Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 ایمان اور اعمال صالح کے حاملین کو کامیابی اور جنت کی خوشخبری سنانے والا اور مشرکین و مکذبین کو عذاب نار سے ڈرانے والا۔ 4۔ 2 یعنی غور و فکر اور تدبر و تعقل کی نیت سے نہیں سنتے کہ جس سے انہیں فائدہ ہو۔ اسی لئے ان کی اکثریت ہدایت سے محروم ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] قرآن کی چار صفات کا ذکر :۔ یہ تمہیدی آیات ہیں جن میں قرآن کی چند صفات بیان کرکے اسے متعارف کرایا جارہا ہے اس کی پہلی صفت یہ ہے کہ یہ نہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا کلام ہے نہ ہی کسی دوسرے آدمی کا ہے بلکہ یہ اس ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو رحمان و رحیم ہے۔ اپنی مخلوق پر بےانتہا مہربان ہے اور یہ اس کی رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی فلاح وسعادت کے لیے قرآن جیسی عظیم نعمت نازل فرمائی ہے اور اگر کوئی شخص اس نعمت سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو وہ انتہائی ناشکرا اور ناقدر شناس ہے۔ اس کتاب کی دوسری صفت یہ ہے کہ اس کی آیات کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ نئے سے نئے پیرائے میں بار بار بیان کیا گیا ہے تاکہ سمجھنے میں کوئی ابہام، کوئی پیچیدگی اور گنجلک باقی نہ رہے۔ نیز اس میں سینکڑوں قسم کے مضامین ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ کرکے پیش کئے گئے ہیں۔ اس کی تیسری صفت یہ ہے کہ یہ قرآن عربی زبان میں ہے۔ تاکہ اس کے پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور قوم کے لیے نافہمی کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔ تاہم اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اہل علم و دانش ہیں۔ جہالت کی بنا پر اڑ جانے والے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس کی چوتھی صفت یہ ہے کہ یہ کتاب نہ کوئی افسانوی تخیل ہے اور نہ ہی انشا پردازی کا نمونہ ہے بلکہ یہ تمام دنیا کو خبردار کر رہی ہے کہ اس کی تعلیم کو مان لینے کے نتائج شاندار اور نہ ماننے کے نتائج نہایت ہولناک ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) بشیراً و نذیراً : یہ چوتھی اور پانچویں صفت ہے کہ یہ کتاب ایمان لانے والوں کو دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں بہترین انجام کی بشارت دیتی ہے اور جھٹلانے والوں کو دنیا اور آخرت کے بدترین انجام سے ڈراتی ہے۔- (٢) فاعرض اکثرھم فھم لایستعون : قرآن مجید کی صفات بیان کرنے کے بعد اس پر لوگوں کا ردعمل بیان فرمایا کہ ان میں سے اکثر نے منہ موڑ لیا، سو وہ سنتے ہی نہیں۔ اکثر سے مراد یہاں کفار ہیں۔ نہ سننے سے مراد یہ ہے کہ وہ سرے سے سنتے ہیں ہیں، بلکہ مجلس سے اٹھ جاتے ہیں (دیکھیے ص : ٦) یا کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے ہیں اور کپڑے اوڑھ لیتے ہیں۔ (دیکھیے نوح : ٧) یا شور و غل ڈال کر نہ خود سنتے ہیں نہ کسی کو سننے دیتے ہیں، جیسا کہ اسی سورة حم السجدہ کی آیت (٢٦) میں ہے اور نہ سننے سے مراد یہ بھی ہے کہ وہ اسے قبول نہیں کرتے، کیونکہ جب ماننا ہی نہیں تو سننا نہ سننا برابر ہے، جیسا کہ فرمایا :(ولقد ذرانا لجھنم کثیراً من الجن والانس، لھم قلوب لایفقون بھا ، ولھم اعین لایبصرون بھا، ولھم اذان نے بہت سے جن اور انسان جہنم ہی کے لئے پیدا کئے ہیں، ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی ہیں جو بالکل بیخبر ہیں۔ “ اور اسی سورت کی اگلی آیت (وقالوا قلوبنا فی اکنۃ مما تدعونا الیہ و فی اذاننا وقر ومن بیننا و بینک حجاب فاعمل اننا عملون ) (حم السجدۃ : ٥) ” اور انہوں نے کہا ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے اور ہمارے کانوں میں ایک بوجھ ہے اور ہمارے درمیان اور تیرے درمیان ایک حجاب ہے، پس تو عمل کرے، بیشک ہم بھی عمل کرنے والے ہیں۔ “- (٣) قرآن مجید نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق فرمایا :(اکثرھم لایومنون) (البقرہ : ١٠٠)” ان کے اکثر ایمان نہیں رکھتے۔ “ اور فرمایا :(اکثرھم لایعلمون) (الانعام : ٣٨)” ان کے اکثر نہیں جانتے۔ “ اور فرمایا :(اکثرھم یجھلون) (الانعام : ١١١)” ان کے اکثر جہالت برتتے ہیں۔ “ اور فرمایا :(ولا تجد اکثرھم شکرین) (الاعراف : ١٨)” اور تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔ “ اور فرمایا :(وان وجدنآ اکثرھم لفسقین) (الاعراف : ١٠٢)” اور بیشک ہم نے ان کے اکثر کو فاسق ہی پایا۔ “ اور فرمایا :” وما یتبع اکثرھم الا شناً ) (یونس : ٣٦)” اور ان کے اکثر پیروی نہیں کرتے مگر ایک گمان کی۔ “ اور فرمایا :(ولکن اکثرھم لایشکرون) (یونس : ٦٠) ” اور لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے۔ “ اور فرمایا :(وما یومن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون) (یوسف : ١٠٦) ” اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، مگر اس حال میں کہ وہ شریک بنانے والے ہوتے ہیں۔ “ اور فرمایا :(ان فی ذلک لایۃ وما کان اکثرھم مومنین) (الشعرائ : ٨)” بیشک اس میں یقینا عظیم نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔ “ جب کہ ایمان والوں اور شکر گزار بندوں کے متعلق فرمایا کہ وہ بہت تھوڑے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(الا الذین امنوا و عملوا الصلحت وقلیل ماھم) (ص : ٣٧)” مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے اور یہ لوگ بہت ہی کم ہے۔ “ اور فرمایا :(وقلیل من عبادی الشکور) (سبا : ١٣)” اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے پورے شکر گزار ہیں۔ “- ان آیات سے کفار کے رائج کردہ نظام جمہوریت کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے، جس کی بنیاد ہی عوام کی اکثریت پر ہے، وہ مسلم ہوں یا کافر، متقی ہوں یا فاسق۔ پھر اس اکثریت کو دستور اور قانون سازی کا بھی اختیار ہے، خواہ وہ اللہ کے دین کے مطابق ہو یا اس سے متصادم۔ اس لئے دنیا بھر کے کفار تمام مسلمان ملکوں میں جمہوریت رائج کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اسی کے ذریعے سے وہ ان ملکوں میں اللہ اور اس کے رسول کے احاکم کو نافذ ہونے سے روک سکتے ہیں اور اپنا دخل جاری رکھ سکتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کفار مکہ کی طرف سے ایک پیشکش :- کفار قریش جو اس سورت کے بلاواسطہ مخاطب ہیں۔ انہوں نے نزول قرآن کے بعد ابتداء اسلام میں زور قوت کے ساتھ اسلام کی تحریک کو دبانے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ پر ایمان لانے والوں کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچا کر خوفزدہ کرنے کی بہت سی کوششیں کیں۔ لیکن اسلام ان کے علی الرغم بڑھتا اور قوت پکڑتا چلا گیا۔ پہلے حضرت حمزہ جو قریش کے مسلم سردار تھے وہ مسلمان ہوگئے پھر حضرت عمر بن خطاب جیسے قوی اور جری داخل اسلام ہوگئے تو اب قریش مکہ نے تخویف کا راستہ چھوڑ کر ترغیب اور لالچ کے ذریعہ تبلیغ اسلام کا راستہ روکنے کی تدبیریں سوچنا شروع کردیں۔ اسی سلسلہ کا ایک واقعہ ہے جس کو حافظ ابن کثیر نے، مسند براز، ابو یعلی اور بغوی کی روایتوں سے نقل کیا ہے۔ ان سب روایتوں میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے۔ ابن کثیر نے ان میں بغوی کی روایت کو سب سے زیادہ اشبہ واقرب قرار دیا۔ اور ان سب کے بعد محمد بن اسحاق کی کتاب السیرة سے اس واقعہ کو نقل کر کے ان سب روایات پر اس کو ترجیح دی۔ اس لئے یہ قصہ اس جگہ ابن اسحاق ہی کی روایت کے مطابق نقل کیا جاتا ہے۔- محمد بن اسحاق نے بیان کیا کہ محمد بن کعب قرظی کہتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا بڑا سردار مانا جاتا تھا، ایک دن قریش کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد حرام میں بیٹھا ہوا تھا۔ دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے ایک گوشہ میں اکیلے بیٹھے تھے۔ عتبہ نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کی رائے ہو تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کروں اور ان کے سامنے کچھ ترغیب کی چیزیں پیش کروں کہ اگر وہ ان میں سے کسی کو قبول کرلیں تو ہم وہ چیزیں انہیں دے دیں تاکہ وہ ہمارے دین و مذہب کے خلاف تبلیغ کرنا چھوڑ دیں۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ حضرت حمزہ (رض) مسلمان ہوچکے تھے اور مسلمانوں کی قوت روز بروز بڑھ رہی تھی۔ عتبہ کی پوری قوم نے بیک زبان کہا کہ اے ابو الولید (یہ اس کی کنیت ہے) ضرور ایسا کریں اور ان سے گفتگو کرلیں۔- عتبہ اپنی جگہ سے اٹھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ گفتگو شروع کی کہ اے ہمارے بھتیجے آپ کو معلوم ہے کہ ہماری قوم قریش میں آپ کو ایک مقام بلند نسب اور شرافت کا حاصل ہے آپ کا خاندان وسیع اور ہم سب کے نزدیک مکرم ومحترم ہے۔ مگر آپ نے قوم کو ایک بڑی مشکل میں پھنسا دیا ہے۔ آپ ایک ایسی دعوت لے کر آئے، جس نے ہماری جماعت میں تفرقہ ڈال دیا، ان کو بیوقوف بنایا، ان کے معبودوں پر اور ان کے دین پر عیب لگایا اور ان کے جو آباء و اجداد گزر چکے ہیں ان کو کافر قرار دیا۔ اس لئے آپ میری بات سنیں، میں چند چیزیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ ان میں سے کسی کو پسند کرلیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ابو الولید کہئے جو کچھ آپ کو کہنا ہے، میں سنوں گا۔- عتبہ ابوالولید نے کہا کہ اے بھتیجے، آپ نے جو تحریک چلائی ہے اگر اس سے آپ کا مقصد مال جمع کرنا ہے تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کے لئے اتنا مال جمع کردیں گے کہ آپ ساری قوم سے زیادہ مالدار ہوجائیں۔ اور اگر مقصد اقتدار اور حکومت ہے تو ہم آپ کو سب قریش کا سردار تسلیم کرلیں گے اور آپ کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کریں گے۔ اور اگر آپ بادشاہت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور اگر یہ صورت ہے کہ آپ کے پاس آنے والا کوئی جن یا شیطان ہے جو آپ کو ان کاموں پر مجبور کرتا ہے اور آپ اس کو دفع کرنے سے عاجز ہیں تو ہم آپ کے لئے ایسے معالج بلوائیں گے جو آپ کو اس تکلیف سے نجات دلا دیں اس کے لئے ہم اپنے اموال خرچ کریں گے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض اوقات کوئی جن انسان پر غالب آجاتا ہے جس کا علاج کیا جاتا ہے۔ عتبہ یہ طویل تقریر کرتا رہا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سنتے رہے۔- اس کے بعد فرمایا کہ ابو الولید آپ اپنی بات پوری کرچکے ؟ اس نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا کہ اب میری بات سنئے۔ عتبہ نے کہا کہ بیشک میں سنوں گا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے کوئی جواب دینے کی بجائے اس سورة فصلت کی تلاوت شروع فرما دی۔- بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ (آیت) حٰـمۗ تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ كِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّــقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ۔ بزار اور بغوی کی روایت میں ہے کہ جب آپ اس سورت کی آیات پڑھتے پڑھتے اس آیت پر پہنچ گئے، (آیت) فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ۔ تو عتبہ نے آپ کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور اپنے نسب اور رشتہ کی قسم دی کہ ان پر رحم کیجئے۔ آگے کچھ نہ فرمائیے۔ اور ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیات پڑھنا شروع کیں تو عتبہ خاموشی کے ساتھ سننے لگا اور اپنے ہاتھوں کی پیٹھ پیچھے ٹیک لگا لی تاکہ غور سے سن سکے، یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس صورت کی آیت سجدہ پر پہنچ گئے۔ اور آپ نے سجدہ کیا۔ پھر عتبہ کو خطاب کر کے فرمایا۔- اے ابو الولید۔ آپ نے سن لیا، جو کچھ سنا اب آپ کو اختیار ہے جو چاہو کرو۔ عتبہ آپ کی مجلس سے اٹھ کر اپنی مجلس کی طرف چلا تو یہ لوگ دور سے عتبہ کو دیکھ کر آپس میں کہنے لگے کہ خدا کی قسم ابوالولید کا چہرہ بدلا ہوا ہے۔ آپ کا وہ چہرہ نہیں جس میں یہاں سے گئے تھے۔ جب عتبہ اپنی مجلس میں پہنچا تو لوگوں نے پوچھا کہو ابو الولید کیا خبر لائے۔ عتبہ ابو الولید نے کہا کہ میری خبر یہ ہے کہ - ” میں نے ایسا کلام سنا کہ خدا کی قسم اس سے پہلے کبھی ایسا کلام نہیں سنا تھا، خدا کی قسم نہ تو یہ جادو کا کلام ہے نہ شعر یا کاہنوں کا کلام ہے (جو وہ شیاطین سے حاصل کرتے ہیں) ۔ اے میری قوم قریش تم میری بات مانو، اور اس معاملہ کو میرے حوالے کردو، میری رائے یہ ہے کہ تم لوگ ان کے مقابلہ اور ایذاء سے باز آجاؤ اور ان کو ان کے کام پر چھوڑ دو کیونکہ ان کے اس کلام کی ضرور ایک خاص شان ہونے والی ہے۔ تم بھی انتظار کرو، باقی عرب کے لوگوں کا معاملہ دیکھو۔ اگر قریش کے علاوہ باقی عرب لوگوں نے ان کو شکست دے دی تو تمہارا مطلب بغیر تمہاری کسی کوشش کے حاصل ہوگیا اور اگر وہ عرب پر غالب آگئے تو ان کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی، ان کی عزت سے تمہاری عزت ہوگی اور اس وقت تم ان کی کامیابی کے شریک ہو گے “- اس کے ساتھی قریشیوں نے جب اس کا یہ کلام سنا تو کہنے لگے کہ اے ابو الولید تم پر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زبان سے جادو کردیا ہے۔ عتبہ نے کہا میری رائے تو یہی ہے، جو کچھ کہہ چکا آگے تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا۝ ٠ۚ فَاَعْرَضَ اَكْثَرُہُمْ فَہُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ۝ ٤- بشیر - ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64]- والبشیر : المُبَشِّر، قال تعالی: فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] - ( ب ش ر ) البشر - اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- البشیر - خوشخبری دینے والا ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا پہنچا تو کرتہ یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور وہ بینا ہوگئے ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ - اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جنت کی خوشخبری دینے والا اور دوزخ سے ڈرانے والا ہے یعنی قرآن کریم پر ایمان لانے والوں کو جنت کی خوشخبری دیتا ہے اور اس کا انکار کرنے والوں کو دوزخ سے ڈراتا ہے۔- مگر مکہ والوں نے رسول اکرم پر ایمان لانے اور قرآن کریم کے ماننے سے اعراض کیا اور وہ نہ حضور اکرم اور قرآن کریم کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ” بشارت دینے والی اور آگاہ کردینے والی۔ “- یہ کتاب بشارتیں بھی دیتی ہے اور خبردار بھی کرتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تبشیر اور انذار کا حق قرآن مجید کے ذریعے سے ہی ادا فرماتے تھے۔ جیسا کہ سورة مریم میں فرمایا گیا : فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰــہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا ۔ ” پس ہم نے توآسان کردیا ہے اس (قرآن) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان میں ‘ تاکہ آپ بشارت دیں اس کے ساتھ متقین کو اور خبردار کریں اسی کے ذریعے جھگڑالو قوم کو۔ “- فَاَعْرَضَ اَکْثَرُہُمْ فَہُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ” تو ان کی اکثریت نے اعراض کیا اور وہ سنتے ہی نہیں ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :1 یہ اس سورہ کی مختصر تمہید ہے ۔ آگے کی تقریر پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اس تمہید میں جو باتیں ارشاد ہوئی ہیں وہ بعد کے مضمون سے کیا مناسبت رکھتی ہیں ۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کلام خدا کی طرف سے نازل ہو رہا ہے ۔ یعنی تم جب تک چاہو یہ رٹ لگاتے رہو کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود تصنیف کر رہے ہیں ، لیکن واقعہ یہی ہے کہ اس کلام کا نزول خداوند عالم کی طرف سے ہے ۔ مزید براں یہ ارشاد فرما کر مخاطبین کو اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اگر اس کلام کو سن کر چیں بجبیں ہوتے ہو تو تمہارا یہ غصہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہیں بلکہ خدا کے خلاف ہے ، اگر اسے رد کرتے ہو تو ایک انسان کی بات نہیں بلکہ خدا کی بات رد کرتے ہو ، اور اگر اس سے بے رخی برتتے ہو تو ایک انسان سے نہیں بلکہ خدا سے منہ موڑتے ہو ۔ دوسری بات یہ ارشاد ہوئی ہے کہ اس کا نازل کرنے والا وہ خدا ہے جو اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان ( رحمان اور رحیم ) ہے ۔ نازل کرنے والے خدا کی دوسری صفات کے بجائے صفت رحمت کا ذکر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس نے اپنی رحیمی کے اقتضا سے یہ کلام نازل کیا ہے ۔ اس سے مخاطبین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس کلام سے اگر کوئی بے رخی برتتا ہے ، یا اسے رد کرتا ہے ، یا اس پر چین بجبیں ہوتا ہے تو در حقیقت اپنے آپ سے دشمنی کرتا ہے ۔ یہ تو ایک نعمت عظمٰی ہے جو خدا نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر انسانوں کی رہنمائی اور فلاح و سعادت کے لیے نازل کی ہے ۔ خدا اگر انسانوں سے بے رخی برتتا تو انہیں اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا اور کچھ پروا نہ کرتا کہ یہ کس گڑھے میں جا کر گرتے ہیں ۔ لیکن یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ پیدا کرنے اور روزی دینے کے ساتھ ان کی زندگی سنورنے کے لیے علم کی روشنی دکھانا بھی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسی بنا پر یہ کلام اپنے ایک بندے پر نازل کر رہا ہے ۔ اب اس شخص سے بڑھ کر ناشکرا اور آپ اپنا دشمن کون ہو گا جو اس رحمت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا اس سے لڑنے کے لیے دوڑے ۔ تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ اس کتاب کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں ۔ اس میں کوئی بات گنجلک اور پیچیدہ نہیں ہے کہ کوئی شخص اس بنا پر اسے قبول کرنے سے معذوری ظاہر کر دے کہ اس کی سمجھ میں اس کتاب کے مضامین آتے نہیں ہیں ۔ اس میں تو صاف صاف بتایا گیا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ، صحیح عقائد کون سے ہیں اور غلط عقائد کون سے ، اچھے اخلاق کیا ہیں اور برے اخلاق کیا ، نیکی کیا ہے اور بدی کیا ، کس طریقے کی پیروی میں انسان کی بھلائی ہے اور کس طریقے کو اختیار کرنے میں اس کا اپنا خسارہ ہے ۔ ایسی صاف اور کھلی ہوئی ہدایت کو اگر کوئی شخص رد کرتا ہے یا اس کی طرف توجہ نہیں کرتا تو وہ کوئی معذرت پیش نہیں کر سکتا ۔ اس کے اس رویے کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ خود بر سر غلط رہنا چاہتا ہے ۔ چوتھی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ عربی زبان کا قرآن ہے ۔ مطلب یہ ہے اگر یہ قرآن کسی غیر زبان میں آتا تو اہل عرب یہ عذر پیش کر سکتے تھے کہ ہم اس زبان ہی سے نابلد ہیں جس میں خدا نے اپنی کتاب بھیجی ہے ۔ لیکن یہ تو ان کی اپنی زبان ہے ۔ اسے نہ سمجھ سکنے کا بہانا نہیں بنا سکتے ۔ ( اس مقام پر آیت 44 بھی پیش نظر رہے جس میں یہی مضمون ایک دوسرے طریقے سے بیان ہوا ہے ۔ اور یہ شبہ کہ پھر غیر اہل عرب کے لیے تو قرآن کی دعوت کو قبول نہ کرنے کے لیے ایک معقول عذر موجود ہے ، اس سے پہلے ہم رفع کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، ص 383 ، 384 ۔ رسائل و مسائل ، حصہ اول ، ص 19 تا 23 ) پانچویں بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو علم رکھتے ہیں ۔ یعنی اس سے فائدہ صرف دانا لوگ ہی اٹھا سکتے ہیں ۔ نادان لوگوں لئے یہ اسی طرح بے فائدہ ہے جس طرح ایک قیمتی ہیرا اس شخص کے لئے بے فائدہ ہے جو ہیرے اور پتھر کا فرق نہ جانتا ہو ۔ چھٹی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب بشارت دینے والی اور ڈرانے والی ہے ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ محض ایک تخیل ، ایک فلسفہ ، اور ایک نمونہ انشاء پیش کرتی ہو جسے ماننے یا نہ ماننے کا کچھ حاصل نہ ہو ۔ بلکہ یہ ہانکے پکارے تمام دنیا کو خبردار کر رہی ہے کہ اسے ماننے کے نتائج نہایت شاندار اور نہ ماننے کے نتائج انتہائی ہولناک ہیں ۔ ایسی کتاب کو صرف ایک بیوقوف ہی سرسری طور پر نظر انداز کر سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani