Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 بعض گناہوں کا کفارہ تو وہ مصائب بن جاتے ہیں، جو تمہیں گناہوں کی پاداش میں پہنچتے ہیں اور کچھ گناہ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ یوں ہی معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کی ذات بڑی کریم ہے، معاف کرنے کے بعد آخرت میں اس پر مؤاخذہ نہیں فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٥] مصائب کی قسمیں اور مختلف اسباب :۔ یہاں ایک عام اصول بیان کردیا گیا ہے کہ اکثر عذاب مثلاً قحط، وبائیں، زلزلے اور سیلاب وغیرہ لوگوں کے اپنے ہی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک قحط کا عذاب اہل مکہ پر بھی نازل ہوا تھا۔ جو سات سال تک مسلط رہا۔ بارشیں بھی بند ہوگئیں اور باہر سے غلہ آنا بھی بند ہوگیا تھا۔ اس عرصہ میں لوگوں کا یہ حال ہوگیا کہ جانوروں کے چمڑے اور ہڈیاں کھانے تک مجبور ہوگئے۔ شدت بھوک کی وجہ سے یہ حال ہو رہا تھا کہ آسمان کی طرف دیکھتے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔ اور یہ قحط کفار مکہ پر رسول اللہ کی دعا کی وجہ سے نازل ہوا تھا۔ آخر ابو سفیان نے آپ کے پاس آکر قرابت کا واسطہ دیا اور بارش کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی۔ گویا جب اکثر لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے عذاب آتا ہے توہ سب مخلوق کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ انسان کو اکثر بیماریاں غذا میں بد پرہیزی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں اور دودھ پیتے بچوں کو ماں کی بدپرہیزی کی وجہ سے۔ تاہم اس اصول میں بھی چند مستثنیات موجود ہیں۔ مثلاً ایماندار بندوں پر جو تکلیفیں آتی ہیں وہ ان کی شامت اعمال کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ مومن کو اگر ایک کانٹا بھی چبھے تو وہ بھی کسی خطا کا کفارہ بن جاتا ہے۔ پھر مصیبتوں اور تکلیفوں کی ایک قسم وہ ہے جو اللہ کے پیغمبروں اور مخلص بندوں کو حق کے راستے میں پیش آتی ہیں۔ ان کے متعلق گناہوں کے کفارہ کا تصور ہی غلط ہے۔ ان کے ذریعہ تو اللہ تعالیٰ ان بزرگ ہستیوں کے درجات بلند کرتا ہے اور ایسے مصائب سب سے زیادہ اللہ کے نبیوں کو پھر درجہ بدرجہ دوسرے مخلص بندوں کو پیش آتے ہیں۔- [٤٦] یعنی اگر اللہ بندوں کے سب برے اعمال کے بدلے ان پر مصائب نازل کرتا تو وہ چند دن بھی جی نہ سکتے تھے۔ یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ وہ اکثر گناہوں پر مؤاخذہ ہی نہیں کرتا ورنہ یہ زمین بھی انسانوں سے بےآباد ہوجاتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وما اصابکم من نصیبہ فما کسبت ایدیکم :: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور نشانیوں کا تذکرہ ہو رہا ہے اس سلسلے میں لوگوں کے بارش سے ناامید ہونے کے بعد بارش برسانے کا ذکر ہوا ہے۔ اس پر سوال ہوسکتا تھا ہ اللہ تعالیٰ اس قدر مہربان ہے تو وہ بارش روک کیوں دیتا ہے ؟ فرمایا، تم پر جو مصیبت بھی آتی ہے وہ تمہاری کمائی کا نتیجہ ہے۔ وہ گناہ بھی ہوسکتے ہیں اور اونچی شان والے حضرات پر اللہ تعالیٰ کے جس قدر انعامات ہیں ان کا حق ادا کرنے میں کسی طرح کی کمی تھی۔ اس لئے پیغمبر بھی اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ::(واللہ انی لاستغفر اللہ واتوب الیہ فی الیوم اکثر من سبعین مرۃ) (بخاری، الدعوات، باب استغفار النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی ال یوم واللیلۃ :6308)” اللہ کی قسم میں دن میں ستر (٧٠) بارے زیادہ اللہ سے استغفار اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ “ انسان پر آنے والی ان مصیبتوں کا انجام مومن و کافر کے حق میں ایک جیسا نہیں ہوتا، بلکہ وہ کافر کے لئے عذاب ہوتی ہیں، جیسا کہ فرمایا :(ولنذیفنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون) (السجدۃ : ٢١)” اور یقیناً ہم انہیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ “ اور مومن کے ل ئے گناہوں کی معافی، اجر اور درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہیں۔ ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(مایصیب المسلم من نصب، ولا وصب ولا ھم ، ولا حزن، ولا ادی، ولا عم ، حتی الشوکۃ یشاکھا، الا کفر اللہ بھما من خطاباہ) (بخاری، المضری، باب ما جاء فی کفارۃ المرض :05631، 5636)” مومن کو جو بھی دکھ یا چوٹ یا فکر یا حزن یا تکلیف یا غم پہنچتا ہے ، حتی کہ کانٹا بھی جو اسے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے کچھ گناہ دور فرما دیتا ہے۔ “- یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ بچے اور دیوانے پر آنے والی مصیبتیں بھی کیا ان کے اعمال کا نتیجہ ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ آیت میں خطاب ان لوگوں سے ہے جو مکلف ہیں، بچے اور دیوانے مکلف ہی نہیں، نہ ان پر آنے والی مصیبتیں ان کے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت آتی ہیں، جسے وہی بہتر جانتا ہے۔- بیماری اور مصیبت کے اجر اور درجات کی بلندی کا باعث بننے کی دلیل قرآن مجید کی آیات، مثلاً سورة توبہ کی آیت (١٢٠) کے علاوہ بہت سی احادیث بھی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بخار میں تپ رہے تھے۔ میں نے کہا :” یا رسول اللہ آپ کو بہت سخت بخار ہوتا ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اجل، انی اوعک کما یوعک رجلان منکم ، قلت ذلک بان لک اجرین ؟ قال اجل ذلک کذلک ، مامن مسلم بصییہ اذی، شوکۃ فما فوقھا الا کفر اللہ بھا سیاتہ، کما تحط الشجرۃ ورقھا) (بخاری، المضریٰ ، باب اشد الناس، بلاء الانبیاء ثم الامثل فالا مثل :5678)” ہاں، مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔ “ میں نے کہا :” یہ اس لئے کہ آپ کو دو اجر ملتے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ہاں یہی بات ہے، جس مسلم کو بھی کوئی تکلیف پہنچے، کاٹنا ہو یا اس سے اوپر، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس کی برائیاں گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔ “- (٢) ویعفوا عن کثیر : اس کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة نحل (٦١) اور سورة فاطر (٤٥) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ۔ کا یہی مطلب ہے۔ حضرت حسن سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جس شخص کو کسی لکڑی سے کوئی خراش لگتی ہے، یا کوئی رگ دھڑکتی ہے یا قدم کو لغزش ہوتی ہے، یہ سب اس کے گناہوں کے سبب سے ہوتا ہے اور ہر گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ نہیں دیتے بلکہ جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جن پر کوئی سزا دی جاتی ہے۔ حضرت اشرف المشائخ نے فرمایا کہ جس طرح جسمانی اذیتیں اور تکلیفیں گناہوں کے سبب آتی ہیں اسی طرح باطنی امراض بھی کسی گناہ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ آدمی سے کوئی ایک گناہ سرزد ہوگیا تو وہ سبب بن جاتا ہے دوسرے گناہوں میں مبتلا ہونے کا، جیسا کہ حافظ ابن قیم نے الدواء الشافی میں لکھا ہے کہ گناہ کی ایک نقد سزا یہ ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ دوسرے گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، اسی طرح نیکی کی ایک نقد جزاء یہ ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچ لاتی ہے۔- بیضاوی نے فرمایا کہ یہ آیت ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جن سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) جو گناہوں سے معصوم ہیں یا نابالغ بچے اور مجنون جن سے کوئی گناہ نہیں ہوتا، ان کو جو تکلیف و مصیبت پہنچتی ہے وہ اس حکم میں داخل نہیں۔ اس کے دوسرے اسباب اور حکمتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً رفع درجات اور درحقیقت ان کی حکمتوں کا احاطہ انسان نہیں کرسکتا۔ واللہ اعلم۔- فائدہ :- بعض روایات حدیث سے ثابت ہے کہ جن گناہوں پر کوئی سزا دنیا میں دے دی جاتی ہے مومن کے لئے اس سے آخرت میں معافی ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ حاکم نے مستدرک میں اور بغوی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝ ٣٠ ۭ- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] ، قال :- الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل .- مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔- كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - عفو - العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر :- 323-- أخذ البلی أبلادها - «1» وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر :- 324-- كأنّك تعطيه الذي أنت سائله - «2» وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» «3» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «4» أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» «5» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره .- ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجرنباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

یعنی تمہیں جو بھی کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی خود کے اعمال سے ہی پہنچتی ہے اور وہ تمہارے بہت سے گناہوں کو معاف کردیتا ہے کہ ان پر وہ تم سے کچھ باز پرس نہیں کرتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ ” اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطائوں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کرتا رہتا ہے۔ “- اللہ تعالیٰ انسانوں کے ساتھ عمومی طور پر عفو و درگزر کا معاملہ فرماتا ہے اور ہر کسی کو ہر غلطی پر نہیں پکڑتا۔ البتہ بعض اوقات بعض نا فرمانیوں کی سزا وہ متعلقہ افراد کو دنیا ہی میں دے دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :52 واضح رہے کہ یہاں تمام انسانی مصائب کی وجہ بیان نہیں کی جا رہی ہے ، بلکہ روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اس وقت مکہ معظمہ میں کفر و نافرمانی کا ارتکاب کر رہے تھے ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر اللہ تمہارے سارے قصوروں پر گرفت کرتا تو تمہیں جیتا ہی نہ چھوڑتا ، لیکن یہ مصائب جو تم پر نازل ہوئے ہیں ( غالباً اشارہ ہے مکہ کے قحط کی طرف ) یہ محض بطور تنبیہ ہیں تا کہ تم ہوش میں آؤ ، اور اپنے اعمال کا جائزہ لے کر دیکھو کہ اپنے رب کے مقابلے میں تم نے کیا روش اختیار کر رکھی ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرو کہ جس خدا سے تم بغاوت کر رہے ہو اس کے مقابلے میں تم کتنے بے بس ہو ، اور یہ جانو کہ جنہیں تم اپنا ولی و کارساز بنائے بیٹھے ہو ، یا جن طاقتوں پر تم نے بھروسہ کر رکھا ہے ، وہ اللہ کی پکڑ سے بچانے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتیں ۔ مزید توضیح کے لیے یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ جہاں تک مومن مخلص کا تعلق ہے اس کے لیے اللہ کا قانون اس سے مختلف ہے ۔ اس پر جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی آتی ہیں وہ سب اس کے گناہوں اور خطاؤں اور کوتاہیوں کا کفارہ بنتی چلی جاتی ہیں ۔ حدیث صحیح میں ہے کہ : مَا یُصیبُ المُسلمَ مِنْ نَصَبٍ ولا وَصَبٍ ولا ھمٍّ ولا حزن ولا اذًی ولا غمٍّ حتی الشوکۃُ یُشاکھُا الا کفّر اللہ بھا من خطایاہ ۔ ( بخاری و مسلم ) مسلمان کو جو رنج اور دکھ اور فکر اور غم اور تکلیف اور پریشانی بھی پیش آتی ہے ، حتیٰ کہ ایک کانٹا بھی اگر اس کو چبھتا ہے تو اللہ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفارہ بنا دیتا ہے ۔ رہے وہ مصائب جو اللہ کی راہ میں اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کوئی مومن برداشت کرتا ہے ، تو وہ محض کوتاہیوں کا کفارہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے ہاں ترقی درجات کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ تصور کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ گناہوں کی سزا کے طور پر نازل ہوتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani