Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قرآن کریم کی حقانیت کے بعض دلائل اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ قرآن کے جھٹلانے والے مشرکوں سے کہہ دو کہ مان لو یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور تم اسے جھٹلا رہے ہو تو اللہ کے ہاں تمہارا کیا حال ہو گا ؟ اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اپنے کفر اور اپنی مخالفت کی وجہ سے راہ حق سے اور مسلک ہدایت سے بہت دور نکل گیا ہو پھر اللہ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی حقانیت کی نشانیاں اور خصلتیں انہیں ان کے گرد و نواح میں دنیا کے چاروں طرف دکھا دیں گے ۔ مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوں گی وہ سلطنتوں کے سلطان بنیں گے ۔ تمام دینوں پر اس دین کو غلبہ ہو گا فتح بدر اور فتح مکہ کی نشانیاں خود ان میں موجود ہوں گی ۔ کافر لوگ تعداد اور شان و شوکت میں بہت زیادہ ہوں گے پھر بھی مٹھی بھر اہل حق انہیں زیر و زبر کر دیں گے اور ممکن ہے یہ مراد ہو کہ حکمت الیٰ کی ہزارہا نشانیاں خود انسان کے اپنے وجود میں موجود ہیں اس کی صنعت و بناوٹ اس کی ترکیب و جبلت اس کے جداگانہ اخلاق اور مختلف صورتیں اور رنگ روپ وغیرہ اس کے خالق و صانع کی بہترین یاد گاریں ہر وقت اس کے سامنے ہیں بلکہ اس کی اپنی ذات میں موجود ہیں پھر اس کا ہیر پھیر کبھی کوئی حالت کبھی کوئی حالت ۔ بچپن ، جوانی ، بڑھاپا ، بیماری ، تندرستی ، تنگی ، فراخی رنج و راحت وغیرہ اوصاف جو اس پر طاری ہوتے ہیں ۔ شیخ ابو جعفر قرشی نے اپنے اشعار میں بھی اسی مضمون کو ادا کیا ہے ۔ الغرض یہ بیرونی اور اندرونی آیات قدرت اس قدر ہیں کہ انسان اللہ کی باتوں کی حقانیت کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی گواہی بس کافی ہے وہ اپنے بندوں کے اقوال و افعال سے بخوبی واقف ہے ۔ جب وہ فرما رہا ہے کہ پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو پھر تمہیں کیا شک؟ جیسے ارشاد ہے آیت ( لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ يَشْهَدُوْنَ ۭوَكَفٰي بِاللّٰهِ شَهِيْدًا ١٦٦؀ۭ ) 4- النسآء:166 ) یعنی لیکن اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ جس کو تمہارے پاس بھیجی ہے اور اپنے علم کے ساتھ نازل فرمائی ہے خود گواہی دے رہا ہے اور فرشتے اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے پھر فرماتا ہے کہ دراصل ان لوگوں کو قیامت کے قائم ہونے کا یقین ہی نہیں اسی لئے بےفکر ہیں نیکیوں سے غافل ہیں برائیوں سے بچتے نہیں ۔ حالانکہ اس کا آنا یقینی ہے ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو میں نے تمہیں کسی نئی بات کے لئے جمع نہیں کیا بلکہ صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمہیں یہ سنا دوں کہ روز جزا کے بارے میں میں نے خوب غور کیا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے اور اسے جھوٹا جاننے والا ہلاک ہونے والا ہے ۔ پھر آپ منبر سے اتر آئے ۔ آپ کے اس فرمان کا کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے یہ مطلب ہے کہ سچ جانتا ہے پھر تیاری نہیں کرتا اور اس کی دل ہلا دینے والی دہشت ناک حالتوں سے غافل ہے اس سے ڈر کر وہ اعمال نہیں کرتا جو اسے اس روز کے ڈر سے امن دے سکیں پھر اپنے آپ کو اس کا سچا جاننے والا بھی کہتا ہے لہو و لعب غفلت و شہوت گناہ اور حماقت میں مبتلا ہے اور قیام قیامت کے قریب ہو رہا ہے واللہ اعلم ۔ پھر رب العالمین اپنی قدرت کاملہ کو بیان فرما رہا ہے کہ ہر چیز پر اس کا احاطہ ہے قیام قیامت اس پر بالکل سہل ہے ، ساری مخلوق اس کے قبضے میں ہے جو چاہے کرے کوئی اس کا ہاتھ تھام نہیں سکتا جو اس نے چاہا ہوا جو چاہے گا ہو کر رہے گا اس کے سوا حقیقی حاکم کوئی نہیں ہے نہ اس کے سوا کسی اور کی ذات کی کسی قسم کی عبادت کے قابل ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 یعنی ایسی حالت میں تم سے زیادہ گمراہ اور تم سے زیادہ دشمن کون ہوگا۔ 52۔ 2 شقاق کے معنی ہیں ضد، عناد اور مخالفت بعید مل کر اس میں اور مبالغہ ہوجاتا ہے۔ یعنی جو بہت زیادہ مخالف اور عناد سے کام لیتا ہے، حتی کہ اللہ کے نازل کردہ قرآن کی بھی تکذیب کردیتا ہے، اس سے بڑھ کر گمراہ اور بدبخت کون ہوسکتا ہے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٠] آخرت کے منکر کیسے خسارہ میں رہتے ہیں ؟:۔ اس قرآن میں جو بعث بعدالموت اور اللہ کے حضور پیشی کا عقیدہ پیش کیا گیا ہے وہ ایک ٹھوس حقیقت ہو تو بتاؤ تمہارا کیا حال ہوگا ؟ فرض کرو کہ تمہارے زعم کے مطابق سب انسان مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور یہی انسان کا انجام ہو تو جو شخص روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کا کیا بگڑے گا ؟ اور اگر قرآن کی بات سچی ہوئی اور تمہیں اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہونا پڑا تو بتاؤ تمہاری گمراہی کا کوئی ٹھکانا ہے جس کے نتیجہ میں لازماً تمہیں جہنم کا عذاب بھگتنا پڑے گا ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قل ارء یتم ان کان من عند اللہ ثم کفرتم بہ …: یہ پوری سورت قرآن کریم، توحید و رسالت اور قیامت کے حق ہونے کے دلائل سے بھری ہوئی ہے، جنہیں کفار نہ صرف یہ کہ مانتے نہیں تھے بلکہ سننے پر بھی تیار نہیں تھے۔ جیسا کہ آیت (٥) میں گزرا :(وقالوا قلوبنا فی اکنۃ)” اور انہوں نے کہا ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں۔ “ اور آیت (٢٦) میں ہے :(وقال الذین کفروا لاتسمعوا لھذا القرآن)” اور انا لوگوں نے کہا جنہوں نے کفر کیا، اس قرآن کو مت سنو۔ “ تو سورت کے آخر میں بنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ ان سے کہیں کہ تم جو قرآن کو سننے تک کے لئے تیار نہیں اسے باطل یا جھوٹ کیسے کہہ سکتے ہو ؟ کیونکہ اسے غلط تو تب کہہ سکتے ہو کہ اسے سنو، پھر حق ہو تو قبول کرو، ورنہ دلیل سے اسے باطل قرار دو ، اتنا تم میں حوصلہ نہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ تمہیں اس کے باطل ہونے کا یقین نہیں، ورنہ ایسی چیز جس کا غلط ہونا بالکل واضح ہو، اس کے سننے پر اتنی شدید پابندی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سے ظاہر ہے کہ تمہارے ذہن میں ب یھ اس کے حق ہونے کا امکان موجود ہے۔ اسلئے یہ بتاؤ کہ یہ قرآن جسے تم سننے ہی کے روادار نہیں، اگر واقعی اللہ کی طرف سے حق ہوا، پھر سنے سمجھے بغیر تم نے اسے جھٹلا دیا اور اسی حالت میں تمہاری موت آگئی، پھر حشر بپا ہوا تو اس وقت تو تم اتنی دور کی مخالفت میں پڑچکے ہوگے جو بہت دور کی مخالفت ہے، جس سے واپسی تم چاہو گے بھی تو ممکن نہیں۔ پھر جو خواہ مخواہ کی ایسی غلط مخالفت پر ڈٹ جائے، جس سے واپسی ممکن نہ ہو، اس سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے ؟ آیت کا مقصد کفار کو سننے اور سوچنے پر آمادگی کی ترغیب اور اس وقت سے ڈرانا ہے جب ان کی مخالفت کے نقصان کا مداوا نہیں ہو سکے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللہِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِہٖ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ ہُوَفِيْ شِقَاقٍؚبَعِيْدٍ۝ ٥٢- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- شقاق - والشِّقَاقُ : المخالفة، وکونک في شِقٍّ غير شِقِ صاحبک، أو مَن : شَقَّ العصا بينک وبینه . قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء 35] ، فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة 137] ، أي : مخالفة، لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود 89] ، وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة 176] ، مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ- [ الأنفال 13] ، أي : صار في شقّ غير شقّ أولیائه، نحو : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة 63] ، ونحوه : وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء 115] ، ويقال : المال بينهما شقّ الشّعرة، وشَقَّ الإبلمة «1» ، أي : مقسوم کقسمتهما، وفلان شِقُّ نفسي، وشَقِيقُ نفسي، أي : كأنه شقّ منّي لمشابهة بعضنا بعضا، وشَقَائِقُ النّعمان : نبت معروف . وشَقِيقَةُ الرّمل :- ما يُشَقَّقُ ، والشَّقْشَقَةُ : لهاة البعیر لما فيه من الشّقّ ، وبیده شُقُوقٌ ، وبحافر الدّابّة شِقَاقٌ ، وفرس أَشَقُّ : إذا مال إلى أحد شِقَّيْهِ ، والشُّقَّةُ في الأصل نصف ثوب وإن کان قد يسمّى الثّوب کما هو شُقَّةً.- ( ش ق ق ) الشق - الشقاق ( مفاعلہ ) کے معنی مخالفت کے ہیں گویا ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اور یا یہ شق العصابینک وبینہ کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی باہم افتراق پیدا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء 35] اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے ۔ فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة 137] تو وہ تمہارے مخالف ہیں ۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة 176] وہ ضد میں ( آکر نیگی سے ) دور ہوگئے ) ہیں ۔ مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال 13] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ یعنی اس کے اولیاء کی صف کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة 63] یعنی جو شخص خدا اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء 115] اور جو شخص پیغمبر کی مخالفت کرے ۔ المال بیننا شق الشعرۃ اوشق الابلمۃ یعنی مال ہمارے درمیان برابر برابر ہے ۔ فلان شق نفسی اوشقیق نفسی یعنی وہ میرا بھائی ہے میرے ساتھ اسے گونہ مشابہت ہے ۔ شقائق النعمان گل لالہ یا اس کا پودا ۔ شقیقۃ الرمل ریت کا ٹکڑا ۔ الشقشقۃ اونٹ کا ریہ جو مستی کے وقت باہر نکالتا ہے اس میں چونکہ شگاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے شقثقۃ کہتے ہیں ۔ بیدہ شقوق اس کے ہاتھ میں شگاف پڑگئے ہیں شقاق سم کا شگاف فوس اشق راستہ سے ایک جانب مائل ہوکر چلنے والا گھوڑا ۔ الشقۃ اصل میں کپڑے کے نصف حصہ کو کہتے ہیں ۔ اور مطلق کپڑے کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے ۔ - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ ان سے فرمایئے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر یہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا اور پھر تم اس کے اللہ کی جانب سے ہونے کا انکار کرو تو تمہارا پروردگار تمہیں کیا سزا دے گا تو ایسے شخص سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو حق و ہدایت سے بہت دور کی مخالفت میں پڑا ہوا ہے یا یہ کہ رسول اکرم کے ساتھ بہت ہی دشمنی کرتا ہے یعنی ابو جہل۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ثُمَّ کَفَرْتُمْ بِہٖ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ان سے کہیے : کیا تم نے غور کیا کہ اگر یہ (قرآن) واقعی اللہ ہی کی طرف سے ہو ‘ پھر تم نے اس کا کفر کیا “- بیشک تم لوگ قرآن کو اللہ کا کلام ماننے کے لیے تیار نہیں ہو ‘ لیکن تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لو کہ اگر یہ واقعی اللہ کا کلام ہو اور تم لوگ اس کے منکر ہو رہے ہو تو :- مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ ہُوَ فِیْ شِقَاقٍم بَعِیْدٍ ” تو کون ہوگا اس سے بڑھ کر بھٹکا ہوا جو دور کی مخالفت میں پڑا ہو “- یہ بالکل وہی اسلوب ہے جو اس سے پہلے سورة سبا کی اس آیت میں اختیار فرمایا گیا ہے : قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍج اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْاقف مَا بِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍط (آیت ٤٦) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہیے کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں ‘ یہ کہ تم کھڑے ہو جائو اللہ کے لیے دو دو ہو کر یا اکیلے اکیلے ‘ پھر غور کرو ‘ نہیں ہے تمہارے ساتھی کو جنون کا کوئی عارضہ۔ “- اب یہاں آخری مرتبہ پھر قرآن مجید کا ذکر آ رہا ہے اور یہ استدلال ہمارے اس موجودہ سائنسی دور کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :69 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محض اس خطرے کی بنا پر ایمان لے آؤ کہ اگر کہیں یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا تو انکار کر کے ہماری شامت نہ آ جائے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سرسری طور پر بے سوچے سمجھے تم انکار کر رہے ہو ، اور بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہو ، اور خواہ مخواہ کی ضد میں آ کر مخالفت پر تل گئے ہو ، یہ کو ئی دانشمندی کی بات نہیں ہے ۔ تم یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ تمہیں اس قرآن کے خدا کی طرف سے نہ ہونے کا علم ہو گیا ہے اور تم یقین کے ساتھ یہ جان چکے ہو کہ خدا نے اسے نہیں بھیجا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اسے کلام الہٰی ماننے سے تمہارا انکار علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان کی بنا پر ہے ۔ جس کا صحیح ہونا اگر بادی النظر میں ممکن ہے تو غلط ہونا بھی ممکن ہے ۔ اب ذرا ان دونوں قسم کے امکانات کا جائزہ لے کر دیکھ لو ۔ تمہارا گمان فرض کرو کہ صحیح نکلا تو تمہارے اپنے خیال کے مطابق زیادہ بس یہی ہو گا کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں یکساں رہیں گے ، کیونکہ دونوں ہی کو مر کر مٹی میں مل جانا ہے ، اور آگے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں کفر و ایمان کے کچھ نتائج نکلنے والے ہوں ۔ لیکن اگر فی الواقع یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا اور وہ سب کچھ پیش آ گیا جس کی یہ خبر دے رہا ہے ، پھر بتاؤ کہ اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے ۔ اس لیے تمہارا اپنا مفاد یہ تقاضا کرتا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر سنجیدگی کے ساتھ اس قرآن پر غور کرو ۔ اور غور کرنے کے بعد بھی تم ایمان نہ لانے ہی کا فیصلہ کرتے ہو تو نہ لاؤ ، مگر مخالفت پر کمر بستہ ہو کر اس حد تک آگے تو نہ بڑھ جاؤ کہ جھوٹ اور مکر و تلبیس اور ظلم و ستم کے ہتھیار اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کرنے لگو ، اور خود ایمان نہ لانے پر اکتفا نہ کر کے دوسروں کو بھی ایمان لانے سے روکتے پھرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani