Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رسول اللہ سے قرابت داری کی فضیلت اوپر کی آیتوں میں جنت کی نعمتوں کا ذکر کر کے بیان فرما رہا ہے کہ ایمان دار نیک کار بندوں کو اس کی بشارت ہو پھر اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ قریش کے مشرکین سے کہہ دو کہ اس تبلیغ پر اور اس تمہاری خیر خواہی پر میں تم سے کچھ طلب تو نہیں کر رہا ۔ تمہاری بھلائی تو ایک طرف رہی تم اگر اپنی برائی سے ہی ٹل جاؤ اور مجھے رب کی رسالت پہنچانے دو اور قرابت داری کے رشتے کو سامنے رکھ کر میری ایذاء رسانی سے ہی رک جاؤ تو یہی بہت ہے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ نے کہا اس سے مراد قرابت آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ سن کر آپ نے فرمایا تم نے عجلت سے کام لیا سنو قریش کے جس قدر قبیلے تھے سب کے ساتھ حضور کی رشتہ داری تھی تو مطلب یہی کہ تم اس رشتے داری کا لحاظ رکھو جو مجھ میں اور تم میں ہے حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، حضرت قتادہ ، حضرت سدی ، حضرت ابو مالک ، حضرت عبد الرحمن وغیرہ بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں جو دلیلیں دی ہیں جس ہدایت کا راستہ بتایا ہے اس پر کوئی اجر تم سے نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم اللہ کو چاہنے لگو اور اس کی اطاعت کی وجہ سے اس سے قرب اور نزدیکی حاصل کر لو حضرت حسن بصری سے بھی یہی تفسیر منقول ہے تو یہ دوسرا قول ہوا پہلا قول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی رشتے داری کو یاد دلانا دوسرا قول آپ کی یہ طلب کہ لوگ اللہ کی نزدیکی حاصل کرلیں تیسرا قول جو حضرت سعید بن جبیر کی روایت سے گزرا کہ تم میری قرابت کے ساتھ احسان اور نیکی کرو ۔ ابو الدیلم کا بیان ہے کہ جب حضرت علی بن حسین کو قید کر کے لایا گیا اور دمشق کے بالا خانے میں رکھا گیا تو ایک شامی نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں قتل کرایا اور تمہارا ناس کرا دیا اور فتنہ کی ترقی کو روک دیا یہ سن کر آپ نے فرمایا کیا تو نے قرآن بھی پڑھا ہے اس نے کہا کیوں نہیں ؟ فرمایا اس میں ( حم ) والی سورتیں بھی پڑھی ہیں ؟ اس نے کہا واہ سارا قرآن پڑھ لیا اور ( حم ) والی سورتیں نہیں پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا پھر کیا ان میں اس آیت کی تلاوت تو نے نہیں کی ؟ آیت ( قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ۭ وَمَنْ يَّــقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ 23؀ ) 42- الشورى:23 ) یعنی میں تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا مگر محبت قرابت کی ۔ اس نے کہا پھر کیا تم وہ ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں حضرت عمرو بن شعیب سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا مراد قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ انصار نے اپنی خدمات اسلام گنوائیں گویا فخر کے طور پر ۔ اس پر ابن عباس یا حضرت عباس نے فرمایا ہم تم سے افضل ہیں جب یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ ان کی مجلس میں آئے اور فرمایا انصاریو کیا تم ذلت کی حالت میں نہ تھے ؟ پھر اللہ نے تمہیں میری وجہ سے عزت بخشی انہوں نے کہا بیشک آپ سچے ہیں ۔ فرمایا کیا تم گمراہ نہ تھے ؟ پھر اللہ نے تمہیں میری وجہ سے ہدایت کی ؟ انہوں نے کہا ہاں بیشک آپ نے سچ فرمایا پھر آپ نے فرمایا اب تم مجھے کیوں نہیں کہتے ؟ انہوں نے کہا کیا کہیں ؟ فرمایا کیوں نہیں کہتے ؟ کہ کیا تیری قوم نے تجھے نکال نہیں دیا تھا ؟ اس وقت ہم نے تجھے پناہ دی کیا انہوں نے تجھے جھٹلایا نہ تھا ؟ اس وقت ہم نے تیری تصدیق کی ؟ کیا انہوں نے تجھے پست کرنا نہیں چاہا تھا اس وقت ہم نے تیری مدد کی ؟ اس طرح کی آپ نے اور بھی بہت سی باتیں کیں یہاں تک کہ انصار اپنے گھٹنوں پر جھک پڑے اور انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اولاد اور جو کچھ ہمارے پاس ہے سب اللہ کا اور سب اس کے رسول کے لئے ہے ۔ پھر یہ آیت ( قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ۭ وَمَنْ يَّــقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ 23؀ ) 42- الشورى:23 ) نازل ہوئی ۔ ابن ابی حاتم میں بھی اسی کے قریب ضعیف سند سے مروی ہے بخاری و مسلم میں یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ یہ واقعہ حنین کی غنیمت کی تقسیم کے وقت پیش آیا تھا اور اس میں آیت کے اترنے کا ذکر بھی نہیں اور اس آیت کو مدینے میں نازل شدہ ماننے میں بھی قدرے تامل ہے اس لئے کہ یہ سورت مکی ہے پھر جو واقعہ حدیث میں مذکور ہے اس واقعہ میں اور اس آیت میں کچھ ایسی زیادہ ظاہر مناسبت بھی نہیں ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا اس آیت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت رکھنے کا ہمیں حکم باری ہوا ہے آپ نے فرمایا حضرت فاطمہ اور ان کی اولاد رضی اللہ عنہم ۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور اس کا راوی مبہم ہے جو معروف نہیں پھر اس کا استاد ایک شیعہ ہے جو بالکل ثقاہت سے گرا ہوا ہے اس کا نام حسین اشغر ہے اس جیسی حدیث بھلا اس کی روایت سے کیسے مان لی جائے گی ؟ پھر مدینے میں آیت نازل ہونا ہی مستعد ہے حق یہ ہے کہ آیت مکی ہے اور مکہ شریف میں حضرت فاطمہ کا عقد ہی نہ ہوا تھا اولاد کیسی ؟ آپ کا عقد تو صرف حضرت علی کے ساتھ جنگ بدر کے بعد سنہ ٢ھ میں ہوا ۔ پس صحیح تفسیر اس کی وہی ہے جو حبر المہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس نے کی ہے جو بحوالہ بخاری پہلے گذر چکی ہم اہل بیت کے ساتھ خیرخواہی کرنے کے منکر نہیں ہے ہم مانتے ہیں کہ ان کے ساتھ احسان و سلوک اور ان کا اکرام و احترام ضروری چیز ہے روئے زمین پر ان سے زیادہ پاک اور صاف ستھرا گھرانا اور نہیں حسب و نسب میں اور فخر و مباہات میں بلا شک یہ سب سے اعلیٰ ہیں ۔ بالخصوص ان میں سے وہ جو متبع سنت نبی ہوں جیسے کہ اسلاف کی روش تھی یعنی حضرت عباس اور آل عباس کی اور حضرت علی اور آل علی کی رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا ہے میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عزت اور یہ دونوں جدا نہ ہوں گے جب تک کہ حوض پر میرے پاس نہ آئیں مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عباد بن عبدالملک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ قریشی جب آپس میں ملتے ہیں تو بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ۔ لیکن ہم سے اس ہنسی خوشی کے ساتھ نہیں ملتے ۔ یہ سن کر آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمانے لگے اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کسی کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اللہ کے لئے اور اس کے رسول کی وجہ سے تم سے محبت نہ رکھے اور روایت میں ہے کہ حضرت عباس نے کہا قریشی باتیں کرتے ہوتے ہیں ہمیں دیکھ کر چپ ہو جاتے ہیں اسے سن کر مارے غصے کے آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور فرمایا واللہ کسی مسلمان کے دل میں ایمان جاگزیں نہیں ہو گا جب تک کہ وہ تم سے اللہ کے لئے اور میری قرابت داری کی وجہ سے محبت نہ رکھے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا لوگو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں رکھو ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت علی سے فرمایا اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں سے سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے سلوک سے بھی پیارا ہے حضرت عمر فاروق نے حضرت عباس سے فرمایا واللہ تمہارا اسلام لانا مجھے اپنے والد خطاب کے اسلام لانے سے بھی زیادہ اچھا لگا اس لئے کہ تمہارا اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کے اسلام سے زیادہ محبوب تھا ۔ پس اسلام کے ان دو چمکتے ستاروں کا مسلمانوں کے ان دونوں سیدوں کا جو معاملہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقربا پیغمبر کے ساتھ تھا وہی عزت و محبت کا معاملہ مسلمانوں کو آپ کے اہل بیت اور قرابت داروں سے رکھنا چاہیے ۔ کیونکہ نبیوں اور رسولوں کے بعد تمام دنیا سے افضل یہی دونوں بزرگ خلیفہ رسول تھے پس مسلمانوں کو ان کی پیروی کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور کنبے قبیلے کے ساتھ جس عقیدت سے پیش آنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں خلیفہ سے اہل بیت سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کل صحابہ سے خوش ہو جائے اور سب کو اپنی رضا مندی میں لے لے آمین ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کہ یزید بن حیان اور حصین بن میسرہ اور عمر بن مسلم حضرت زید بن ارقم کے پاس گئے حضرت حصین نے کہا اے حضرت آپ کو تو بڑی بڑی خیر و برکت مل گئی آپ نے اللہ کے نبی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا آپ نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں آپ کے ساتھ جہاد کیے آپ کے ساتھ نمازیں پڑھیں حق تو یہ ہے کہ بڑی بڑی فضیلتیں آپ نے سمیٹ لیں اچھا اب کوئی حدیث ہمیں بھی بتائیے ۔ اس پر حضرت زید نے فرمایا میرے بھتیجے سنو میری عمر اب بڑی ہو گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کو عرصہ گذر چکا بعض چیزیں ذہن میں محفوظ نہیں رہیں اب تو یہی رکھو کہ جو از خود سنا دوں اسے مان لیا کرو ورنہ مجھے تکلیف نہ دو کہ تکلف سے بیان کرنا پڑے پھر آپ نے فرمایا کہ مکے اور مدینے کے درمیان پانی کی جگہ کے پاس جسے خم کہا جاتا تھا کھڑے ہو کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ سنایا اللہ کی حمد وثنا کی وعظ و پند کیا پھر فرمایا لوگو میں ایک انسان ہوں کیا عجب کہ ابھی ابھی میرے پاس قاصد اللہ پہنچ جائے اور میں اس کی مان لوں سنو میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک تو کتاب اللہ جس میں نور و ہدایت ہے تم اللہ کی کتاب کو مضبوط تھام لو اور اس کو مضبوطی سے تھامے رہو پس اس کی بڑی رغبت دلائی اور بہت کچھ تاکید کی پھر فرمایا اے میرے اہل بیت میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں یہ سن کر حصین نے حضرت زید سے پوچھا اے زید آپ کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ کی بیویاں اہل بیت میں داخل نہیں ؟ فرمایا بیشک آپ کی بیویاں وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے پوچھا وہ کون ہیں ؟ فرمایا آل علی ، آل عقیل ، آل جعفر ، آل عباس رضی اللہ عنہم پوچھا کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ فرمایا ہاں ترمذی شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط تھامے رہے تو بہکو گے نہیں ایک دوسری سے زیادہ عظمت والی ہے کتاب اللہ جو اللہ کی طرف سے ایک لٹکائی ہوئی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک آئی ہے اور دوسری چیز میری عترت میرے اہل بیت ہے اور یہ دونوں جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں ۔ پس دیکھ لو کہ میرے بعد کس طرح ان میں میری جانشینی کرتے ہو؟ امام صاحب فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اور صرف ترمذی میں ہے یہ روایت ہے حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت سے ترمذی میں ہے کہ عرفے والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر جسے قصوا کہا جاتا تھا خطبہ دیا جس میں فرمایا لوگو میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے تھامے رہے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت ۔ ترمذی کی اور روایت میں ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو مدنظر رکھ کر تم لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی وجہ سے میری اہل بیت سے محبت رکھو یہ حدیث اور اوپر کی حدیث حسن غریب ہے اس مضمون کی اور احادیث ہم نے آیت ( اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا 33؀ۚ ) 33- الأحزاب:33 ) کی تفسیر میں وارد کر دی ہیں یہاں ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں فالحمد اللہ ۔ ایک ضعیف حدیث مسند ابو یعلی میں ہے کہ حضرت ابو ذر نے بیت اللہ کے دروازے کا کنڈا تھامے ہوئے فرمایا لوگو جو مجھے جانتے ہیں وہ تو جانتے ہی ہیں جو نہیں پہچانتے وہ اب پہچان کرلیں کہ میرا نام ابو ذر ہے سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم میں میرے اہل بیت کی مثال مثل نوح علیہ السلام کی کشتی کے ہے اس میں جو چلا گیا اس نے نجات پالی اور جو اس میں داخل نہ ہوا ہلاک ہوا پھر فرماتا ہے جو نیک عمل کرے ہم اس کا ثواب اور بڑھا دیتے ہیں جیسے ایک اور آیت میں فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر ظلم نہیں کرتا اگر نیکی ہو تو اور بڑھا دیتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے بعض سلف کا قول ہے کہ نیکی کا ثواب اس کے بعد نیکی ہے اور برائی کا بدلہ اس کے بعد برائی ہے پھر فرمان ہوا کہ اللہ گناہوں کو بخشنے والا ہے اور نیکیوں کی قدر دانی کرنے والا ہے انہیں بڑھا چڑھا کر دیتا ہے پھر فرماتا ہے کہ یہ جاہل کفار جو کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو نے گھڑ لیا ہے اور اللہ کے نام لگا دیا ہے ایسا نہیں اگر ایسا ہوتا تو اللہ تیرے دل پر مہر لگا دیتا اور تجھے کچھ بھی یاد نہ رہتا جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ؀ۙ ) 69- الحاقة:44 ) اگر یہ رسول ہمارے ذمے کچھ باتیں لگا دیتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ کر ان کے دل کی رگ کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی انہیں اس سزا سے نہ بچا سکتا ۔ یعنی یہ اگر ہمارے کلام میں کچھ بھی زیادتی کرتے تو ایسا انتقام لیتے کہ دنیا کی کوئی ہستی اسے نہ بچا سکتی اس کے بعد کا جملہ آیت ( ویمح اللہ ) الخ ، ( یختم ) پر معطوف نہیں بلکہ یہ مبتدا ہے اور مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے ۔ آیت ( یختم ) پر عطف نہیں جو مجزوم ہو ۔ واؤ کا کتابت میں نہ آنا یہ صرف امام کے رسم خط کی موافقت کی وجہ سے ہے جیسے آیت ( سَـنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ 18؀ۙ ) 96- العلق:18 ) میں واؤ لکھنے میں نہیں آئی ۔ اور آیت ( وَيَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بِالْخَيْرِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا 11؀ ) 17- الإسراء:11 ) میں واؤ نہیں لکھی گئی ہاں اس کے بعد کے جملے آیت ( اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ Ċ۝ۙ ) 8- الانفال:7 ) کا عطف آیت ( وَيَمْــحُ اللّٰهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ ۭ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ 24؀ ) 42- الشورى:24 ) ، پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ حق کو واضح اور مبین کر دیتا ہے اپنے کلمات سے یعنی دلائل بیان فرما کر حجت پیش کر کے وہ خوب دانا بینا ہے دلوں کے راز سینوں کے بھید اس پر کھلے ہوئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یعنی اجر وثواب میں اضافہ کریں گے یا نیکی کے بعد اس کا بدلہ مزید نیکی کی توفیق کی صورت میں دیں گے جس طرح بدی کا بدلہ مذید بدیوں کا ارتکاب ہے۔ 23۔ 2 اس لئے وہ پردہ پوشی فرماتا اور معاف کردیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اجر دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] الا المودّۃ فی القربیٰ کے مختلف مفہوم :۔ اس جملہ کی کئی تفسیریں بیان کی گئی ہیں مگر بہترین تفسیر وہی ہے جو صحیحین میں سیدنا ابن عباس (رض) سے منقول ہے اور وہ یہ ہے :- سیدنا ابن عباس (رض) سے کسی نے پوچھا کہ (اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى 23؀) 42 ۔ الشوری :23) کا کیا مطلب ہے ؟ سعید بن جبیر نے (جھٹ) کہہ دیا کہ اس سے آپ کی آل مراد ہے۔ ابن عباس (رض) کہنے لگے : تم جلد بازی کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے آپ کی کچھ نہ کچھ قرابت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ انہیں کہیے کہ اگر تم اور کچھ نہیں کرتے (مسلمان نہیں ہوتے) تو کم از کم قرابت ہی کا لحاظ رکھو۔ (اور مجھے ایذائیں دینا چھوڑ دو ) (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اس کی دوسری تفسیر یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں قُرْبٰی سے مراد قرب یا تقرب ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے اس کام پر اس بات کے سوا کوئی اجر نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی محبت پیدا ہوجائے۔ یعنی تم ٹھیک ہوجاؤ اور اللہ سے محبت کرنے لگو۔ بس یہی میرا اجر ہے۔- تیسرا گروہ اس آیت میں قُرْبٰی سے مراد اقارب لیتا ہے۔ پھر ایک فریق تو اس محبت کو بنی عبدالمطلب سے محبت مراد لیتا ہے۔ اور دوسرا سیدنا فاطمۃ الزھرا (رض) سیدنا علی اور ان کی اولاد سے۔ یہ تفسیر درج ذیل وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔- خ مودّۃ فی القربیٰ سے شیعہ حضرات کا استدلال اور اس کا جواب :۔ ١ـ۔ آپ کی والدہ اور آپ کی زوجہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ (رض) کی وجہ سے آپ کی رشتہ داری صرف بنو عبدالمطلب سے ہی نہیں تھی۔ بلکہ تقریباً قریش کے سب قبیلوں سے تھی اور بنی عبدالمطلب میں سے کچھ لوگ آپ کے حق میں تھے اور کچھ سخت دشمن بھی تھے۔ اور ابو لہب کی آپ سے دشمنی تو سب ہی جانتے ہیں۔ یہی حال قریش کے باقی قبیلوں کا تھا۔ لہذا اس تخصیص کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔- ٢۔ قُرْبٰی سے مراد سیدہ فاطمہ اور سیدنا علی (رض) اور ان کی اولاد لینا اس لحاظ سے غلط ہے کہ یہ سورة مکی ہے۔ اور سیدہ فاطمہ (رض) کا نکاح ہی مدینہ جانے کے بعد ہوا تھا۔- ٣۔ اور اس تفسیر کے غلط ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا مطالبہ کرنا کہ میں تم سے اس تبلیغ کے کام کا اس کے سوا کوئی اجر نہیں مانگتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو، رسول اللہ کی شان رفیع کے مقابلہ میں یہ مطالبہ انتہائی گھٹیا اور فروتر ہے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ وہ مطالبہ بھی کافروں سے ہو۔ کافروں سے بھلا اجرت کے مطالبہ کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اجرت تو اس سے طلب کی جاسکتی ہے جسے وہ کام پسند آئے اور کافر تو اس تبلیغ کے کام کی وجہ سے آپ کی جان کے لاگوبنے ہوئے تھے۔ ان سے بھلا کوئی ایسا مطالبہ کیا جاسکتا تھا ؟- البتہ یہ واضح رہے کہ آپ کے اہل بیت ازواج مطہرات (رض) آپ کی بیٹیوں اور دوسرے تمام اقارب سے محبت رکھنا جن میں سیدہ فاطمہ سیدنا علی اور ان کی اولاد بھی شامل ہے۔ رسول اللہ کی محبت و تعظیم اور حقوق شناسی کے لحاظ سے اہل ایمان کے لیے ضروری ہے اور ان سے درجہ بدرجہ محبت رکھنا حقیقت میں آپ سے محبت ہی کا تقاضا ہے۔ اور ایسی محبت کا تقاضا مسلمانوں سے تو کیا جاسکتا ہے، کافروں سے نہیں جبکہ اس آیت میں روئے سخن کافروں سے ہے۔- [٣٥] یعنی جو نیک بننا چاہتا ہے اللہ اسے اور زیادہ نیک بنا دیتا ہے۔ اس کے کام میں اگر کچھ کو تاہیاں رہ گئی ہوں تو انہیں معاف کردیتا ہے اور جو کچھ بھی وہ نیک اعمال بجا لاتے ہیں ان کی قدر شناسی اور حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انہیں زیادہ اجر فرماتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ذلک الذی یبشر اللہ عبادہ …: یہ پانچویں وجہ ہے۔” ذلک “ اسم اشارہ بعید اس ثواب کی عظمت کے بیان کے لئے ہے۔ جنتوں کے باغوں اور ان کی نعمتوں کی طرف اشارہ کر کے ان کی طرف دوبارہ توجہ دلانے سے مقصود ان کی عظمت کا اظہار ہے اور ساتھ ہی ایمان اور عمل صالح کا ذکر اس لئے ہے کہ اتنی بڑی نعمتوں کے حصول کے لئے ایمان اور عمل صالح ضروری ہے۔- (٢) قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی :” قرب یقرب قربا و قربانا و قرباناً “ (س ، ک) قریب ہونا۔ ” قربی “ اور ” قرابۃ “ بھی مصدر ہیں، جیسے ” بشری “ اور ” رجعی “ ہیں۔ ان کا معنی رشتہ داری اور قرابت ہے۔ رشتہ دار اور قرابت دار کے لئے ” ذوالقربی “ (قرابت والا) کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(وات ذالقربی حقہ) (بنی اسرائیل : ٢٦)” اور رشتہ دار کو اس کا حق دے۔ “ ” فی القربی “ میں ” فی “ تعلیل کے لئے ہے : ای من اجل القربی یعنی رشتہ داری کی وجہ سے ، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(عذبت امراۃ فی ھرۃ حبس تھا حتی مانت جوعا ، قدخلت فیھا النار) (بخاری، المساقاۃ، باب فضل سقی المائ، 2365)” ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ اس نے اسے باندھ کر رکھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرگئی، تو اس کی وجہ سے وہ آگ میں داخل ہوگئی۔ “ یعنی آپ کہہ دیں کہ میں اس تبلیغ دین پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا، سوائے رشتہ داری کی وجہ سے دوستی کے کچھ نہ سہی، کم از کم میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت اور رشتہ داری ہے اس کی وجہ سے میرا حق ہے کہ مجھ سے دوستی رکھو، اس حق کا ماطلبہ میں تم سے ضرور کرتا ہوں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے، اگر نہیں مانتے تو سارے عرب میں سب سے بڑھ کر دشمین تو نہ کرو۔ کم از کم اس قرابت کا تو خیال رکھو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ جیسا کہ ابو طالب اگرچہ ایمان نہیں لایا مگر وہ قرابت کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفاع کرتا رہا۔- آیت کا یہی مطلب ترجمان القرآن ابن عباس (رض) نے بیان فرمایا ہے۔ چناچہ طاؤس فرماتے ہیں کہ ان بع اس (رض) سے ” الا المودۃ فی القربی “ کے متعلق سوال کیا گیا تو سعید بن جبیر کہنے لگے کہ اس سے مراد ” قربی آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ (آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت) ہے، تو ابن عباس (رض) نے فرمایا :(عجلت ، ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لم یکن یطن من قریش الا کان لہ فیھم قرابۃ فقال الا ان تصلوا مابینی وبینکم من القرابۃ) (بخاری التفسیر، باب قولہ (الا المودۃ فی القربی):7818)” تم نے جلدی کی، قریش کا کوئی خاندان ایسا نہ تھا جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قربات اور رشتہ داری نہ ہ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :”(میں تم سے اس پر کسی مزدوری کا سوال نہیں کرتا) مگر یہ کہ تم اس رشتہ داری کو ملاؤ جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ ‘- (٣) بعض لوگ خصوصاً شیعہ اس آیت کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ آپ کہہ دیں کہ میں تم سے اس پر کسی مزدوری کا سوال نہیں کرتا مگر قرابت والوں سے دوستی کا ، یعنی میں تم سے اس پر اس کے سوا کچھ نہیں مانگتا کہ تم میرے قربات داروں سے دوستی رکھو۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مومن قرابت داروں سے دوسی اپنی جگہ مسلمہ ہے، جو دوسرے دلائل سے ثابت ہے، مگر اس آیت کا وہ مطلب ہرگز نہیں جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے، کیونکہ ” القربیٰ “ کا معنی رشتہ داری ہے، رشتہ دار نہیں۔ رشتہ داروں کے لئے ذوی القربی “ کا لفظ آتا ہے۔ اگر ” القربی “ کا معنی رشتہ دار ہو بھی تو آیت کے الفاظ یہ ہونے چاہئیں :” الا مودۃ القربی “ ” مگر رشتہ داروں کی دوستی کا۔ “ جب کہ الفاظ ہیں :(الا المودۃ فی القربی) ان الفاظ کا وہ معنی ہو ہی نہیں سکتا جو یہ حضرات بیان کرتے ہیں۔ پھر دیکھیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سوال کن لوگوں سے کر رہے ہیں، ظاہر ہے کفار سے کر رہے ہیں جو آپ کے شدید مخالف تھے، جو آپ سے بھی دوستی کے روا دار نہیں تھے، آیا ممکن بھی ہے کہ آپ ان سے کہیں کہ میرے رشتہ داروں سے دوستی کرو۔ اگر مان بھی لیں کہ آپ ان سے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ دوستی کا سوال کر رہے ہیں تو وہ رشتے ہر کون سے ہیں ؟ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پورے قبیلہ قریش کے ساتھ دوستی کا سوال کر رہے ہیں یا اپنے قریب ترین خاندان بنو عبدالمطلب کے ساتھ ؟ دونوں میں مخلص مسلمانوں کے علاوہ ابوجہل اور ابولہب جیسے آپ کے بدترین دشمن بھی موجود تھے جن کے ساتھ دوستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر اس سے مراد علی و فاطمہ اور حسن و حسین (رض) ہیں، جیسا کہ شیعہ حضرات کہتے ہیں، تو یہ سورت مکی ہے اور مکہ میں فاطمہ اور علی (رض) کا نکاح تک نہیں ہوا تھا اور نہ ہی حسن و حسین (رض) پیدا ہوئے تھے ۔ لہٰذا اس سے یہ لوگ مراد ہو ہی نہیں سکتے۔- (٤) بعض مفسرین نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ کہنا کہ میں تم سے صرف رشتہ داری کی وجہ سے دوسی کا سوال کرتا ہوں، یہ دین کی تبلیغ کی اجرت یا مزدوری نہیں جو آپ ان سے مانگ رہے ہیں، بلکہ آپ اپنے اس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو تمام دنیا کے ہاں مسلم ہے، خواہ آپ تبلیغ کریں یا نہ کریں۔ غرض اس آیت میں بھی وہی بات بیان ہوئی ہے جو تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوم سے کہی کہ میں تم سے اس تبلیغ دین پر کسی قسم کی مزدوری کا سوال نہیں کرتا، کیونکہ میری مزدوری صرف اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ جیسا کہ سورة شعراء میں ہے :(وما اسلم علیہ من اجر، ان اجری الا علی رب العلمین) (الشعرائ : ١٠٩) ” اور میں اس پر تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا، میری اجرت تو رب العالمین ہی کے ذمے ہے۔ “ (قواعد نحو میں یہ بات ان الفاظ میں بیان کی جائے گی کہ یہاں استثناء متصل نہیں منقطع ہے، یعنی صلہ رحمی کے سوال کا تبلیغ دین پر اجرت سے کوئی تعلق نہیں۔ کتنی معمولی ہو، ہم اس کے لئے اس کے حسن وخ وبی میں اضافہ کردیں گے۔ یہ اضافہ کئی طرح سے ہے، ایک تو وہ جتنی نیکی بھی ملیں گے جس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہ گا۔ تیسرا اللہ تعالیٰ ہر نیکی کو دس گنا سے سات سو گنا بلکہ شمار سے زیادہ تک بڑھا دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(وان تک حسنۃ یضعفھا ویوت من لدنہ اجراً عظیماً ) (النسائ : ٣٠)” اگر ایک نیکی ہوگی تو وہ اسے کئی گنا کر دے گا اور اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔ “ چوتھا یہ کہ نیکیوں کے ساتھ گناہ معاف ہوتے ہیں، فرمایا :(ان الحسنت یذھبن السیات) (ھود : ١١٣)” بیشک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ “ - (٦) ان اللہ غفور شکور :” ان “ تعلیل کے لئے آتا ہے، یعنی نیکی کرنے والا کی نیکی میں ہم اضافہ اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ گناہوں پر بہت پردہ ڈالنے والا اور نیک عمل کی بےحد قدر کرنے والا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - (آیت) قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى۔ اس آیت کی جو تفسیر مذکور الصدر خلاصہ میں آ چکی ہے۔ یہی جمہور مفسرین سے منقول و ماثور اور مختار ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ میرا اصل حق تم سب پر تو یہ ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تم اس کا اعتراف کرو اور اپنی صلاح و فلاح کے لئے میری اطاعت کرو۔ مگر میری نبوت و رسالت کو تم تسلیم نہیں کرتے تو نہ سہی مگر میرا ایک انسانی اور خاندانی حق بھی تو ہے جس کا تم انکار نہیں کرسکتے کہ تمہارے اکثر قبائل میں میری رشتہ داری اور قرابتیں ہیں۔ قرابت کے حقوق اور صلہ رحمی کی ضرورت سے تمہیں بھی انکار نہیں تو میں تم سے اپنی اس خدمت کا جو تمہاری تعلیم و تبلیغ اور اصلاح اعمال و احوال کے لئے کرتا ہوں، کوئی معاوضہ تم سے نہیں مانگتا، صرف اتنا چاہتا ہوں کہ رشتہ داری کے حقوق کا تو خیال کرو۔ بات کا ماننا یا نہ ماننا تمہارے اختیار میں ہے۔ مگر عداوت اور دشمنی سے تو کم از کم یہ نسب و قرابت کا تعلق مانع ہونا چاہئے۔- اب یہ بات ظاہر ہے کہ رشتہ داری کے حقوق کی رعایت یہ خود ان کا اپنا فرض تھا۔ اس کو کسی خدمت تعلیمی تبلیغی کا معاوضہ نہیں کہا جاسکتا۔ آیت مذکورہ میں جو اس کو بلفظ استثناء ذکر فرمایا ہے تو یہ تو اصطلاحی الفاظ میں استثناء منقطع ہے جس میں مستثنیٰ اس مجموعہ مستثنیٰ منہ کا جز نہیں ہوتا یا پھر اس کا مجازاً اور ادعاء معاوضہ قرار دیا گیا۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ میں تم سے صرف اتنی بات چاہتا ہوں جو اگرچہ حقیقتاً کوئی معاوضہ نہیں، تم اس کو معاوضہ سمجھو تو یہ تمہاری اپنی غلطی ہے۔ اس کے نظائر عرب و عجم ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔ متنبی شاعر نے ایک قوم کی شجاعت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان میں کوئی عیب نہیں بجز اس کے کہ ان کی تلواروں میں کثرت حرب و ضرب کی وجہ سے دندانے پڑگئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ شجاع و بہادر کے لئے یہ کوئی عیب نہیں بلکہ ہنر ہے۔ اس کا عربی شعر یہ ہے - ولا عیب فیھم غیران سیوفھم۔- بھن فلول من تراع الکتائب - ایک اردو شاعر نے اسی طرح کا مضمون اس طرح لکھا ہے - مجھ میں ایک عیب بڑا ہے کہ وفار دار ہوں میں، اس نے وفاداری کو عیب کے لفظ سے تعبیر کر کے اپنی بےگناہی کو بہت اونچا کر کے دکھلایا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ حقوق قرابت کی رعایت جو فی الواقع کوئی معاوضہ نہیں میں تم سے اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا۔- آیت مذکورہ کی یہی تفسیر صحیحین میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے اور ائمہ تفسیر میں مجاہد، قتادہ اور بہت بڑی جماعت نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ یہی تمام انبیاء (علیہم السلام) کی آواز ہر دور میں رہی ہے کہ اپنی قوم کو کھول کر بتادیا کہ ہم جو کچھ تمہاری بھلائی اور خیر خواہی کے لئے کوشش کرتے ہیں، تم سے اس کا کوئی معاوضہ ہم نہیں مانگتے۔ ہمارا معاوضہ صرف اللہ تعالیٰ دینے والا ہے۔ سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان تو ان سب میں اعلیٰ وارفع ہے وہ کیسے قوم سے کوئی معاوضہ طلب کرتے۔- امام حدیث سعید بن منصور اور ابن سعد اور عبد بن حمید اور حاکم اور بیہقی نے امام شعبی سے یہ واقعہ نقل کیا ہے اور حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ امام شعبی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ہم سے اس آیت کی تفسیر کے متعلق سوالات کئے تو ہم نے حضرت ابن عباس کو خط لکھ کر اس کی صحیح تفسیر دریافت کی آپ نے جواب میں لکھا کہ - آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش کے ایسے نسب سے تعلق رکھتے تھے کہ اس کے ہر ذیلی خاندان سے آپ کا رشتہ ولادت قائم تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ” آپ مشرکین سے یہ کہئے کہ اپنی دعوت پر میں تم سے کوئی معاوضہ بجز اس کے نہیں مانگتا کہ تم مجھ سے قرابت داری کی مروت و مودت کا معاملہ کر کے بغیر کسی تکلیف کے اپنے درمیان رہنے دو اور میری حفاظت کرو۔ - اور ابن جریر وغیرہ نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں :۔- اے قوم اگر تم میری اتباع سے انکار کرتے ہو تو تم سے جو میرا قرابت کا رشتہ ہے اس کی پاسداری تو کرو، اور ایسا نہ ہو کہ عرب کے دوسرے لوگ (جن کے ساتھ میری قرابت نہیں) میری حفاظت اور نصرت میں تم پر بازی لے جائیں۔- اور حضرت ابن عباس ہی سے سند ضعیف کے ساتھ ایک روایت یہ بھی منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگوں نے آپ سے یہ سوال کیا کہ آپ کی قرابت میں کون لوگ ہیں تو آپ نے فرمایا کہ علی اور فاطمہ اور ان کی اولاد۔ اس روایت کی سند کو در منثور میں سیوطی نے اور تخریج احادیث کشاف میں حافظ ابن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے اور چونکہ اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ میں اپنی خدمت کا اتنا معاوضہ مانگتا ہوں کہ میری اولاد کی تم رعایت کیا کرو، جو عام انبیاء (علیہم السلام) خصوصاً سید الانبیاء کی شان کے مناسب بھی نہیں۔ اس لئے راجح اور مختار تفسیر جمہور امت کے نزدیک وہی ہے جو اوپر لکھی گئی۔ روافض نے اس روایت کو نہ صرف اختیار کیا بلکہ اس پر بڑے قلعے تعمیر کر ڈالے، جن کی کوئی بنیاد نہیں۔- آل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و محبت کا مسئلہ :- اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا تعلق صرف اس بات سے ہے کہ آیت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی خدمت کے معاوضہ میں قوم سے اپنی اولاد کی محبت و عظمت کے لئے کوئی درخواست نہیں کی۔ اس کے یہ معنی کسی کے نزدیک نہیں کہ اپنی جگہ آل رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت و عظمت کوئی اہمیت نہیں رکھتی، ایسا خیال کوئی بدبخت گمراہ ہی کرسکتا ہے۔ حقیقت مسئلہ کی یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و محبت کا ساری کائنات سے زائد ہونا جزو ایمان بلکہ مدار ایمان ہے۔ اور اس کے لئے لازم ہے کہ جس کو جس قدر نسبت قریبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اس کی تعظیم و محبت بھی اسی پیمانے سے واجب و لازم ہونے میں کوئی شبہ نہیں، کہ انسان کی صلبی اولاد کو سب سے زیادہ نسبت قربت حاصل ہے اس لئے ان کی محبت بلاشبہ جزو ایمان ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ازواج مطہرات اور دوسرے صحابہ کرام جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ متعدد قسم کی نسبتیں قربت اور قرابت کی حاصل ہیں ان کو فراموش کردیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ حب اہل بیت وآل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسئلہ امت میں کبھی زیر اختلاف نہیں رہا، باجماع و اتفاق ان کی محبت و عظمت لازم ہے۔ اختلافات وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں دوسروں کی عظمتوں پر حملہ کیا جاتا ہے۔ ورنہ آل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کی حیثیت سے عام سادات خواہ ان کا سلسلہ نسب کتنا ہی بعید بھی ہو، ان کی محبت و عظمت عین سعادت و اجر وثواب ہے اور چونکہ بہت سے لوگ اس میں کوتاہی برتنے لگے، اسی لئے حضرت امام شافعی نے چند اشعار میں اس کی سخت مذمت فرمائی۔ وہ اشعار یہ ہیں اور درحقیقت یہی جمہور امت کا مسلک و مذہب ہے۔- یا راکبا قف بالمحصب من منی، واھتف بساکن خیفھا والنا ھضن، سحرا اذا فاض الحجیح الی منی، فیضا کملتطم الفرات الفائض، ان کان رفضا حب آل محمد، فلیشھد الثقلان انی رافضی،- یعنی اے شہ سوار، منیٰ کی وادی محصب کے قریب رک جاؤ، اور جب صبح کے وقت عازمین حج کا سیلاب ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا کی طرح منیٰ کی طرف روانہ ہو تو اس علاقے کے ہر باشندے اور ہر راہ رو سے پکار کر یہ کہہ دو کہ اگر صرف آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت ہی کا نام رفض ہے تو اس کائنات کے تمام جنات و انسان گواہ رہیں کہ میں بھی رافضی ہوں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ الَّذِيْ يُبَشِّرُ اللہُ عِبَادَہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝ ٠ ۭ قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِي الْقُرْبٰى۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّــقْتَرِفْ حَسَـنَۃً نَّزِدْ لَہٗ فِيْہَا حُسْـنًا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ۝ ٢٣- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- قربی - وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ- [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15]- اور مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا - قرف - أصل القَرْفِ والِاقْتِرَافِ : قشر اللّحاء عن الشّجر، والجلدة عن الجرح، وما يؤخذ منه :- قِرْفٌ ، واستعیر الِاقْتِرَافُ للاکتساب حسنا کان أو سوءا . قال تعالی: سَيُجْزَوْنَ بِما کانُوا يَقْتَرِفُونَ [ الأنعام 120] ، وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام 113] وَأَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها - [ التوبة 24] . والِاقْتِرَافُ في الإساءة أكثر استعمالا، ولهذا يقال : الاعتراف يزيل الاقتراف، وقَرَفْتُ فلانا بکذا : إذا عبته به أو اتّهمته، وقد حمل علی ذلک قوله : وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام 113] ، وفلان قَرَفَنِي، ورجل مُقْرِفٌ: هجين، وقَارَفَ فلان أمرا : إذا تعاطی ما يعاب به .- ( ق ر ف ) القعف والا اقترا ف کے اصل معنی در کت سے چھال اتار نے اور زخم سے چھلکا کرید نے کے ہیں اور جو چھال یا چھلکا اتارا جاتا ہے اسے قرف کہا جاتا ہے اور بطور استعار ہ اقراف ( افتعال کمات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہسب اچھا ہو یا برا جیسے فرمایا : ۔ سَيُجْزَوْنَ بِما کانُوا يَقْتَرِفُونَ [ الأنعام 120] وہ عنقریب اپنے کئے کی سزا پائیں گے ۔ وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام 113] اور جو کام وہ کرتے تھے وہی کرنے لگیں ۔ وَأَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها[ التوبة 24] اور مال جو تم کماتے ہو ۔ لیکن اس کا بیشتر استعمال برے کام کرنے پر ہوتا ہے اسی بنا پر محاورہ ہے الا اعتراف یز یل الا قترا ف کہ اعتراف جرم جر م کو مٹا دیتا ہے میں نے فلاں پر تہمت لگائی اور آیت کریمہ : وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام 113] کو بھی بعض نے اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ فلان قرفنی فلاں نے مجھ پر تہمت لگائی ۔ رجل مقرف دو غلا آدمی قارف فلان امرا اس نے برے کام کا ارتکاب کیا ۔ حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

محبت برائے قرابت - قول باری ہے (قل لا اسئلکو علیہ اجر ا الا المودۃ فی القربی۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں طلب کرتا، ہاں رشتہ داری کی محبت ہو) حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، قتادہ ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ ” مگر یہ کہ تم مجھ سے اس بنا پر محبت رکھو کہ تمہارے ساتھ میری رشتہ داری اور قرابت ہے۔ “ ان حضرات کا قول ہے کہ قریش کے تمام خاندانوں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان قرابت تھی۔ علی بن الحسین اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ” مگر یہ کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت رکھو۔ “ حسن کا قول ہے۔” مگر یہ کہ عمل صالح کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی دوستی حاصل کرو۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

یہی فضیلت ہے جس کی بشارت اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے ان بندوں کو دے رہا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے۔- اے محمد آپ اپنے اصحاب یا مکہ والوں سے یوں کہیے کہ میں توحید و قرآن پر تم سے اور کوئی مطلب نہیں چاہتا سوائے اس بات کے کہ میرے بعد رشتہ داری کا پاس رکھو اور حسن بصری نے یہ تفسیر فرمائی کہ سوائے اس کے کہ تم بذریعہ توحید اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو اور فراء نے فرمایا یہ مطلب ہے کہ سوائے اس کے کہ تم بذریعہ مورت اللہ کا قرب حاصل کرو اور جو شخص ایک نیکی کرے گا تو ہم اس میں نو نیکیوں کا اضافہ کردیں گے اللہ تعالیٰ تائب کی مغفرت فرمانے والا اور بڑا قدردان ہے کہ معمولی چیز کو قبول فرماتا اور اس پر اجر عظیم عطا کرتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ ذٰلِکَ الَّذِیْ یُـبَشِّرُ اللّٰہُ عِبَادَہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ” یہ ہے وہ (انجامِ نیک) جس کی بشارت دے رہا ہے اللہ اپنے ان بندوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے۔ “- قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا “- میں سالہا سال سے تم تک یہ پیغام پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہا ہوں مگر میں نے کبھی تم لوگوں سے اس کا کوئی صلہ یا انعام طلب نہیں کیا۔- اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْْقُرْبٰی ” سوائے قرابت داری کے لحاظ کے۔ “- اہل ِتشیع نے ان الفاظ کا یہ مطلب نکال لیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اپنے قرابت داروں (حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ اور حسنین (رض) سے محبت کا تقاضا کیا گیا ہے۔ لیکن جس وقت مکہ معظمہ میں سورة الشوریٰ نازل ہوئی اس وقت حضرت علی و فاطمہ (رض) کی شادی تک نہیں ہوئی تھی۔ سیاق وسباق میں اس آیت کا درست اور منطقی مفہوم یہ ہے کہ میں تم لوگوں سے کسی اور صلے کا تقاضا نہیں کرتا ‘ لیکن یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ (یعنی قریش) اس قرابت داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ آخر میں تمہارے قبیلے اور تمہاری برادری کا ایک فرد ہوں اور عرب روایات کے مطابق اس تعلق اور قرابت کے خصوصی حقوق متعین ہیں۔ چناچہ عرب تہذیب و روایات کے مطابق تمہاری شرافت و نجابت سے مجھے یہ توقع تھی کہ تم لوگ میرے معاملے میں قرابت داری کے فطری تقاضوں کا لحاظ رکھو گے ‘ لیکن مقام افسوس ہے کہ تم لوگوں نے ِضدم ّضدا میں ان تمام تقاضوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے اور قرابت داری کے میرے فطری اور بنیادی حقوق کو بھی نظر انداز کردیا ہے۔- وَمَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْ لَہٗ فِیْہَا حُسْنًا اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ ” اور جو کوئی بھلائی کمائے گا تو ہم اس کے لیے اس میں بھلائی کا اضافہ کرتے رہیں گے۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا ‘ بہت قدردان ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :40 اس کام سے مراد وہ کوشش ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خدا کے عذاب سے بچانے اور جنت کی بشارت کا مستحق بنانے کے لیے کر رہے تھے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :41 اصل الفاظ ہیں : اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ۔ یعنی میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر قربٰی کی محبت ضرور چاہتا ہوں ۔ اس لفظ قربٰی کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے ۔ ایک گروہ نے اس کو قرابت ( رشت دری ) کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا ، مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ ( یعنی اہل قریش ) کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے ۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم تو نہ کرو کہ سارے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تل گئے ہو ۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر ہے جسے بکثرت راویوں کے حوالہ سے امام احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابن جریر ، طبرانی ، بیہقی ، اور ابن سعد و غیرہم نے نقل کیا ہے ، اور یہی تفسیر مجاہد ، عکرمہ ، قتادہ ، سدی ، ابو مالک ، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ، ضحاک ، عطاء بن دینار اور دوسرے اکابر مفسرین نے بھی بیان کی ہے ۔ دوسرا گروہ قربٰی کو قرب اور تقرب کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی چاہت پیدا ہو جائے یعنی تم ٹھیک ہو جاؤ ، بس یہی میرا اجر ہے ۔ یہ تفسیر حضرت حسن بصری سے منقول ہے ، اور ایک قول قتادہ سے بھی اس کی تائید میں نقل ہوا ہے بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں ابن عباس کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے ۔ خود قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یہی مضمون ان الفاظ میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہ سَبِیْلاً ( الفرقان ۔ 57 ) ۔ ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے ۔ تیسرا گروہ قربٰی کو اقرب ( رشتہ داروں ) کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو ۔ پھر اس گروہ کے بعض حضرات اقارب سے تمام بنی عبدالمطلب مراد لیتے ہیں ، اور بعض اسے صرف حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد تک محدود رکھتے ہیں ۔ یہ تفسیر سعید بن جُبیر اور عمرو بن شعیب سے منقول ہے ، اور بعض روایات میں یہی تفسیر ابن عباس اور حضرت علی بن حسین ( زین العابدین ) کی طرف منسوب کی گئی ہے ۔ لیکن متعدد وجوہ سے یہ تفسیر کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی ۔ اول تو جس وقت مکہ معظمہ میں سورہ شوریٰ نازل ہوئی ہے اس وقت حضرت علی و فاطمہ کی شادی تک نہیں ہوئی تھی ، اولاد کا کیا سوال ۔ اور بنی عبدالمطلب میں سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، بلکہ ان میں سے بعض کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھی تھے ۔ اور ابو لہب کی عداوت کو تو ساری دنیا جانتی ہے ۔ دوسرے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار صرف بنی عبدالمطلب ہی نہ تھے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ ، آپ کے والد ماجد اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کے واسطے سے قریش کے تمام گھرانوں میں آپ کی رشتہ داریاں تھیں اور ان سب گھرانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین صحابی بھی تھے اور بدترین دشمن بھی ۔ آخر حضور کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سب اقرباء میں سے آپ صرف بنی عبد المطلب کو اپنا رشتہ دار قرار دے کر اس مطالبہ محبت کو انہی کے لیے مخصوص رکھتے ۔ تیسری بات ، جو ان سب سے زیادہ اہم ہے ، وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت الی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے ، اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو ، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اللہ نے نبی کو یہ بات سکھائی ہو گی اور نبی نے قریش کے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہو گی ۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے جو قصے آئے ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اٹھ کر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ، میرا اجر تو اللہ رب العالمیں کے ذمہ ہے ۔ ( یونس 72 ۔ ہود 29 ۔ 51 ۔ الشعراء 109 ۔ 127 ۔ 145 ۔ 164 ۔ 180 ) ۔ سورہ یٰسٓ میں نبی کی صداقت جانچنے کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی دعوت میں بے غرض ہوتا ہے ( آیت 21 ) ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن پاک میں بار بار یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہو ( الانعام 90 ۔ یوسف 104 ۔ المؤمنون 72 ۔ الفرقان 57 ۔ سبا 47 ۔ ص 82 ۔ الطور 40 ۔ القلم 46 ) ۔ اس کے بعد یہ کہنے کا آخر کیا موقع ہے کہ میں اللہ کی طرف بلانے کا جو کام کر رہا ہوں اس کے عوض تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو ۔ پھر یہ بات اور بھی زیادہ بے موقع نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں بلکہ کفار ہیں ۔ اوپر سے ساری تقریر ان ہی سے خطاب کرتے ہوئے ہوتی چلی آ رہی ہے ، اور آگے بھی روئے سخن ان ہی کی طرف ہے ۔ اس سلسلہ کلام میں مخالفین سے کسی نوعیت کا اجر طلب کرنے کا آخر سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے ۔ اجر تو ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جن کی نگاہ میں اس کام کی کوئی قدر ہو جو کسی شخص نے ان کے لیے انجام دیا ہو ۔ کفار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ آپ ان سے یہ بات فرماتے کہ یہ خدمت جو میں نے تمہاری انجام دی ہے اس پر تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرنا ۔ وہ تو الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے اور اس کی بنا پر آپ کی جان کے درپے تھے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :42 یعنی جان بوجھ کر نافرمانی کرنے والے مجرمین کے برعکس ، نیکی کی کوشش کرنے والے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ ( 1 ) جتنی کچھ اپنی طرف سے وہ نیک بننے کی سعی کرتے ہیں ، اللہ ان کو اس سے زیادہ نیک بنا دیتا ہے ( 2 ) ان کے کام میں جو کوتاہیاں رہ جاتی ہیں ، یا نیک عمل کی پونجی وہ لے کر آتے ہیں اللہ اس پر ان کی قدر افزائی کرتا ہے اور انہیں زیادہ اجر عطا فرماتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: قریش مکہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو رشتہ داریاں تھیں، ان کے حوالے سے فرمایا جارہا ہے کہ میں تم سے تبلیغ کی کوئی اجرت تو نہیں مانگتا، لیکن کم از کم اتنا تو کرو کہ تم پر میری رشتہ داری کے جو حقوق ہیں، ان کا لحاظ کرتے ہوئے مجھے تکلیف نہ دو، اور میرے راستے میں رکاوٹیں پیدا نہ کرو۔ 6: یعنی اس بھلائی پر جتنا اجر ملنا چاہئے تھا، اس سے زیادہ دیں گے۔