Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 کار ساز ہے، اپنے نیک بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے، انہیں منافع سے نوازتا ہے اور شرور اور مہلکات سے ان کی حفاطت فرماتا ہے۔ اپنے ان انعامات بےپایاں اور احسنات فراواں پر قابل حمد و ثنا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] بارش اور مصنوعی آبپاشی کا تقابل :۔ زمین کو سیراب کرنے کا کام اگرچہ مصنوعی طریقوں سے یعنی کنوئیں، چشمے، نہر یا ٹیوب ویل کے پانی سے بھی چلا لیا جاتا ہے مگر ایک تو اس پر محنت اور خرچ بہت اٹھتا ہے دوسرے اس کے خوشگوار اثرات بارش کی نسبت بہت کمتر ہوتے ہیں۔ مصنوعی طریق آبپاشی کو اللہ کی رحمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ کی رحمت بارش ہے اور یہ ایک نہیں بیشمار نعمتوں جیسی نعمت ہے۔ پہلے راحت بخش اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ جو انسان کو فطری سرور بخشتی ہیں اور اس کی مایوسی کو دور کرتی ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو اس سے موسم میں خوشگوار تغیر آجاتا ہے۔ درختوں پر سے گردوغبار دھل جاتا ہے۔ مصنوعی آبپاشی کی طرح بارش کسی مخصوص قطعہ زمین میں نہیں ہوتی بلکہ وسیع رقبہ میں ہوتی ہے۔ جس سے صرف انسان ہی نہیں اللہ کی ساری مخلوق فیض یاب ہوتی ہے۔ پھر اس پر نہ کچھ لاگت آتی ہے نہ محنت صرف ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں مصنوعی آبپاشی کی صورت میں بھی پانی کے سب ذخیرے بارش ہی کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ لہذا دراصل بارش ہی وہ اصل نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی حاجات پوری کرتا ہے۔ اور ولی کا لفظ یہاں یہی معنی دے رہا ہے۔ اور حمید اس لحاظ سے کہ تمام مخلوق اس کی رحمت سے فیض یاب ہو کر اس کے گن گانے لگتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا :” الغیث “ وہ بارش جو خشک سالی کے بعد آئے کیونکہ اس کے ذریعے سے لاچار اور بےبس انسانوں اور جانوروں کی مدد ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا :(ثم یاتی من بعد ذلک عامر فیہ یغاث الناس) (یوسف : ٧٩)” پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں پر بارش ہوگی۔ “ یہ بیان کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ نہیں دیتا، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ان کے تقاضے کے مطابق رزق میں اضافہ ان کی سرکشیا ور نظام عالم کی خرابی کا باعث ہے، یہ ذکر فرمایا کہ اگر انہیں بارش کی ضرورت ہو، جس پر تمام جان داروں کی زندگی کا دار و مدار ہے، خواہ انسان ہوں یا حیوان، چرند پرند ہوں یا درندے یا حشرات الارض ہوں تو وہ انہیں اپنی رحمت سے ضرور نوازتا ہے۔ چناچہ فرمایا ، اور وہی ہے جو بارش برساتا ہے۔- (٢) من بعد ما قنطوا :” قنوط “ کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة حم السجدہ کی آیت (٤٩) کی تفسیر۔ اس کے بعد کہ وہ ناامید ہوچکے ہوتے ہیں اور اس نا امیدی کے آثار ان کے چہروں پر ظاہر ہوچکے ہوتے ہیں، یعنی وہ ایک مدت کی قحط سالی کی وجہ سے بارش برسنے سے ناامید ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس آیت میں ماہ پرستوں کا رد بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ دنیا میں اسباب کے مطابق سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے، نہ اس کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور نہ کوئی اسے اپنی مرضی کے مطابق چلانے والا ہے۔ رد اس طرح ہے کہ ان لوگوں کے کہنے کے مطابق طبعی طور پر سورج کی تپش کے ساتھ سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں جو بادلوں کی صورت اختیار کرتے اور زمین پر برستے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایک زمین، ایک سمندر، ایک سورج اور تمام اسباب یکساں ہونے کے باوجود ہر جگہ ایک جیسی بارش کیوں نہیں ہوتی ؟ یقینا یہ سب کچھ ان تمام چیزوں کے مالک کے اختیار میں ہے وہ جہاں چاہتا ہے سالہا سال تک قحط اور خشک سالی مسلط کردیتا ہے، پھر جب چاہتا ہے دوبارہ بارش کا سلسلہ شروع فرما دیتا ہے۔ - (٣) ویشر رحمتہ : یعنی بارش کی صورت میں اپنی رحمت میدانوں، پہاڑوں، جنگلوں اور سمندروں میں ہر جگہ پھیلا دیتا ہے، ہوا کے کاندھے پر سوار اتنے وزنی بادلوں سے زمین کو بھر دینے والی بارش برساتا ہے، جنہیں پوری مخلوق بھی اٹھانا چاہے تو نہ اٹھا سکے اور سب مل کر اس زمین پر چھڑکاؤ ہی کرنا چاہیں تو نہ کرسکیں۔ پھر ہر طرف ندی نالے، تالاب، سبزہ، پودے، درخت، کھیت، مینڈک، جھینگر، حشرات الارض اور دوسرے جاندارپ ھیل جاتے ہیں۔ اس بارش کے ساتھ اتنی سخت زمین سے، جو کدالوں کے ساتھ کھودنی مشکل ہوتی ہے، ریشم سے نرم کونپلیں نکال دیتا ہے اور اس بارش کے ساتھ درختوں کے سخت تنوں سے ، جنہیں تراشنے والے اوزار مشکل سے تراش سکیں، پرندوں کی زبانوں سے بھی نازک شگوفے نکال دیتا ہے، پھر سک قدر جاہل اور فریب خوردہ ہیں وہ لوگ جو مردوں کے قبروں سے زندہ ہونے کو نہیں مانتے۔ (بقاعی)- (٤) وھو الولی الحمید : یعنی کائنات کے تمام معاملات کا متولی اور ذمہ دار وہی ہے اور ہر خوبی کا مالک بھی وہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا۔ اور وہ ایسا ہے جو لوگوں کے ناامید ہوجانے کے بعد مینہ برساتا ہے) یوں تو اللہ تعالیٰ کی عام عادت ہے کہ جب زمین کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے، بارش برسا دیتے ہیں۔ لیکن یہاں ” نا امید ہوجانے کے بعد “ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ کبھی کبھی باری تعالیٰ مینہ برسانے میں عام عادت کے خلاف اتنی تاخیر کردیتے ہیں جس سے لوگ ناامید ہونے لگیں۔ اس سے آزمائش کے علاوہ اس بات پر تنبیہ مقصود ہوتی ہے کہ بارش اور قحط سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، وہ جب چاہتا ہے لوگوں کی بداعمالیوں وغیرہ کی بنا پر بارش روک لیتا ہے تاکہ لوگ اس کی رحمت کی طرف متوجہ ہو کر اس کے سامنے عجز و نیاز کا مظاہرہ کریں۔ ورنہ اگر بارش کا بھی کوئی لگا بندھا وقت ہوتا جس سے کبھی سرمو انحراف نہ ہو تو لوگ اسے خالصتاً ظاہری اسباب کے تابع سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بےتوجہ ہوجاتے اور یہاں ” نا امید “ ہونے سے مراد اپنی تدبیروں سے ناامید ہونا ہے، ورنہ اللہ کی رحمت سے مایوسی تو کفر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ۝ ٠ ۭ وَہُوَالْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ۝ ٢٨- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - غوث ( بارش)- الغَوْثُ يقال في النّصرة، والغَيْثُ في المطر، واسْتَغَثْتُهُ : طلبت الغوث أو الغیث،- والغيْثُ : المطر في قوله : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید 20]- ( غ و ث ( غ ی ث ) الغوث - کے معنی مدد اور الغیث کے معنی بارش کے ہیں - اور غیث ( پانی مانگنا ) سے بھی اسی طرح یغاثوا ( فعل مجہول ) کے بھی دونوں معنی ہوسکتے ہیں آیت کریمہ : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید 20] جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے ۔ میں غیث کے معنی بارش ہیں - قنط - القُنُوطُ : اليأس من الخیر . يقال : قَنَطَ يَقْنِطُ قُنُوطاً ، وقَنِطَ يَقْنَطُ «3» . قال تعالی: فَلا تَكُنْ مِنَ الْقانِطِينَ [ الحجر 55] ، قال : وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [ الحجر 56] ، وقال : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ [ الزمر 53] ، وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُسٌ قَنُوطٌ [ فصلت 49] ، إِذا هُمْ يَقْنَطُونَ [ الروم 36] . - ( ق ن ط ) القنوط - ( مصدر ) کے معنی بھلائی سے مایوس ہونے کے ہیں اور یہ قنط ( ض ) وقنط ( س ) قناطا یعنی ہر دو ابواب سے استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَلا تَكُنْ مِنَ الْقانِطِينَ [ الحجر 55] آپ مایوس نہ ہوجئے ۔ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [ الحجر 56] خدا کی رحمت سے ( میں مایوس کیوں ہونے لگا ۔ اس سے ) مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے ۔ يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ [ الزمر 53] اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُسٌ قَنُوطٌ [ فصلت 49] اور اگر تکلیف پہنچتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے اور کبھی قنط کا لفظ طرٖد کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِذا هُمْ يَقْنَطُونَ [ الروم 36] تو ناامید ہوکر رہ جاتے ہیں ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے - حمید - إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد،- ( ح م د ) حمید - اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور وہ ایسا ہے جو بارش سے ناامید ہوجانے کے بعد بارش برساتا ہے اور بارش کے ذریعے اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور وہ کارساز ہے کہ ہر سال بارش برساتا ہے اور سب کاموں میں قابل تعریف ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ ” اور وہی ہے جو بارش برساتا ہے اس کے بعد کہ لوگ مایوس ہوچکے ہوتے ہیں اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ “- خشک سالی میں فصلوں کی آبیاری کا وقت ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر جب کسانوں کے دلوں میں مایوسی کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں تو اچانک اللہ کی رحمت کا ظہور ہوتا ہے اور بادل بارش کی نوید لے کر پہنچ جاتے ہیں۔- وَہُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ ” اور وہی ہے جو (اپنے بندوں کا) مددگار ہے اور وہ اپنی ذات میں آپ ستودہ صفات ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :49 یہاں ولی سے مراد وہ ہستی ہے جو اپنی پیدا کردہ ساری مخلوق کے معاملات کی متولی ہے ، جس نے بندوں کی حاجات و ضروریات پوری کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani