Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تخلیق کائنات کا مرحلہ وار ذکر ۔ ہر چیز کا خالق ہر چیز کا مالک ہر چیز پر حاکم ہر چیز پر قادر صرف اللہ ہے ۔ پس عبادتیں بھی صرف اسی کی کرنی چاہئیں ۔ اس نے زمین جیسی وسیع مخلوق کو اپنی کمال قدرت سے صرف دو دن میں پیدا کر دیا ہے ۔ تمہیں نہ اس کے ساتھ کفر کرنا چاہے نہ شرک ۔ جس طرح سب کا پیدا کرنے والا وہی ایک ہے ۔ ٹھیک اسی طرح سب کا پالنے والا بھی وہی ایک ہے ۔ یہ تفصیل یاد رہے کہ اور آیتوں میں زمین و آسمان کا چھ دن میں پیدا کرنا بیان ہوا ہے ۔ اور یہاں اس کی پیدائش کا وقت الگ بیان ہو رہا ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ پہلے زمین بنائی گئی ۔ عمارت کا قاعدہ یہی ہے کہ پہلے بنیادیں اور نیچے کا حصہ تیار کیا جاتا ہے پھر اوپر کا حصہ اور چھت بنائی جاتی ہے ۔ چنانچہ کلام اللہ شریف کی ایک اور آیت میں ہے اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین میں جو کچھ ہے پیدا کرکے پھر آسمانوں کی طرف توجہ فرمائی اور انہیں ٹھیک سات آسمان بنا دیئے ۔ ہاں سورہ نازعات میں ( وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا 30؀ۭ ) 79- النازعات:30 ) ہے پہلے آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے کہ زمین کو اس کے بعد بچھایا ۔ اس سے مراد زمین میں سے پانی چارہ نکالنا اور پہاڑوں کا گاڑنا ہے جیسے کہ اس کے بعد کا بیان ہے ۔ یعنی پیدا پہلے زمین کی گئی پھر آسمان پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا ۔ لہذا دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس سے پوچھا کی بعض آیتوں میں مجھے کچھ اختلاف سا نظر آتا ہے چنانچہ ایک آیت میں ہے ( فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ١٠١؁ ) 23- المؤمنون:101 ) یعنی قیامت کے دن آپس کے نسب نہ ہوں گے اور نہ ایک دوسرے سے سوال کرے گا ۔ دوسری آیت میں ہے ( وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ 27 ؀ ) 37- الصافات:27 ) یعنی بعض آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھ گچھ کریں گے ۔ ایک آیت میں ہے ( وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا 42؀ۧ ) 4- النسآء:42 ) یعنی اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں ۔ دوسری آیت میں ہے کہ مشرکین کہیں گے ( وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ 23؀ ) 6- الانعام:23 ) اللہ کی قسم ہم نے شرک نہیں کیا ۔ ایک آیت میں ہے زمین کو آسمان کے بعد بچھایا ( وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا 30؀ۭ ) 79- النازعات:30 ) دوسری آیت ( قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ 15؀ۚ ) 3-آل عمران:15 ) ، میں پہلے زمین کی پیدائش پھر آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے ۔ ایک تو ان آیتوں کا صحیح مطلب بتائے جس سے اختلاف اٹھ جائے ۔ دوسرے یہ جو فرمایا ہے ( اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا ١٥٨؁ ) 4- النسآء:158 ) تو کیا یہ مطلب ہے کہ اللہ ایسا تھا ؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ جن دو آیتوں میں سے ایک میں آپس کا سوال جواب ہے اور ایک میں ان کا انکار ہے ۔ یہ دو وقت ہیں صور میں دو نفخے پھونکے جائیں گے ایک کے بعد آپس کی پوچھ گچھ کچھ نہ ہوگی ایک کے بعد آپس میں ایک دوسرے سے سوالات ہوں گے ۔ جن دو دوسری آیتوں میں ایک میں بات کے نہ چھپانے کا اور ایک میں چھپانے کا ذکر ہے یہ بھی دو موقعے ہیں جب مشرکین دیکھیں گے کہ موحدوں کے گناہ بخش دیئے گئے تو کہنے لگے کہ ہم مشرک نہ تھے ۔ لیکن جب منہ پر مہر لگ جائیں گی اور اعضاء بدن گواہی دینے لگیں گے تو اب کچھ بھی نہ چھپے گا ۔ اور خود اپنے کرتوت کے اقراری ہو جائیں گے اور کہنے لگیں گے کاش کے ہم زمین کے برابر کر دیئے جاتے ۔ آسمان و زمین کی پیدائش کی ترتیب بیان میں بھی دراصل کچھ اختلاف نہیں پہلے دو دن میں زمین بنائی گئی پھر آسمان کو دو دن میں بنایا گیا پھر زمین کی چیزیں پانی ، چارہ ، پہاڑ ، کنکر ، ریت ، جمادات ، ٹیلے وغیرہ دو دن میں پیدا کئے یہی معنی لفظ دحاھا کے ہیں ۔ پس زمین کی پوری پیدائش چار دن میں ہوئی ۔ اور دو دن میں آسمان ۔ اور جو نام اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مقرر کئے ہیں ان کا بیان فرمایا ہے وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا ۔ اللہ کا کوئی ارادہ پورا ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ پس قرآن میں ہرگز اختلاف نہیں ۔ اس کا ایک ایک لفظ اللہ کی طرف سے ہے ، زمین کو اللہ تعالیٰ نے دو دن میں پیدا کیا ہے یعنی اتوار اور پیر کے دن ، اور زمین میں زمین کے اوپر ہی پہاڑ بنا دیئے اور زمین کو اس نے بابرکت بنایا ، تم اس میں بیج بوتے ہو درخت اور پھل وغیرہ اس میں سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اہل زمین کو جن چیزوں کی احتیاج ہے وہ اسی میں سے پیدا ہوتی رہتی ہیں زمین کی یہ درستگی منگل بدھ کے دن ہوئی ۔ چار دن میں زمین کی پیدائش ختم ہوئی ۔ جو لوگ اس کی معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے انہیں پورا جواب مل گیا ۔ زمین کے ہر حصے میں اس نے وہ چیز مہیا کر دی جو وہاں والوں کے لائق تھی ۔ مثلاً عصب یمن میں ۔ سابوری میں ابور میں ۔ طیالسہ رے میں ۔ یہی مطلب آیت کے آخری جملے کا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس کی جو حاجت تھی اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے مہیا کر دی ۔ اس معنی کی تائید اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے ( وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ 34؀ۧ ) 14- ابراھیم:34 ) تم نے جو جو مانگا اللہ نے تمہیں دیا ۔ واللہ اعلم ، پھر جناب باری نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی وہ دھویں کی شکل میں تھا ، زمین کے پیدا کئے جانے کے وقت پانی کے جو ابخرات اٹھے تھے ۔ اب دونوں سے فرمایا کہ یا تو میرے حکم کو مانو اور جو میں کہتا ہوں ہو جاؤ خوشی سے یا ناخوشی سے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مثلاً آسمانوں کو حکم ہوا کہ سورج چاند ستارے طلوع کرے زمین سے فرمایا اپنی نہریں جاری کر اپنے پھل اگا وغیرہ ۔ دونوں فرمانبرداری کیلئے راضی خوشی تیار ہو گئے ۔ اور عرض کیا کہ ہم مع اس تمام مخلوق کے جسے تو رچانے والا ہے تابع فرمان ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ انہیں قائم مقام کلام کرنے والوں کیلئے کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین کے اس حصے نے کلام کیا جہاں کعبہ بنایا گیا ہے اور آسمان کے اس حصے نے کلام کیا جو ٹھیک اس کے اوپر ہے ۔ واللہ اعلم ۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں اگر آسمان و زمین اطاعت گزاری کا اقرار نہ کرتے تو انہیں سزا ہوتی جس کا احساس بھی انہیں ہوتا ۔ پس دو دن میں ساتوں آسمان اس نے بنا دیئے یعنی جمعرات اور جمعہ کے دن ۔ اور ہر آسمان میں اس نے جو جو چیزیں اور جیسے جیسے فرشتے مقرر کرنے چاہے مقرر فرما دیئے اور دنیا کے آسمان کو اس نے ستاروں سے مزین کر دیا جو زمین پر چمکتے رہتے ہیں اور جو ان شیاطین کی نگہبانی کرتے ہیں جو ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کیلئے اوپر چڑھنا چاہتے ہیں ۔ یہ تدبیرو اندازہ اس اللہ کا قائم کردہ ہے جو سب پر غالب ہے جو کائنات کے ایک ایک چپے کی ہر چھپی کھلی حرکت کو جانتا ہے ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان و زمین کی پیدائش کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ اتوار اور پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو منگل کے دن پیدا کیا اور جتنے نفعات اس میں ہیں اور بدھ کے دن درختوں کو پانی کو شہروں کو اور آبادی اور ویرانے کو پیدا کیا تو یہ چار دن ہوئے ۔ اسے بیان فرما کر پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جمعرات والے دن آسمان کو پیدا کیا اور جمعہ کے دن ستاروں کو اور سورج چاند کو اور فرشتوں کو پیدا کیا تین ساعت کے باقی رہنے تک ۔ پھر دوسری ساعت میں ہر چیز میں آفت ڈالی جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اور تیسری میں آدم کو پیدا کیا انہیں جنت میں بسایا ابلیس کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ اور آخری ساعت میں وہاں سے نکال دیا ۔ یہودیوں نے کہا اچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کے بعد کیا ہوا ؟ فرمایا پھر عرش پر مستوی ہو گیا انہوں نے کہا سب تو ٹھیک کہا لیکن آخری بات یہ کہی کہ پھر آرام حاصل کیا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور یہ آیت اتری ( وَلَــقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ڰ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ 38؀ ) 50-ق:38 ) یعنی ہم نے آسمان و زمین اور جو ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی ۔ تو ان کی باتوں پر صبر کر ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ اور روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں میرا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے روز پیدا کیا اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن رکھا درخت پیر والے دن پیدا کئے مکروہات کو منگل کے دن نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جانوروں کو زمین میں جمعرات کے دن پھیلا دیا اور جمعہ کے دن عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت حضرت آدم کو پیدا کیا اور کل مخلوقات پوری ہوئی ۔ مسلم اور نسائی میں یہ حدیث ہے لیکن یہ بھی غرائب صحیح میں سے ہے ۔ اور امام بخاری نے تاریخ میں اسے معلل بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ اسے بعض راویوں نے حضرت ابو ہریرہ سے اور انہوں نے اسے کعب احبار سے روایت کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان فرما‏ئی گئی ہے فرمایا زمین کو دو دن میں بنایا اس سے مراد ہیں یوم الاحد اتوار اور یوم الاثنین سورة نازعات میں کہا گیا ہے والارض بعد ذلک دحہا جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا گیا ہے جب کہ یہاں زمین کی تخلیق کا ذکر آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ تخلیق اور چیز ہے اور دحی جو اصل میں دحو ہے بچھانا یا پھیلانا اور چیز زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی جیسا کہ یہاں بھی بیان کیا گیا اور دحو کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے اسے پیداواری ضروریات کا مخزن بنایا گیا۔ (اَخْرَجَ مِنْهَا مَاۗءَهَا وَمَرْعٰىهَا) 79 ۔ النازعات :31) اس میں پہاڑ ٹیلے اور جمادات رکھے گئے یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے دو دنوں میں کیا گیا یوں زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چار دنوں میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورة حم) السجدۃ

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) قل ابنکم لتکفرون …: مشرکین کا آخرت کا انکار ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس پر قادر ہونے، بلکہ ہر چیز پر قادر ہونے کے دلائل کا ذکر شروع فرمایا اور دلیل میں ان چیزوں کے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا جو ان کی آنکھوں کے سامنے تھیں اور جن کا خلاق وہ خود اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔ بات کا آغاز ہمزہ استفہام، ” ان “ اور لام کی تاکید کے ساتھ ہوا ہے۔ اس میں ان کے شرک پر تعجب اور ڈانٹ بھی ہے اور اس بات کا اظہار بھی کہ یقیناً تم شرک کی کمینی حرکت کرتے ہو، حالانکہ کوئی عقل مند سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی انسان زمین و آسمان کے خالق کے ساتھ کفر کرے گا اور اس کے ساتھ شریک بنئاے گا۔ تعجب اور ڈانٹ کے ساتھ ساتھ زمین و آسمان کی تخلیق کی تاریخ بھی بیان فرما دی ہے۔ ہمزہ استفہام اور تاکید کے دونوں حرفوں کو محلوظ رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔” کہہ کیا بیشک تم واقعی اس کا انکار کرتے ہو…“- (٢) لتکفرون : یہاں ماضی کا صیغہ ” کفرتم “ (تم نے انکار کیا) لانے کے بجائے فعل مضارع ” لتکفرون “ کا لفظ اس لئے استعمال فرمایا کہ صرف یہ نہیں کہ تم اس سے پہلے کفر کر بیٹھے جو کر بیٹھے، بلکہ اتنے دلائل دیکھ اور سن کر بھی کفر سے باز نہیں آئے، بلکہ کفر کرتے ہی چلے جاتے ہو۔- (٣) بالذی خلق الارض فی یومین : جب زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اس وقت سورج کا وجود ہی نہیں تھا جس سے دن رات وجود میں آتے ہیں، تو پھر دونوں سے کیا مراد ہے ؟ اس کے لئے دیکھیے سورة اعراف کی آیت (٥٤) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ (ان لوگوں سے) فرمائیے کہ کیا تم لوگ ایسے خدا کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو (باوجود اس کی بڑی وسعت کے) دو روز (کی مقدار وقت) میں پیدا کردیا اور تم اس کے شریک ٹھہراتے ہو یہی (خدا جس کی قدرت معلوم ہوئی) سارے جہاں کا رب ہے اور اس نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنا دیئے اور اس (زمین) میں فائدہ کی چیزیں رکھ دیں (جیسے نباتات وحیوانات وغیرہ) اور اس (زمین) میں اس کے رہنے والوں کی غذائیں تجویز کردیں (جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ ہر حصہ زمین کے رہنے والوں کے مناسب الگ الگ غذائیں ہیں یعنی زمین میں ہر قسم کے غلے میوے پیدا کردیئے کہیں کچھ کہیں کچھ جن کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ یہ سب) چار دن میں (ہوا۔ دو دن میں زمین دو دن میں پہاڑ وغیرہ جو شمار ہیں) پورے ہیں پوچھنے والوں کے لئے (یعنی ان لوگوں کے لئے جو تخلیق کائنات کی کیفیت اور کمیت کے متعلق آپ سے سوالات کرتے ہیں جیسا کہ یہود نے آپ سے (آیت) خلق السموٰت والارض کے متعلق سوال کیا تھا کما فی الدر المنثور) پھر (یہ سب کچھ پیدا کر کے) آسمان (کے بنانے) کی طرف توجہ فرمائی اور وہ اس وقت دھواں سا تھا (یعنی آسمان کا مادہ جو زمین کے مادے کے بعد زمین کی موجودہ صورت سے پہلے بن چکا تھا وہ دھوئیں کی شکل میں تھا) سو اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں (کو ہماری اطاعت کی طرف آنا تو ضرور پڑے گا اب تم کو اختیار ہے کہ) خوشی سے آؤ یا زبردستی سے (مطلب یہ ہے کہ ہمارے تقدیری احکام جو تم دونوں میں جاری ہوا کریں گے ان کا جاری ہونا تو تمہارے اختیار سے خارج ہے وہ تو ہو کر رہیں گے۔ لیکن جو ادراک و شعور تم کو عطا ہوا ہے اس کے اعتبار سے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم ہمارے احکام تقدیری کو اپنی خوشی سے قبول کرو یا ان سے دل میں ناراض ہو، اور وہ زبردستی تمہارے اندر نافذ کئے جاویں۔ جسے انسان کے لئے امراض اور موت کا معاملہ ہے کہ ان کا ہونا تو امر تقدیری ہے جس کو انسان ٹال نہیں سکتا۔ مگر کوئی دانشمند اس کو راضی خوشی قبول کرتا ہے اور صبر و شکر کے فوائد حاصل کرتا ہے، کوئی ناراض و ناخوش رہتا ہے، گھٹ گھٹ کر مرتا ہے۔ تو اب تم دیکھ لو کہ ہمارے ان احکام پر راضی رہا کرو گے یا کراہت رکھو گے۔ اور مراد ان تقدیری احکام سے جو آسمان و زمین میں جاری ہونے والے تھے یہ ہیں کہ آسمان ابھی صرف مادہ دھوئیں کی شکل میں تھا، اس کا سات آسمانوں کی صورت میں بننا حکم تقدیری تھا اور زمین اگرچہ بن چکی تھی مگر اس میں بھی ہزاروں انقلابات وتغیرات قیامت تک چلنے والے تھے۔ ) دونوں نے عرض کیا کہ ہم خوشی سے (ان احکام کے لئے) حاضر ہیں، سو دو روز میں اس کے سات آسمان بنا دیئے اور (چونکہ ساتوں آسمانوں کو فرشتوں سے آباد ومعمور کردیا گیا تھا اس لئے) ہر آسمان میں اس کے مناسب اپنا حکم (فرشتوں کو) بھیج دیا (یعنی جن فرشتوں سے جو کام لینا تھا وہ ان کو بتلا دیا) اور ہم نے اس قریب والے آسمان کو ستاروں سے زینت دی اور (شیاطین کو آسمانی خبریں چوری کرنے سے روکنے کے لئے) اس کی حفاظت کی، یہ تجویز ہے (خدائے) زبردست عالم الکل کی طرف سے۔- معارف ومسائل - ان آیات میں اصل مقصود منکرین توحید مشرکین کو ان کے کفر و شرک پر ایک بلیغ انداز میں تنبیہ کرنا ہے کہ اس میں حق تعالیٰ کی صفت تخلیق اور آسمان و زمین کی عظیم مخلوقات کو بیشمار حکمتوں پر مبنی پیدا کرنے کی تفصیل دے کر ان کو بطور زجر خطاب کیا گیا ہے، کہ کیا تم ایسے بےعقل ہو کہ ایسے عظیم خالق و قادر کے ساتھ دوسروں کو شریک خدائی قرار دیتے ہو۔ اس قسم کی تنبیہ و تفصیل سورة بقرہ کے تیسرے رکوع میں آ چکی ہے۔- (آیت) کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتاً فاحیکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون۔ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الی السماء فسوھن سبع سموٰت وھو بکل شئی علیم۔ سورة بقرہ کی آیات میں ایام تخلیق کی تعیین اور تفصیل کا ذکر نہیں۔ سورة فصلت کی مذکورہ آیات میں بھی اس کا ذکر ہے۔- آسمان و زمین کی تخلیق میں ترتیب اور ایام تخلیق کی تعیین :- بیان القرآن میں حضرت سیدی حکیم الامت قدس سرہ، نے فرمایا کہ یوں تو زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر مختصر و مفصل قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ آیا ہے۔ مگر ان میں ترتیب کا بیان کہ پہلے کیا بنا پیچھے کیا بنا، یہ غالباً صرف تین ہی آیتوں میں آیا ہے۔ ایک یہ آیت حم سجدہ کی اور دوسری سورة بقرہ کی مذکورہ آیت، تیسری سورة نازعات (آیت) لیلھا و اخرج ضحھا والارض بعد ذلک دحھا اخرج منھا ماءھا ومرعھا والجبال ارسھا اور سرسری نظر میں ان سب مضامین میں کچھ اختلاف سا بھی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ سورة بقرہ اور سورة حم سجدہ کی آیت سے زمین کی تخلیق آسمان سے مقدم ہونا معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ سورة بقرہ اور سورة حم سجدہ کی آیت سے زمین کی تخلیق آسمان سے مقدم ہونا معلوم ہوتا ہے اور سورة نازعات کی آیات سے اس کے برعکس بظاہر زمین کی تخلیق آسمان سے مقدم ہونا معلوم ہوتا ہے اور سورة نازعات کی آیات سے اس کے برعکس بظاہر زمین کی تخلیق آسمان کے بعد معلوم ہوتی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ سب آیات میں غور کرنے سے میرے خیال میں تو یہ آتا ہے کہ یوں کہا جاوے کہ اول زمین کا مادہ بنا اور ہنوز اس کی موجودہ ہئیت نہ بنی تھی کہ اسی حالت میں آسمان کا مادہ بنا جو دخان یعنی دھوئیں کی شکل میں تھا، اس کے بعد زمین ہئیت موجودہ پر پھیلا دی گئی۔ پھر اس پر پہاڑ اور درخت وغیرہ پیدا کئے گئے۔ پھر آسمان کے مادہ دخانیہ سیالہ کے سات آسمان بنا دیئے۔ امید ہے کہ سب آیتیں اس تقریر پر منطبق ہوجاویں گی۔ آگے حقیقت حال سے اللہ تعالیٰ ہی خوب واقف ہیں (بیان القرآن۔ سورة بقرہ رکوع ٣) - صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے اسی آیت کے تحت میں چند سوالات وجوابات مذکور ہیں۔ ان میں اس آیت کی جو تشریح حضرت ابن عباس نے فرمائی وہ تقریباً یہی ہے، جو حضرت نے تطبیق آیات کے لئے بیان فرمائی ہے۔ اس کے الفاظ جو ابن کثیر نے اسی آیت کے تحت میں نقل کئے ہیں یہ ہیں :۔- و خلق الارض فی یومین ثم خلق السماء ثم استویٰ الی السماء فسوھن فی یومین اخرین ثم دحی الارض ودحیھا ان اخرج منھا الماء والمرعیٰ وخلق الجبال والرمال والجہاد والآکام وما بینھما فی یومین اخرین فذلک قولہ تعالیٰ دحاھا۔- اور حافظ ابن کثیر نے بحوالہ ابن جریر حضرت ابن عباس سے آیت حم سجدہ کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ :۔- یہود مدینہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے متعلق سوال کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو اتوار اور پیر کے دن پیدا فرمایا، اور پہاڑ اور اس میں جو کچھ معدنیات وغیرہ ہیں ان کو منگل کے روز اور درخت اور پانی کے چشمے اور شہر اور عمارتیں اور ویران میدان بدھ کے روز، یہ کل چار روز ہوگئے، جیسا کہ اس آیت میں ہے (قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗٓ اَنْدَادً آذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ) یعنی ان لوگوں کے لئے جو اس تخلیق کا سوال کریں۔ پھر فرمایا اور جمعرات کے روز آسمان بنائے اور جمعہ کے روز ستارے اور شمس و قمر اور فرشتے یہ سب کام جمعہ کے دن میں تین ساعت باقی تھیں جب پورے ہوئے۔ ان میں سے دوسری ساعت میں آفات و مصائب جو ہر چیز پر آنے والی ہیں وہ پیدا فرمائی ہیں اور تیسری ساعت میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا اور ان کو جنت میں ٹھہرایا اور ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا اور سجدہ سے انکار کرنے پر جنت سے نکال دیا گیا۔ یہ سب تیسری ساعت کے ختم ہوا۔ (الحدیث بطولہ، ابن کثیر)- ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے فرمایا، ھذا الحدیث فیہ غرابة۔- اور صحیح مسلم میں ایک حدیث حضرت ابوہریرہ کی روایت سے آئی ہے جس میں تخلیق عالم کی ابتدا یوم السبت یعنی ہفتہ کے روز سے بتلائی گئی ہے۔ اس کے حساب سے آسمان و زمین کی تخلیق کا سات روز میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔ مگر عام نصوص قرآن میں یہ تخلیق چھ روز میں ہونا صراحتہ مذکور ہے۔ (آیت) ولقد خلقنا السموٰت والارض وما بینھما فی سیتة ایام وما مسنا من لغوب۔ یعنی ہم نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے اندر ہے اس کو چھ دن میں، اور ہمیں کوئی تھکان پیش نہیں آیا۔ اس لئے نیز اس کی سند کے اعتبار سے بھی اکابر محدثین نے اس روایت کو معلول قرار دیا ہے۔ ابن کثیر نے اس کو بحوالہ مسلم و نسائی نقل کر کے فرمایا وھو من غرائب الصحیح المسلم کمانی زاد المسیر لابن الجوزی۔ یعنی یہ حدیث صحیح مسلم کے عجائب میں سے ہے۔ اور پھر فرمایا کہ امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ کبیر میں اس روایت کو معلول قرار دیا ہے، اور بعض لوگوں نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ سے بہ روایت کعب احبار نقل کیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نہیں، اور فرمایا کہ یہی اصح ہے۔ (ابن کثیر ص ٤٩ ج ٤) اسی طرح ابن مدینی اور بیہقی وغیرہ حفاظ حدیث نے بھی اس کو کعب احبار کا قول قرار دیا ہے۔ (حاشیہ زاد المسیر لابن الجوزی ص ٣٧٢، ج ٧)- پہلی روایت جو ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے نقل کی ہے، ابن کثیر کے فیصلے کے مطابق اس میں بھی غرابت ہے۔ ایک وجہ غرابت کی یہ بھی ہے کہ اس روایت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق آسمانوں کی تخلیق کے ساتھ آخری دن جمعہ کے آخری ساعت میں اور اسی ساعت میں حکم سجدہ اور ابلیس کا جنت سے اخراج مذکور ہے۔- حالانکہ متعدد آیات قرآنی میں جو قصہ تخلیق آدم (علیہ السلام) کا اور حکم سجدہ اور اخراج ابلیس کا مذکور ہے اس کے سیاق سے بدیہی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق آدم (علیہ السلام) کا واقعہ تخلیق ارض و سماء سے بہت زمانہ بعد ہوا ہے جبکہ زمین میں اس کی تمام ضروریات مکمل ہو چکیں اور جنات و شیاطین وہاں بسنے لگے۔ اس کے بعد فرمایا۔ (آیت) انی جاعل فی الارض خلیفة۔ (کذا قال فی المظہری)- خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق ارض و سماء کے اوقات اور دن اور ان میں ترتیب جن روایات حدیث میں آئی ہے ان میں کوئی روایت ایسی نہیں جس کو قرآن کی طرح قطعی یقینی کہا جاسکے، بلکہ یہ احتمال غالب ہے کہ یہ اسرائیلی روایات ہوں مرفوع احادیث نہ ہوں جیسا کہ ابن کثیر نے مسلم، نسائی کی حدیث کے متعلق اس کی تصریح فرمائی ہے۔ اس لئے آیات قرآنی ہی کو اصل قرار دے کر مقصود متعین کرنا چاہئے۔ اور آیات قرآنی کو جمع کرنے سے ایک بات تو یہ قطعی معلوم ہوئی کہ آسمان و زمین اور ان کے اندر کی تمام چیزیں صرف چھ دن میں پیدا ہوئی ہیں۔ دوسری بات سورة حم سجدہ کی آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ زمین اور اس کے پہاڑ درخت وغیرہ کی تخلیق میں پورے چار دن لگے۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آسمانوں کی تخلیق میں دو دن صرف ہوئے۔ جس میں پورے دو دن ہونے کی تصریح نہیں بلکہ کچھ اشارہ اس طرف ملتا ہے کہ یہ دو دن پورے خرچ نہیں ہوئے آخری دن جمعہ کا کچھ حصہ بچ گیا۔ ان آیات کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھ دن میں سے پہلے چار دن زمین پر باقی دو دن آسمانوں کی تخلیق میں صرف ہوئے اور زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی۔ مگر سورة نازعات کی آیت میں زمین کے پھیلانے اور مکمل کرنے کو صراحتہ تخلیق آسمان کے بعد فرمایا ہے۔ اس لئے وہ صورت کچھ بعید نہیں جو اوپر بحوالہ بیان القرآن ہوئی ہے کہ زمین کی تخلیق دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے دو دن میں زمین اور اس کے اوپر پہاڑوں وغیرہ کا مادہ تیار کردیا گیا۔ اس کے بعد دو دن میں سات آسمان بنائے، اس کے بعد دو دن میں زمین کا پھیلاؤ اور اس کے اندر جو کچھ پہاڑ، درخت، نہریں، چشمے وغیرہ بنائے تھے ان کی تکمیل ہوئی۔ اس طرح تخلیق زمین کے چار دن متصل نہیں رہے۔ اور آیت حم سجدہ میں جو ترتیب بیان یہ رکھی گئی کہ پہلے زمین کو دو دن میں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا۔ (آیت) خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ ۔ اس کے بعد مشرکین کو تنبیہ کی گئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٩ۚ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- ندد - نَدِيدُ الشیءِ : مُشارِكه في جَوْهَره، وذلک ضربٌ من المماثلة، فإنّ المِثْل يقال في أيِّ مشارکةٍ کانتْ ، فكلّ نِدٍّ مثلٌ ، ولیس کلّ مثلٍ نِدّاً ، ويقال : نِدُّهُ ونَدِيدُهُ ونَدِيدَتُهُ ، قال تعالی:- فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة 22] ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة 165] ، وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت 9] وقرئ : (يوم التَّنَادِّ ) [ غافر 32] «2» أي : يَنِدُّ بعضُهم من بعض . نحو : يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس 34] .- ( ن د د )- ندید الشئی ۔ وہ جو کسی چیز کی ذات یا جوہر میں اس کا شریک ہو اور یہ ممانعت کی ایک قسم ہے کیونکہ مثل کا لفظ ہر قسم کی مشارکت پر بولا جاتا ہے ۔ اس بنا پر ہرند کو مثل کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر مثل ند نہیں ہوتا ۔ اور ند ، ندید ندید ۃ تینوں ہم معنی ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔- فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة 22] پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة 165] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک خدا بناتے ہیں ۔ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت 9] اور بتوں کو اس کا مد مقابل بناتے ہو ۔ اور ایک قرات میں یوم التناد تشدید دال کے ساتھ ہے اور یہ نذ یند سے مشتق ہے جس کے معنی دور بھاگنے کے ہیں اور قیامت کے روز بھی چونکہ لوگ اپنے قرابتدروں سے دور بھاگیں گے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس 34] میں مذکور ہے اس لئے روز قیامت کو یو م التناد بتشدید الدال کہا گیا ہے ۔- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ اہل مکہ سے فرما دیجیے کہ کیا تم لوگ ایسے اللہ کی توحید کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو اتوار اور پیر کے دن میں پیدا کیا اور تم بتوں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو اور وہ ہر ایک جاندار کا پروردگار ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ قُلْ اَئِنَّکُمْ لَـتَـکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ ان سے کہیے کہ کیا تم لوگ کفر کر رہے ہو اس ہستی کا جس نے زمین کو بنایا دو دنوں میں ؟ “- وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًاط ذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ” اور تم اس کے لیے مدمقابل ٹھہرا رہے ہو وہ ہے تمام جہانوں کا رب۔ “- اَنْدَاد کا واحد ” نِدّ “ ہے جس کے معنی مد مقابل کے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا ہے تو اس کا مالک اور اصل حاکم بھی وہی ہے۔ لہٰذا دنیا میں اگر کوئی حاکم بنے گا تو اسے اللہ کا تابع اور ماتحت بن کر رہنا ہوگا۔ اس حیثیت سے وہ اللہ کا خلیفہ ہوگا۔ لیکن اگر کوئی اللہ کی اطاعت سے آزاد ہو کر حاکم بن بیٹھے اور خود کو مطلق اقتدار ( ) کا حق دار سمجھنے لگے تو وہ گویا اللہ کا مدمقابل ہے ‘ چاہے وہ ایک فرد ہو یا کسی ملک کے کروڑوں عوام ہوں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani