Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی پہاڑوں کو زمین میں سے ہی پیدا کر کے ان کو اس کے اوپر گاڑ دیا تاکہ زمین ادھر یا ادھر نہ ڈولے۔ 10۔ 2 یہ اشارہ ہے پانی کی کثرت، انواع و اقسام کے رزق، معدنیات اور دیگر اسی قسم کی اشیاء کی طرف یہ زمین کی برکت ہے، کثرت خیر کا نام ہی برکت ہے 10۔ 3 اقوات، قوت غذا، خوراک کی جمع ہے یعنی زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کی خوارک اس میں مقدر کردی ہے یا بندوبست کردیا ہے اور رب کی اس تقدیر یا بندوبست کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کرسکتی کوئی قلم اسے رقم نہیں کرسکتا اور کوئی کیلکولیٹر اسے گن نہیں سکتا بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر زمین کے دوسرے حصوں میں پیدا نہیں ہوسکتیں تاکہ ہر علاقے کی یہ مخصوص پیداوار ان ان علاقوں کی تجارت و معیشت کی بنیادیں بن جائیں چناچہ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح اور بالکل حقیقت ہے۔ 10۔ 4 یعنی تخلیق کے پہلے دو دن اور وحی کے دو دن سارے دن ملا کر یہ کل چار دن ہوئے، جن میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچا۔ 10۔ 5 سوآء کا مطلب ہے۔ ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یعنی پوچھنے والوں کو بتلا دو کہ یہ عمل ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یا پورا یا برابر جواب ہے سائلین کے لئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] زمین کی اشیاء سے انتفاع کا یکساں حق اور حق ملکیت :۔ بعض علماء نے (سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ 10۝) 41 ۔ فصلت :10) کا یہ ترجمہ کیا ہے برابر ہے واسطے پوچھنے والوں کے (شاہ رفیع الدین) ٹھیک جواب پوچھنے والوں کو (احمد رضا خان) انسانی تاریخ کا ایک بنیادی اور اہم سوال یہ بھی رہا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کیونکر ہوئی ؟ ان آیات میں اسی بنیادی سوال کا جواب دے کر فرمایا کہ ایسا سوال کرنے والوں کے اطمینان کے لیے اتنا جواب کافی ہے۔ اور اس جملہ کا دوسرا ترجمہ جو اوپر درج کیا گیا ہے، بہت سے علماء اور مفسرین اس ترجمہ کے بھی موّید ہیں۔ اور اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین کی پیداوار سے انتفاع کا حق سب ضرورت مندوں کے لیے یکساں ہے۔ خواہ یہ ضرورت مند انسان ہوں یا حیوانات ہوں یا چرند پرند ہوں۔ اور انتفاع کے حق کی یکسانی کی مثال یوں سمجھئے۔ جیسے جنگل میں ایندھن پڑا ہو۔ اب جو شخص اسے اٹھا کر اپنے قبضہ میں کرلے گا۔ تو اب اس ایندھن پر اس کا حق ثابت ہوگیا۔ اور جب تک وہ جنگل میں پڑا تھا اسے وہاں سے اٹھانے کا ہر شخص یکساں حق رکھتا تھا۔ اس کی دوسری مثال چشمہ کا یا دریا کا پانی ہے۔ ہر شخص وہاں سے پانی لانے کا یکساں حق رکھتا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص وہاں سے پانی لے کر اس پر اپنا قبضہ کرلے گا تو اب یہ پانی اسی کا ہوگیا۔ اس میں دوسروں کا حق نہ رہا۔ اسی طرح بنجر زمین آباد کرنے کا حق اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق سب کے لیے یکساں ہے مگر جب کوئی شخص محنت کرکے اس کو آباد کرلے تو اس کا حق ثابت اور دوسروں کا حق ختم ہوگیا یہ ہے حق ملکیت کا اسلامی اصول اور اسی لحاظ سے ہم نے یہ ترجمہ اختیار کیا ہے۔ مگر جب سے روس میں اشتراکی نظام قائم ہوا ہے (جو کہ اب ناکام بھی ہوچکا ہے) اور اس نے دوسرے ملکوں میں اس نظام کے بپا کرنے کے لیے فضا کو سازگار بنانے کے لیے اپنے ایجنٹ بھی چھوڑ رکھے ہیں اور چونکہ یہ نظام زمین اور اسی طرح دوسری اشیاء پر انفرادی حق ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ لہذا ان لوگوں نے قرآن سے حق ملکیت زمین کے عدم جواز کا کھوج لگانا شروع کردیا۔ حالانکہ یہ مسئلہ انسان کی معاش سے تعلق رکھتا اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو زمین کی ذاتی ملکیت کو ناجائز یا حرام قرار دینا مقصود ہوتا تو قرآن میں ایسے واضح احکام نازل کیے جاتے جن سے سابقہ مروجہ حق ملکیت کی تردید کی جاتی۔ لیکن قرآن میں کوئی ایسا حکم موجود نہیں۔ چند دوسری متشابہ آیات کی طرح اس آیت سے بھی ان لوگوں نے اپنا یہ نظریہ کشید کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ہم نے وہی ترجمہ درج کیا ہے جو ان حضرات کا پسندیدہ ہے۔ وہ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ زمین کی پیداوار پر سب انسانوں کا ایک جیسا اور برابر کا حق ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ حکومت زمین کو اپنی تحویل میں لے لے پھر اس کی پیداوار لوگوں میں تقسیم کرے۔- خ حق ملکیت کے متعلق اشتراکیوں کی دلیل اور اس کا جواب :۔ ان لوگوں کی اس تاویل پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ ضرورتمند، طلبگار یا حاجتمند صرف انسان ہی نہیں بلکہ حیوانات، چرند پرند، کیڑے مکوڑے سب ہی خوراک کے محتاج ہیں اور سب کے لیے یہ خوراک زمین ہی سے حاصل ہوتی ہے تو کیا یہ ساری مخلوق زمین یا زمین کی پیداوار میں برابر کی حصہ دار ہوگی ؟ اگر زمین کو انفرادی ملکیت سے نکال کر اس کی پیداوار کو صرف انسانوں میں برابر تقسیم کیا جائے تو دوسری مخلوق کو (سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ 10۝) 41 ۔ فصلت :10) کے زمرہ سے نکالنے کی کیا دلیل ہے ؟ اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زمین سب مخلوقات میں برابر برابر تقسیم ہوگی یا اس کی پیداوار ؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا عملاً ایسا ممکن بھی ہے ؟ اگر حکومت زمین کو انفرادی ملکیت سے نکال کر اپنی تحویل میں لے لے تو یہ (سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ 10۝) 41 ۔ فصلت :10) کیسے ہوئی۔ اور اگر حکومت زمین کی پیداوار کو اپنی مرضی سے افراد کو دیتی یا ان میں تقسیم کرتی ہے تو بھی عملی طور پر (سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ 10۝) 41 ۔ فصلت :10) کے تقاضے پورا کرنا ناممکن ہے۔ لہذا ان حضرات کی یہ تاویل باطل ہی نہیں ناممکن العمل بھی ہے۔ اور اس کا اصل مطلب یہی ہے کہ زمین کی پیداوار سے اللہ کی ساری مخلوق کو انتفاع کا حق ایک جیسا ہے۔ جیسا کہ پہلے ایک دو مثالوں سے واضح کیا جاچکا ہے۔ اور انسانوں کے علاوہ دوسری جاندار مخلوق بھی زمین کی اشیاء سے فیض یاب ہو رہی ہے اور اس بات کا حق بھی رکھتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وجعل فیھا واسی :” رواسی “ کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة حجر (١٩) اور سورة انبیائ (٣١)- (٢) من فوقھا : اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پورے کے پورے زمین کے اندر گاڑ دینے کے بجائے ان کا ایک حصہ زمین کے اوپر رکھا۔ اس میں بیشمار حکمتیں اور آدمی کے لئے فائدے ہیں، کیونکہ اگر پہاڑ پورے ہی زمین کے اندر ہوتے تو آدمی برف کے ان ذخیروں سے فیض یاب نہ ہو ستکا جو پہاڑ محفوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی جنگلوں اور دریاؤں کے یہ سلسلے ہوتے۔ اس کے علاوہ بیشمار سونے، چاندی اور دوسری دھاتوں، گیسوں اور ہیرے جواہرات سے محروم رہتا جو وہ پہاڑوں کے زمین سے اوپر ہونے کی وجہ سے نکلتا ہے۔- (٣) وبرک فیھا : یعنی اس میں خیر کی بیشمار اشیاء کے خزانے رکھ دیئے، جن میں درخت اور پودے بھی شامل ہیں۔ مٹی، پتھر، دھاتیں، گیسیں اور دوسرے وہ بیشمار عناصر بھی جو زمین میں موجود ہیں۔ چرند پرند، درندے اور آبی جانور بھی، پوری زمین کو گ ھیرے ہوئے ہوا بھی اور اس کے تقریباً ستر (٧٠) فیصد حصے پر مشتمل پانی بھی، جن پر زندگی کا دار و مدار ہے اور جن پر ہز اورں لاکھوں سال گزرنے کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ ہر دن نئی سے نئی برکت کا ظہور ہوتا ہے۔ بتاؤ، اللہ کے سوا کون ہے جس نے ان میں سے ایک چیز ہی پیدا کی ہو، جس کی وجہ سے تم نے اسے اپنا حاجت روا اور خدا بنا لیا ؟- (٤) وقدر فیھا اقواتھا : ” اقوات “ ” قوت “ کی جمع ہے، غذا، خوراک اور روزی، زمین کی غذاؤں سے مراد اس میں رہنے والی تمام مخلوقات کی غذائیں ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے اس کے حسب حال اس کی ضرورت کے مطابق پورے اندازے کے ساتھ رکھ دیں، کسی مخلوق کی غذا کی کمی کا سوال ہی پیدذا نہیں ہوتا۔ دیکھیے سورة حجر (١٩ تا ٢١) ۔- (٥) فی اربعۃ ایام : یہاں ایک سوال ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوں میں ہوئی ہے۔ (دیکھیے اعراف : ٥٤۔ یونس : ٣۔ ہود : ٧۔ فرقان : ٥٩۔ سجدہ : ٤۔ ق : ٣٨ ۔ حدید : ٤) جب کہ ان آیات سے ان کی پیدائش آٹھ دنوں میں ظاہر ہو رہی ہے، اس لئے کہ پہلے زمین کو دو دنوں میں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا، پھر چار دنوں میں اس کے اوپر پہاڑ گاڑنے اور اس میں غذائیں رکھنے کا ذکر فرمایا، اس کے بعد والی آیات میں دو دنوں میں آسمانوں کو پورا کرنے کا ذکر فرمایا، تو یہ کل آٹھ دن بنتے ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ زیر تفسیر آیت میں مذکور ” اربعۃ ایام “ (چار دند) میں پہلے دو دن بھی شامل ہیں، یعنی زمین کی پیدائش اور اس میں پہاڑ گاڑنے اور غذائیں رکھنے کا کام کل چار دن میں ہوا۔ اس کے بعد دو دونوں میں آسمانوں کی پیدائش کا کام پورا ہوا، یہ کل چھ دن بنتے ہیں۔ مفسر شنقیطی نے فرمایا :” اس آیت کی یہ تفسیر جو ہم نے کی ہے اس کے علاوہ کوئی تفسیر کسی طرح بھی درست نہیں۔ “- (٦) سوآء للسآئلین : یعنی اللہ تعالیٰ نے روزی کا سوال کرنے والوں کے لئے، خواہ وہ زبان حال سے مانگیں یا زبان قال سے ان کی خوراکیں پورے اندازے کے ساتھ زمین میں رکھ دی ہیں اور اس کا اندازہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ مزید دیکھیے سورة ابراہیم کی آیت (٣٤) :(واتکم من کل ماسا لتموہ) کی تفسیر۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اپنی ہر ضرورت کا سوال اللہ تعالیٰ سے کر رہی ہے اور وہ ہر لمحے اسے پورا کر رہا ہے، جیسا کہ فرمایا :(یسئلہ من فی السموت والارض کل یوم ھو فی شان) (الرحمٰن : ٢٩)” اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پھر الگ کر کے فرمایا (آیت) (وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ) اس میں اس پر تو سبھی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ اربعة ایام ان پہلے دو دنوں کو شامل کر کے ہیں۔ اس سے الگ چار دن نہیں۔ ورنہ مجموعہ آٹھ دن ہوجائے گا جو تصریح قرآنی کے خلاف ہے۔- اب یہاں غور کرنے سے بظاہر مقتضیٰ مقام کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ فرمانے کے بعد پہاڑوں وغیرہ کی تخلیق کو بھی فی یومین کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا تھا تو اس کا مجموعہ چار دن ہونا خود بخود معلوم ہوجاتا مگر قرآن کریم نے عنوان تعبیر اس کے بجائے یہ رکھا کہ زمین کی تخلیقات میں سے باقی ماندہ کو ذکر کر کے فرمایا کہ یہ کل چار دن ہوئے۔ اس سے بظاہر اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ یہ چار دن متواتر اور مسلسل نہیں تھے بلکہ دو حصوں میں منقسم تھے۔ دو دن تخلیق سماوات سے پہلے دو دن اس کے بعد اور آیت مذکورہ میں جو (آیت) وجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا الخ کا ذکر ہے یہ آسمانوں کی تخلیق کے بعد کا بیان ہے۔ واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم۔- (آیت) وجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا۔ زمین میں پہاڑ اس کے توازن کو درست رکھنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں جیسا کہ متعدد آیات قرآن میں اس کی تصریح آئی ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں تھا کہ ان پہاڑوں کو زمین کی سطح کے اوپر بلند وبالا کر کے رکھا جائے، زمین کے اندر بھی رکھے جاسکتے تھے۔ مگر اوپر رکھنے اور ان کی بلندی کو عام انسانوں، جانوروں کی رسائی سے دور رکھنے میں زمین کے بسنے والوں کے لئے ہزاروں بلکہ بیشمار فوائد تھے۔ اس لئے اس آیت میں من فوقھا کے لفظ سے اس خاص نعمت کی طرف اشارہ کردیا گیا۔- (آیت) وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ۔ اقوات قوت کی جمع ہے جس کے معنی ہیں رزق اور روزی جس میں عام ضروریات انسانی داخل ہیں۔ کما قال ابوعبید (زاد المسیر لابن جوزی)- اور حضرت حسن اور سدی نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے ہر حصہ میں اس کے بسنے رہنے والوں کی مصالح کے مناسب رزق اور روزی مقدر فرما دی۔ مقدر فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم جاری کردیا کہ اس حصہ زمین میں فلاں فلاں چیزیں اتنی اتنی مقدار سے پیدا ہوجائیں۔ اسی تقدیر الٰہی سے ہر حصہ زمین کی کچھ خصوصیات ہوگئیں، ہر جگہ مختلف قسم کی معدنیات اور مختلف اقسام کی نباتات اور درخت اور جانور اس خطہ کی ضروریات ان کے مزاج و مرغوبات کے مطابق پیدا فرما دیئے۔- اسی سے ہر خطہ کی مصنوعات و ملبوسات مختلف ہوتی ہیں۔ یمن میں عصب، سابور میں سابوری، رئے میں طیالسہ۔ کسی خطہ میں گندم، کسی میں چاول اور دوسرے غلات، کسی جگہ میں روئی، کسی میں جوٹ، کسی میں سیب انگور اور کسی میں آم۔ اس اختلاف اشیاء میں ہر خطہ کے مزاجوں کی مناسبت بھی ہے اور عکرمہ اور ضحاک کے قول کے مطابق یہ فائدہ بھی ہے کہ دنیا کے سب خطوں اور ملکوں میں باہمی تجارت اور تعاون کی راہیں کھلیں۔ کوئی خطہ دوسرے خطہ سے مستغنی نہ ہو۔ باہمی احتیاج ہی پر باہمی تعاون کی مضبوط تعمیر ہو سکتی ہے۔ عکرمہ نے فرمایا کہ بعض خطوں میں نمک کو سونے کے برابر تول کر فروخت کیا جاتا ہے۔- گویا زمین کو حق تعالیٰ نے اس پر بسنے والے انسانوں اور جانوروں کی تمام ضروریات، غذا، مسکن اور لباس وغیرہ کا ایک ایسا عظیم الشان گدام بنادیا ہے، جس میں قیامت تک آنے اور بسنے والے اربوں اور کھربوں انسانوں اور لاتعداد جانوروں کی سب ضروریات رکھ دی ہیں۔ وہ زمین کے پیٹ میں بڑھتی اور حسب ضرورت قیامت تک نکلتی رہیں گی۔ انسان کا کام صرف یہ رہے گا کہ اپنی ضروریات کو زمین سے نکال کر اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرے۔ آگے آیت میں فرمایا سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ۔ اس جملہ کا تعلق اکثر حضرات مفسرین نے اربعہ ایام کے ساتھ قرار دیا ہے۔ معنی یہ ہیں یہ سب تخلیقات عظیمہ ٹھیک چار دن میں ہوئی ہیں۔ اور چونکہ عرف میں جس کو چار کہہ دیا جاتا ہے۔ وہ کبھی چار سے کچھ کم کبھی زیادہ بھی ہوتا ہے، مگر کسر کو حذف کر کے اس کو چار ہی کہہ دیتے ہیں۔ آیت میں اس جگہ لفظ سوائً بڑھا کر اس احتمال کو قطع کر کے یہ بتلا دیا کہ یہ کام پورے چار دن میں ٹھیک ہوا ہے۔ اور للسائلین فرمانے کے معنے یہ ہیں کہ جو لوگ آسمان زمین کی تخلیق کے متعلق آپ سے سوالات کر رہے ہیں جیسا کہ یہود کا سوال کرنا تفسیر ابن جریر اور درمنثور میں منقول ہے۔ ان سوالات کرنے والوں کو یہ بتلا دیا گیا ہے کہ یہ سب تخلیق ٹھیک چار دن میں ہوئی ہے۔ (ابن کثیر، قرطبی، روح)- اور بعض مفسرین ابن زید وغیرہ نے للسائلین کا تعلق جملہ وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا کے ساتھ قرار دیا ہے۔ اور سائلین کے معنی طالبین و محتاجین کے لئے ہیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ زمین میں اللہ تعالیٰ نے جو مختلف اجناس و اقسام کی اقوات و ضروریات پیدا فرمائی ہیں یہ ان لوگوں کے فائدے کے لئے ہیں جو ان کے طالب اور حاجت مند ہیں اور چونکہ طالب و محتاج عادتاً سوال کیا کرتا ہے اس لئے اس کو سائلین کے لفظ سے تعبیر کردیا۔ (بحرمحیط)- اور ابن کثیر نے اس تفسیر کو نقل کر کے فرمایا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا (آیت) اتکم من کل ما سالتموہ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے وہ سب چیزیں عطا فرمائیں، جو تم نے مانگیں کیونکہ یہاں بھی مانگنے سے مراد ان کا حاجت مند ہونا ہے۔ سوال کرنا شرط نہیں، کیونکہ حق تعالیٰ نے چیزیں نہ مانگنے والوں کو بھی عطا فرمائی ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلَ فِيْہَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِہَا وَبٰرَكَ فِيْہَا وَقَدَّرَ فِيْہَآ اَقْوَاتَہَا فِيْٓ اَرْبَعَۃِ اَيَّامٍ۝ ٠ ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ۝ ١٠- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ- [ سبأ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] ،- ( ر س و )- رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :- وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ - فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- قَدْرُ والتَّقْدِيرُ- والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال :- قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ.- يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه،- فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين :- أحدهما : بإعطاء القدرة .- والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان :- ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات .- فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين :- أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] .- والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله :- فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا - «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ- [ القمر 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ- [ عبس 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ- [ البقرة 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى- [ الأعلی 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال،- القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔ - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠۔ ١١) اور اس نے زمین کے اوپر مضبوط پہاڑ بنا دیے جو اس کے لیے میخیں ہیں اور زمین میں پانی درخت سبزیاں اور پھل پیدا کیے اور اس نے زمین میں معیشت اور غذا کی چیزیں پیدا کردیں جو اس زمین کے علاوہ اور مقام پر نہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے روحوں کو جسموں سے دنیاوی سالوں کے اعتبار سے چار ہزار سال پہلے پیدا کیا جسموں سے چار ہزار سال پہلے ان کی روزیاں مقرر کردیں۔- یہ تمام چیزیں پوری ہیں خواہ کوئی پوچھے یا نہ پوچھے یا یہ کہ سوال کرنے والوں کے لیے جنہوں نے ان چیزوں کے پیدا ہونے کے بارے میں سوال کیا تھا یہ جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کیا۔ پھر آسمان کے بنانے کی طرف متوجہ ہوا وہ پانی کے بخارات کی طرح تھا پھر آسمان زمین کے بنانے سے فارغ ہونے کے بعد ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں جو تمہارے اندر پانی اور سبزیاں رکھی ہیں خواہ خوشی سے لے کر آؤ یا زبردستی سے لے آؤ وہ دونوں کہنے لگے ہم بخوشی لارہے ہیں مخلوق کو ہم تکلیف پہنچانا ناگوارا نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا ” اور اس میں اس نے بنائے پہاڑوں کے لنگر اس کے اوپر سے “- وَبٰرَکَ فِیْہَا وَقَدَّرَ فِیْہَآ اَقْوَاتَہَا فِیْٓ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ ” اور اس میں برکات پیدا کیں اور اس میں اندازے مقررکیے اس کی غذائوں کے ‘ چار دنوں میں۔ “- یعنی دو دنوں میں زمین کو پیدا کیا جو بذات خود ایک بہت بڑی تخلیق ہے ‘ پھر مزید دو دنوں میں اس کے اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیے اور زمین کی مٹی کو روئیدگی کے قابل بنایا۔ زمین ابتدا میں تو آگ کے ایک ُ کرے ّکی شکل میں تھی۔ آہستہ آہستہ یہ ٹھنڈی ہوئی۔ پہلے پہل اس کی مٹی میں صرف پائے جاتے تھے۔ ہوتے ہوتے پیدا ہوئے۔ اس کے بعداس میں وہ صلاحیت اور اہلیت پیدا ہوئی کہ یہ زندگی کا گہوارہ بن سکے۔ یہ سارا عمل چار دنوں میں مکمل ہوا۔ یہ آیت تا حال آیات متشابہات میں سے ہے ‘ ابھی تک ہم ان چار دنوں کی حقیقت اور تفصیل کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔- سَوَآئً لِّلسَّآئِلِیْنَ ” تمام سائلین کے لیے برابر۔ “- زمین کی مختلف صلاحیتوں ‘ اس کی پیداوار اور اس کے غذائی ذخائر پر ان سب کا حق برابر ہے جنہیں ان کی ضرورت ہے۔ اس میں کسی کے لیے کوئی خاص حصہ نہیں رکھا گیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :11 زمین کی برکتوں سے مراد وہ بے حد و حساب سر و سامان ہے جو کروڑہا کروڑ سال سے مسلسل اس کے پیٹ سے نکلتا چلا آ رہا ہے اور خورد بینی کیڑوں سے لے کر انسان کے بلند ترین تمدن تک کی روز افزوں ضروریات پوری کیے چلا جا رہا ہے ۔ ان برکتوں میں سب سے بڑی برکتیں ہوا اور پانی ہیں جن کی بدولت ہی زمین پر نباتی ، حیوانی اور پھر انسانی زندگی ممکن ہوئی ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :12 اصل الفاظ ہیں : قَدَّرَ فِیْھَآ اَقْوَاتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَآءً لِلسَّآئِلِیْنَ ۔ اس فقرے کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں : بعض مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے ٹھیک حساب سے رکھ دیے پورے چار دنوں میں ۔ یعنی کم یا زیادہ نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ۔ ابن عباس ، قَتَادہ اور سُدّی اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ زمین میں اس کے ارزاق چار دنوں میں رکھ دیے ۔ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا ۔ یعنی جو کوئی یہ پوچھے کہ یہ کام کتنے دنوں میں ہوا ، اس کا مکمل جواب یہ ہے کہ چار دنوں میں ہو گیا ۔ ابن زید اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے چار دنوں کے اندر رکھ دیے ٹھیک اندازے سے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ۔ جہاں تک قواعد زبان کا تعلق ہے ، آیت کے الفاظ میں یہ تینوں معنی لینے کی گنجائش ہے ۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلے دو معنوں میں کوئی خوبی نہیں ہے ۔ موقع و محل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیا اہمیت رکھتی ہے کہ یہ کام ایک گھنٹہ کم چار دن یا ایک گھنٹہ زیادہ چار دن میں نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ہوا ۔ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور کمال ربوبیت اور کمال حکمت کے بیان میں کون سی کسر رہ جاتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے اس تصریح کی حاجت ہو؟ اسی طرح یہ تفسیر بھی بڑی کمزور تفسیر ہے کہ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا ۔ آیت سے پہلے اور بعد کے مضمون میں کسی جگہ بھی کوئی قرینہ یہ نہیں بتاتا کہ اس وقت کسی سائل نے یہ دریافت کیا تھا کہ یہ سارے کام کتنے دنوں میں ہوئے ، اور یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی ۔ انہی وجوہ سے ہم نے ترجمے میں تیسرے معنی کو اختیار کیا ہے ۔ ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ زمین میں ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک جس جس قسم کی جتنی مخلوق بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا تھا ، ہر ایک کی مانگ اور حاجت کے ٹھیک مطابق غذا کا پورا سامان حساب لگا کر اس نے زمین کے اندر رکھ دیا ۔ نباتات کی بے شمار اقسام خشکی اور تری میں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی غذائی ضروریات دوسری اقسام سے مختلف ہیں ۔ جاندار مخلوقات کی بے شمار انواع ہوا اور خشکی اور تری میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اور ہر نوع ایک الگ قسم کی غذا مانگتی ہے ۔ پھر ان سب سے جدا ، ایک اور مخلوق انسان ہے جس کو محض جسم کی پرورش ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے بھی طرح طرح کی خوراکیں درکار ہیں ۔ اللہ کے سوا کون جان سکتا تھا کہ اس کرہ خاکی پر زندگی کا آغاز ہونے سے لے کر اس کے اختتام تک کس کس قسم کی مخلوقات کے کتنے افراد کہاں کہاں اور کب کب وجود میں آئیں گے اور ان کو پالنے کے لیے کیسی اور کتنی غذا درکار ہو گی ۔ اپنی تخلیقی اسکیم میں جس طرح اس نے غذا طلب کرنے والی ان مخلوقات کو پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اسی طرح اس نے ان کی طلب کو پورا کرنے کے لیے خوراک کا بھی مکمل انتظام کر دیا ۔ موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے مارکسی تصور اشتراکیت کا اسلامی ایڈیشن قرآنی نظام ربوبیت کے نام سے نکالا ہے وہ سواءً للسّائِلین کا ترجمہ سب مانگنے والوں کے لیے برابر کرتے ہیں ، اور اس پر استدلال کی عمارت یوں اٹھاتے ہیں کہ اللہ نے زمین میں سب لوگوں کے لیے برابر خوراک رکھی ہے ، لہٰذا آیت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے ریاست کا ایک ایسا نظام درکار ہے جو سب کو غذا کا مساوی راشن دے ، کیونکہ انفرادی ملکیت کے نظام میں وہ مساوات قائم نہیں ہو سکتی جس کا یہ قرآنی قانون تقاضا کر رہا ہے ۔ لیکن یہ حضرات قرآن سے اپنے نظریات کی خدمت لینے کے جوش میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سائلین ، جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے ، صرف انسان ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف اقسام کی وہ سب مخلوقات ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کیا واقعی ان سب کے درمیان ، یا ایک ایک قسم کی مخلوقات کے تمام افراد کے درمیان خدا نے سامان پرورش میں مساوات رکھی ہے؟ کیا فطرت کے اس پورے نظام میں کہیں آپ کو غذا کے مساوی راشن کی تقسیم کا انتظام نظر آتا ہے؟ اگر واقعہ یہ نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا میں ، جہاں انسانی ریاست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ریاست براہ راست تقسیم رزق کا انتظام کر رہی ہے ، اللہ میاں خود اپنے اس قرآنی قانون کی خلاف ورزی .................... بلکہ معاذ اللہ ، بے انصافی............... فرما رہے ہیں پھر وہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ سائلین میں وہ حیوانات بھی شامل ہیں جنہیں انسان پالتا ہے ، اور جن کی خوراک کا انتظام انسان ہی کے ذمہ ہے ۔ مثلاً بھیڑ ، بکری ، گائے ، بھینس ، گھوڑے ، گدھے ، خچر ، اور اونٹ وغیرہ ۔ اگر قرآنی قانون یہی ہے کہ سب سائلین کو برابر خوراک دی جائے ، اور اسی قانون کو نافذ کرنے کے لیے نظام ربوبیت چلانے والی ایک ریاست مطلوب ہے ، تو کیا وہ ریاست انسان اور ان حیوانات کے درمیان معاشی مساوات قائم کرے گی؟ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :13 اس مقام کی تفسیر میں مفسرین کو بالعموم یہ زحمت پیش آئی ہے کہ اگر زمین کی تخلیق کے دو دن ، اور اس میں پہاڑ جمانے اور برکتیں رکھنے اور سامان خوراک پیدا کرنے کے چار دن تسلیم کیے جائیں ، تو آگے آسمانوں کی پیدائش دو دنوں میں ہونے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے مزید دو دن ملا کر آٹھ دن بن جاتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر قرآن مجید میں تصریح فرمائی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق جملہ چھ دنوں میں ہوئی ہے ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، ص 36 ۔ 261 ۔ 324 ۔ جلد دوم ص 460 ) ۔ اسی بنا پر قریب قریب تمام مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ چار دن زمین کی تخلیق کے دو دن سمیت ہیں ، یعنی دو دن تخلیق زمین کے اور دو دن زمین کے اندر ان باقی چیزوں کی پیدائش کے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ، اس طرح جملہ چار دنوں میں زمین اپنے سرو سامان سمیت مکمل ہو گئی ۔ لیکن یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے ، اور در حقیقت وہ زحمت بھی محض خیالی زحمت ہے جس سے بچنے کے لیے اس تاویل کی ضرورت محسوس کی گئی ہے ۔ زمین کی تخلیق کے دو دن دراصل ان دو دنوں سے الگ نہیں ہیں جن میں بحیثیت مجموعی پوری کائنات بنی ہے ۔ آگے کی آیات پر غور کیجیے ۔ ان میں زمین اور آسمان دونوں کی تخلیق کا یکجا ذکر کیا گیا ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے ۔ ان سات آسمانوں سے پوری کائنات مراد ہے جس کا ایک جز ہماری یہ زمین بھی ہے ۔ پھر جب کائنات کے دوسرے بے شمار تاروں اور سیاروں کی طرح یہ زمین بھی ان دو دنوں کے اندر مجرد ایک کرے کی شکل اختیار کر چکی تو اللہ تعالیٰ نے اسکو ذی حیات مخلوقات کے لیے تیار کرنا شروع کیا اور چار دنوں کے اندر اس میں وہ سب کچھ سرو سامان پیدا کر دیا جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسرے تاروں اور سیاروں میں ان چار دنوں کے اندر کیا کچھ ترقیاتی کام کیے گئے ، ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے ، کیونکہ نزول قرآن کے دور کا انسان تو در کنار ، اس زمانے کا آدمی بھی ان معلومات کو ہضم کرنے کی استعداد نہیں رکھتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: زمین میں برکت ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں مخلوقات کے فائدے کی چیزیں پیدا فرمائیں، اور ایسا نظام بنا دیا کہ وہ زمین سے ضرورت کے مطابق مناسب مقدار میں نکلتی رہیں۔ 3: ان چار دنوں میں زمین کی تخلیق بھی شامل ہے جس کے بارے میں پیچھے فرمایا گیا تھا کہ وہ دو دن میں مکمل فرمائی، لہذا دو دن میں زمین پیدا کی گئی اور دو دن میں اس زمین پر پہاڑ اور دوسری انسانی ضروریات کی چیزیں اور خوارک وغیرہ پیدا کرنے کا انتظام فرمایا گیا، اس طرح زمین اور اس کے اوپر کی اشیاء پیدا کرنے میں کل چار دن استعمال فرمائے گئے۔ اور دو دن میں ساتوں آسمان پیدا فرمائے گئے۔ اس طرح کائنات کی تخلیق کل چھ دن میں مکمل ہوئی، جیسا کہ سورۃ اعراف : 54، سورۃ یونس : 3، سورۃ ہود : 7 سورۃ فرقان : 59 سورۃ الم السجدہ : 4 اور سورۃ حدید : 4 میں مذکور ہے۔ سورۃ اعراف میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب دنوں کا حساب سورج کے طلوع و غروب کے بجائے کسی اور معیار پر ہوتا تھا جس کا ٹھیک ٹھیک علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، اور اگرچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ بھی تھا کہ وہ ایک ہی لمحے میں سب کچھ پیدا فرما دیتے، لیکن اس عمل کے ذریعے انسان کو بھی جلد بازی کے بجائے اطمینان اور وقار کے ساتھ کام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، نیز اس میں اور بھی نہ جانے کیا کیا مصلحتیں ہوں گی جن کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ 4: اس جملے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ جو لوگ بھی زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں سوال کریں، ان سب کے لیے یہ یکساں جواب ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ’’ سوال کرنے والوں‘‘ سے مراد وہ ساری مخلوقات ہیں جو زمین سے غذائیں حاصل کرنا چاہیں، چاہے وہ انسان ہوں، یا جنات، یا جانور۔ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے یہ موقع عطا فرمایا ہے کہ وہ زمین سے اپنی اپنی عذا حاصل کرسکیں۔ مختلف مفسرین نے اس جملے کی یہ دونوں تفسیریں کی ہیں، چنانچہ ترجمے میں بھی دونوں کی گنجائش ہے۔