101۔ 1 اس اختلاف سے مراد دین کا اختلاف ہے جس طرح یہودیت، عیسائیت اور اسلام وغیرہ میں آپس میں اختلاف ہیں اور ہر مذہب کا پیروکار دعویٰ کرتا ہے اس کا دین سچا ہے اور حق کا راستہ پہنچاننے کے لئے اللہ تعالیٰ کا قرآن موجود ہے۔ لیکن دنیا میں لوگ اس کلام الٰہی کو اپنا اور ثالث ماننے کے لئے تیار نہیں۔ بالآخر پھر قیامت کا دن ہی رہ جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا اور سچوں کو جنت میں اور دوسروں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔
[٩] اختلافات کا فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے ؟:۔ اصل دین چونکہ اللہ نے ہی بذریعہ وحی اپنے رسول اور بندوں کی طرف بھیجا تھا لہذا اگر بندے اس دین میں اختلاف کریں تو ان میں فیصلہ کا حق بھی اللہ ہی کو ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ میں نے جو دین بھیجا تھا وہ تو یہ تھا اور تم نے فلاں فلاں مقام پر غلط تاویلات کرکے باہم اختلاف کرلیا تھا۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر صاحب شریعت نبی ایمان لانے والوں کو ایک امت بناتا ہے۔ بعد میں لوگ اس میں اختلاف پیدا کرکے کئی فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ پھر جو بعد میں نبی آتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر وحی کرکے لوگوں کو اصل دین سے مطلع کردیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ دنیا میں لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کردیتا ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ اختلافات کا جو فیصلہ فرمائے گا وہ کھلی عدالت میں فرمائے گا۔ اختلاف کرنے والے لوگوں کی باقاعدہ پیشی ہوگی۔ پھر ان پر شہادتیں قائم ہوں گی اور انہیں بتایا جائے گا کہ اصل دین کیا تھا اور تم نے کیا کچھ حیلے اور مکاریاں کرکے اصل دین کا حلیہ بگاڑا تھا۔ خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا تھا۔- اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام اختلافی مسائل میں اللہ کے کلام یعنی قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ پھر چونکہ قرآن رسول کی اطاعت کو واجب اور اپنی ہی اطاعت قرار دیتا ہے۔ لہذا کتاب اللہ اور سنت رسول دونوں کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ تفرقہ بازی اور اختلافات سے بچنے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ انسان کتاب و سنت کے سامنے کھلے دل سے سر تسلیم خم کردے اور اس مطلب کی تائید سورة نساء کی آیت نمبر ٥٩ اور ٦٤ سے بھی ہوجاتی ہے۔- [١٠] یعنی میں ہمیشہ کے لیے اللہ پر توکل کرنے کا فیصلہ کرچکا ہوں۔ پھر جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
١٠(١) وما اختلقتم فیہ من شیء …: یہ آیت اگرچہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مگر یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کہلوائی گئی ہے، جیسا کہ سورة فاتحہ بندوں کی زبانی کہلوائی گئی ہ۔- (٢) اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں کہ وہ زمین و آسمان کی ہر چیز کا مالک اور ولی و کار ساز ہے۔ موت و حیات اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، ان صفات سے خود بخود وہ بات ثابت ہو رہی ہے جو اس آیت میں فرمائی ہے کہ جب مالک وہ ہے تو حاکم بھی وہی ہے اور انسانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کا فیصلہ بھی اسی کا کام ہے۔ وہ اختلاف عقیدہ میں ہو یا عمل میں، عبادات میں ہو یا معاملات میں، نیکی و بدی قرار دینے میں ہو یا حلال و حرام ٹھہرانے میں، غرض ہر بات میں فیصلہ اسی کا چلے گا۔ کسی اور کو یہ حق دینا کہ وہ شریعت سازی کرے یا حلال و حرام کا فیصلہ کرے درحقیقت اس کی عبادت اور اسے اللہ تعالیٰ کا شریک بنانا ہے، فرمایا :(ان الحکم الا للہ ، امر الا تعبدوا الا ایاہ) (یوسف : ٣٠)” حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت مت کرو۔ “ مزید دیکھیے سورة یوسف (٦٧) ، انعام (٥٧) ، مائدہ (٤٤) ، کہف (٢٦) اور سورة قصص (٧٠، ٨٨)- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر فیصلہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے سے اور اس کے حکم کے تحت کرتے، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر تنازع کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کے سپرد کرنے کو ایمان کی شرط قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا (فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ و الرسول ان کنتم تومنون بالل والیوم الاخر) (النسائ : ٥٩)” پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے رسول اللہ اور رسول کی طرف لٹواؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ “ اور فرمایا :(فلا و ربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرماً مما قضیت و یسلموا تسلیماً (النسائ : ٦٥) ” پس نہیں تیرے رب کی قسم ہے وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑجائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔ “- (٣) یہود و نصاریٰ نے اپنے احبارو رہبان کو حلال و حرام کے فیصلے کا اختیار دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اپنے احبارو رہبان کو ” ارباباً من دون اللہ “ بنا لیا۔ دیکھیے سورة توبہ (٣١) کی تفسیر۔- (٤) یہود و نصاریٰ نے ایک مدت تک حلال و حرام قرار دینے کا اختیار آسمانی شریعت کیب جائے اپنے احبارو رہبان کو دیئے رکھا، آخر کار انہوں نے یہ تکلف بھی برطرف کیا اور پانی آسمانی کتاب یا احبارو رہبان کے بجائے جمہوریت کے نام پر یہ اختیار خود سنبھال لیا کہ عوام کی اکثریت جو فیصلہ کرے وہ حق ہے، ان کے منتخب نمائندے اپنی اکثریت کسی چیز کو حلال کہہ رہی ہے تو وہ حلال ہے، کچھ دن بعد اکثریت اگر حرام کہہ دے تو وہ حرام ہے۔ اب تو رات کی ہر قید جو طبیعتوں پر گراں تھی توڑ دی گئی، باہمی رضا سے زنا جائز قرار دیا گیا، رجم کو کالعدم کردیا گیا، قوم لوط کا عمل جائز قرار دیا گیا، قتل اور قطع اعضا میں قصاص ختم کردیا گیا اور سود حلال ٹھہرا۔ غرض جمہوریت کے نام پر ایک نئی شریعت ایجاد کی گئی جس کا رب، رسول اور شریعت سب کچھ انسان قرار پائے اس طرح بندوں کو مالک کی گدی پر بٹھا دیا گیا۔- (٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا :(لتبعن سنن من کان قبلکم شبراً شبراً وذراعاً ذراعاً ، حتی لود خلوا حجر، ضب تبعتموھم ، قلنا یا رسول اللہ الیھود والنصاری ؟ قال فمن ؟ ) (بخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :” لتبعن سنن من کان قبلکم :“ 8320، عن ابی سعید الخدری (رض) ” تم ہر صورت اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چل پڑو گے، جیسے بالشت بالشت کے ساتھ اور ہاتھ ہاتھ کے ساتھ برابر ہوتا ہے، حتیٰ کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوئے تو تم ان کی پیروی کرو گے۔ “ ہم نے کہا :” یا رسول اللہ یہود و نصاریٰ کے طریقوں پر ؟ “ آپ نے فرمایا :” تو اور کون ؟ “- مسلمان خیر القرون میں اور اس کے کچھ عرصہ بعد تک صرف اور صرف قرآن و سنت پر کار بند رہے، یہ اسلام کی ترقی و عروج کا دور ہے، پھر بعض ائمہ کی تقلید شروع ہوئی اور ان کے نام پر ایس گروہ بندی اور فرقہ سازی ہوئی کہ بعض لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے امام کا قول اللہ اور اس کے رسول کے صریح خلاف ہے، اپنے امام کے قول پر اڑ گئے۔ احبارو رہبان کو ارباب بنانے کا نقشہ اہل کتاب کی طرح الہ اسلام میں بھی نظر آنے لگا، حتیٰ کہ یہ دین حق کئی مذہبوں میں تقسیم ہوگیا ۔ ہر کسی کی مساجد الگ، عدالتیں اور قاضی الگ ہوگئے، امت کی وحدت جو صرف کتاب و سنت کو حاکم ماننے سے حاصل ہوتی تھی پارہ پارہ ہوگئی، مسلمانوں کی توانائیاں کفار کے ساتھ جہاد اور اس کی تیاری کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف صرف ہونے لگیں۔ یہی لوگ حاکم تھے یہی قاضی، اصلاح کی آوازیں اٹھتی رہیں، مگر بےسود، چناچہ کچھ مدت تک تو کتاب و سنت سے انحراف کے باوجود الگ الگ سلطنتوں کی شکل میں مسلمانوں کی حکمرانی کا سلسلہ چلتا رہا، پھر باہمی فساد اور ترک جہاد کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ چار ملکوں کے سوا تمام مسلم ممالک نصرانی یا کمیوسنٹ کفار کے قبضے میں چلے گئے، جنہوں نے جبراً ان ممالک میں اپنے کفر یہ احکام نافذ کردیے، پھر نہ کتاب و سنت کے احکام باقی رہے نہ ائمہ کے مذاہب۔ ہر جگہ کفار کا حکم چلنے لگا اور بنی اسرائیل کی طرح مسلمانوں پر بھی اللہ کے عذاب کا کوڑا کفار کی غلامی کی صورت میں برسنے لگا۔ مسلمان آزادی حاصل کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد اور دعائیں کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان کی آزادی کے لئے جدوجہد اور کفار کی باہمی جنگ عظیم کے نتیجے میں بہت سے مسلم ممالک کو آزادی ملی۔ اس کے بعد جہاد کے نتیجے میں بہت سے ممالک کمیونسٹوں کے تسلط سے بھی آزاد ہوئے، مگر تمام ممالک میں برسر اقتدار طبقے نے کفر کا وہی نظام حکومت برقرار رکھا جو کفار کے زمانے میں تھا ، جس میں فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق نہیں بلکہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق ہوتا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کے اہل کتاب کے نقش قدم پر چلنے کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کا دین صرف نماز روزے وغیرہ کے لئے باقی رہ گیا، گھروں، باز اورں، عدالتوں اور حکومت کے ایوانوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو جلا وطن کر کے اس کی جگہ جمہوریت کے بت کی پرستش شروع کر ید گئی۔ البتہ بعض ملکوں میں یہ تکلف کیا گیا کہ اس کا نام اسلامی جمہوریت رکھ دیا گیا، حالانکہ اسلام میں حکم اللہ کا ہوتا ہے اور جمہوریت میں بندوں کا، دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے شربا کو سالامی شربا اور سود کو سالامی سود کہہ کر حلال کرلیا جائے، جیسا کہ یہ ظلم بھی اس سے پہلے مسلمان اپنی جانوں پر کرچکے ہیں۔ ان کے بہت سے برسر اقتدار طبقوں نے ان علماء کے اقوال کو اپنی مملکتوں میں نافذ کیا جنہوں نے صرف انگور اور کھجور کی شراب کو حرام قرار دے کر دوسرے تمام نشہ آور مشروبات پینے پر حد ختم کردی، خواہ ان سے نشہ بھی آجائے۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی عظیم سلطنتیں شراب کے سمندر میں غرق ہوگئیں کہ حکمران بھی پیتے تھے اور رعایا بھی اور جائز سمجھ کر پیتے تھے۔ اسی طرح سود کی بہت سی قسموں کو جائز قرار دے کر اسلامی سود رائج ہونے کے نتیجے میں طمع و ہوس کے طوفان نے ہمدردی و ایثار کا سلسلہ ختم کردیا اور حرام ہوس زر نے مسلمانوں کو آخرت سے غافل کردیا۔- حقیقت یہ ہے ہ اب بھی دنیا اور آخرت دونوں میں مسلمانوں کی نجاتا سی میں ہے کہ وہ دوبارہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کی طرف واپس پلٹیں اور اپنی پوری زندگی میں اس کی اطاعت اختیار کریں۔ ان شاء اللہ وہ وقت آنے والا ہے جب دوبارہ خلافت علیم نہاج النبوۃ قائم ہوگی، جس میں اللہ کی زمین پر صرف اللہ کا حکم چلے گا۔ یہ رسول صادق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی ہے اور ہر صورت پوری ہوگی۔ ہمارا کام جدوجہد ہے، اللہ چاہے گا تو ہم اپنی آنکھوں سے وہ مبارک دن دیکھیں گے، ورنہ ہمارے بعد آنے والے اسے ضرور دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ان بندوں میں شامل فرمائے جو قیامت تک دین حق قائم رکھنے کے لئے لڑتے رہیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لن یبرح ھذا الذین قائماً یقاتل علیہ عصابۃ من المسلمین حتی تقوم الساعۃ) (مسلم ، الامارۃ باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :” لا تزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق…“:1922 عن جابر بن سمرۃ (رض) ” یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس پر لڑتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔ “- (٦) فحکمۃ الی اللہ : ہر جھگڑے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہونے میں شرعی احکام کا فیصلہ بھی شامل ہے، جیسا کہ اوپر گزرا اور یہ بھی کہ دنیا میں لوگوں کے درمیان جتنے جھگڑے ہیں ان کا واضح فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا۔ دنیا میں کفار اپنے آپ کو حق پر کہتے رہیں، مگر وہاں انبیاء اور ان کے متبعین کا حق پر ہونا اور کفار کا باطل پر ہونا سب کے سامنے واضح ہو کر آجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(قل اللھم فاطر السموت ولارض علم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فی ماکانوا فیہ یختلفون ) (الزمر : ٣٦) ” تو کہہ اے اللہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے ہر چھپی اور کھلی کو جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ “- (٧) ذلکم اللہ ربی : یعنی وہی اللہ جس کی چند صفات اوپر کی آیات میں بیان ہوئی، جنہیں تم بھی مانتے ہو، جو مختصراً یہ ہیں کہ وہ عزیز و حکیم ہے، علی وعظیم ہے، غفور و رحیم ہے، حقیقی ولی ہے، مردوں کو زندہ کرنے والا اور ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، تمام اختلافات کا فیصلہ کرنے والا ہے، وہی اللہ میرا رب ہے، ان میں سے ایک بھی صفت جب کسی اور میں پائی ہی نہیں جاتی تو میں کسی اور کو اپنا رب کیسے مان لوں ؟- (٨) علیک توکلت “ (اسی پر میں نے بھروسہ کیا) فعل ماضی ہے اور ” والیہ انیب “ (اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں) فعل مضارع ہے، جس میں استمرار اور ہمیشگی پائی جاتی ہے۔ ” علیہ “ اور ” الیہ “ پہلے آنے سے قصر کا معنی پیدا ہوا، اس لئے ترجمہ ” اسی پر “ اور ” اسی کی طرف “ کیا گیا ہے۔ یعنی میں شروع سے اسی پر بھروسہ کرچکا اور اب ہر بات میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں، ہر مسئلے کا حکم اسی سے لیتا ہوں، ہر جھگڑے کا فیصلہ اسی سے کر واتا ہوں اور ہر گناہ پر اسی سے معافی مانگتا ہوں اور اسی کو حق سمجھتا ہوں۔
خلاصہ تفسیر - اور (آپ ان لوگوں سے جو توحید میں آپ سے اختلاف رکھتے ہیں یہ کہئے کہ) جس جس بات میں تم (اہل حق کے ساتھ) اختلاف کرتے ہو اس (سب) کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد ہے (وہ یہ ہے کہ دنیا میں دلائل و معجزات کے ذریعہ توحید کا حق ہونا واضح فرما دیا اور آخرت میں ایمان والوں کو جنت اور ایمان نہ لانے والوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا) یہ اللہ (جس کی یہ شان ہے) میرا رب ہے (اور تمہارے خلاف و مخالف سے جو کسی تکلیف و نقصان کے پہنچنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے اس کے بارے میں) اسی پر توکل رکھتا ہوں اور (دنیا و دین کے سب کاموں میں) اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں (اس سے توحید کا مضمون خوب موکد ہوگیا۔ آگے دوسری صفات کمال کے بیان سے اس کی مزید تاکید کی جاتی ہے یعنی) وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے (اور تمہارا بھی پیدا کرنے والا ہے چنانچہ) اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس کے جوڑے بنائے اور (اسی طرح) ہواشی کے جوڑے بنائے (اور) اس (جوڑے ملانے) کے ذریعہ تمہاری نسل چلاتا رہتا ہے (وہ ذات وصفات میں ایسا کامل ہے کہ) کوئی چیز اس کی مثل نہیں اور وہی ہر بات کا سننے والا دیکھنے والا ہے (بخلاف دوسروں کے کہ ان کا سننا دیکھنا بہت محدود ہے اور بمقابلہ اللہ کے سمع و بصر کے کالعدم ہے) اسی کے اختیار میں ہیں کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی (یعنی ان میں تصرف کرنے کا صرف اسی کو حق ہے جس میں سے ایک تصرف یہ ہے کہ) جس کو چاہے زیادہ روزی دیتا ہے اور (جس کو چاہے) کم دیتا ہے، بیشک وہ ہر چیز کا پورا جاننے والا ہے (ہر ایک کو مصلحت کے مطابق دیتا ہے) ۔- معارف و مسائل - (آیت) وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ۔ یعنی جس معاملہ جس کام میں بھی تمہارے آپس میں کوئی اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ ہی کے سپرد ہے۔ کیونکہ اصل حکم صرف اللہ ہی کا ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے۔ (آیت) ان الحکم الا للہ۔ اور دوسری اکثر آیات میں جو اطاعت کے حکم میں رسول کو اور بعض آیات میں اولوالامر کو بھی شامل کیا گیا ہے وہ اس کے معارض نہیں کیونکہ رسول یا اولوالامر کو بھی شامل کیا گیا ہے وہ اس کے معارض نہیں کیونکہ رسول یا اولوالامر جو کچھ فیصلہ یا حکم کرتے ہیں وہ ایک حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا ہی حکم ہوتا ہے۔ اگر بذریعہ وحی یا نصوص کتاب و سنت ہے تو اس کا حکم الٰہی ہونا ظاہر ہے۔ اور اگر اپنے اجتہاد سے ہے تو چونکہ اجتہاد کا مدار بھی نصوص قرآن و سنت پر ہوتا ہے اس لئے وہ بھی ایک حیثیت سے اللہ ہی کا حکم ہے۔ مجتہدین امت کے اجتہادات بھی اس حیثیت سے احکام الٰہیہ میں داخل ہیں۔ اسی لئے علماء نے فرمایا کہ عام آدمی جو قرآن وسنت کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ان کے حق میں مفتی کا فتویٰ ہی حکم شرعی کہلاتا ہے۔
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْہِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُہٗٓ اِلَى اللہِ ٠ ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبِّيْ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ ٠ ۤ ۖ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ ١٠- الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - نوب - النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] - ( ن و ب ) النوب - ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔
اور دین کی جس جس بات میں تم اختلاف کرتے ہو تو اس کا حکم قرآن پاک میں تلاش کرو میرے پروردگار نے تمہیں اسی چیز کا حکم دیا ہے میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
آیت ١٠ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ ” اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف ہے۔ “- یعنی تمہارے مابین جو بھی اختلاف ہو اس کے فیصلے کا حق اللہ ہی کے پاس ہے۔ یہاں سے اس سورت کے ” مضمون خاص “ یعنی اقامت دین کی تمہید شروع ہو رہی ہے۔ چناچہ اس سلسلے میں پہلا نکتہ یہ بتایا گیا کہ اس کائنات کا اصل حاکم اللہ ہے اور حاکمیت صرف اور صرف اسی کے لیے ہے :- - اس نکتے کو اقبالؔ نے یوں بیان کیا ہے : ؎- سروری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آزری - آیت کے ان الفاظ کے مفہوم کے مطابق انسانوں کے باہمی اختلافات کے فیصلوں کے لیے اللہ کا حکم آخری حکم کا درجہ رکھتا ہے اور اسی حقیقت کی تعمیل کا نام اللہ کی حاکمیت ہے۔ اگر کسی معاشرے کا پورا نظام اللہ کی حاکمیت کے تحت آجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہاں اللہ کا دین قائم ہوگیا اور توحید بالفعل اس معاشرے میں نافذ ہوگئی۔ یعنی اللہ کی مرضی اور اس کے قانون کے مطابق باقاعدہ ایک حکومت قائم ہوجانے کا نام ” اقامت دین “ ہے ‘ جو زیر مطالعہ آیات کا مرکزی مضمون ہے۔- ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبِّیْ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُق وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ ” وہ ہے اللہ میرا رب ‘ اسی پر میں نے ّتوکل کیا ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔ “
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :13 اس پورے پیراگراف کی عبارت اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے ، لیکن اس میں متکلم اللہ تعالیٰ نہیں ہے ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ گویا اللہ جل شانہ اپنے نبی کو ہدایت دے رہا ہے کہ تم یہ اعلان کرو ۔ اس طرح کے مضامین قرآن مجید میں کہیں تو قُل ( اے نبی ، کہو ) سے شروع ہوتے ہیں ، اور کہیں اس کے بغیر ہی شروع ہو جاتے ہیں ، صرف انداز کلام بتا دیتا ہے کہ یہاں متکلم اللہ نہیں بلکہ اللہ کا رسول ہے ۔ بلکہ بعض مقامات پر تو کلام اللہ کا ہوتا ہے اور متکلم اہل ایمان ہوتے ہیں ، جیسے مثلاً سورہ فاتحہ میں ہے ، یا متکلم فرشتے ہوتے ہیں ، جیسے مثلاً سورہ مریم 24 ۔ 25 میں ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :14 یہ اللہ تعالیٰ کے مالک کائنات اور ولی حقیقی ہونے کا فطری اور منطقی تقاضا ہے ۔ جب بادشاہی اور ولایت اسی کی ہے تو لا محالہ پھر حاکم بھی وہی ہے اور انسانوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے ۔ اس کو جو لوگ صرف آخرت کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں ، وہ غلطی کرتے ہیں ۔ کوئی دلیل اس امر کی نہیں ہے کہ اللہ کی یہ حاکمانہ حیثیت اس دنیا کے لیے نہیں بلکہ صرف موت کی زندگی کے لیے ہے ۔ اسی طرح جو لوگ اس دنیا میں صرف عقائد اور چند مذہبی مسائل تک اسے محدود قرار دیتے ہیں ، وہ بھی غلطی پر ہیں ۔ قرآن مجید کے الفاظ عام ہیں اور وہ صاف صاف علی الا طلاق تمام نزاعات و اختلافات میں اللہ کو فیصلہ کرنے کا اصل حق دار قرار دے رہے ہیں ۔ ان کی رو سے اللہ جس طرح آخرت کا مالک یوم الدین ہے اسی طرح اس دنیا کا بھی احکم الحاکمین ہے ۔ اور جس طرح وہ اعتقادی اختلافات میں یہ طے کرنے والا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ، ٹھیک اسی طرح قانونی حیثیت سے بھی وہی یہ طے کرنے والا ہے کہ انسان کے لیے پاک کیا ہے اور ناپاک کیا ، جائز اور حلال کیا ہے اور حرام و مکروہ کیا ، اخلاق میں بدی و زشتی کیا ہے اور نیکی و خوبی کیا ، معاملات میں کس کا کیا حق ہے اور کیا نہیں ہے ، معاشرت اور تمدن اور سیاست اور معیشت میں کونسے طریقے درست ہیں اور کونسے غلط ۔ آخر اسی بنیاد پر تو قرآن میں یہ بات اصول قانون کے طور پر ثبت کی گئی ہے کہ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَئءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَ الرَّسُوْ لِ ( النساء ۔ 59 ) ، اور مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ( الاحزاب ۔ 36 ) ، اور اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآءَ ( الاعراف ۔ 3 ) پھر جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس کے اندر یہ ایک اور معنی بھی دے رہی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اختلافات کا فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کا محض قانونی حق ہی نہیں ہے جس کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کافر و مومن ہونے کا مدار ہے ، بلکہ اللہ فی الواقع عملاً بھی حق اور باطل کا فیصلہ کر رہا ہے جس کی بدولت باطل اور اس کے پرستار آخر کار تباہ ہوتے ہیں اور حق اور اس کے پرستار سرفراز کیے جاتے ہیں ، خواہ اس فیصلے کے نفاذ میں دنیا والوں کو کتنی ہی تاخیر ہوتے نظر آتی ہو ۔ یہ مضمون آگے آیت 24 میں بھی آ رہا ہے ، اور اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر گزر چکا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الرعد ، حواشی ۳٤ ۔ ٦۰ ابراہیم ، حواشی ۲٦ ۔ ۳٤ تا ٤۰ ، بنی اسرائیل ، حاشیہ ۱۰۰ ۔ جلد سوم ، الانبیاء ، حواشی ۱۵ تا ۱۸ ۔ ٤٤ تا٤٦ ) سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :15 یعنی جو اختلافات کا فیصلہ کرنے والا اصل حاکم ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :16 یہ دو فعل ہیں جن میں سے ایک بصیغۂ ماضی بیان کیا گیا ہے اور دوسرا بصیغۂ مضارع جس میں استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ صیغہ ماضی میں فرمایا میں نے اس پر بھروسہ کیا ، یعنی ایک دفعہ میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیصلہ کر لیا کہ جیتے جی مجھے اسی کی مدد ، اسی کی رہنمائی ، اسی کی حمایت و حفاظت ، اور اسی کے فیصلے پر اعتماد کرنا ہے ۔ پھر صیغہ مضارع میں فرمایا میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں یعنی جو معاملہ بھی مجھے اپنی زندگی میں پیش آتا ہے ، میں اس میں اللہ ہی کی طرف رجوع کیا کرتا ہوں ۔ کوئی مصیبت ، تکلیف ، یا مشکل پیش آتی ہے تو کسی کی طرف نہیں دیکھتا ، اس سے مدد مانگتا ہوں ۔ کوئی خطرہ پیش آتا ہے تو اس کی پناہ ڈھونڈتا ہوں اور اس کی حفاظت پر بھروسا کرتا ہوں ۔ کوئی مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو اس سے رہنمائی طلب کرتا ہوں اور اسی کی تعلیم و ہدایت میں اس کا حل یا حکم تلاش کرتا ہوں ۔ اور کسی سے نزاع ہوتی ہے تو اسی کی طرف دیکھتا ہوں کہ اس کا آخری فیصلہ وہی کرے گا اور یقین رکھتا ہوں کہ جو فیصلہ بھی وہ کرے گا وہی حق ہو گا ۔