8۔ 1 اجر غیر ممنون کا وہی مطلب ہے جو عطاء غیر مجذوذ ہود کا ہے یعنی نہ ختم ہونے والا اجر۔
[٧] مَنَّ کا لغوی مفہوم :۔ َغیْرَ مَمْنُوْنٍ کے بھی دو معنی ہیں۔ مَنَّ کا معنی کسی چیز کا آہستہ آہستہ کم ہو کر ختم ہوجانا اور اس کا سلسلہ منقطع ہوجانا بھی ہے اور اس کا دوسرا معنی احسان کرنا اور احسان جتلانا بھی ہے۔ پہلے معنی تو ترجمہ سے واضح ہیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ اہل جنت کو جو نعمتیں بھی میسر ہوں گی ان کا کبھی احسان نہیں جتلایا جائے گا۔
ان الذین اھنوا و عملوا الصلحت …” ممنون “ ” من یمن منا “ (ن) ” الحبل “ رسی کو کاٹ دینا۔ کفار کے ساتھ ہی ایمان اور عمل صالح والوں کا انجام ذکر فرمایا کہ ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی قطع نہیں کیا جائے گا۔ مراد جنت اور اس کی نعمتیں ہیں جو کبھی ختم یا کم ہونے والی نہیں، بلکہ دائمی اور ہر دن زیادہ ہونے والی ہیں، جیسا کہ فرمایا :(لانقطوعۃ ولا ممنوعۃ) (الواقعۃ : ٣٣)”(جنت کے پھل) نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ ان سے کوئی روک ٹوک ہوگی۔ “ اور فرمایا :(عطآء غیر مجذوذ) (ھود : ١٠٨)” ایسا عطیہ جو قطع کیا جانے والا نہیں۔ “ اور فرمایا :(ان ھذا ھذا رزقنا باللہ من نفاذ) (ص : ٥٣) ” بلاشبہ یقیناً یہ ہمارا رزق ہے، جس کے لئے کسی صورت ختم ہونا نہیں ہے۔ “- بعض مفسرین نے اس لفظ کو ” من یمن منا “ (احسان جتانا) سے قرار دے کر مطلب یہ کیا ہے کہ جنت کی نعمتوں کا ان پر احسان نہیں جتایا جائے گا۔ مگر ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ یہ معنی درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو احسان جتلاتا ہے اور جتلائے گا اور یہ اس کا حق ہے، کیونکہ ایمان کی ہدایت اور توفیق اس نے عطا فرمائی، فرمایا :(بل اللہ یمن علیکم ان ھذبکم للایامان ان کنتم صدقین) (الحجرات :18)” کہہ دے مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو، بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کے لئے ہدایت دی، اگر تم سچے ہو۔ “ اور جنتی کہں ی گے :(فمن اللہ علینا ووقلنا عذاب السموم) (الطور : ٢٨)” پھر اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں زہریلی لو کے عذاب سے بچا لیا۔ “
(آیت) لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ ۔ لفظ ممنون کے معنے مقطوع کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ایمان وعمل صالح کے پابند لوگوں کو آخرت میں جو اجر دیا جائے گا وہ دائمی غیر منقطع ہوگا۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ مومن جن اعمال صالحہ کا عادی ہوتا ہے، اگر کسی بیماری یا سفر یا دوسرے عذر سے کسی وقت یہ عمل بھی ترک ہوجائے تو بھی اس عمل کا اجر قطع نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ میرا بندہ جو عمل اپنی تندرستی اور فرصت کے اوقات میں پابندی سے کیا کرتا تھا، اس کے عذر کی حالت میں بھی وہ اعمال بغیر کے ہوئے اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے ہیں۔ اسی مضمون کی حدیثیں صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری سے اور شرح السنتہ نبوی میں حضرت ابن عمر اور انس سے اور رزین نے حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت کی ہیں۔ (مظہری)
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ ٨ۧ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - مَمْنُونٍ- - هو المنّة بالقول، وذلک أن يمتنّ به ويستکثره، وقیل معناه : لا تعط مبتغیا به أكثر منه، وقوله : لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ [ الانشقاق 25] قيل : غير معدود کما قال : بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] وقیل : غير مقطوع ولا منقوص . ومنه قيل : المَنُون للمَنِيَّة، لأنها تنقص العدد وتقطع المدد .- وقیل : إنّ المنّة التي بالقول هي من هذا، لأنها تقطع النّعمة وتقتضي قطع الشّكر،- بعض نے کہا ہئ کہ منہ بالقول مراد ہے یعنی احسان جتلانا اور اسے بہے بڑا خیال کرنا ۔ بعض نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے زیادہ کی طلب کے لئے احسان نہ کر اور آیت کریمہ : ۔ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ [ الانشقاق 25] ان کے لئے بےانتہا اجر ہے ۔ میں بعض نے غیر ممنون کے معنی غیر محدود یعنی ان گنت کئے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ بغیر حساب فرمایا ہے : ۔ بعض نے اس معنی غیر مقطوع ولا منقوص کئے ہیں یعنی ان کا اجر نہ منقطع ہوگا اور نہ سہی کم کیا جائے گا ۔ اسی سے المنون بمعنی موت ہے کیونکہ وہ تعداد کو گھٹاتی اور عمر کو قطع کردیتی ہے ۔
اور جو لوگ رسول اکرم اور قرآن حکیم پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیے ان کے لیے ایسا ثواب ہے جو کہ کم ہونے والا یا یہ کہ ختم ہونے والا نہیں اور کہا گیا ہے کہ بڑھاپے یا مرنے کے بعد بھی قیامت تک ان کے اعمال کا ثواب لکھا جاتا رہے گا جس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
آیت ٨ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ” بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ‘ ان کے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ “
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :10 اصل میں : اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے دو معنی اور بھی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ ایسا اجر ہو گا جس میں کبھی کمی نہ آئے گی ۔ دوسرے یہ کہ وہ اجر احسان جتا جتا کر نہیں دیا جائے گا جیسے کسی بخیل کا عطیہ ہوتا ہے کہ اگر وہ جی کڑا کر کے کسی کو کچھ دیتا بھی ہے تو بار بار اس کو جتاتا ہے ۔