں کہ جس سے اللہ تعالیٰ کلام کرتے ہیں وہ ذات الہی کو دیکھ نہیں سکتا اور آیت کریمہ ؛ ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] کے معنی ہیں حتی ٰ کہ سورج غروب ہوگیا ۔ الحاجب دربان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بادشاہ تک پہنچنے سے روک دیتا ہے ۔ اور حاجبان ( تنبہ ) بھویں کو کہتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں کے لئے بمنزلہ سلطانی دربان کے ہوتی ہیں ۔ حاجب الشمس سورج کا کنارہ اسلئے کہ وہ بھی بادشاہ کے دربان کی طرح پہلے پہل نمودار ہوتا ہے اور آیت کریمۃ ؛۔ كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین 15] کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے رو ز تجلٰ الہی کو ان سے روک لیا جائیگا ( اس طرح وہ دیدار الہی سے محروم رہیں گے ) جس کے متعلق آیت کریمۃ ؛۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] میں اشارہ کیا گیا ہے ۔- - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور کفار مکہ یعنی ابو جہل اور اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ قرآن کریم اور توحید کے بارے میں ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں اور ہمارے کانوں میں بہرہ پن ہے آپ جو ہم سے کہتے ہیں ہم اسے نہیں سنتے اور کفار اپنے سروں پر بطور مذاق کے کپڑا ڈال لیا کرتے تھے پھر کہتے تھے کہ محإد آپ کے اور ہمارے درمیان ایک پردہ حائل ہے ہم آپ کی باتوں کو نہیں سنتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْٓ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ ” اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل پر دوں میں ہیں اس چیز سے جس کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں “- وَفِیْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ ” اور ہمارے کانوں میں بوجھ ہے “- مشرکین مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی باتیں ادب و احترام کے دائرے میں نہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنگ کرنے کے لیے گستاخانہ اور استہزائیہ انداز میں کرتے تھے۔ وہ لوگ مختلف طریقوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنے اس موقف کو بار بار دہراتے رہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس قدر چاہیں اپنے آپ کو ہلکان کرلیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ باتیں ہمارے دلوں میں اتر کر اپنا اثر نہیں دکھا سکتیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان باتوں کو نہ تو ہم سنتے ہیں اور نہ ہی ان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ بلکہ ایسی باتیں سننے کے حوالے سے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خواہ مخواہ ہمیں تنگ نہ کریں۔- وَّمِنْم بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ ” اور ہمارے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان تو ایک پردہ حائل ہے ‘ تو آپ اپنا کام کریں ‘ ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔ “- یہ گویا ان کی طرف سے چیلنج تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ کرسکتے ہیں کرلیں ‘ جتنا چاہیں زور لگا لیں ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعوت کو چلنے نہیں دیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :2 یعنی اس کے لیے ہمارے دلوں تک پہنچنے کا کوئی راستہ کھلا ہوا نہیں ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :3 یعنی اس دعوت نے ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دی ہے ۔ اس نے ہمیں اور تمہیں ایک دوسرے سے کاٹ دیا ہے ۔ یہ ایک ایسی رکاوٹ بن گئی ہے جو ہم کو اور تم کو جمع نہیں ہونے دیتی ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :4 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم کو تم سے کوئی سروکار نہیں ۔ دوسرے یہ کہ تم اپنی دعوت سے باز نہیں آتے تو اپنا کام کیے جاؤ ، ہم بھی تمہاری مخالفت سے باز نہ آئیں گے اور جو کچھ تمہیں نیچا دکھانے کے لیے ہم سے ہو سکے گا کریں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani