53۔ 1 جن سے قرآن کی صداقت اور اس کا من جانب اللہ ہونا واضح ہوجائے گا یعنی انہ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے بعض نے اس کا مرجع اسلام یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا ہے۔ مآل سب کا ایک ہی ہے۔ آفاق افق کی جمع ہے کنارہ مطلب ہے کہ ہم اپنی نشانیاں باہر کناروں میں بھی دکھائیں گے اور خود انسان کے اپنے نفسوں کے اندر بھی۔ چناچہ آسمان و زمین کے کناروں میں بھی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں مثلا سورج، چاند، ستارے، رات اور دن، ہوا اور بارش، گرج چمک، بجلی، کڑک، نباتات وجمادات، اشجار، پہاڑ اور انہار و بحار وغیرہ۔ اور آیات انفس سے انسان کا وجود، جن اخلاط ومواد اور ہیئتوں پر مرکب ہے وہ مراد ہیں۔ جن کی تفصیلات طب وحکمت کا دلچسپ موضوع ہے۔ بعض کہتے ہیں، آفاق سے مراد شرق وغرب کے وہ دور دراز کے علاقے ہیں۔ جن کی فتح کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے آسان فرما دیا اور انفس سے مراد خود عرب کی سرزمین پر مسلمانوں کی پیش قدمی ہے جیسے جنگ بدر اور فتح مکہ وغیرہ فتوحات میں مسلمانوں کو عزت و سرفرازی عطا کی گئی استفہام اقراری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اقوال و افعال کے دیکھنے کے لئے کافی ہے، اور وہی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس کے سچے رسول حضرت محمد پر نازل ہوا۔
[٧١] آفاق وانفس کے دو مفہوم :۔ اس آیت کے دو مطلب ہیں اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ آفاق سے مراد عرب کے قرب و جوار کے ممالک مراد لیے جائیں اور انفس سے عرب قوم اور بالخصوص قریش قوم مراد لی جائے جس سے رسول اللہ نسبی تعلق رکھتے تھے اس لحاظ سے اس آیت کا جو مطلب ہے وہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ چند ہی سالوں میں قریشی سرداروں کو ذلت سے دوچار ہونا پڑا اور کفر و شرک کی کمر ٹوٹ گئی۔ آپ کی زندگی ہی میں کفر و شرک کو عرب کی سرزمین سے دیس نکالا مل گیا اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) اور سیدنا عمر کے دور میں پے در پے فتوحات کے نتیجہ میں عرب کے ارد گرد کے ملکوں میں اسلام کا جو بول بالا ہوا وہ ہر ایک نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یہ اللہ کی نشانیاں صرف ان معنوں میں نہ تھیں کہ مسلمان ملکوں پر ملک فتح کرتے چلے گئے اور وہ مفتوح قوموں کے جان و مال کے مالک بن گئے جیسا کہ اس دنیا میں عموماً ہوتا ہے بلکہ یہ ان معنوں میں اللہ کی نشانیاں تھیں کہ یہ فتوحات اپنے جلو میں ایک عظیم الشان مذہبی، اخلاقی، ذہنی و فکری، تہذیبی و سیاسی اور تمدنی و معاشی انقلاب بھی لا رہی تھی اور ان فتوحات کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے انسان کے بہترین جوہر کھلتے اور بدترین اوصاف مٹتے چلے گئے۔- اور دوسرا یہ کہ آفاقی آیات سے مراد کائنات میں ہر سو بکھرے ہوئے اللہ کے عجائبات مراد لیے جائیں اور آیات انفس سے مراد انسان کے اندر کی دنیا لی جائے۔ جنہیں بالترتیب عالم اکبر اور عالم اصغر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس کائنات میں اور انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی لاتعداد نشانیاں موجود ہیں۔ اور ان سب کا نہ انسان آج تک احاطہ کرسکا ہے اور نہ آئندہ کبھی کرسکے گا۔ جبکہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی نئی سے نئی نشانی انسان کے علم میں آجاتی ہے اور آئندہ بھی آتی رہے گی۔ جو قرآن کے بیان کی صداقت پر گواہی دیتی رہے گی۔ نئے سے نئے عجائبات قدرت انسان کے علم میں آتے رہیں گے۔ خواہ ان کا تعلق انسان سے باہر کی دنیا سے ہو یا اس کے اندر کی دنیا سے۔- انسان کو کائنات اصغر کہنے کی بھی کئی وجوہ ہیں۔ جن میں ایک یہ ہے کہ کائنات میں موجود چیزوں کی خصوصیات اس میں موجود ہیں۔ مثلاً زمین پر جو اشیاء پائی جاتی ہیں وہ یا جمادات سے تعلق رکھتی ہیں یا نباتات سے اور یا حیوانات سے۔ جسامت کے لحاظ سے انسان جمادی ہے۔ پھر یہ بڑھتا بھی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا نفس نباتی ہوا۔ پھر یہ حرکت بھی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ نفس حیوانی ہوا۔ پھر اس سے بھی زیادہ کامل ہوا تو اسے نفس انسانی ملا۔ جس طرح کسی عرق کو ایک آتشہ، پھر دو آتشہ، پھر سہ آتشہ کرکے اسے انتہائی لطیف اور سریع التاثیر بنایا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مشت خاک کو کمال دیتے دیتے انسان بنادیا۔ اور اسے ایسی قوائے انسانیہ عطا کی گئیں جن سے وہ امور کلی دریافت کرنے کے قابل بن گیا۔ اب انسان کے اندر جس جس قسم کی قوتیں اور قدرتیں رکھ دی گئی ہیں ان کا احاطہ کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ حالانکہ وہ اس کے اندر ہر وقت موجود ہیں اور موجود رہتی ہیں۔ پھر انسان کے اندر نصب شدہ مشینری کو دریافت کرکے انسان کئی طرح کی ایجادات معرض وجود میں لانے کے قابل ہوگیا۔ پھر اس کے نفس انسانی کا تعلق عالم ملکوت سے بھی ہے۔ اس طرح انسان کے اندر کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی لا انتہا قدرتیں اور عجائبات موجود ہیں جن کا اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔- [٧٢] اس جملہ کے تین مطلب ہوسکتے ہیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب ہوگا کہ اگر یہ لوگ قرآن کی حقانیت کو تسلیم نہیں کرتے تو نہ کریں۔ اس کی حقانیت پر کیا تمہارے پروردگار کی گواہی کافی نہیں جو ہر جگہ موجود اور ہر چیز کو بچشم خود دیکھ رہا ہے ؟ دوسرا مطلب یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کو اپنے کرتوتوں سے رک جانے کے لیے یہ بات کافی نہیں کہ آپ کا پروردگار ان کی ہر ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے ؟ اور تیسرا مطلب یہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کافر آپ کو کن کن طریقوں سے ستا رہے ہیں پھر کیا آپ کے اطمینان کے لیے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر خود گواہ ہے اور وہ انہیں ان کی کرتوتوں کی سزا دیئے بغیر چھوڑے گا نہیں ؟
(١) سنریھم ایتنا فی الافاق و فی انفسھم …:” الفاق “” افق “ کی جمع ہے، کنارے دور وہ جگہ جہاں آسمان و زمین ملتے ہوئے نظر آتے ہیں، افق کہلاتی ہے۔ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک یہ کہ ” انہ “ کی ضمیر سے مراد قرآن اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یعنی ہم انہیں دنیا بھر میں اور خود ان میں اپنی ایسی نشانیاں دکھا دیں گے جن سے ثابت ہوجائے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قرآن حق ہے۔ نشانیوں سے مراد ظاہری اسباب کی قلت کے باوجو دسلام کی فتوحات ہیں۔ ” الافاق “ سے مراد مکہ کے گرد و پیش میں اسلام کا غلبہ ہے جو بدر، احد ، خندق اور دوسرے معرکوں کے ساتھ جزیرہ عرب پر اور آخر کار پوری زمین کے مشرقی اور مغربی کنن اورں تک پھیل گیا اور ” انفسھم “ سے مراد مکہ کی فتح ہے جو بجائے خود اسلام کے حق ہونے کی بہت بڑی دلیل تھی، جس کے بعد لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے۔ مطلب یہ کہ عنقریب جب گرد و پیش کے ممالک اور خود ان (قریش) پر فتوحات حاصل ہوں گی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے اسلام کے عہد میں حاصل ہوئیں، تب انہیں یقین حاصل ہوگا کہ قرآن اور پیغمبر حق تھے اور یہ ناحق انہیں جھٹلاتے رہے۔- دوسری تفسیر یہ کہ ” انہ “ کی ضمیر سے مراد اللہ تعالیٰ ہے، مطلب یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کے دلائل پر غور کریں گے، جو تمام آفاق یعنی زمین و آسمان میں پائے جاتے ہیں، مثلاً سورج چاند، نباتات و جمادات و حیوانات وغیرہ اور جو خود ان کی ذات میں پائے جاتے ہیں، مثلاً نطفے سے لے کر پیدائش تک، پھر بچپن سے لے کر موت تک، پھر ان کے وجود کی حیرت انگیز بناوٹ پر، جن کے عجائبات کے متعلق ہر روز نئے سے نئے انکشافات ہوتے رہیں گ ے، تو انہیں یین ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے۔ پہلے مططلب کو ابن جریر طبری نے ترجیح دی ہے، جبکہ دوسرا مطلب بعض تابعین نے اختیار فرمایا ہے۔ دونوں مطلب بیک وقت بھی مراد ہوسکتے ہیں۔- (٢) اولم یکف بربک …: یعنی مسلمانوں کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی کہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ کفار قریش پر اور کل عالم پر کیسے ممکن ہے تو اسے کہو، کیا تمہارا رب یہ کام کرنے کے لئے اکیلا کافی نہیں ؟ اس لئے کہ وہ اکیلا ہر چیز اور ہر کام کا نگران اور اس پر شاہد ہے، اسے کسی کی مدد یا مشورے کی کوئی حاجت نہیں۔
(آیت) سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ۔ یعنی اپنی قدرت کاملہ اور وحدانیت کی نشانیاں ان لوگوں کو دکھلاتے ہیں آفاق میں بھی اور خود ان کے اپنے تن بدن میں بھی۔ آفاق افق کی جمع ہے، آسمان کے نچلے کنارے کو کہا جاتا ہے۔ مراد آفاق سے اطراف عالم ہیں یعنی سارے عالم کی بڑی چھوٹی مصنوعات و مخلوقات آسمان و زمین اور ان کے درمیانی مخلوقات میں سے ہر چیز کو دیکھو تو وہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے علم وقدرت کے محیط ہونے اور یکتا ہونے کی شہادت دیتی ہیں اور اس سے زیادہ قریب کی چیز خود انسان کی اپنی جان اور جسم ہے۔ اس کے ایک ایک عضو اور اس میں کام کرنے والی باریک اور نازک مشینوں کو دیکھئے کہ ان میں انسان کی راحت و سہولت کے کیسے کیسے انتظام رکھے گئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ پھر ان نازک مشینوں کو اتنا مضبوط بنایا ہے کہ ستر اسی سال تک وہ گھستی نہیں۔ انسان کے عام جوڑوں میں جو اسپرنگ لگے ہوئے ہیں اگر انسانی صفت ہوتی تو فولادی اسپرنگ بھی گھس کر ختم ہوجاتے۔ یہاں ہاتھوں کی کھال اور اس پر لکھی ہوئی لکیریں اور خطوط بھی ساری عمر نہیں گھستے۔ جن میں کوئی ادنیٰ عقل و شعور کا آدمی بھی غور کرے تو اس یقین پر مجبور ہوگا کہ اس کی پیدا کرنیوالی اور قائم رکھنے والی کوئی ایسی ذات ہے جس کے علم وقدرت کی کوئی انتہا نہیں اور جس کا مثل کوئی نہیں ہو سکتا۔- تمت سورة حم السجدة بعون اللہ وحدہ للعشرین من الربیع الثانی 1392 ھ یوم السبت
سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ٠ ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ ٥٣- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- أفق - قال تعالی: سَنُرِيهِمْ آياتِنا فِي الْآفاقِ [ فصلت 53] أي : في النواحي، والواحد : أُفُق وأفق ويقال في النسبة إليه : أُفُقِيّ ، وقد أَفَقَ فلان : إذا ذهب في الآفاق، وقیل : الآفِقُ للذي يبلغ النهاية في الکرم تشبيها بالأفق الذاهب في الآفاق .- ( ا ف ق ) الافق ۔ کنارہ جمع آفاق ۔ قرآن میں ہے : سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ [ فصلت : 53] ہم عنقریب ان کو اطراف ( عالم میں بھی ۔۔ نشانیاں دکھائینگے آفاق کے معنی اطراف کے ہیں اس کا واحد افق وافق ہے اور نسبت کے وقت افقی کہا جاتا ہے اور افق فلان کے معنی آفاق ( اطراف عالم ) میں جانے کے ہیں اور افق کے اطراف میں انتہائی بعد اور وسعت سے تشبیہ کے طور پر اٰفق کا لفظ انتہائی سخی پر بولا جاتا ہے ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر :- مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه .- شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔
اے محمد ہم مکہ والوں کو اپنی قدرت اور وحدانیت کی نشانیاں ان کے اردگرد میں بھی دکھائیں گے جیسا کہ عاد وثمود اور ان کے بعد والے لوگوں کی ویران بستیاں پڑی ہوئی اور ان کو بھی امراض و تکالیف اور مصیبتوں میں گرفتار کر کے خود ان کی ذات میں بھی دکھائیں گے۔
آیت ٥٣ سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ ” عنقریب ہم انہیں دکھائیں گے اپنی نشانیاں آفاق میں بھی اور ان کی اپنی جانوں کے اندر بھی “- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی جانوں اور زمین و آسمان کے اندر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مبرہن انداز میں ان لوگوں کے سامنے آتی چلی جائیں گی۔- حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ” یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔ “- اس آیت میں دراصل معلومات کے اس کی طرف اشارہ ہے جو سائنسی ترقی کے باعث آج کے دور میں ممکن ہوا ہے۔ موجودہ دور سائنس کا دور ہے۔ اس دور کی تاریخ زیادہ سے زیادہ دو سو برس پرانی ہے اور سائنسی ترقی میں یہ برق رفتاری جو آج ہم دیکھ رہے ہیں اسے شروع ہوئے تو ابھی نصف صدی ہی ہوئی ہے۔ چناچہ پچھلی نصف صدی سے سائنسی ترقی کے سبب مسلسل حیرت انگیز انکشافات ہو رہے ہیں اور آئے روز نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں۔ ان سائنسی معلومات کے اکتشافات اور حقائق کے بےنقاب ہونے سے بتدریج قرآن کا حق ہونا ثابت ہوتا چلا جا رہا ہے۔- دورئہ ترجمہ قرآن کے آغاز میں ” تعارفِ قرآن “ کے تحت اعجازِ قرآن کے مختلف پہلوئوں پر تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے۔ ان تمام پہلوئوں کا احصاء اور احاطہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت اعجازِ قرآن کے جس پہلو نے اہل ِعرب کو سب سے زیادہ متاثر بلکہ مسحور کیا تھا وہ اس کی فصاحت ‘ بلاغت اور ادبیت تھی۔ اس وقت قرآن نے عرب بھر کے شعراء ‘ خطباء اور فصحاء کو ان کے اپنے میدان میں چیلنج کیا کہ اگر تم لوگ دعویٰ کرتے ہو کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھائو۔ یہ چیلنج انہیں اس میدان میں دیا گیا تھا جس کے شہسوار ہونے پر انہیں خود اپنے اوپر ناز تھا اور جس کے نشیب و فراز کو وہ خوب اچھی طرح سے سمجھتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس چیلنج کا جواب نہ دے سکے۔ - نزولِ قرآن کے وقت عربوں کے ہاں چونکہ شاعری اور سخن وری و سخن فہمی کا بہت چرچا تھا اس لیے اس دور میں قرآن نے اپنے اسی ” اعجاز “ کو نمایاں کیا تھا۔ آج جبکہ سائنس کا دور ہے تو آج اعجازِ قرآن کے سائنسی پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ قرآن نے انسان کو کائنات میں بکھری ہوئی آیاتِ الٰہیہ کا مشاہدہ کرنے اور ان پر غور کرنے کی بار بار دعوت دی ہے ‘ لیکن ظاہر بات ہے کہ اس میدان میں چودہ سو سال پہلے کے مشاہدے اور آج کے مشاہدے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پرانے زمانے کا انسان کائنات کے عجائبات کو ننگی آنکھ سے دیکھتا تھا جبکہ آج کے انسان کو بہت بڑی بڑی ٹیلی سکوپس ‘ الیکٹرانک مائیکرو سکوپس اور نہ جانے کون کون سی سہولیات میسر ہیں۔ بہرحال آج خصوصی محنت اور کوشش سے یہ حقیقت دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ جن حقائق تک سائنس آج پہنچ پا رہی ہے قرآن نے بنی نوع انسان کو چودہ صدیاں پہلے ان سے متعارف کر ادیا تھا۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ابھی تک کسی مسلمان اسکالر کو قرآن اور سائنسی معلومات کا تقابلی مطالعہ ( ) کرکے یہ ثابت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ اب تک کے تمام سائنسی انکشافات قرآن کی فراہم کردہ معلومات کے عین مطابق ہیں۔ حال ہی میں فرانسیسی سرجن ڈاکٹر موریس بوکائی [ (1920- 1998) ] نے ” بائبل ‘ قرآن اور سائنس “ ( ) کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ‘ جس میں اس نے ثابت کیا ہے کہ اب تک جو بھی سائنسی حقائق دنیا کے سامنے آئے ہیں وہ نہ صرف قرآن میں دی گئی تفصیلات کے عین مطابق ہیں بلکہ ان سب کے مطالعہ سے قرآن کی حقانیت بھی ثابت ہوتی ہے۔ اپنی اسی تحقیق کی بدولت موصوف سرجن کو ایمان کی دولت بھی نصیب ہوئی۔ - قرآن کی بعض آیات تو اگرچہ آج بھی سائنسی حوالے سے تحقیق طلب ہیں ‘ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اب تک سامنے آنے والے سائنسی انکشافات کی روشنی میں قرآن کی متعلقہ آیات و عبارات کے مفاہیم و مطالب مزید نکھرکر سامنے آئے ہیں۔ بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قرآن کے بعض الفاظ کے جو معانی پرانے زمانے میں سمجھے گئے تھے وہ غلط ثابت ہوئے ہیں اور ان کی جگہ ان الفاظ کے زیادہ واضح اور زیادہ منطقی معانی سامنے آئے ہیں۔ مثلاً لفظ عَلَقَہ کا وہ مفہوم جو قبل ازیں سورة المومنون کی آیت ١٤ کے ضمن میں بیان ہوا ہے زیادہ بہتر اور درست ہے۔ اور لفظ ” فائدہ “ اور ” فواد “ کی وہ وضاحت جو سورة بنی اسرائیل کی آیت ٣٦ کے تحت دی گئی ہے زیادہ واضح اور منطقی ہے۔ - اسی طرح اجرام سماویہ کے بارے میں قرآنی الفاظ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ ۔ (یٰسٓ) کا وہ مفہوم جو آج کے انسان کو معلوم ہوا ہے وہ پرانے زمانے کے انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ‘ بلکہ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اجرامِ فلکی اور ان کی گردش سے متعلق مختلف زمانوں میں مختلف موقف اختیار کیے گئے۔ کسی زمانے میں انسان سمجھتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج حرکت میں ہے۔ پھر اسے یوں لگا جیسے سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔ حتیٰ کہ آج کے انسان نے اپنی تحقیق و جستجو سے یہ ثابت کردیا کہ سچ یہی ہے : وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ 4 کہ یہ سب ہی اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ بلکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ متحرک ہے ‘ حتیٰ کہ ہر ایٹم ( ) کے اندر اس کے اجزاء (الیکٹرانز ‘ پروٹانز اور نیوٹرانز) بھی بےتابانہ مسلسل گردش میں ہیں۔ اقبالؔ نے اپنے اس شعر میں اسی حقیقت کی ترجمانی کی ہیـ: ؎- سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں - ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں - موجودہ دور میں اگرچہ مسلمانوں کو قرآن اور سائنس کے حوالے سے خصوصی اہتمام کے ساتھ تحقیق و تدقیق کرنے کی ضرورت ہے ‘ لیکن ایسی کسی تحقیق کے دوران خواہ مخواہ تکلف کرنے اور زبردستی کھینچ تان کر کے قرآن کے دور ازکار مفاہیم نکالنے کی کوشش میں نہیں رہنا چاہیے۔ بلکہ جہاں پر عقلی اور سائنسی طور پر بات سمجھ میں نہ آئے وہاں تسلیم کرلینا چاہیے کہ ابھی بات واضح نہیں ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے : کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج ( آل عمران : ٧) ۔ ایک وقت ضرور آئے گا کہ جو بات آج واضح نہیں ہے وہ واضح ہوجائے گی ‘ اور خارج کی دنیا میں اس حوالے سے جو حقائق بھی منکشف ہوں گے وہ قرآن کے الفاظ کے عین مطابق ہوں گے۔ ان شاء اللہ البتہ جن سائنسی حقائق کی اب تک قرآن کے ساتھ مطابقت ثابت ہوچکی ہے انہیں عام کر کے قرآن کی حقانیت کے سائنٹفک ثبوت کے طور پر لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ - آیت زیر مطالعہ میں فعل مضارع (سَنُرِیْہِمْ ) سے پہلے ” س “ کی وجہ سے اس لفظ کے مفہوم میں خصوصی طور پر مستقبل کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی مستقبل میں ہم انہیں اپنی ایسی نشانیاں دکھائیں گے جن سے قرآن کی حقانیت واضح ہوجائے گی۔ اس ” مستقبل “ کا احاطہ کرنے کی کوشش میں اگر چشم تصور کو جنبش دی جائے تو اس کی حدود نزول قرآن کے دور کی فضائوں سے لے کر زمانہ قیامت کی دہلیز تک وسعت پذیر نظر آئیں گی۔ آج وقت کی شاہراہ پر انسانی علم کی برق رفتاری کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ انسانی تحقیق کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خلاء کی پہنائیوں کے راز اس کے سامنے ایک ایک کر کے بےنقاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سمندروں کی اتھاہ گہرائیاں اس کی عمیق نظری کے سامنے سرنگوں ہیں۔ قطب شمالی ( ) اور قطب جنوبی) ( سمیت زمین کا چپہ چپہ ہر پہلو سے نت نئی تحقیق کی زد میں آچکا ہے۔ غرض سائنسی ترقی کا یہ ” جن “ کہکشائوں کی بلندیوں سے لے کر تحت الثریٰ ّکی گہرائیوں تک معلومات کے خزانے اکٹھے کر کے بنی نوع انسان کے قدموں میں ڈالتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن الحمد للہ اس تحقیق کے ذریعے سے اب تک جو حقائق بھی سامنے آئے ہیں وہ سب کے سب قرآن کی حقانیت پر گواہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے علم و تحقیق کا یہ قافلہ وقت کی شاہراہ پر اپنا سفر قیامت تک جاری رکھے گا۔ ہمارا ایمان ہے کہ اس سفر کے دوران ایجادو دریافت کے میدان میں انسان کو جو کامیابیاں بھی نصیب ہوں گی اور انفس و آفاق کی دنیائوں کے جو جو راز بھی منکشف ہوں گے وہ سب کے سب بالآخر قرآن حکیم کی حقانیت پر مہر ِتصدیق ثبت کرتے چلے جائیں گے۔- اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ ” کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ کا ربّ ہرچیز پر گواہ ہے “- کائنات کی ہرچیز اس کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ لیکن اس نے قرآن میں صرف اسی حد تک حقائق کا ذکر کیا ہے جس حد تک انسان انہیں سمجھ سکتا ہے اور اسی انداز میں ان کا ذکر کیا ہے جس انداز میں انسانی فہم و شعور کی رسائی ان تک ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے وہ حقائق جن تک آج کے انسان کی تدریجاً رسائی ہوئی ہے اگر وہ آج سے پندرہ سو سال پہلے من و عن بیان کردیے جاتے تو اس وقت انہیں کون سمجھ سکتا تھا۔
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :70 اس آیت کے دو مفہوم ہیں اور دونوں ہی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں : ایک مفہوم یہ ہے کہ عنقریب یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام گرد و پیش کے ممالک پر چھا گئی ہے اور یہ خود اس کے آگے سرنگوں ہیں ۔ اس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ آج ان سے کہا جا رہا ہے اور یہ مان کر نہیں دے رہے ہیں ، وہ سراسر حق تھا ۔ بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ محض کسی دعوت کا غالب آ جانا اور بڑے بڑے علاقے فتح کر لینا تو اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہے ، باطل دعوتیں بھی چھا جاتی ہیں اور ان کے پیرو بھی ملک پر ملک فتح کرتے چلے جاتے ہیں ۔ لیکن یہ ایک سطحی اعتراض ہے جو پورے معاملے پر غور کیے بغیر کر دیا گیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں جو حیرت انگیز فتوحت اسلام کو نصیب ہوئیں وہ محض اس معنی میں اللہ کی نشانیاں نہ تھیں کہ اہل ایمان ملک پر ملک فتح کرتے چلے گئے ، بلکہ اس معنی میں تھیں کہ یہ فتح ممالک دنیا کی دوسری فتوحات کی طرح نہیں تھی جو ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کو دوسروں کی جان و مال کا مالک بنا دیتی ہیں اور خدا کی زمین ظلم سے بھر جاتی ہے ۔ اس کے بر عکس یہ فتح اپنے جِلَو میں ایک عظیم الشان مذہبی ، اخلاقی ، ذہنی و فکری ، تہذیبی و سیاسی اور تمدنی و معاشی انقلاب لے کر آئی تھی جس کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے ، انسان کے بہترین جوہر کھلتے چلے گئے اور بد ترین اوصاف دبتے چلے گئے ۔ دنیا جن فضائل کو صرف تارک الدنیا درویشوں اور گوشے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کے اندر ہی دیکھنے کی امید رکھتی تھی اور کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ کاروبار دنیا چلانے والوں میں بھی وہ پائے جا سکتے ہیں ، اس انقلاب نے وہ فضائل اخلاق فرمانرواؤں کی سیاست میں ، انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کی عدالت میں ، فوجوں کی قیادت کرنے والے سپہ سالاروں کی جنگ اور فتوحات میں ، ٹیکس وصول کرنے والوں کی تحصیلداری میں اور بڑے بڑے کاروبار چلانے والوں کی تجارت میں جلوہ گر کر کے دکھا دیے ۔ اس نے اپنے پیدا کردہ معاشرے میں عام انسانوں کو اخلاق اور کردار اور طہارت و نظافت کے اعتبار سے اتنا اونچا اٹھایا کہ دوسرے معاشروں کے چیدہ لوگ بھی ان کی سطح سے فروتر نظر آنے لگے ۔ اس نے اوہام و خرافات کے چکر سے نکال کر انسان کو علمی تحقیق اور معقول طرز فکر و عمل کی صاف شاہراہ پر ڈال دیا ۔ اس نے اجتماعی زندگی کے ان امراض کا علاج کیا جن کے علاج کی فکر تک سے دوسرے نظام خالی تھے ، یا اگر انہوں نے اس کی فکر کی بھی تو ان امراض کے علاج میں کامیاب نہ ہو سکے ، مثلاً رنگ و نسل اور وطن و زبان کی بنیاد پر انسانوں کی تفریق ، ایک ہی معاشرے میں طبقات کی تقسیم اور ان کے درمیان اونچ نیچ کا امتیاز اور چھوت چھات ، قانونی حقوق اور عملی معاشرت میں مساوات کا فقدان ، عورتوں کی پستی اور بنیادی حقوق تک سے محرومی ، جرائم کی کثرت ، شراب اور نشہ آور چیزوں کا عام رواج ، حکومت کا تنقید و محاسبے سے بالا تر رہنا ، عوام کا بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہونا ، بین الاقوامی تعلقات میں معاہدات کی بے احترامی ، جنگ میں وحشیانہ حرکات ، اور ایسے ہی دوسرے امراض ۔ سب سے بڑھ کر خود عرب کی سر زمین میں اس انقلاب نے دیکھتے دیکھتے طوائف الملوکی کی جگہ نظم ، خونریزی و بد امنی کی جگہ امن ، فسق و فجور کی جگہ تقویٰ و طہارت ، ظلم و بے انصافی کی جگہ عدل ، گندگی و ناشائستگی کی جگہ پاکیزگی اور تہذیب ، جہالت کی جگہ علم ، اور نسل در نسل چلنے والی عداوتوں کی جگہ اخوت و محبت پیدا کر دی ، اور جس قوم کے لوگ اپنے قبیلے کی سرداری سے بڑھ کر کسی چیز کا خواب تک نہ دیکھ سکتے تھے انہیں دنیا کا امام بنا دیا ۔ یہ تھیں وہ نشانیاں جو اسی نسل نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں جسے مخاطب کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ یہ آیت سنائی تھی ۔ اور اس کے بعد سے آج تک اللہ تعالیٰ ان نشانیوں کو برابر دکھائے جا رہا ہے ۔ مسلمانوں نے اپنے زوال کے دور میں بھی اخلاق کی جس بلندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی گرد کو بھی وہ لوگ کبھی نہ پہنچ سکے جو تہذیب و شائستگی کے علمبردار بنے پھرتے ہیں ۔ یورپ کی قوموں نے افریقہ ، امریکہ ، ایشیا اور خود یورپ میں مغلوب قوموں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا ہے ، مسلمانوں کی تاریخ کے کسی دور میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں پیش کی جا سکتی ۔ یہ قرآن ہی کی برکت ہے جس نے مسلمانوں میں اتنی انسانیت پیدا کر دی ہے کہ وہ کبھی غلبہ پا کر اترے ظالم نہ بن سکے جتنے غیر مسلم تاریخ کے ہر دور میں ظالم پائے گئے ہیں اور آج تک پائے جا رہے ہیں ۔ کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو خود دیکھ لے کہ اسپین میں جب مسلمان صدیوں حکمراں رہے اس وقت عیسائیوں کے ساتھ کیا سلوک تھا اور جب عیسائی وہاں غالب آئے تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ ہندوستان میں آٹھ سو برس کے طویل زمانہ حکومت میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور اب ہندو غالب آ جانے کے بعد کیا برتاؤ کر رہے ہیں ۔ یہودیوں کے ساتھ پچھلے تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا رویہ کیا رہا اور اب فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہے ۔ دوسرا مفہوم اس آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آفاق ارض و سماء میں بھی اور انسانوں کے اپنے وجود میں بھی لوگوں کو وہ نشانیاں دکھائے گا جن سے ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن جو تعلیم دے رہا ہے وہی برحق ہے ۔ بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ آفاق ارض و سماء اور خود اپنے وجود کو تو لوگ اس وقت بھی دیکھ رہے تھے ۔ پھر زمانہ مستقبل میں ان چیزوں کے اندر نشانیاں دکھانے کے کیا معنی ۔ لیکن یہ اعتراض بھی ویسا ہی سطحی ہے جیسا اوپر کے مفہوم پر اعتراض سطحی تھا ۔ آفاق ارض و سماء تو بے شک وہی ہیں جنہیں انسان ہمیشہ سے دیکھتا رہا ہے ، اور انسان کا اپنا وجود بھی اسی طرح کا ہے جیسا ہر زمانے میں دیکھا جاتا رہا ہے ، مگر ان چیزوں کے اندر خدا کی نشانیاں اس قدر بے شمار ہیں کہ انسان کبھی ان کا احاطہ نہیں کر سکا ہے ، نہ کبھی کر سکے گا ۔ ہر دور میں انسان کے سامنے نئی نئی نشانیاں آتی چلی گئی ہیں اور قیامت تک آتی چلی جائیں گی ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :71 یعنی کیا لوگوں کو انجام بد سے ڈرانے کے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ اس دعوت حق کو جھٹلانے اور زک پہنچانے کے لیے جو جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ ان کی ایک ایک حرکت دیکھ رہا ہے ۔