مشرکین کا شرک اللہ تعالیٰ مشرکین کے اس مشرکانہ فعل کی قباحت بیان فرماتا ہے جو وہ اللہ کے ساتھ شریک کیا کرتے تھے اور دوسروں کی پرستش کرتے تھے ۔ اور بیان فرماتا ہے کہ سچا ولی اور حقیقی کارساز تو میں ہوں ۔ مردوں کو جلانا میری صفت ہے ہر چیز پر قابو اور قدرت رکھنا میرا وصف ہے پھر میرے سوا اور کی عبادت کیسی ؟ پھر فرماتا ہے جس کسی امر میں تم میں اختلاف رونما ہو جائے اس کا فیصلہ اللہ کی طرف لے جاؤ یعنی تمام دینی اور دنیوی اختلاف کے فیصلے کی چیز کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مانو ۔ جیسے فرمان عالی شان ہے آیت ( فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59ۧ ) 4- النسآء:59 ) اگر تم میں کوئی جھگڑا ہو تو اسے اللہ کی اور اس کے رسول کی طرف لوٹا لے جاؤ پھر فرماتا ہے کہ وہ اللہ جو ہر چیز پر حاکم ہے وہی میرا رب ہے ۔ میرا توکل اسی پر ہے اور اپنے تمام کام اسی کی طرف سونپتا ہوں اور ہر وقت اسی کی جانب رجوع کرتا ہوں وہ آسمانوں و زمین اور ان کے درمیان کی کل مخلوق کا خالق ہے اس کا احسان دیکھو کہ اس نے تمہاری ہی جنس اور تمہاری ہی شکل کے تمہارے جوڑے بنا دئیے یعنی مرد و عورت اور چوپایوں کے بھی جوڑے پیدا کئے جو آٹھ ہیں وہ اسی پیدائش میں تمہیں پیدا کرتا ہے یعنی اسی صفت پر یعنی جوڑ جوڑ پیدا کرتا جا رہا ہے نسلیں کی نسلیں پھیلا دیں قرنوں گذر گئے اور سلسلہ اسی طرح چلا آرہا ہے ادھر انسانوں کا ادھر جانوروں کا ۔ بغوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد رحم میں پیدا کرتا ہے بعض کہتے ہیں پیٹ میں بعض کہتے ہیں اسی طریق پر پھیلانا ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں نسلیں پھیلانی مراد ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہاں ( فیہ ) معنی ( بہ ) کے ہے یعنی مرد اور عورت کے جوڑے سے نسل انسانی کو وہ پھیلا رہا اور پیدا کر رہا ہے حق یہ ہے کہ خالق کے ساتھ کوئی اور نہیں وہ فرد و صمد ہے وہ بےنظیر ہے وہ سمیع و بصیر ہے آسمان و زمین کی کنجیاں اسی کے ہاتھوں میں ہیں سورہ زمر میں اس کی تفسیر گذر چکی ہے مقصد یہ ہے کہ سارے عالم کا متصرف مالک حاکم وہی یکتا لا شریک ہے جسے چاہے کشادہ روزی دے جس پر چاہے تنگی کر دے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ۔ کسی حالت میں وہ کسی پر ظلم کرنے والا نہیں اس کا وسیع علم ساری مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے ۔
9۔ 1 جب یہ بات ہے تو پھر اللہ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو ولی اور کار ساز مانا جائے نہ کہ ان کو جن کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور جو سننے اور جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ نفع نقصان پہنچانے کی صلاحیت۔
[٨] آستانوں کے کارساز اصل میں مریدان باصفا ہی ہوتے ہیں :۔ آپ کسی کافر کے یا مشرک کے بت خانے یا آستانے پر تشریف لے جائیے اور دیکھئے کہ کارساز یا کام بنانے والے کون ہیں ؟ کارساز تو وہ ہیں جو نذرانے دیتے اور نیازیں چڑھاتے ہیں انہیں کارسازوں یا مریدوں کے ذریعہ تو آستانوں کا کاروبار چمکتا ہے۔ اور آستانوں کے مجاوروں اور خادموں کی چاندی بنی ہوئی ہے۔ دنیا میں تو عبادت گزار مریدان باصفا ہی ان کے کارساز ہوتے ہیں۔ رہی آخرت کی بات جس کی وجہ سے یہ ان کے کارساز بنے ہوئے ہیں تو یہ بات آج نہیں آخرت کو انہیں ٹھیک طرح معلوم ہوجائے گی۔ کہ یہ اولیاء بھی انہی کی طرح عاجز مخلوق اور اللہ کے دربار میں بالکل بےبس ہیں۔ کارساز تو وہ ہوسکتا ہے جو تصرف کے وسیع اختیارات رکھتا ہو اور وہ اللہ کی ذات ہی ہوسکتی ہے جو مردوں تک کو زندہ کرسکتی ہے اور ہر آن کرتی رہتی ہے۔ لہذا اگر کارساز بنانا ہے تو ایسی ذات کو بناؤ جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ تمہارے کام بھی آسکے۔
ام اثخذوا من دونہ اولیآء …: پچھلی آیت میں جو فرمایا کہ ظالموں کے لئے نہ ولی (دوست) ہے نہ کوئی مددگار، یہ اس کی تفصیل ہے کہ آیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر کوئی اولیاء کار ساز اور دوست بنا رکھے ہیں۔ سو اصل دوست جو فی الواقع کارسازی اور مدد کرسکتا ہے وہ تو صرف اللہ ہے۔ ساتھ ہی اس کی دو زبردست دلیلیں بیان فرمائیں کہ وہی مردوں کو زندگی بخشا ہے اور بخشے گا اور وہی ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، کیونکہ اس کا حق وہی رکھتا ہے جس میں یہ صفات ہوں۔ پھر اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ ایسی ہستیوں کو الویاء اور کار ساز بنا لیا جائے جو کسی کو زندگی بخشا تو درکنار خود مرنے والے ہیں۔ پھر اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ ایسی ہستیوں کو اولیاء اور کار ساز بنا لیا جائے جو کسی کو زندگی بخشا تو درکنار خود مرنے والے ہیں۔ فرمایا :(اموات غیر احیآء وما یشعرون ایان یبعثون) (النحل : ٢١)” مردے ہیں، زندہ نہیں ہیں اور وہ نہیں جانتے کب اٹھائے جائیں گے۔ “ ہر چیز پر قدرت تو بہت دور، ایک ذرے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ دیکھیے سورة سبا (٢٢) ۔
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ٠ ۚ فَاللہُ ہُوَالْوَلِيُّ وَہُوَ يُـحْيِ الْمَوْتٰى ٠ ۡوَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ٩ ۧ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے - ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
کیا ان لوگوں نے اللہ کے علاوہ دوسروں کارسازوں کو معبود قرار دے رکھا ہے اللہ ہی ان سب کا کارساز ہے وہ ہی حشر کے لیے مردوں کو زندہ کرے گا اور وہی مارنے اور جلانے ہر چیز پر قادر ہے۔
آیت ٩ اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ” کیا انہوں نے اللہ کے سوا کوئی اور حمایتی بنا لیے ہیں ؟ “- یہاں پر پھر وہی بات دہرائی گئی ہے جو پیچھے ہم آیت ٦ میں پڑھ آئے ہیں۔- فَاللّٰہُ ہُوَ الْوَلِیُّ ” سو حمایتی تو صرف اللہ ہی ہے “- اے کم عقلو اللہ کو چھوڑ کر تم کدھر بھٹک رہے ہو ؟ اصل حمایتی ‘ مددگار اور کارساز تو بس وہی ہے۔ اسی کو اپنا سہارا بنائو اور اسی کو اپنا ولی مانو اس حوالے سے سورة البقرۃ کی آیت ٢٥٧ کے یہ الفاظ اہل ایمان کے لیے بہت بڑی خوشخبری کی حیثیت رکھتے ہیں : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ” اللہ ولی ہے اہل ایمان کا وہ انہیں گمراہیوں کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔ “- وَہُوَ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ” اور وہی ہے جو زندہ کرے گا ُ مردوں کو ‘ اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :12 یعنی ولایت کوئی من سمجھوتے کی چیز نہیں ہے کہ آپ جسے چاہیں اپنا ولی بنا بیٹھیں اور وہ حقیقت میں بھی آپ کا سچا اور اصلی ولی بن جائے اور ولایت کا حق ادا کر دے ۔ یہ تو ایک امر واقعی ہے جو لوگوں کی خواہشات کے ساتھ بنتا اور بدلتا نہیں چلا جاتا ، بلکہ جو حقیقت میں ولی ہے وہی ولی ہے ، خواہ آپ اسے ولی نہ سمجھیں اور نہ مانیں ، اور جو حقیقت میں ولی نہیں ہے وہ ولی نہیں ہے ، خواہ آپ مرتے دم تک اسے ولی سمجھتے اور مانتے چلے جائیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ صرف اللہ ہی کے ولی حقیقی ہونے اور دوسرے کسی کے نہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا حقیقی ولی وہی ہو سکتا ہے جو موت کو حیات میں تبدیل کرتا ہے ، جس نے بے جان مادوں میں جان ڈال کر جیتا جاگتا انسان پیدا کیا ہے ، اور جو حق ولایت ادا کرنے کی قدرت اور اختیارات بھی رکھتا ہے ۔ وہ اگر اللہ کے سوا کوئی اور ہو تو اسے ولی بناؤ ، اور اگر وہ صرف اللہ ہی ہے ، تو پھر اس کے سوا کسی اور کو اپنا ولی بنا لینا جہالت و حماقت اور خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔