Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 یہ آنا کس طرح تھا ؟ اس کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی۔ یہ دونوں اللہ کے پاس آئے جس طرح اس نے چاہا، بعض نے اس کا مفہوم لیا ہے کہ میرے حکم کی اطاعت کرو، انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم حاضر ہیں، چناچہ اللہ نے آسمانوں کو حکم دیا، سورج، چاند ستارے نکال اور زمین کو کہا، نہریں جاری کر دے اور پھل نکال دے (ابن کثیر) یہ مفہوم ہے کہ تم دونوں وجود میں آجاؤ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] زمین و آسمان کا ملا جلا ملغوبہ :۔ اس آیت میں ثم کا لفظ زمانی ترتیب کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ زمین و آسمان کی تخلیق کے ایک پہلو سے ہے۔ بالفاظ دیگر یہ زمین کی تخلیق کے بعد کا واقعہ نہیں ہے بلکہ پہلے کا ہے۔ جسے بعد میں بیان کیا گیا ہے اور اس کی واضح دلیل یہ آیت ہے۔ ( اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا 30؀) 21 ۔ الأنبیاء :30) یعنی زمین و آسمان پہلے ملے جلے اور گڈ مڈ تھے ؟ تو ہم نے انہیں جدا جدا بنادیا۔ اور یہاں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اس وقت فضائے بسیط میں صرف دھواں ہی دھواں یا مرکب قسم کی گیسیں تھیں۔ یعنی کائنات کا ابتدائی ہیولیٰ بھی گیسوں کا مجموعہ تھا۔ اس گیس کے مجموعے سے ہی اللہ تعالیٰ نے زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے سب کچھ بنا دیئے۔ کائنات کے جس نقشہ کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ زمین فلاں مقام پر اور اتنی جسامت کی ہونی چاہئے۔ آسمان ایسے ہونا چاہئیں سورج فلاں مقام پر اور زمین سے اتنے فاصلہ پر اور اتنی جسامت کا ہونا چاہئے۔ ستارے اور کہکشائیں چاند اور ستارے ایسے اور ایسے ہونے چاہئیں۔ غرض اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق گیسوں کے اس ہیولیٰ سے یہ سب چیزیں بنتی چلی گئیں اور اس طرح کائنات کی تخلیق پر چھ یوم (ادوار) صرف ہوئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ثم استوی الی السمآء …” استوی “ کے بعد ” الی “ ہو تو اس کا معنی قصد کرنا ہوتا ہے۔ یعنی پھر اللہ نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی، وہ اس وقت دھوئیں کی صورت میں تھا، تو اسے یعنی آسمان اور زمین دونوں سے کہا ” ائتیا (آجاؤ) یعنی میرے حکم کی اطاعت کرو، خوشی سے کرو یا مجبوری سے، ہر حال میں کرنا پڑے گی۔- (٢) قالتآ اتینا طآئعین : ان دونوں نے کہا، ہم خوشی سے حضار ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کائنات میں جو چیزیں طبعی طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتی ہیں، مثلاً فرشتے اس کے حکم کے بغیر کوئی بات کرتے ہیں نہ کوئی کام، اسی طرح سورج، چاند ستارے ، بادل ہوائیں، سمندر، نباتات اور حیوانات و جمادات، غرض ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چل رہی ہے ، ذرہ برابر ادھر ادھر نہیں ہوتی، تو یہ سب چیزیں مجبور ہو کر نہیں بلکہ اپنی رضا اور خوش دلی سے مالک کے حکم پر چل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت ہی اسلام (فرما برداری اور اطاعت) بنائی ہے۔- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اپنے رب کے احکام سننے، سمجھنے، ان کا جواب دینے اور ان پر عمل کرنے کی پوری سمجھ رکھتی ہے، خواہ ہم اسے ” لایعقل “ (بےسمجھ) خیال کرتے رہیں، کیونکہ لفظ ” طآئعین “ (جمع مذکر سالم) عربی لغت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے، یہ لاگ بات ہے کہ ہم ان کی گفتگو یا تسبیخ نہ سمجھ سکیں ، مزید دیکھیے۔ سورة نبی اسرائیل (٤٤) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًااَوْ كَرْهً آ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ ۔ یہ آسمان و زمین کو خطاب کر کے حکم دینا اور ان کا اطاعت و فرمانبرداری سے جواب دینا بعض مفسرین کے نزدیک مجاز ہے کہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان ہر کام کے لئے تیار پائے گئے۔ مگر ابن عطیہ اور دوسرے محققین ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اس میں کوئی مجاز نہیں، سب اپنی حقیقت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین میں شعور و ادراک خطاب کے سمجھنے کا بھی پیدا فرما دیا تھا اور ان کو گویائی کی طاقت بھی جواب دینے کے لئے عطا فرما دی تھی۔ تفسیر بحر محیط میں اس کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ یہی تفسیر احسن اور بہتر ہے۔- ابن کثیر نے اس کو نقل کر کے بعض کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ زمین کی طرف سے یہ جواب اس حصہ پر زمین نے دیا تھا جس پر بیت اللہ کی تعمیر ہوئی اور آسمان کے اس حصہ نے جو بیت اللہ کے بالمقابل ہے، (جس کو بیت المعمور کہا جاتا ہے)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَہِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْہًا۝ ٠ ۭ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ۝ ١١- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - دخن - الدّخان کالعثان : المستصحب للهيب، قال : ثُمَّ اسْتَوى إِلَى السَّماءِ وَهِيَ دُخانٌ [ فصلت 11] ، أي : هي مثل الدّخان، إشارة إلى أنه لا تماسک لها، ودَخَنَتِ النار تَدْخُنُ : كثر دخانها والدُّخْنَة منه، لکن تعورف فيما يتبخّر به من الطّيب . ودَخِنَ الطّبيخ : أفسده الدّخان . وتصوّر من الدّخان اللّون، فقیل : شاة دَخْنَاء، وذات دُخْنَةٍ ، ولیلة دَخْنَانَة، وتصوّر منه التّأذّي به، فقیل : هو دَخِنُ الخُلُقِ ، وروي :«هدنة علی دَخَنٍ» أي : علی فساد دخلة .- ( د خ ن ) الدخان ۔ یہ الشنان کے ہم معنی ہے یعنی اس دہوئیں کو کہتے ہیں جو آگ کے شعلہ کے نکلتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ اسْتَوى إِلَى السَّماءِ وَهِيَ دُخانٌ [ فصلت 11] پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ دھوئیں کی مثل تھا یعنی اس میں تماسک نہیں تھا ۔ آگ کا کثرت سے دھواں دینا اسی سے دخنۃ ہے لیکن عرف میں اس خوشبو کو دخنۃ کہا جاتا ہے جس سے دہونی دی جاتی ہے پکی ہوئی چیز کا دہوئیں سے خراب ہوجانا ۔ اور دخان سے لون ( رنگ ) کے معنی لے کرجاتا ہے ۔ ( ہوئیں جیسی سیاہ بکری ۔ تاریک رات ۔ اور اس سے ایذا رسانی کے معنی لیکر کا محاورہ استعمال کرتے ہیں یعنی وہ بد خلق ہے ۔ ایک روایت میں ہے یعنی صلھ ہوجائے گی لیکن دلوں میں کنیہ ہوگا ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - اتینا طائعین۔ ہم بخوشی حاضر ہیں ( تعمیل ارشاد کے لئے) اتینا ماضی کا صیغہ جمع متکلم۔ ہم آگئے ہیں۔ ہم حاضر ہیں۔ اگر اتیان مصدر کا تعدیہ باء کے ساتھ ہو تو لانے اور پہنچانے کے معنی ہوں گے۔ طائعین : طوع سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ اپنی خوشی سے کہا ماننے والے ۔ فرماں بردار۔ طائع واحد۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١ ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ وَہِیَ دُخَانٌ ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا ‘ اور ابھی وہ ایک دھواں سا تھا “- یہ اس وقت کا ذکر ہے جب آسمان ایک دھویں کی شکل میں تھا اور ابھی سات آسمانوں کی الگ الگ صورتیں وجود میں نہیں آئی تھیں۔ ان آیات میں کائنات کی تخلیق کے ابتدائی مرحلے سے متعلق کچھ اشارے پائے جاتے ہیں۔ سائنسی شواہد کے مطابق کے بعد آگ کا ایک بہت ہی بڑا گولا وجود میں آیا۔ پھر اس گولے میں مزید دھماکے ہوئے اور اس طرح اس مادے کے جو حصے علیحدہ ہوئے ان سے کہکشائیں بننا شروع ہوئیں۔ - فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا ” تو اس نے آسمان اور زمین سے کہا کہ تم دونوں چلے آئو خوشی سے یا جبراً “- قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ ” ان دونوں نے کہا کہ ہم حاضر ہیں پوری آمادگی کے ساتھ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :14 اس مقام پر تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے : اول یہ کہ آسمان سے مراد یہاں پوری کائنات ہے ، جیسا کہ بعد کے فقروں سے ظاہر ہے ۔ دوسرے الفاظ میں آسمان کی طرف متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات کی طرف متوجہ ہوا ۔ دوم یہ کہ دھوئیں سے مراد مادے کی وہ ابتدائی حالت ہے جس میں وہ کائنات کی صورت گری سے پہلے ایک بے شکل منتشر الاجزاء غبار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا تھا ۔ موجودہ زمانہ کے سائنسداں اسی چیز کو سحابیے ( ) سے تعبیر کرتے ہیں اور آغاز کائنات کے متعلق ان کا تصور بھی یہی ہے کہ تخلیق سے پہلے وہ مادہ جس سے کائنات بنی ہے ، اسی دخانی یا سحابی شکل میں منتشر تھا ۔ سوم یہ کہ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا سے یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ پہلے اس نے زمین بنائی ، پھر اس میں پہاڑ جمانے ، برکتیں رکھنے اور سامان خوراک فراہم کرنے کا کام انجام دیا ، پھر اس سے فارغ ہونے کے بعد وہ کائنات کی تخلیق کی طرف متوجہ ہوا ۔ اس غلط فہمی کو بعد کا یہ فقرہ رفع کر دیتا ہے کہ اس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آجاؤ اور انہوں نے کہا ہم آ گئے فرماں برداروں کی طرح ۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس آیت اور بعد کی آیات میں ذکر اس وقت کا ہو رہا ہے جب نہ زمین تھی نہ آسمان تھا بلکہ تخلیق کائنات کی ابتدا کی جارہی تھی ۔ محض لفظ ثُمَّ ( پھر ) کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ زمین کی پیدائش آسمان سے پہلے ہو چکی تھی ۔ قرآن مجید میں اس امر کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ثُمَّ کا لفظ لازماً ترتیب زمانی ہی کے لیے نہیں ہوتا ، بلکہ ترتیب بیان کے طور پر بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، سورہ زمر ، حاشیہ نمبر 12 ) قدیم زمانے کے مفسرین میں یہ بحث مدت ہائے دراز تک چلتی رہی ہے کہ قرآن مجید کی رو سے زمین پہلے بنی ہے یا آسمان ۔ ایک گروہ اس آیت اور سورہ بقرہ کی آیت 29 سے یہ استدلال کرتا ہے کہ زمین پہلے بنی ہے ۔ دوسرا گروہ سورہ نازعات کی آیات 27 تا 33 سے دلیل لاتا ہے کہ آسمان پہلے بنا ہے ، کیونکہ وہاں اس امر کی تصریح ہے کہ زمین کی تخلیق آسمان کے بعد ہوئی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی جگہ بھی تخلیق کائنات کا ذکر طبیعیات یا ہیئت کے علوم سکھانے کے لیے نہیں کیا گیا ہے بلکہ توحید و آخرت کے عقائد پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہوئے بے شمار دوسرے آثار کی طرح زمین و آسمان کی پیدائش کو بھی غور و فکر کے لیے پیش فرمایا گیا ہے ۔ اس غرض کے لیے یہ بات سرے سے غیر ضروری تھی کہ تخلیق آسمان و زمین کی زمانی ترتیب بیان کی جاتی اور بتایا جاتا کہ زمین پہلے بنی ہے یا آسمان ۔ دونوں میں سے خواہ یہ پہلے بنی ہو یا وہ ، بہرحال دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے اِلٰہِ واحد ہونے پر گواہ ہیں اور اس امر پر شاہد ہیں کہ ان کے پیدا کرنے والے نے یہ سارا کارخانہ کسی کھلنڈرے کے کھلونے کے طور پر نہیں بنایا ہے ۔ اسی لیے قرآن کسی جگہ زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کرتا ہے اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ۔ جہاں انسان کو خدا کی نعمتوں کا احساس دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ زمین کا ذکر پہلے کرتا ہے ، کیونکہ وہ انسان سے قریب تر ہے ۔ اور جہاں خدا کی عظمت اور اس کے کمال قدرت کا تصور دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ آسمانوں کا ذکر پہلے کرتا ہے ، کیونکہ چرخ گردوں کا منظر ہمیشہ سے انسان کے دل پر ہیبت طاری کرتا رہا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :15 ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے طریق تخلیق کی کیفیت ایسے انداز سے بیان فرمائی ہے جس سے خدائی تخلیق اور انسانی صناعی کا فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے ۔ انسان جب کوئی چیز بنانا چاہتا ہے تو پہلے اس کا نقشہ اپنے ذہن میں جماتا ہے ، پھر اس کے لیے مطلوبہ مواد جمع کرتا ہے ، پھر اس مواد کو اپنے نقشے کے مطابق صورت دینے کے لیے پیہم محنت اور کوشش کرتا ہے ، اور اس کوشش کے دوران میں وہ مواد ، جسے وہ اپنے ذہنی نقشے پر ڈھالنا چاہتا ہے ، مسلسل اس کی مزاحمت کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ کبھی مواد کی مزاحمت کامیاب ہو جاتی ہے اور چیز مطلوبہ نقشے کے مطابق ٹھیک نہیں بنتی اور کبھی آدمی کی کوشش غالب آجاتی ہے اور وہ اسے اپنی مطلوبہ شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک درزی قمیص بنانا چاہتا ہے ۔ اس کے لیے پہلے وہ قمیص کی صورت کا تصور اپنے ذہن میں حاضر کرتا ہے ، پھر کپڑا فراہم کر کے اسے اپنے تصور قمیص کے مطابق تراشنے اور سینے کی کوشش کرتا ہے ، اور اس کوشش کے دوران میں اسے کپڑے کی اس مزاحمت کا مسلسل مقابلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ درزی کے تصور پر ڈھلنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتا ، حتیٰ کہ کبھی کپڑے کی مزاحمت غالب آ جاتی ہے اور قمیص ٹھیک نہیں بنتا اور کبھی درزی کی کوشش غالب آ جاتی ہے اور وہ کپڑے کو ٹھیک اپنے تصور کے مطابق شکل دے دیتا ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ کا طرز تخلیق دیکھیے ۔ کائنات کا مادہ دھوئیں کی شکل میں پھیلا ہوا تھا ۔ اللہ نے چاہا کہ اسے وہ شکل دے جو اب کائنات کی ہے ۔ اس غرض کے لیے اسے کسی انسان کاریگر کی طرح بیٹھ کر زمین اور چاند اور سورج اور دوسرے تارے اور سیارے گھڑنے نہیں پڑے ، بلکہ اس نے کائنات کے اس نقشے کو جو اس کے ذہن میں تھا بس یہ حکم دے دیا کہ وہ وجود میں آ جائے ، یعنی دھوئیں کی طرح پھیلا ہوا مواد ان کہکشانوں اور تاروں اور سیاروں کی شکل میں ڈھل جائے جنہیں وہ پیدا کرنا چاہتا تھا ۔ اس مواد میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ کے حکم کی مزاحمت کرتا ۔ اللہ کو اسے کائنات کی صورت میں ڈھالنے کے لیے کوئی محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑی ۔ ادھر حکم ہوا اور ادھر وہ مواد سکڑ اور سمٹ کر فرمانبرداروں کی طرح اپنے مالک کے نقشے پر ڈھلتا چلا گیا ، یہاں تک کہ 48 گھنٹوں میں زمین سمیت ساری کائنات بن کر تیار ہو گئی ۔ اللہ تعالیٰ کے طریق تخلیق کی اسی کیفیت کو قرآن مجید میں دوسرے متعدد مقامات پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ ۱۱۵ ، آل عمران ، حواشی ٤٤ ۔ ۵۳ ، جلد دوم ، النحل ، حواشی ۳۵ ۔ ۳٦ ۔ جلد سوم ، مریم ، حاشیہ ۲۲ ۔ جلد چہارم ، یٰس ، آیت 82 ۔ المومن ، آیت 68 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: شروع میں اللہ تعالیٰ نے آسمان کا مادہ پیدا فرما دیا تھا جو دھویں کی شکل میں تھا، پھر دو دن میں اسے سات آسمانوں کی صورت میں تبدیل فرما کر اس کا مستقل نظام قائم فرمایا۔ 6: ’’ چلے آؤ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکم کے تابع بن جاؤ، ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا کہ تم خوشی سے ہمارے حکم کے تابع بننا نہ چاہو، تب بھی تمہیں زبردستی تابع بننا ہی پڑے گا، یعنی زمین اور آسمان میں وہی کام ہوں کے جن کا اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق تکوینی طور پر ہم حکم دیں گے، تمہارے اندر یہ قدرت پیدا نہیں کی گئی ہے کہ تم ہمارے تکوینی احکام کی مخالفت کرسکو، لہذا اگر تم خوشی سے نہیں چاہو گے تو زبردستی تمہیں کرنا وہی ہوگا جو ہمارا حکم ہے۔ اس میں یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ انسان کا معاملہ کائنات کی دوسری مخلوقات سے مختلف ہے، انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے احکام کا پابند ہے، ایک تکوینی احکام ہیں، مثلا یہ کہ وہ کب پیدا ہوگا، کتنی عمر پائے گا، اسے کونسی بیماریاں لاحق ہوں گے، اس کی کتنی اولاد ہوگی، یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں، اور ان معاملات میں انسان کائنات کی دوسری مخلوقات کی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع رہنے پر مجبور ہے۔ یہاں آسمان و زمین سے یہ مکالمہ حقیقی بھی ہوسکتا ہے، اور مجازی بھی، لیکن انسان کو بتانا یہ مقصود ہے کہ ان تکوینی احکام میں چونکہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلنے پر مجبور ہے، اس لیے وہ ان احکام پر خوشی سے چلے، یا ان پر ناخوش ہو، ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ لہذا ایک بندہ ہونے کی وجہ سے انسان کو وہی طرز عمل اختیار کرنا چاہئے جو زمین اور آسمان نے کیا کہ انہوں نے کہ ہم تو خوشی خوشی اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے تابع رہیں گے۔ لہذا غیر اختیاری معاملات میں جو بات بھی پیش آئے، انسان کو اس پر اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر کم از کم عقلی طور پر راضی رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی ایک قسم اور ہے جنہیں تشریعی احکام کہا جاتا ہے، یعنی کو سی چیز حلال ہے، کونسی حرام، اللہ تعالیٰ کو کونسا کام پسند ہے، کونسا ناپسند۔ انسان کو حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ وہی کام کرے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، لیکن اس بات پر اسے اس طرح مجبور نہیں کیا گیا جیسے تکوینی احکام پر وہ مجبور ہے، بلکہ یہ احکام دینے کے بعد اسے یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان پر عمل کرے، اور اگر چاہے تو نافرمانی کا راستہ اختیار کرلے، اور یہی اس کا امتحان ہے جس کے نتیجے میں اس کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا۔ چونکہ دوسری مخلوقات کو اس امتحان میں نہیں ڈالا گیا، اس لیے ان کو نہ تشریعی احکام دئیے گئے ہیں، اور نہ نافرمانی کا اختیار دیا گیا ہے۔ ان احکام پر بھی انسان کو خوشی خوشی عمل کرنا چاہئے، کیونکہ اس کی ابدی زندگی کی صلاح و فلاح اسی پر موقوف ہے۔