11۔ 1 یعنی یہ اس کا احسان ہے کہ تمہاری جنس سے ہی اس نے تمہارے جوڑے بنائے ورنہ اگر تمہاری بیویاں انسانوں کی بجائے کسی اور مخلوق سے بنائی جاتیں تو تمہیں یہ سکون حاصل نہ ہوتا جو اپنی ہم جنس اور ہم شکل بیوی سے ملتا ہے۔ 11۔ 2 نہ ذات میں نہ صفات میں، پس وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے، واحد اور بےنیاز۔
[١١] میرے اللہ پر توکل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت بڑی قوت اور قدرت کا مالک ہے جس نے اس پوری کائنات کو وجود بخشا ہے اور اس زمین کو اس نے بڑے محیرالعقول طریقوں سے انسانوں اور دوسرے جانوروں کے جوڑے بنا کر اور ان سے نسلیں پھیلا کر اس زمین کو آباد کر رکھا ہے۔- [١٢] اللہ پر توکل کیوں کرنا چاہئے ؟ اس کی مختلف وجوہ :۔ یہ اللہ پر توکل کرنے کی دوسری وجہ ہے۔ یعنی وہ ایسی ذات ہے جس کے مثل کائنات کی کوئی چیز نہیں۔ (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَئیٌ) کا لفظی معنی یہ بنتا ہے کہ کوئی چیز اس کے مثل کی مانند نہیں اور اس انداز بیان میں مزید مبالغہ پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مثلاً اس کے ہاتھ تو ہیں۔ مگر ایسے نہیں جیسے ہمارے ہیں یا کسی دوسرے جاندار کے ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہیں جو مخلوق کو روزی پہنچانے کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ ہماری طرح نہیں اور نہ ہی ہماری طرح اس کا جسم ہے۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ جبکہ انسان بھی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اس میں فرق یہ ہے کہ انسان ایک وقت میں صرف ایک کی بات سن سکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ایک ہی وقت میں اپنی ساری مخلوق کی بھی پکار اور دعائیں سنتا ہے۔ یہی صورت اس کے دیکھنے کی ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے یہ سمجھنا ہماری بساط سے باہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی ذات ہی بھروسہ کے قابل ہوسکتی ہے جو ہر وقت ہر ایک کی پکار اور فریاد سن سکتی ہو اور وہ ہر چیز کو بچشم خود دیکھ بھی رہی ہو۔
(١) فاطر السموت والارض …: یہ اللہ ہی کو رب ماننے، اسی پر توکل اور اسی کی طرف رجوع کی مزید دلیلیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہی کسی نمونے اور مادے کے بغیر آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔ جب کہ تمہارے بنائے ہوئے معبودوں نے نہ ایک ذرہ پیدا کیا نہ کرسکتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورة حج (٧٣) ۔- (٢) جعل لکم من انفسکم ازواجاً …: آسمان و زمین کو پیدا کرنے کے بعد اس نے تمہارے لئے خود تمہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے، تاکہ تمہاری نسل جاری ہو اور مسلسل چلتی رہے۔ اپنی جنس سے جوڑے بنانے سے جو باہمی انس حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور جنس سے جوڑا بنانے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ ابن عاشور نے فرمایا کہ عربوں میں جننیوں وغیرہ سے نکاح کی جتنی داستانیں مشہور ہیں سب جھوٹی اور خود ساختہ ہیں، کچھ لوگوں کے تخیل نے انھیں ایسا دکھایا، ورنہ حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں اور تمہاری ضروریات کے لئے جو پاؤں کے جوڑے بنئاے، تاکہ وہ بڑھتے پھیلتے رہیں اور تم ان سے اپنی ضروریات پوری کرتے رہو۔- (٣) یذروکم فیہ : یعنی جوڑے اس لئے بنائے تاکہ توالدو تناسل کا سلسلہ قائم رہے اور تمہاری نسل پھلتی پھولتی اور پھیلتی رہے۔- (٤) لیس کمثلہ شیء : انسانوں کے درمیان اگرچہ رنگوں اور زبانوں کا اختلاف پایا جاتا ہے اور ہر انسان دوسرے سے الگ تشخص رکھتا ہے، اس کے باوجود وہ بہت سی چیزوں میں ایک دوسرے کے مشابہ اور ایک دوسرے کے مثل ہیں۔ چو پاؤں اور دوسرے حیوانات کا بھی یہی حال ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کا امتیاز ہے کہ کوئی چیز اس کی ذات یا صفات کی مثل کسی طرح بھی نہیں۔- (٥) لیس کمثلہ شیء ، اپنے سلسلہ ازدواج اور سلسلہ توالدو تناسل کو دیکھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہاری طرح ہے۔ نہیں، خلاق و مخلوق ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں، نہ ذات میں، نہ صفات میں اور نہ افعال و حقوق میں۔ اس کا کوئی جوڑا نہیں اور نہ کسی کی اولاد ہے، نہ کوئی اس کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کا شریک و ہمسر ہے۔ مزید دیکھیے سورة اخلاص۔- (٦) لیس کمثلہ شیء “ پر ایک مشہور سوال ہے کہ جب کہنا یہ مقصود ہے کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں تو ” لیس مثلہ شیئ “ کافی تھا،” کاف “ لانے کی کیا ضرورت تھی ؟” کاف “ لانے سے تو بظاہر ایسا معنی پیدا ہو رہا ہے جو محال ہے، کیونکہ ’ لیس کمثلہ شیء “ کا ترجمہ ہوگا ” اس کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں “ جب کہ اس ترجمے سے دو محال باتیں لازم آتی ہیں، پہلی یہ کہ اللہ کی مثل کوئی ہے جب کہ یہ محال ہے۔ دوسری یہ کہ اس کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں، حالانکہ جب وہ اللہ کی مثل ہے تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ اس جیسا ہے ، تبھی وہ اس کی مثل ہے۔ اس سوال کا حل اہل علم نے مختلف طریقوں سے کیا ہے، ایک یہ ہے کہ اس میں ” کاف “ زائد ہے۔ زائد کا یہ مقصد نہیں کہ بےفائدہ ہے، بلکہ وہ ” مثل “ کی تاکید اور اس میں مبالغہ کے لئے لایا گیا ہے۔ گویا یہ بات کہ ” اللہ تعالیٰ جیسی کوئی چیز نہیں “ دو دفعہ کہی گئی ہے، ایک ” کاف “ کے ساتھ اور ایک ” مثل “ کے ساتھ، مگر مثلیث کے معنی میں یہ مبالغہ محل نظر ہے۔- دوسرا حل یہ ہے کہ عرب کلام میں زور پیدا کرنے کے لئے ” مثل “ کا لفظ کسی جیسے کے لئے نہیں بلکہ اس کی ذات اور شخصیت کے لئے استعمال کرتے ہیں، مثلاً ” مثلی لایکذب “ سے مراد یہ نہیں کہ میرے جیسا شخص جھوٹ نہیں بولتا، بلکہ یہ ہے کہ ” میں جھوٹ نہیں بولتا۔ “ اسی طرح ” مثلہ لایعبوبہ “ کا معنی یہ نہیں کہ اس جیسے شخص کی پروا نہیں کی جاتی، بلکہ مراد یہ ہے کہ ” اس کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔ “ اسی طرح ” لیس کمثلہ شیء “ کا معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کی ذات جیسی کوئی چیز نہیں۔ “ یہاں ” کاف “ کا اضافہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اگر ” کاف “ نہ لایا جاتا تو عربی محاورہ ذہن میں آنے سے خیال ایک غلط مفہوم کی طرف جاسکتا تھا، جیسے ” مثلہ لایعبوبہ “ کا معنی ہے کہ فلاں شخص کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔ اسی طرح ” کاف “ کے بغیر ” لس مثلہ شیء “ کا معنی یہ ہوسکتا تھا کہ (معاذ اللہ) اس کی ذات کوئی شے نہیں، یا اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ اب ” لیس کمثلہ شیء “ کہنے سے یہ اندیشہ دور ہوگیا اور بات صاف ہوگئی کہ اس کی ذات جیسی کوئی چیز نہیں۔ طبری ، بقاعی، ابن ہشام اور بہت سے ائمہ نے یہاں ” مثل “ کو شخص، ذات یا نفسک ا ہم معنی قرار دے کر اس کے شواہد پیش فرمائے ہیں۔ یہ حل معنوی طور پر بہت مضبوط ہے۔- تیسرا حل یہ ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ” مثل “ کا لفظ صفت شان کے معنی میں آیا ہے، جیسے یہ آیت :(مثل الجنۃ التی وعد المتقون فیھا انھر من مآء غیر اسن) (محمد : ١٥)” اس جنت کی صفت جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں کئی نہریں ایسے پانی کی ہیں جو بگڑنے والا نہیں۔ “ اسی طرح یہ آیت :(ولہ المثل الاعلیٰ فی السموت والارض) (الروم : ٢٨) ” اور آسمانوں اور زمین میں سب سے اونچی صفت (شان) اسی کی ہے۔ “ الاعلیٰ فی السموات والارض ) (الروم : ٢٨) ” اور آسمانوں اور زمین میں سب سے اونچی صفت (شان) اسی کی ہے۔ “ اس لئے ” لیس کمثلہ شیء “ کا معنی یہ ہے کہ ” اللہ کی صفت جیسی کوئی چیز نہیں۔ “ یہ حل سمجھنے میں سب سے آسان ہے، معنوی طور پر بالکل درست ہے اور ائمہ تفسیر سے منقول ہے۔ سیاق کے لحاظ سے بھی بہت مناسب ہے، کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات بیان فرمائی گئی ہیں، پھر فرمایا کہ اس کی صفت جیسی کوئی چیز نہیں۔- (٧) وھو السمیع البصیر :” السمیع البصیر “ ” ھو “ مبتدا کی خبر ہے۔ خبر پر الف لام لانے سے قصر کا مفہوم پیدا ہوگیا ، اسلئے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ یہ ” لیس کمثلہ شیء “ (اس کی ذات وصفات جیسی کوئی چیز نہیں) سے پیدا ہونے والے ایک سوال کا جواب ہے کہ ” لیس کمثلہ شیء “ کے باوجود یہ کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سمیع وبصیر ہے اور انسان بھی سمیع وبصیر ہے، جیسا کہ فرمایا : (فجعلنہ سمیعاً بصیراً ) (الدھر : ٢) ” سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنادیا۔ “ بلکہ سمع و بصر انسان کے علاوہ جانوروں میں بھی موجود ہیں اور حنا نہ کے واقعہ سے معلوم ہتا ہے کہ جمادات بھی سمع و بصر سے بےبہرہ نہیں ہیں، تو اللہ تعالیٰ بےمثل کیسے ہوا ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کامل اور اصل سمیع وبصیر صرف اللہ تعالیٰ ہے، کسی اور میں پائی جانے والی یہ صفات اللہ تعالیٰ کی صفات سے کچھ مشابہت نہیں رکھتیں اور نہ ان کے مقابلے میں کوئی حقیقت رکھتی ہیں۔- دوسرا حل یہ ہے کہ عرب کلام میں زور پیدا کرنے کے لئے ” مثل “ کا لفظ کسی جیسے کے لئے نہیں بلکہ اس کی ذات اور شخصیت کے لئے استعمال کرتے ہیں، مثلاً ” مثلی لا یکذب “ سے مراد یہ نہیں کہ میرے جیسا شخص جھوٹ نہیں بولتا، بلکہ یہ ہے کہ ” میں جھوٹ نہیں بولتا۔ “ اسی طرح ” مثلہ لایعبوبہ “ کا معنی یہ نہیں کہ اسے جیسے شخص کی پروا نہیں کی جاتی، بلکہ مراد یہ ہے کہ ” اس کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔ “ اسی طرح ” لیس کمثلہ شیء “ کا معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کی ذات جیسی کوئی چیز نہیں۔ “ یہاں ” کاف “ کا اضافہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اگر ” کاف “ نہ لایا جاتا تو عربی محاورہ ذہن میں آنے سے خیال ایک غلط مفہوم کی طرف جاسکتا تھا، جیسے ” مثلہ لایعبوبہ “ کا معنی ہے کہ فلاں شخص کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔ اسی طرح ” کاف “ کے بغیر ” لیس مثلہ شیء “ کا معنی یہ ہوسکتا تھا کہ (معاذ اللہ) اس کی ذات کوئی شے نہیں، یا اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ اب ” لیس کمثلہ شیء “ کہنے سے یہ اندیشہ دور ہوگیا اور بات صاف ہوگئی کہ اس کی ذات جیسی کوئی چیز نہیں۔ طبری ، بقاعی، ابن ہشام اور بہت سے ائمہ نے یہاں ” مثل “ کو شخص، ذات یا نفس کا ہم معنی قرار دے کر اس کے شواہد پیش فرمائے ہیں۔ یہ حل معنوی طور پر بہت مضبوط ہے۔- تیسرا حل یہ ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ” مثل “ کا لفظ صفت شان کے معنی میں آیا ہے، جیسے یہ آیت :(مثل الجنۃ التی وعد المتقون فیھآ انھر من مآء غیر اسن) (محمد : ١٥)” اس جنت کی صفت جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں کئی نہریں ایسے پانی کی ہیں جو بگڑنے والا نہیں۔ “ اسی طرح یہ آیت :(ولہ المثل الاعلیٰ فی السموت والارض) (الروم : ٢٨)” اور آسمانوں اور زمین میں سب سے اونچی صفت (شان) اسی کی ہے۔ “ اس لئے ” لیس کمثلہ شیء “ کا معنی یہ ہے کہ ” اللہ کی صفت جیسی کوئی چیز نہیں۔ “ یہ حل سمجھنے میں سب سی آسان ہے، معنوی طور پر بالکل درست ہے اور ائمہ تفسیر سے منقول ہے۔ سیاق کے لحاظ سے بھی بہت مناسب ہے، کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات بیان فرمائی گی ہیں، پھر فرمایا کہ اس کی صفت جیسی کوئی چیز نہیں۔- (٧) وھو السمیع البصیر :” السمیع البصیر “” ھو “ مبتدا کی خبر پر الف لام لانے سے قصرہ کا مفہوم پیدا ہوگیا ، اس لئے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ یہ ” لیس کمثلہ شیء “ (اس کی ذات وصفات جیسی کوئی چیز نہیں) سے پیدا ہونے والے ایک سوال کا جواب ہے کہ ” لیس کمثلہ شیء “ کے باوجود یہ کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سمیع وبصیر ہے اور انسان بھی سمیع وبصیر ہے، جیسا کہ فرمایا :(فجعلنہ سمیعاً بصیراً ) (الدھر : ٢) ” سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنادیا۔ “ بلکہ سمع و بصر انسان کے علاوہ جانوروں میں بھی موجود ہیں اور حنانہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جمادات بھی سمع و بصر سے بےبہرہ نہیں ہیں، تو اللہ تعالیٰ بےمثل کیسے ہوا ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کامل اور اصل سمیع وبصیر صرف اللہ تعالیٰ ہے، کسی اور میں پایء جانے والی یہ صفات اللہ تعالیٰ کی صفات سے کچھ مشابہت نہیں رکھتیں اور نہ ان کے مقابلے میں کوئی حقیقت رکھتی ہیں۔- اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق بہت سے لوگوں کو ایسے اشکالات پیدا ہوئے کہ بیشمار مخلوق گمراہ ہوگئی، انہوں نے دیکھا کہ وہی ال فاظ اللہ تعالیٰ کے متعلق آرہے ہیں اور وہی مخلوق کے متعلق، مثلاً اللہ تعالیٰ کے متعلق آیا ہے :(ثم استوی علی العرش ) (الاعراف : ٥٣) (پھر وہ عرش پر بلند ہوا) اور مخلوق کے متعلق الفاظ ہیں :(لتستوا علی ظھورہ) (الزخرف :13) (تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو) اور یہ الفاظ :(فاذا استویت انت و من معک علی الفلک ) (المومنون :28) ) (پھر جب تو اور جو تیرے ساتھ ہیں، کشتی پر چڑھ جاؤ۔ ) اللہ تعالیٰ کے فرمان :(ید اللہ فوق ایدیھم) (الفتح : ١٠) (اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے) میں لفظ ” ید “ اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے لئے آیا ہے، یہی حال سمیع وبصیر کا ہے۔ اب کچھ لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوگئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے مشابہ قرار دیا۔ اس کے استواء اس کے ید، اس کے سمع و بصر اور اس کی دوسری صفات کو مخلوق کے ساتواء اس کے ید، اس کے سمع و بصر اور اس کی دوسری صفات کی طرح سمجھ بیٹھے، ان لوگوں کو ” مشبہہ “ کہتے ہیں اور کچھ اس وجہ سے گمراہ ہوگئے کہا نہوں نے یہ کہہ کر کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں، اس کی ان صفات کا بھی انکار کردیا جو اس نے خود اپنی بیان فرمایء ہیں۔ انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ نہ عرش پر مستوی ہے، نہ اس کا ہاتھ ہے، نہ اس کا سمع و بصر ہے، نہ وہ کلام کرتا ہے، کیونکہ اگر ہم اس کے لئے یہ چیزیں تسلیم کریں تو وہ مخلوق جیسا ٹھہرتا ہے۔ ان منکرین صفات کو ” معطلہ “ کہتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تشبیہ و تعطیل دونوں سے بلندو برتر ہے۔- اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی صفات کا مسئلہ انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے، اس میں کوئی پیچیدگی یا اشکال باقی نہیں رہنے دیا۔ خلاصہ اس کا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہ آیات صفات میں حق دو چیزوں سے مرکب ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی صفات کی مشابہت سے پاک سمجھا جائے۔ دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنی جو بھی صفت بیان فرمائی ہے، یا اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی جو بھی صفت بیان فرمائی ہے اس پر مکمل ایمان رکھا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت اس سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا، جیسا کہ فرمایا :(قلء انتم اعلم ام اللہ) (البقرہ : ١٣٠)” کیا تم زیادہ جاننے والے ہو یا اللہ ؟ “ اور اللہ تعالیٰ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم رکھنے والا کوئی نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی) (النجم : ٣٠٣)” اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔ “ اب جو شخص کسی ایسی صفت کی نفی کرے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے لئے بیان فرمائی ہے، یا اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی ہے، یہ کہہ کر یہ صفت اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں، تو وہ اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول سے بھی زیادہ علم رکھنے والا سمجھتا ہے کہ اللہ کی شان کے لائق کون سی بات ہے اور کون سی نہیں۔ اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ ہیں وہ بھی ملحد اور گمراہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور یہ اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے مشابہ سمجھتا ہے۔ ہاں جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیء ان تمام صفات کو مانتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لئے باین کی ہیں، یا اس کے رسول نے اس کے لئے بیان کی ہیں اور ساتھ ہی اللہ عزو جل اور اس کی صفات کو مخلوق کی مشابہت سے پاک قرار دیات ہے، یہ صحیح مومن ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کمال پر بھی ایمان رکھتا ہے اور اس کی مخلوق کی مشابہت سے پاک ہونے پر بھی ایمان رکھتا ہے۔ زیر تفسیر آیت :(لیس کمثلہ شیء وھو السمیع البصیر) نے اس حقیقت کو خوب واضح فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سمع و بصر کی صفات بھی روکتا ہے اور کوئی چیز اس کی مثلا ور مشابہ بھی نہیں۔- اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ” وھو العلی العظیم “ کے بجائے ” وھو السمیع البصیر “ اس لئے فرمایا کہ سمع و بصر کی دونوں صفات تمامح یوانات میں بھی پائی جاتی ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ دونوں صفات رکھتا ہے لیکن اس کی ان صفات کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور مخلوق کی صفات میں کوئی مماثلت نہیں، اس لئے ” وھو السمیع البصیر “ کا لفظ ” لیس کمثلہ شیء “ کہنے کے بعد ارشاد فرمایا۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اس لئے انکار کیا ہے کہ صفات کے لئے وہی الفاظ مخلوق پر بھی آئے ہیں، انھیں لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کے وجود اور اس کی حیات کا بھی انکار کردیں، کیونکہ مخلوق کی بھی ذات ہے ، وہ بھی وجود رکھتی ہے اور اس میں بھی حیات پائی جاتی ہے، مگر جس طرح خلاق اور مخلوق میں کوئی مماثلت نہیں اور دونوں کی ذات، وجود اور حیات میں کوئی مماثلت نہیں، اسی طرح خلاق و مخلوق کی کسی صفت میں بھی کوئی مماثلت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کامل اور حقیقی ہیں۔ مخلوق کی صفات اگرچہ ان کے حسب حال موجود ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابلے میں کالعدم ہیں، جیسا کہ فرمایا :(وھو السمیع البصیر) وہی سمیع وبصیر ہے اور کوئی نہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی انسان کو سمیع وبصیر بتایا ہے۔- اس کی تھوڑی سی تفصیل سنیے، متکلمین اللہ تعالیٰ کی بیشمار صفات میں سے سات صفات کو صفات معانی کہتے ہیں، وہ ہیں حیات، قدرت ، ارادہ علم، سمع، بصر اور کلام۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت حیات خود بیان فرمائی، فرمایا :(ھو الحی لا الہ الا ھو) (المومن : ٦٥)” وہی زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ “ اور فرمایا :(و توکل علی الحی الذی لایموت) (العرفان : ٥٨)” اور اس زندہ پر بھروسہ کر جو نہیں مرے گا۔ “ اور دوسری بہت سی آیات۔ مخلوق کی صفت بھی حیات بیان فرمائی، فرمایا :(وسلم علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیاً (مریم : ١٥)” اور سلام اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا اور جس دن زندہ ہو کر اٹھایا جائے گا۔ “ اور فرمایا :(وجعلنا من المآء کل شیء حی ) (الانبیائ : ٣٠)” اور ہم نے اپنی سے ہر زندہ چیز بنائی۔ “ اور فرمایا :(یخرج الحی من المیت و یخرج المیت من الحی) (الروم : ١٩) ” وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ “ یہاں دیکھیے ” ھو الحی “ (صرف وہ زندہ ہے) کہنے کے باوجود مخلوق کی حیات کا بھی ذکر فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی اور کامل حیات صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق کو بھی اس کے حساب حال ایک طرح کی حیات حاصل ہے، مگر خالق و مخلوق کی حیات میں اتنی ہی منافات ہے جتنی دونوں کی ذات میں ہے، خالق والی حیات کا ایک شمہ بھی مخلوق کو حاصل نہیں۔- دوسری صفت قدرت ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ صفت خود بیان فرمائی ہے، فرمایا :(واللہ علی کل شیء قدیر) (البقرۃ :283)” اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “ مخلوق کے متعلق بھی یہ لفظ استعمال فرمایا :(الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم) (المائدۃ : ٣٧)” مگر جو لوگ اس سے پہلے توبہ کرلیں کہ تم ان پر قابو پاؤ۔ “ اللہ تعالیٰ کی قدرت حقیقی، کامل اور اس کی شان کے لائق ہے، جبکہ مخلوق کی قدرت صرف اس کے حساب حال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مخلوق کی قدرت میں اتنی منافات ہے جتنی دووں کی ذات میں ہے۔- تیسری صفت ارادہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا :(فعال لمایرید) (ھود : ١٠٨) ” کر گزرنے والا ہے جو چاہتا ہے۔ “ اور فرمایا :(انما امرہ اذا اراد شیاً ان یقول لہ کن فیکون) (یٰسین : ٨٢) ” اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ” ہوجا “ تو وہ ہوجاتی ہے۔ “ اور فرمایا :(یرید اللہ یکم الیسر ولا یرید بکم العسر) (البقرہ :185) ” اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ “ اور دوسری آیات۔ مخلوق کے ارادے کا بھی ذکر کیا، فرمایا :(تریدون عرض الدنیا) (الانفال :88)” تم دنیا کا سامان چاہتے ہو۔ “ اور فرمایا :(ان یریدون الا فراراً ) (الاحزاب : ١٣)” وہ بھاگنے کے سوا کچھ چاہتے ہی نہیں۔ “ اور فرمایا (یریدون لیطفوا نور اللہ) (الصف : ٨) ” وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیں۔ “ اور دوسری آیات۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا ارادہ حقیقی کامل اور اس کی ذات کے لائق ہے، جبکہ مخلوق کا ارادہ اس کے حسب حال ہے۔ دونوں کے ارادوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا دونوں کی ذات میں ہے۔- چوتھی صفت علم ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا :(واللہ بکمل شیء علیم) (البقرہ : ٢٨٢) ” اور اللہ ہر چیز کو شہادت دیتا ہے اس کے متعلق جو اس نے تیری طرف نازل کیا ہے کہ اس نے اسے اپنے علم سے نازل کیا ہے۔ “ اور مخلوق کے متعلق فرمایا :(وانہ لذوعلم لما علمنہ) (یوسف : ٦٨) ” اور بلاشبہ وہ یقیناً بڑے علم والا تھا، اس وجہ سے کہ ہم علم اس کے حال کے مناسب ہے۔ خلاق و مخلوق کے علم میں اتنی ہی منافات ہے جتنی خالق و مخلوق کی ذات میں ہے۔- پانچویں اور چھٹی صفت سمع و بصر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا :(لیس کمثلہ شیء وھو السمیع البصیر) (الشوریٰ : ١١)” اس کی ثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ اور فرمایا :(وان اللہ سمیع بصیر) (الحج : ٦١) ” اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ اور مخلوق کے متعلق فرمایا : (ان خلقنا الانسان من طفۃ امشاج ، نبتلیہ فجعلنہ سمیعاً بصیراً ) (الدھر : ٢)” بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا، ہم اسے آزماتے ہیں، سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنادیا۔ “ اور فرمایا :(اسمع بھم وابصر یوم یاتوتنا ) (مریم : ٣٨) ” کس قدر سننے والے ہوں گے وہ اور کس در دیکھنے والے جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے۔ “ اور اس جیسی آیات۔ تو اللہ عزو جل کے سمع و بصر حقیقی، کامل اور اس کی شان کے لائق ہیں اور مخلوق کے سمع و بصر ان کے حال کے مناسب ہیں۔ جس طرح خالق و مخلوق کی ذات میں کوئی مماثلت نہیں، ان کے سمع و بصر میں بھی کوئی مماثلت نہیں۔- ساتویں صفت کلام ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا :(وکلم اللہ موسیٰ تکلیماً ) (النسائ : ١٦٣) ” اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔ “ اور فرمایا :(الی اصطنیتک علی الناس برسلتی و بکلامی) (الاعراف : ١٣٣)” بیشک میں نے تجھے اپنے پیغامات اور اپنے کالم کے ساتھ لوگوں پر چن لیا ہے۔ “ اور فرمایا :(فاجرہ حتی یسمع کلم اللہ) (التوبۃ : ٦)” تو اسے پناہ دے دے، یاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے۔ “ اور مخلوق کے متعلق فرمایا۔ (فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین) (یوسف : ٥٣) ” پھر جب اس نے اس سے بات کی تو کہا بلاشبہ تو آج ہمارے ہاں صاحب اقتدار، امانت دار ہے۔ “ اور فرمایا :(الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنا ایدیھم) (یٰسین : ٦٥) ” آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم اس سے کیسے بات کریں جو ابھی تک گود میں بچہ ہے۔ “ تو اللہ تعالیٰ کا کلام حقیقی، کامل اور اس کی شان کے لائق ہے اور مخلوق کی صفت بھی کلام ہے جو اس کے حسب حلا ہے اور خلاق و مخلوق کے کلام میں اتنی ہی منافات ہے جتنی ان دونوں کی ذات میں ہے۔ اہل علم یہ بحث تفصیل سے پڑھنا چاہیں تو مفسر شنقیطی کی ” اضواء البیان “ میں سورة اعراف کی آیت (٥٤) :(ثم استوی علی العرش) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔- تعجب ہوتا ہے کہ اتنی واضح بات بڑے بڑے مفسر اور مصنف نہیں سمجھ سکے۔ وہ جہاں ” استواء علی العرش “ کا لفظ آئے گا اس کا اناکر کرتے ہوئے کہیں گے اس سے مراد حکومت کرنا ہے، سمع و بصر آئے گا تو کہیں گے اس سے مراد علم ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت، رضا ، غضب، انتقام، اس کے نزول اور دوسری صفات کا مطلب کچھ اور ہی بیان کرتے ہوئے اصل صفات کا انکار کردیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ سلف صالحین اور محمد ثین ہی اس مقام پر سلامت رہے ہیں، ان کی ترجمانی امام مالک (رح) نے فرمائی، جب ان سے اللہ تعالیٰ کے عرش پر استواء کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :” الاستواء معلوم والکیف مجھول والسوال عنہ بدعۃ “ (اللہ تعالیٰ ) کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے اور یہ بات کہ کیسے مستوی ہے، کسی کو معلوم نہیں اور یہ پوچھنا کہ کیسے مستوی ہے بدعت ہے۔ “ بالکل اسی طرح ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سمیع ہے، بصیر ہے، اس کے ہاتھ ہیں، آنکھیں ہیں، چہرہ ہے، وہ محبت کرتا ہے، ناراض ہوتا ہے، کلام کرتا ہے، ہنستا ہے، اترتا ہے اور قیامت کے دن زمین پر آئے گا، مگر ہمیں ان صفات کی کیفیت معلوم نہیں، نہ ہم عاجز مخلوق اس بےنہایت خلاق کی ذات یا صفات کی حقیقت یا کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہم اس کی ان تمام صفات کو انھی الفاظ و معانی میں مانتے ہیں جو خود اس نے یا اس کے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی ہیں اور ان تمام لوگوں کی باتوں سے بری ہونے کا اعلان کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات نہیں ہیں، یا کہتے ہیں کہ مخلوق جیسی ہیں، یا کہتے ہیں کہ ہمیں ان صفات کے معنی ہی کا علم نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق پر استقامت عطا فرمائے۔ (آمین)
فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ ۭ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّمِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا ٠ ۚ يَذْرَؤُكُمْ فِيْہِ ٠ ۭ لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌ ٠ ۚ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ١١- فطر - أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا،- وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] - ( ف ط ر ) الفطر - ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء 56] جس نے ان کو پیدا کیا - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- ذرأ - الذَّرْءُ : إظهار اللہ تعالیٰ ما أبداه، يقال : ذَرَأَ اللہ الخلق، أي : أوجد أشخاصهم . قال تعالی:- وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثِيراً مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ [ الأعراف 179] ، وقال : وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعامِ نَصِيباً [ الأنعام 136] ، وقال : وَمِنَ الْأَنْعامِ أَزْواجاً يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ [ الشوری 11] ، وقرئ : ( تذرؤه الرّياح) «3» ، والذُّرْأَة : بياض الشّيب والملح .- فيقال : ملح ذُرْآنيّ ، ورجل أَذْرَأُ ، وامرأة ذَرْآءُ ، وقد ذَرِئَ شعره .- ( ذ ر ء ) الذرء - کے معنی ہیں اللہ نے جس چیز کا ارادہ کیا اسے ظاہر کردیا ۔ کہا جاتا ہے ۔ یعنی ان کے اشخاص کو موجود کیا قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثِيراً مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ [ الأعراف 179] اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں ۔ وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعامِ نَصِيباً [ الأنعام 136] اور یہ لوگ ) خدا ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں ( یعنی ) کھیتی اور چوپایوں میں خدا کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں وَمِنَ الْأَنْعامِ أَزْواجاً يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ [ الشوری 11] اور چار پایوں کے بھی جوڑے بنادے اور اسی طریق پر تم کو پھیلاتا رہتا ہے ۔ اور تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف 45] میں ایک قراءت بھی ہے ۔ الذرؤۃ ۔ بڑھاپے یا نمک کی سفیدی ۔ کہاجاتا ہے ملح ذرانی نہایت سفید نمک اور جس کے بال سفید ہوجائیں اسے رجل اذرء کہاجاتا ہے اس کی مونث ذرآء ہے ۔ ذری شعرہ روذرء کفرح ومنع) اس کے بال سفید ہوگئے ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے
وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمہارے ہی جیسے آدمی پیدا کر کے تمہارے جوڑے بنائے تمہیں رحموں میں پیدا کرتا رہتا ہے یا یہ کہ اسی کے ذریعے سے تمہاری نسل چلاتا ہے صفت وقدرت علم و تدبیر کوئی چیز بھی اس جیسی نہیں وہ تمہاری باتوں کا سننے والا اور تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔
آیت ١١ فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ” وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا فرمانے والا ہے ۔ “- جَعَلَ لَـکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا وَّمِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا ” اس نے تمہاری ہی نوع سے تمہارے جوڑے بنادیے اور چوپایوں سے بھی جوڑے (بنائے) ۔ “- جان داروں کی ہر نوع ( ) میں نر بھی ہیں اور مادہ بھی۔ - یَذْرَؤُکُمْ فِیْہِ ” اسی میں وہ تمہاری افزائش کرتا ہے۔ “- لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ ” اس کی مثال کی سی بھی کوئی شے نہیں۔ “- اس کی ہستی بالکل یکتا ( ) ہے۔ یہ اپنی طرز کا ایک منفرد اور حساس ّموضوع ہے جس کے اظہار کے لیے خصوصی اسلوب درکار ہے۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری زبان میں مطلق نفی ( ) کے لیے کوئی لفظ اور اسلوب ہے ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس جیسی کوئی شے نہیں یا اس کی مثال کی سی کوئی شے نہیں۔ لَا مِثْلَ لَـہٗ وَلَا مِثَالَ لَـہٗ ‘ وَلَا ضِدَّ لَہٗ وَلَا نِدَّ لَــہٗ ۔ بہرحال یوں سمجھ لیں کہ اس مفہوم میں جتنے مترادفات چاہے استعمال کرلیے جائیں ‘ توحید کے اظہار وبیان کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔- وَہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ” اور وہی ہے سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :17 اصل الفاظ ہیں لَیْسَ کَمِثْلِہ شَئءٌ کوئی چیز اس کے مانند جیسی نہیں ہے مفسرین اور اہل لغت میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس میں لفظ مثل پر کاف ( حرف تشبیہ ) کا اضافہ محاورے کے طور پر کیا گیا ہے جس سے مقصود محض بات میں زور پیدا کرنا ہوتا ہے ، اور عرب میں یہ طرز بیان رائج ہے ۔ مثلاً شاعر کہتا ہے وقتلیٰ کمثل جُذوع النخل ۔ اور ایک دوسرا شاعر کہتا ہے ما ان کمثلھم فی الناس من احد ۔ بعض دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں کہنے کے بجائے اس کے مثل جیسا کوئی نہیں کہنے میں مبالغہ ہے ، مراد یہ ہے کہ اگر بفرض محال اللہ کا کوئی مثل ہوتا تو اس جیسا بھی کوئی نہ ہوتا ، کجا کہ خود اللہ جیسا کوئی ہو ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :18 یعنی بیک وقت ساری کائنات میں ہر ایک کی سن رہا ہے اور ہر چیز کو دیکھ رہا ہے ۔