3۔ 1 یعنی جس طرح یہ قرآن تیری طرف نازل کیا گیا ہے اسی طرح تجھ سے پہلے انبیاء پر آسمانی کتابیں نازل کی گئیں وحی اللہ کا کلام ہے جو فرشتے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے پاس بھیجتا رہا ہے ایک صحابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وحی کی کیفیت پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ کبھی تو یہ میرے پاس گھنٹی کی آواز کی مثل آتی ہے اور یہ مجھ پر سب سے سخت ہوتی ہے، جب یہ ختم ہوجاتی ہے تو مجھے یاد ہوچکی ہوتی ہے اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور وہ جو کہتا ہے میں یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں، میں نے سخت سردی میں مشاہدہ کیا کہ جب وحی کی کیفیت ختم ہوتی تو آپ پسینے میں شرابور ہوتے اور آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گر رہے ہوتے۔ (صحیح بخاری)
[١] نام لئے بغیر مابہ النزاع مسائل کے جوابات :۔ مکی دور میں حق و باطل کے درمیان اختلافی مسئلے بنیادی طور پر دو ہی تھے۔ ایک یہ کہ مشرکوں کے بتوں کا کائنات میں کچھ تصرف ہے یا نہیں ؟ اور دوسرا یہ کہ کیا انسان کا مر کر جی اٹھنا پھر اپنے پروردگار کے حضور جواب دہی کے لیے پیش ہونا درست ہے یا نہیں ؟ یہی دو مسائل تھے جن کا اکثر مجلسوں اور نجی گفتگو میں ہر وقت چرچا رہتا تھا۔ پھر ان میں ایک تیسرا مسئلہ از خود شامل ہوجاتا تھا کہ آیا محمد فی الواقع اللہ کا رسول ہے یا نہیں ؟ جو کچھ وہ کلام پیش کرتا ہے۔ فی الواقع اللہ کا کلام ہے ؟ اور قرآن کا انداز خطاب یہ ہے کہ اکثر سورتوں میں تمہید کے طور پر کافروں کے اعتراضات کا ذکر کیے بغیر انہیں سوالوں میں سے کسی سوال کے جواب سے اس سورة کا افتتاح کرتا ہے۔ اس سورة کی تیسری آیت میں دراصل ان تینوں اعتراضات کا اجمالی جواب پیش کردیا گیا ہے۔ جو یہ ہے کہ جو کچھ توحید اور معاد کے متعلق اس قرآن میں مذکور ہے۔ یہ کوئی نیا نظریہ نہیں بلکہ پہلے تمام انبیاء کو بھی یہی باتیں وحی کی جاتی رہی ہیں۔ اور تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ قرآن فی الواقع اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اور اس کی آیات حکمت سے لبریز ہیں کیونکہ وہ خود حکیم ہے۔ علاوہ ازیں وہ سب پر غالب اور زبردست بھی ہے۔ وہ مخالفین کی مخالفت کے باوجود اپنے کلمہ کا بول بالا کرنے کی قوت اور قدرت بھی رکھتا ہے۔
(١) کذلک یوحی الیک :” کذلک “ (اسی طرح) سے مراد ایک تو وہ مضامین و معانی ہیں جو اس قرآن یا اس سورت میں ہیں، یعنی آپ کی طرف توحید، آخرت، نبوت اور دوسرے عقائد و اعمال اور واقعات پر مشتمل جو وحی کی گئی ہے۔ یہ کوئی نرالی نہیں کہ کفار کو اس پر تعجب ہو رہا ہے، بلکہ ایسے ہی مضامین کی وحی اللہ تعالیٰ آپ کی طرف اور آپ سے پہلے پیغمبروں کی طرف کرتا چلا آیا ہے۔ بعض وقتی احکام میں فرق ہوسکتا ہے، مگر اصل دعوت جس کے لئے آپ کو اور پہلے تمام پیغمبروں کو مبعوث کیا گیا ایک ہی ہے، جیسا کہ فرمایا :(وما ارسلنا من قبلک من رسول الا لوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون) (الانبیائ : ٢٥َ )” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(الانبیاء اخوہ لعلات، امھاتھم شتی و دینھم واحد) (بخاری، احادیث الانبیائ، باب قول اللہ تعالیٰٓ :(واذکر فی الکتاب مریم…):3773)” انبیاء علاتی (مختلف ماؤں سے پیدا ہونے والے) بھائی ہیں، ان کی مائیں الگ الگ ہیں اور ان کا دین ایک ہے۔ “ اور ” کذلک “ (اسی طرح) سے مراد وحی کرنے کا طریقہ بھی ہے، یعنی جس طرح یہ سورت یا یہ کتاب آپ کی طرف وحی کی جا رہی ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح آپ سے پہلے پیغمبروں کی طسرف بھی وحی کرتا چلا آیا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے، پھر اس کے ساتھ وحی کی ان صورتوں میں سے کسی صورت کے ساتھ کلام کرتا ہے جو اس نے اس سورت کے آخر میں کسی بھی بشر کے ساتھ کلام کرنے کی بیان فرمائی ہیں۔ (دیکھیے شوریٰ : ٥١، ٥٢) کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کیوں نازل نہیں کی، یا مجھ سے کلام کیوں نہیں فرمایا۔- عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ حارث بن ہشام (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا :” یا رسول اللہ آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(احیاناً یاتینی مثل صلصلۃ الجرس وھو اشدہ علی فیفصم عنی وقد و عیت عنہ ما قال، واحیاناً یتمسل لی الملک رجلاً فیکلمنی فاعی مایقول فالت عائشۃ (رض) ولقد رائیۃ ینزل علیہ الوحی فی الیوم الشدید البرد، فیقصم عنہ و ان جبینہ لیتفصد عرقاً ) (بخاری) بدء الوحی الی الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (باب : ٢)” میرے پاس وحی کبھی تو گھنٹی کی مسلسل آواز کی طرح آتی ہے جو مجھ پر وحی کی سب سے زیادہ سخت صورت ہے، پھر وہ مجھ سے اس حال میں ختم ہوتی ہے کہ جو کچھ مجھے کہا ہے وہ میں یاد کرچکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ ایک آدمی کی شکل میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے ، تو جو کچھ وہ کہتا ہے میں یاد کرلیتا ہوں۔ “ عائشہ (رض) نے فرمایا :” میں نے آپ کو سخت سردی والے دن میں آپ پر وحی اترنے کی حالت میں دیکھا کہ وہ کیفیت آپ سے ختم ہوتی تو آپ کی پیشانی پسینے سے ٹپک رہی ہوتی تھی۔ “- (٢) والی الذین من قبلک : اس تفسیر کے لئے دیکھیے سورة نساء کی آیات (١٦٣ تا ١٦٥) ۔- (٣) اللہ العزیز الحکیم : سورة نساء کی آیات، جن کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے، ان میں پیغمبروں کی طرف وحی کا ذکر فرما کر بات کا خاتمہ اپنے ہمیشہ سے عزیز و حکیم ہونے کے ساتھ کیا، چناچہ فرمایا :(وکان اللہ عزیزاً حکیماً ) (النسائ : ١٦٥)” اور اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ “ قرآن مجید میں جہاں جہاں وحی نازل کرنے کا ذکر ہے اس کے بعد مقام کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے بعض اسماء وصفات کا ذکر بھی ہے۔ کتاب اللہ نازل کرنے کے ساتھ عزیز و حکیم کے ذکر کی مناسبت کے لئے دیکھیے سورة زمر کی پہلی آیت کی تفسیر، ساتھ سورة مومن کی پہلی آیت کی تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیں۔
(٣۔ ٤) اب فرماتے ہیں جیسا کہ اس سورت کو آپ پر وحی کے ذریعے بھیجا ہے اسی طرح ان رسولوں پر جو کہ آپ سے پہلے ہوئے وحی بھیجتا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ جو کہ کافر کو سزا دینے میں زبردست اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے اس نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کی جائے یا یہ کہ اپنی بادشاہت اور سلطنت میں زبردست اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے جتنی بھی مخلوقات ہیں سب اسی کے بندے ہیں وہ ہی سب سے بڑا اور بلند ہے۔
آیت ٣ کَذٰلِکَ یُوْحِیْٓ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لا اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اسی طرح وحی کرتا ہے آپ کی طرف اور ان کی طرف بھی کرتا رہا ہے جو آپ سے پہلے تھے وہ اللہ جو بہت زبردست ‘ بہت حکمت والا ہے۔ “- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے دراصل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطبین کو بتایا جارہا ہے کہ یہ مضامین جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی کیے جا رہے ہیں اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے آنے والے انبیاء کرام ( علیہ السلام) کو بھی وحی کیے جا چکے ہیں۔ کَذٰلِکَ میں وحدت مدعا کی طرف بھی اشارہ ہے اور طریقہ وحی کی یکسانیت کی طرف بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسل (علیہ السلام) کو انہی باتوں کی تعلیم دی ہے جن کی تعلیم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی جا رہی ہے۔ اس کی وضاحت آگے آیت ١٣ میں آرہی ہے : شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ … نیز اس تعلیم کے لیے پہلے بھی یہی طریقہ اختیار فرمایا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اختیار فرمایا ہے ‘ یعنی وحی کا نزول۔ اس کی وضاحت آیت ٥١ میں آرہی ہے۔ مذکورہ آیت میں وحی کی اقسام کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کن کن طریقوں سے انسانوں پر وحی بھیجتا رہا ہے۔ وحی کی ان اقسام کا ذکر میں نے اپنے لیکچر ” تعارفِ قرآن “ میں بھی کیا ہے ‘ جو ” بیان القرآن “ حصہ اول میں بھی شامل ہے۔
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :1 افتتاح کلام کا یہ انداز خود بتا رہا ہے کہ پس منظر میں وہ چہ میگوئیاں ہیں جو مکہ معظمہ کی ہر محفل ، ہر چوپال ، ہر کوہ و بازار ، اور ہر مکان اور دکان میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور قرآن کے مضامین پر ہو رہی تھیں ۔ لوگ کہتے تھے کہ نہ معلوم یہ شخص کہاں سے یہ نرالی باتیں نکال نکال کر لا رہا ہے ۔ ہم نے تو ایسی باتیں نہ کبھی سنیں نہ ہوتے دیکھیں ۔ وہ کہتے تھے ، یہ عجیب ماجرا ہے کہ باپ دادا سے جو دین چلا آرہا ہے ، ساری قوم جس دین کی پیروی کر رہی ہے ، سارے ملک میں جو طریقے صدیوں سے رائج ہیں ، یہ شخص ان سب کو غلط قرار دیتا ہے اور کہتا ہے جو دین میں پیش کر رہا ہوں وہ صحیح ہے ۔ وہ کہتے تھے ، اس دین کو بھی اگر یہ اس حیثیت سے پیش کرتا کہ دین آبائی اور رائج الوقت طریقوں میں اسے کچھ قباحت نظر آتی ہے اور ان کی جگہ اس نے خود کچھ نئی باتیں سوچ کر نکالی ہیں ، تو اس پر کچھ گفتگو بھی کی جا سکتی تھی ، مگر وہ تو کہتا ہے کہ یہ خد ا کا کلام ہے جو میں تمھیں سنا رہا ہوں ۔ یہ بات آخر کیسے مان لی جائے؟ کیا خدا اس کے پاس آتا ہے؟ یا یہ خدا کے پس جاتا ہے؟ یا اس کی اور خدا کی بات چیت ہوتی ہے؟ انہی چرچوں اور چہ میگوئیوں پر بظاہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ، مگر دراصل کفار کو سناتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ ہاں ، یہی باتیں اللہ عزیز و حکیم وحی فرما رہا ہے اور یہی مضامین لیے ہوئے اس کی وحی پچھلے تمام انبیاء پر نازل ہوتی رہی ہے ۔ وحی کے لغوی معنی ہیں اشارہ سریع اور اشارہ خفی ، یعنی ایسا اشارہ جو سرعت کے ساتھ اس طرح کیا جائے کہ بس اشارہ کرنے والا جانے یا وہ شخص جسے اشارہ کیا گیا ہے ، باقی کسی اور شخص کو اس کا پتہ نہ چلنے پائے ۔ اس لفظ کو اصطلاحاً اس ہدایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو بجلی کی کوند کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کسی بندے کے دل میں ڈالی جائے ۔ ارشاد الہٰی و مدعا یہ ہے کہ اللہ کے کسی کے پاس آنے یا اس کے پاس کسی کے جانے اور رو برو گفتگو کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو تا ۔ وہ غالب اور حکیم ہے ۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جب بھی وہ کسی بندے سے رابطہ قائم کرنا چاہے ، کوئی دشواری اس کے ارادے کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتی ۔ اور وہ اپنی حکمت سے اس کام کے لیے وحی کا طریقہ اختیار فرما لیتا ہے ۔ اسی مضمون کا اعادہ سورۃ کی آخری آیات میں کیا گیا ہے ۔ اور وہاں اسے زیادہ کھول کر بیان فرمایا گیا ہے ۔ پھر یہ جو ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نرالی باتیں ہیں ، اس پر ارشاد ہوا ہے کہ یہ نرالی باتیں نہیں ہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء آئے ہیں ان سب کو بھی خدا کی طرف سے یہی کچھ ہدایات دی جاتی رہی ہیں ۔