Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آفات اور تکالیف سے خطاؤں کی معافی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت قدرت اور سلطنت کا بیان ہو رہا ہے کہ آسمان و زمین اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور ان میں کئی ساری مخلوق بھی اسی کی پیدا کی ہوئی ہے فرشتے انسان جنات اور مختلف قسموں کے حیوانات جو کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہ ان سب کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا ۔ جبکہ ان کے حواس گم ہو چکے ہوں گے اور ان میں عدل و انصاف کیا جائے گا پھر فرماتا ہے لوگو تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ سب دراصل تمہارے اپنے کئے گناہوں کا بدلہ ہیں اور ابھی تو وہ غفور و رحیم اللہ تمہاری بہت سی حکم عدولیوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور انہیں معاف فرما دیتا ہے اگر ہر اک گناہ پر پکڑے تو تو تم زمین پر چل پھر بھی نہ سکو ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کو جو تکلیف سختی غم اور پریشانی ہوتی ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے یہاں تک کہ ایک کانٹا لگنے کے عوض بھی جب آیت ( فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ Ċ۝ۭ ) 99- الزلزلة:7 ) ، اتری اس وقت حضرت صدیق اکبر کھانا کھا رہے تھے آپ نے اسے سن کر کھانے سا ہاتھ ہٹا لیا اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہر برائی بھلائی کا بدلہ دیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا سنو طبیعت کے خلاف جو چیزیں ہوتی ہیں یہ سب برائیوں کے بدلے ہیں اور ساری نیکیاں اللہ کے پاس جمع شدہ ہیں حضرت ابو ادریس فرماتے ہیں یہی مضمون اس آیت میں بیان ہوا امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں آؤ میں تمہیں کتاب اللہ شریف کی افضل ترین آیت سناؤں اور ساتھ ہی حدیث بھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے یہ آیت تلاوت کی اور میرا نام لے کر فرمایا سن میں اس کی تفسیر بھی تجھے بتا دوں تجھے جو بیماریاں سختیاں اور بلائیں آفتیں دنیا میں پہنچتی ہیں وہ سب بدلہ ہے تمہارے اپنے اعمال کا اللہ تعالیٰ کا حکم اس سے بہت زیادہ ہے کہ پھر انہی پر آخرت میں بھی سزا کرے اور اکثر برائیاں معاف فرما دیتا ہے تو اس کے کرم سے یہ بالکل ناممکن ہے کہ دنیا میں معاف کی ہوئی خطاؤں پر آخرت میں پکڑے ( مسند احمد ) ابن ابی حاتم میں یہی روایت حضرت علی ہی کے قول سے مروی ہے اس میں ہے کہ ابو حجیفہ جب حضرت علی کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا میں تمہیں ایک ایسی حدیث سناتا ہوں جسے یاد رکھنا ہر مومن کا فرض ہے پھر یہ تفسیر آیت کی اپنی طرف سے کر کے سنائی مسند میں ہے کہ مسلمان کے جسم میں جو تکلیف ہوتی ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرماتا ہے ۔ مسند ہی کی اور حدیث میں ہے جب ایمان دار بندے کے گناہ بڑھ جاتے ہیں اور اس کے کفارے کی کوئی چیز اس کے پاس نہیں ہوتی تو اللہ اسے کسی رنج و غم میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہی اس کے ان گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے ابن ابی حاتم میں حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہ اس آیت کے اترنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ لکڑی کی ذرا سی خراش ہڈی کی ذرا سی تکلیف یہاں تک کہ قدم کا پھسلنا بھی کسی نہ کسی گناہ پر ہے اور ابھی اللہ کے عفو کئے ہوئے بہت سے گناہ تو یونہی مٹ جاتے ہیں ابن ابی حاتم ہی میں ہے کہ جب حضرت عمران بن حصین کے جسم میں تکلیف ہوئی اور لوگ ان کی عیادت کو گئے تو حضرت حسن نے کہا آپ کی یہ حالت تو دیکھی نہیں جاتی ہمیں بڑا صدمہ ہو رہا ہے آپ نے فرمایا ایسا نہ کہو جو تم دیکھ رہے ہو یہ سب گناہوں کا کفارہ ہے اور بھی بہت سے گناہ تو اللہ معاف فرما چکا ہے پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی ہے ۔ ابو البلاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علاء بن بدر سے کہا کہ قرآن میں تو یہ آیت ہے اور میں ابھی نابالغ بچہ ہوں اور اندھا ہو گیا ہوں آپ نے فرمایا یہ تیرے ماں باپ کے گناہوں کا بدلہ ہے حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ قرآن پڑھ کر بھول جانے والا یقینا اپنے کسی گناہ میں پکڑا گیا ہے ۔ اس کی اور کوئی وجہ نہیں پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا بتاؤ تو اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہوگی کہ انسان یاد کر کے کلام اللہ بھول جائے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 یعنی روئے زمین پر پھیلے ہوئے، جن و انس تمام جاندار حیوانات شامل ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک ہی میدان میں جمع فرما دے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں میں اللہ کی بیشمار مخلوق موجود ہے۔ جن میں فرشتے سرفہرست ہیں اور درمیانی فضا میں بھی۔ اور اگر آسمانوں اور زمین سے مراد پوری کائنات لی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جاندار مخلوق صرف زمین پر ہی موجود نہیں بلکہ اور بھی کئی اجرام میں موجود ہے۔ جس کا انسان کو تاحال علم نہیں ہوسکا۔- [٤٤] یعنی اگر وہ اپنی مخلوق مثلاً انسان کو تمام روئے زمین پر بکھیر سکتا ہے تو پھر انہیں اکٹھا بھی کرسکتا ہے اور اکٹھا کرکے اپنے حضور حاضر بھی کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ومن ایتہ خلق السموت والارض : اس کی تفسیر متعدد مقامات پر گزر چکی ہے۔- (٢) وما بث فیھما من دآبۃ :”’ آبۃ “ ”’ دب بدب دبا و دبیبا “ (ض) سے اسم فاعل ہے۔ یہ لفظ ”’ اب “ کا مونث ہے، مگر مذکر و مونث دونوں کے لئے استعمال ہتا ہے۔ جمع ”’ واب “ ہے، کیونکہ اس میں تاء وحدت کے لئے ہے، یعنی چلنے والا جانور خواہ سانپ کی طرح پیٹ کے بل چلے یا دو یا چار ٹانگوں پر چلے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واللہ خلق کل دآبۃ من مآء فمنھم من یمشی علی بطنہ ومنھم من یمشی علی رجلین ومنھم من یمشی علی اربح، یخلق اللہ مایشآء ان اللہ علی کل شیء قدیر) (النور : ٧٥) ” اور اللہ نے ہر چلنے والا (جاندار) ایک قسم کے پانی سے پیدا کیا، پھر ان میں سے کوئی وہ ہے جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو دوپ اؤں پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو چار پر چلتا ہے، اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، یقینا اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ “ یہ آیت دلیل ہے کہ ” آبۃ “ سے مراد جانور ہیں فرشتے نہیں۔- زمین میں پھیلائے ہوئے مختلف جانوروں کا مشاہدہ تو ہر آدمی کرتا رہتا ہے، اس آیت میں زمین و آسمان دونوں میں پھیلائے ہوئے جانوروں کا ذکر فرمایا۔ اس لئے بعض مفسرین نے یہ خیال فرما کر کہ آسمانوں میں جانوروں کے وجود کا صراحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں ذکر نہیں اس کی مختلف تاویلیں فرمئای ہیں۔ چناچہ بعض نے فرمایا : اس سے مراد زمین کے جانور ہی ہیں، کیونکہ وہ زمین و آسمان کے اندر ہی ہیں۔ بعض نے فرمایا، اس سے مراد آسمانوں کے فرشتے ہیں، کیونکہ وہ اڑنے کے ساتھ ساتھ چل بھی سکتے ہیں، مگر ان تاویلوں کی ضرورت تب ہے جب آسمانوں میں جانوروں کا وجود ناممکن ہو۔ جب اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ اللہ کی نشانیوں میں سے وہ جانور بھی ہیں جو اس نے زمین و آسمان میں پھیلا دیئے ہیں تو ہمیں یہ بات ماننے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ آسمانوں میں بھی جانور موجود ہیں، خصوصاً جنت میں جہاں ہر نعمت موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ میں بہتر جانتا ہے کہ وہاں کتنی قسم کے خبوصورت سے خبوصورت جانور موجود ہیں۔- (٣) وھو علی جمعھم اذا یشآء قدیر : جس طرح زمین و آسمان کے جانوروں کو پیدا کرنا اور پھیلانا اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے اسی طرح انھیں جمع کرنے پر قدرت بھی بہ بڑی نشانی ہے۔ انسان کا حال تو یہ ہے کہ وہ پرندوں کے ایک جھنڈ کے بکھرنے والے پرندوں کو جمع نہیں کرسکتا، نہ شہد کے کسی چھتے سے بکھرنے والی مکھیوں کو جمع کرسکتا ہے، حتیٰ کہ اپنے ہم سبق ساتھیوں کو اکٹھا نہیں کرسکتا، خواہ وہ زندہ ہی ہوں۔ یہ رب تعالیٰ ہی ہے جو تمام جانوروں کو، زندہ ہوں یا مردہ جمع کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ چناچہ قیامت کے دن وہ انسانوں کے ساتھ جانوروں کو بھی دوبارہ زندہ فرمائے گا، فرمایا :(یوم یجمعکم لیوم الجمع ذلک یوم التغابن) (التغابن : ٩) ” جس دن وہ تمہیں جمع کرنے کے دن کے لئے جمع کرے گا۔ وہی ہار جیت کا دن ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَمَا بَثَّ فِيْهِمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ ۭ۔ دابة اصل لغت میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے اختیار سے چلنے اور حرکت کرنے والی ہو، بعد میں یہ لفظ صرف جانوروں کے لئے استعمال ہونے لگا ہے۔ اس آیت میں آسمان اور زمین دونوں کی طرف نسبت کر کے یہ کہا گیا ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی چلنے والی مخلوقات پیدا کی ہیں۔ زمین پر چلنے والی مخلوقات تو ظاہر ہیں، آسمان میں ان سے مراد ملائکہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آسمانوں میں کچھ ایسے جانور موجود ہوں جو ابھی تک انسان کے علم میں نہیں آسکے۔- بہرکیف، مقصد یہ ہے کہ گو نظام عالم کی مصلحت ہے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مال و دولت میں وسعت عطا نہیں کی، بلکہ ایک حکیمانہ انداز سے رزق کی تقسیم فرمائی ہے، لیکن کائنات کی جو نعمتیں عمومی فائدے کی ہیں، ان سے ہر شخص کو بہرہ اندوز کیا ہے۔ بارش، بادل، زمین، آسمان اور ان کی مخلوقات سب انسانوں کے فائدے کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور یہ سب چیزیں اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے بعد کسی شخص کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس کے اپنے اعمال سے پہنچتی ہے۔ لہٰذا اسے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں منہ ڈالنا چاہئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اٰيٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيْہِمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ۝ ٠ ۭ وَہُوَعَلٰي جَمْعِہِمْ اِذَا يَشَاۗءُ قَدِيْرٌ۝ ٢٩ ۧ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- بث - أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] - وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل .- ( ب ث ث) البث - ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ اِ نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے - دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اس کی وحدانیت اور قدرت کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا ہے اور ان جانداروں کا پیدا کرنا ہے جو کہ اس نے زمین میں پھیلا رکھے ہیں یہ سب تمہارے لیے نشانیاں ہیں اور وہ ان سب کے زندہ کرنے پر بھی جب چاہے قدر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ وَمِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَثَّ فِیْہِمَا مِنْ دَآبَّۃٍ ” اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور ان دونوں میں اس نے جو جان دار پھیلادیے ہیں۔ “- یعنی آسمانوں میں فرشتے جبکہ زمین اور اس کی فضا میں موجود بیشمار مخلوقات اس کی نشانیوں میں سے ہیں۔- وَہُوَ عَلٰی جَمْعِہِمْ اِذَا یَشَآئُ قَدِیْرٌ ” اور وہ جب چاہے ان سب کو جمع کرنے پر قادر ہے۔ “- اس نے اپنی مرضی اور مشیت سے ان سب کو زمین و آسمان کی وسعتوں میں پھیلا رکھا ہے۔ البتہ جب وہ چاہے گا ان سب کو اپنے حضور حاضر کرلے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :50 یعنی زمین میں بھی اور آسمانوں میں بھی ۔ یہ کھلا اشارہ ہے اس طرف کہ زندگی صرف زمین پر ہی نہیں پائی جاتی ، بلکہ دوسرے سیاروں میں بھی جاندار مخلوقات موجود ہیں ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :51 یعنی جس طرح وہ انہیں پھیلا دینے پر قادر ہے اسی طرح وہ انہیں جمع کر لینے پر بھی قادر ہے ، لہٰذا یہ خیال کرنا غلط ہے کہ قیامت نہیں آ سکتی اور تمام اولین و آخرین کو بیک وقت اٹھا کر اکٹھا نہیں کیا جا سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani